Monday, 15 December 2025

قرطاس وقلم کا سفر

قرطاس وقلم کا سفر
(مختصر علمی سرگزشت)
از: شکیل منصور القاسمی 
https://muftishakeelqasmi.com/
مادرعلمی دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے معاً بعد، سنہ ۲۰۰۰ء / ۱۴۲۰ھ میں ناچیز تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگیا تھا، میرا پہلا تدریسی مرکز دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد تھا۔ بانی وناظم کی طلب اور حضرت الاستاذ مولانا و مفتی محمد ظفیرالدین صاحب مفتاحی قدس سرہ (مرتب فتاویٰ دارالعلوم دیوبند) کے امرِ عالی پر یہاں حاضری نصیب ہوئی تھی۔ اسی ادارے میں مشہور ادیب، درجنوں علمی و ادبی کتب کے مؤلف، نامور نستعلیقی عالمِ دین حضرت مولانا محمد رضوان القاسمی صاحب رحمہ اللہ (بانی و ناظم) کی خاص علمی وتربیتی قربت ومعیت ورہنمائی حاصل ہوئی، جس نے میرے اندر مطالعہ و تحریر کے ذوق کو نئی جِلا عطا کی، یہ سلسلہ بحمدللہ تقریباً چار سال تک مسلسل چلتا رہا۔
مادرِ وطن کے مدارس میں تدریس کے وہ ایّام، جو عسرت و مشقت سے بھرپور تھے، وہاں بھی قلم سے رشتہ منقطع نہ ہوسکا تھا، بلکہ طالبِ علمی کے زمانے ہی سے کچھ نہ کچھ لکھتے رہنے کا  ایک مستقل روگ مجھے لاحق تھا، جس سے میرے رفقائے کار بخوبی واقف ہیں۔
بعد ازاں بیرونی دنیا میں آمد کے بعد جب قدرے فراغِ بالی میسر آئی تو اپنی حقیر سی تدریسی و علمی مصروفیات کیساتھ ساتھ "تحریر" کی رفتار دوچند ہوگئی، اسی دوران سوشل میڈیا کا عہد شباب بھی آگیا، جس کے نتیجے میں اس طالب علم کی سطحی تحریریں بتدریج حلقۂ علماء تک پہنچنے لگیں اور ایک وسیع تر علمی حلقے سے ربط قائم ہوا۔
کئی برس ایسے گزرے کہ شبانہ روز کی مصروفیات میں نیند محض چند گھنٹوں تک محدود رہی، اہلِ خانہ کی عدم موجودگی، اگرچہ اس کے بے شمار نقصانات تھے، کا ایک مفید پہلو یہ بھی رہا کہ راحت و آرام کا زیادہ تر وقت مطالعہ و تحریر کی نذر ہوگیا، ابتدا میں فقہی سوالات کے جوابات تحریر کرنے پر توجہ مرکوز رہی، پھر دل کے داعیے اور فکری تقاضوں کے تحت بیشتر توجہ تشنۂِ تحقیق موضوعات ومضامین لکھنے کی طرف منتقل ہوگئی، یوں اس عرصے میں بحمد اللہ مضامین و مقالات کا ایک طویل سلسلہ وجود میں آگیا، اور سوال و جواب نوعیت کی تحریریں کم ہوگئیں، اور ان دونوں درمیانی عرصے میں سینکڑوں تحریریں قلمبند ہوئیں۔
حالیہ چند برسوں سے اپنی بے ہنگم  علمی سرگرمیوں کے ساتھ، اکابر ورفقاء کی ہدایت پر باضابطہ "تالیف و تصنیف" کو ترجیحی حکمتِ عملی کے طور پر اختیار کیا ہے۔خارجیات و سیاسیات کے میدان میں حالاتِ حاضرہ؛ بالخصوص عالمِ اسلام کی زبوں حالی پر آگاہی اور طالب علمانہ خامہ فرسائی میرا پسندیدہ موضوع رہا ہے، زمانے کے حالات وتقاضوں کے مطابق بعض اوقات تیکھے اور چبھتے سیاسی موضوعات پر بھی طبع آزمائی ناگزیر ہوجاتی ہے، اور اسی آہنگ کی بعض تحریریں بھی سامنے آگئی ہیں۔ 
اسی دوران بعض مخلص رفقاء اور اکابر کے نجی علمی و تحقیقی سوالات بھی فوری توجہ کے متقاضی ہوتے ہیں، جن کی جانب حسبِ ضرورت التفات ناگزیر رہا ہے۔
یوں قریب ڈھائی دہائیوں سے لکھنا پڑھنا (برائے نام ہی سہی) مگر ایک مستقل مشغلہ بنا رہا۔ افسوس کہ اپنی کوتاہی اور غفلت کے باعث اس طویل عرصے میں تحریروں کو محفوظ کرنے کا کوئی منظم اہتمام نہ کرسکا، جس کے نتیجے میں بہت سا قیمتی علمی سرمایہ ضائع ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ مشہور صحافی اور صاحبِ قلم، کرم فرمائے من جناب ایس اے ساگر صاحب مدظلہ کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے اپنے بلاگ پر ازخود اس ناچیز کی تحریروں کو نہ صرف شائع کیا بلکہ نہایت حسن واہتمام اور عمدہ ترتیب وتزئین کے ساتھ محفوظ بھی کیا، جس کے باعث بہت سی تحریریں ضائع ہونے سے بچ گئیں، ورنہ اندیشہ تھا کہ وہ سب وقت کی نذر ہوجاتیں، اللہ تعالیٰ انہیں اپنی شایان اجر جزیل سے نوازے، آمین۔
چند برسوں سے بعض مخلص احباب مسلسل اس امر پر اصرار کرتے رہے کہ تحریروں کی موضوعاتی ترتیب و تدوین کا باقاعدہ آغاز کیا جائے۔ میں یہ سوچ کر ٹالتا رہا کہ بے وقعت اور منتشر وبے ہنگم تحریروں کو یکجا کرنے سے کیا حاصل ہوگا؟ لیکن بالآخر برسوں کی پیہم کاوش اور خلوص بھرے اصرار کے بعد میرے محب و مخلص، مفتی توصیف قاسمی صاحب زید مجدہ نے مجھے اس پر آمادہ ہی نہیں بلکہ عملاً مجبور کردیا۔
انہی کی مسلسل محنت، شبانہ روز جدوجہد اور  للہ فی اللہ مخلصانہ قدرد دانیِ  علم کے نتیجے میں آج بحمدللہ ایک مستقل ویب سائٹ قائم ہوچکی ہے، جس پر دہائیوں میں لکھی گئی منتشر تحریروں کو موضوعاتی اور کتابی ترتیب کے ساتھ جمع کیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ اس ویب سائٹ کا مقصد محض ویوز کی کثرت یا اشتہارات کے ذریعے مالی منفعت حاصل کرنا ہرگز نہیں؛ کہ یہ میرا مزاج نہیں ہے۔
الحمدللہ یہ ایک خالص علمی و تحقیقی پلیٹ فارم ہے، جہاں ہر تحریر کو اس کے موضوع اور باب کے تحت مرتب کیا جارہا ہے۔ یہ نہایت محنت طلب کام ہے، جسے مفتی توصیف صاحب قاسمی اپنی علمی دیانت، تحقیقی بصیرت اور بے لوث جذبے کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ (جزاه الله عنا أحسن الجزاء وأدام بيننا الحب والوفاء).
خالص اشاعت دین وتبلیغی و دعوتی نقطۂ نظر سے اس ویب سائٹ کا قیام میرے لئے باعثِ مسرت و شادمانی ہے، اسی لئے اپنی علمی کنبے (مرکز البحوث) کے روبرو اس کا تذکرہ مناسب سمجھا۔ آپ حضرات سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ ویب سائٹ ملاحظہ فرمائیں۔ فی الحال چند ہی تحریریں شائع ہوئی ہیں؛ کیونکہ سائٹ کی ولادت گزشتہ روز ہی ہوئی ہے۔ کام مسلسل جاری ہے، ترتیب و تزئین کے مراحل بھی حسبِ فرصت طے کئے جارہے ہیں، اور ان شآءاللہ ہر آنے والے دن کیساتھ اس میں بہتری کی کوشش جاری رہے گی۔
ویب سائٹ کا لنک اوپر درج ہے۔
اس میدان سے واقف احباب کرام اگر اپنے قیمتی مشوروں سے نوازیں تو یہ ویب سائٹ مزید مؤثر، دور رس اور نافع ثابت ہوسکتی ہے۔ ویب سائٹ کے ایڈمن مفتی توصیف صاحب قاسمی ہیں؛ نشر و اشاعت، ترتیب و تزئین اور تکنیکی نگہداشت کا تمام کام وہی پوری جانفشانی سے انجام دے رہے ہیں، بہتر مشورے آپ براہِ راست انہیں بھی عنایت فرماسکتے ہیں۔
مزید تحریریں اپ لوڈ ہونے کے بعد ارادہ ہے کہ ایک آن لائن پروگرام منعقد کیا جائے، جس میں اکابر اور معاصر اہلِ علم کی نصیحت آموز گفتگو سے استفادہ کا عمومی موقع فراہم کیا جائے، ان شآءاللہ۔
آخر میں آپ سب حضرات سے خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے۔
یہ چند سطور ایک ناکارہ فرد کی مختصر علمی سرگزشت ہیں؛ اس سے بظاہر آپ کا کوئی فائدہ وابستہ نہیں؛ تاہم امید ہے کہ اہلِ ذوق کے لئے ان میں فکری اشارے، تجرباتی نقوش اور آئندہ نسلوں کے لئے کچھ نہ کچھ رہنمائی موجود ہوگی۔ علمی روایت میں یہی تسلسل ماضی کو حال سے اور حال کو مستقبل سے جوڑتا ہے، اور اسی سے فکری تاریخ کی تشکیل ہوتی ہے۔ والسلام
شکیل منصور القاسمی
مرکز البحوث الاسلامیہ العالمی 
(پیر 23 جمادی الثانی 1447ھ 15؍ دسمبر 2025ء)

No comments:

Post a Comment