Monday, 27 October 2025

مسجد میں انعقادِ نکاح کے استحباب پہ شرعی دلائل

مسجد میں انعقادِ نکاح کے استحباب پہ شرعی دلائل

-------------------------------
-------------------------------
سوال: مسجد میں نکاح کرنے کے کیا دلائل ہیں غیرمقلد اس کو مانتے نہیں ہیں. وہ کہتے ہیں کہ مسجد میں نکاح کرنا بدعت ہے اور پوچھ رہے ہیں کہ کس صحابی کا نکاح مسجد میں ہوا ہے بتائیں.
راشد اسعد ندوی
الجواب وباللہ التوفیق: 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیثِ قولیہ وفعلیہ اور عملِ صحابہ اس کے استحباب پر موجود ہیں، چاروں فقہی مذاہب کا بھی مسجد میں انعقادِ نکاح کے استحباب پر اتفاق ہے۔ اس بابت مشہور مرفوع حدیث، حدیث عائشہ ہے:
أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوفِ (ترمذی 1089)
(نکاح کا اعلان کرو، اسے مسجد ہی میں منعقد کرو، اور اس پر دُف بجاؤ)
یہاں حضور نے مسجد میں نکاح کرنے کا استحبابی حکم دیا ہے، اس حدیث کے رواۃ میں البانی فکر کے حاملین حسب طبع "عیسی بن میمون" کو ضعیف قرار دے کر استحباب کا انکار کرتے ہیں، بعض مسجد میں انعقاد نکاح کو بدعت بھی کہتے ہیں، حالانکہ اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے:
(هذا حديثٌ غريبٌ حسنٌ في هذا الباب، وعيسى بن ميمون الأنصاري يُضعَّفُ في الحديث).
علامہ سیوطی کے بقول امام بیہقی  نے اسے صحیح کہا ہے (وجزم البيهقي بصحته، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر 1198)
علامہ سخاوی نے اسے حسن کہا ہے، امام ابن ماجہ نے عیسی بن میمون انصاری کی بجائے "خالد بن إلياس، عن ربيعة بن أبي عبدالرحمن" کے طریق سے اس حدیث کو ذکر کیا ہے. یہ طریق حسن ہے، اس متابعت کی وجہ سے عیسی بن میمون کا ضعف جاتا رہا اور روایت حسن ہوگئی:
المقاصد الحسنہ للسخاوی حدیث نمبر 131 میں ہے:
"أعلنوا النكاحَ واجعلوه في المساجدِ، واضربوا عليه بالدُّف" 
وهو حسن؛ فراويه عند الترمذي -وإن كان ضعيفًا- فإنه قد تُوبعَ، كما في ابن ماجه وغيره (سنن ابن ماجه" (النكاح، باب إعلان النكاح رقم ١٨٩٥) من طريق خالد بن إلياس، عن ربيعة ابن أبي عبد الرحمن، عن القاسم به)
صحیحین کی روایت میں ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئی، (آپ صلی اللہ علیہ مسجد میں تھے) اور عرض کیا: "یارسولَ اللہ! میں آپ کو اپنی ذات ہبہ کرنے کے لیے آئی ہوں (یعنی میں اپنا نکاح آپ سے بغیر مہر کے کرنا چاہتی ہوں)۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے اس خاتون کو دیکھا، پھر سکوت فرمایا۔ اسی اثناء میں ایک صحابیؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: "یارسولَ اللہ! اگر آپ کو اس خاتون سے حاجت نہیں تو میرا نکاح اس سے فرمادیجیے۔"
نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا: "کیا تمہارے پاس مہر دینے کو کچھ ہے؟"
صحابیؓ نے کہا: "نہیں، کچھ نہیں۔"
فرمایا: "قرآن کا کتنا حصہ تمہیں یاد ہے؟"
عرض کیا: "اتنا اور اتنا۔"
تو آپ صلی اللہ علیہ نے فرمایا: “جاؤ، میں نے تمہارا نکاح اس خاتون سے اس قرآن (یعنی جو تمہیں یاد ہے) کے بدلے میں کردیا۔"
عن سهل بن سعد الساعدي رضي الله عنهما قال: ((جاءت امرأة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله، جئت أهب لك نفسي، فنظر إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام رجل من أصحابه، فقال: يا رسول الله، إن لم يكن لك بها حاجة فزوِّجنيها... قال: اذهب، فقد ملكتُكها بما معك من القرآن( بخاری 2310)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سفیان ثوری کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ یہ واقعہ مسجد میں پیش آیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ نے نکاح کا عقد مسجد میں بذات خود انجام دیا:
وفي رواية سفيان الثوري عند الإسماعيلي: (جاءت امرأة إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو في المسجد)، فأفاد تعيين المكان الذي وقعت فيه القصة"؛ ا.هـ، فهذه الرواية تدل على أن النبي صلى الله عليه وسلم أجرى عقد الزواج في المسجد وأعلنه (فتح الباري (9/ 206، ط. دار المعرفة)
نبی صلی اللہ علیہ کا اقرار و توثیق:
نبی کریم صلی اللہ علیہ نے جب ایک مرتبہ مسجد میں کچھ لوگوں کو جمع دیکھا تو پوچھا: "یہ کیا ہے؟" عرض کیا گیا: "یارسولَ اللہ! یہ نکاح ہے۔"
تو آپ صلی اللہ علیہ نے فرمایا: "یہ نکاح ہے، سفاح (زنا) نہیں۔
عن ابن جريج، وإبراهيم بن محمد، عن صالح، مولى التوأمة قال: رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم جماعةً في المسجد، فقال: ما هذا؟ قالوا: نكاح قال: هذا النكاح ليس بالسفاح( مصنف عبد الرزاق 10448)
یہاں قابلِ استدلال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ نے جب دیکھا کہ مسجد میں نکاح ہورہا ہے، تو اسے منع نہیں فرمایا، بلکہ اسے نکاحِ شرعی قرار دیا اور فرمایا کہ: "یہ سفاح نہیں ہے" یعنی یہ عمل جائز، مشروع اور قابلِ قبول ہے۔
یہ اقرارِ نبوی بذاتِ خود جواز بلکہ استحباب کی دلیل ہے۔ کیونکہ اگر مسجد میں انعقاد نکاح مکروہ ،بدعت یا نامناسب ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ منع فرما دیتے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کے یہاں بھی مسجد میں نکاح کرنے کا اہتمام تھا. لہذا ان احادیث قولیہ، فعلیہ وتقریریہ سے ثابت ہورہا ہے کہ کہ مسجد میں نکاح کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحب، باعثِ برکت اور اعلانِ نکاح کا بہترین طریقہ وذریعہ ہے، اس سے بیشمار منکرات شرعیہ سے بھی تحفظ حاصل ہوجاتا ہے۔ مذاہب اربعہ اور علامہ ابن تیمیہ کا یہی موقف ہے۔
فقہِ حنفی: 
علامہ ابن الہمام فرماتے ہیں:
ويُستحب مباشرة عقد النكاح في المسجد؛ لأنه عبادة، وكونه في يوم الجمعة (فتح القدير (3/ 189، ط. دارالفكر—نکاح کا عقد مسجد میں کرنا مستحب ہے، کیونکہ یہ ایک عبادت ہے، اور جمعہ کے دن ہونا بھی باعثِ فضیلت ہے۔
اور مجمع الأنهر (1/317) میں ہے:
ويُستحب مباشرة عقد النكاح في المسجد، وكونه في يوم الجمعة( مجمع الأنهر (1/ 317—-نکاح کا عقد مسجد میں کرنا اور جمعہ کے دن انجام دینا مستحب ہے)
فقہ مالکی:
في [منح الجليل شرح مختصر خليل (8/ 86، ط. دارالفكر]: "(و) جاز (عقد نكاح) بمسجد، واستحسنه جماعة۔
منح الجليل شرح مختصر خليل (8/86) میں ہے:
"مسجد میں نکاح کا عقد جائز ہے، بلکہ بہت سے علما نے اسے پسند کیا ہے۔"
 وقال في [شرح خليل (7/ 71)]: "يعني أنه يجوز عقد النكاح أي: مجرد إيجاب وقبول، بل هو مستحب".
اور الخرشی نے شرح خليل (7/71) میں فرمایا: "اس کا مطلب یہ ہے کہ نکاح کا عقد، یعنی ایجاب و قبول، مسجد میں جائز ہے بلکہ مستحب ہے۔"
فقہِ شافعی:
قال ابن الصلاح في [شرح مشكل الوسيط (3/ 561، ط. دار كنوز إشبيليا]: "يُستحب أن يكون العقد في مسجد."
 وجاء في [مغني المحتاج (4/ 207، ط. دارالكتب العلمية]: "ويُسَن أن يتزوج في شوال، وأن يدخل فيه، وأن يُعقد في المسجد، وأن يكون مع جمع، وأن يكون أول النهار"
علامہ ابن الصلاح نے شرح مشكل الوسيط (3/561) میں فرمایا: "یہ مستحب ہے کہ نکاح کا عقد مسجد میں کیا جائے۔" اور مغني المحتاج (4/207) میں آیا ہے:
"یہ سنت ہے کہ شادی شوال کے مہینے میں کی جائے، اسی مہینے میں رخصتی ہو، نکاح مسجد میں ہو، کچھ لوگوں کی موجودگی میں ہو، اور دن کے آغاز میں کیا جائے۔
فقہِ حنبلی:
قال البهوتي في [كشاف القناع عن متن الإقناع (2/ 368، ط. دارالكتب العلمية]: "ويُباح فيه عقد النكاح، بل يُستحب كما ذكره بعض الأصحاب"
وذكر الاستحباب شيخ الإسلام ابن تيمية في [مجموع الفتاوى (32/ 18].
(علامہ بهوتي نے كشاف القناع عن متن الإقناع (2/368) میں فرمایا: "مسجد میں نکاح کا عقد جائز ہے، بلکہ بعض فقہا کے نزدیک مستحب ہے۔"
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے مجموع الفتاوى (32/18) میں بھی اس کے استحباب کا ذکر کیا ہے۔
الغرض احادیث رسول، عمل صحابہ، چاروں فقہی مذاہب کے اقوال سے ثابت ہے کہ مسجد میں نکاح کا عقد کرنا جائز؛ بلکہ مستحب ہے، کیونکہ یہ ایک عبادتی اور بابرکت عمل ہے۔ البتہ اس کا خیال ازبس ضروری ہے کہ اس میں شور شرابہ، دینی آداب یا تقدسِ مسجد کی خلاف ورزی بالکل نہ ہو۔
واللہ اعلم بالصواب 
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com

https://saagartimes.blogspot.com/2025/10/blog-post_27.html 


 


No comments:

Post a Comment