مچھلی کا شکار سے پہلے مرنا
سوال:۔ کسی دکان سے مچھلی خریدیں تو شک ہوتا ہے کہ ایا یہ مچھلی شکار سے پہلے مری ہے یا شکار کے بعد، دکاندار نے بھی وہ مری ہوئی خریدی ہوتی ہے لہذا اس کو بھی معلوم نہیں تو پوچھنا یہ ہے کہ اس کا یقین کیسے کیا جائے اور اس کے استعمال کرنے کا کیا حکم ہے؟
چاہت محمد قاسمی
الجواب وباللہ التوفیق:
شکار سے پہلے مرنا بھی وجہ حرمت نہیں ہے۔ وجہ حرمت (خارجی دباؤ کے بغیر) صرف اس کا طبعی موت مرنا ہے۔ مچھلیوں میں اصل یہ ہے کہ وہ کسی معلوم سببِ حادث اور آفت کی وجہ سے مرتی ہیں. اور ایسی مچھلیاں حلال ہیں. اسی اصل پر عمل کیا جائے گا. ہاں جب دلائل سے یقینی طور پہ معلوم ہوجائے کہ فلاں مچھلی سبب حادث (شکار، پانی کی کمی، درجہ حرارت وغیرہ وغیرہ) کی وجہ سے نہیں؛ بلکہ شکار سے پہلے وہ طبعی موت مر کر پانی پر الٹی تیرنے لگی تھی تب اس کا کھانا جائز نہ ہوگا. جب تک آخری شکل کا دلائل سے علم نہ ہو اوّل الذکر شکل (جوکہ مچھلی کی اباحت واستعمال کے باب میں اصل ہے) پر عمل کیا جائے گا اور موہوم تشکیکات کا اعتبار نہ ہوگا۔
فتاوى قاضيخان (3/ 214) میں ہے:
و الأصل أن السمك متى مات بسبب حادث حل أكله، وإن مات حتف أنفه لا بسبب ظاهر لا يحل أكله عندنا؛ لأنه طاف…… فإن ألقى سمكة في جب ماء فماتت فيه لا بأس بأكلها؛ لأنها ماتت بسبب حادث وهو ضيق المكان، وكذا إذا جمع السمك في حظيرة لا يستطيع الخروج منها وهو يتمكن من أخذها بغير صيد فمتى مات فيها لا بأس بأكلها، وإن كان لا يؤخذ بغير صيد لاخير في أكلها، …… وإن ماتت السمكة في الماء بحر الماء أو برده لم يذكر هذا في الكتاب، قال عامة المشايخ رحمهم الله تعالى: لابأس بأكلها؛ لأنها ماتت بآفة فتحل كما لو وجدها في بطن سمكة،وروى الحسن عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنها لاتؤكل كالطافي، وعن محمد رحمه الله تعالى أنها تؤكل لأنها ماتت بآفة، وقال الفقيه أبو الليث رحمه الله تعالى: ما قاله المشايخ أعجب إلى. ولو انجمد الماء فماتت الحيتان تحت الجمد، قال رضي الله عنه: ينبغي أن تؤكل عندالكل۔
واللہ اعلم بالصواب
No comments:
Post a Comment