Wednesday, 30 October 2024

نکاح میں عورت کی رضامندی اور گواہوں کی گواہی ضروری ہے تو طلاق میں ایسا کیوں نہیں؟

نکاح میں عورت کی رضامندی اور گواہوں کی گواہی ضروری ہے تو طلاق میں ایسا کیوں نہیں؟؟؟
سوال: شریعت نے عورت کو طلاق کے قبول کرنے یا کرنے کے بارے میں اختیار کیوں نہیں دیا گیا جیساکہ نکاح میں دیا گیا ہے ( عموماً غیرمسلم سوال کرتے ہیں)
-------------------------------
الجواب وباللہ التوفیق:
نکاح کرلینے سے مرد کو یک گونہ عورت پہ ملک حاصل ہوجاتا ہے۔ عورت اب آزاد باقی نہیں رہتی۔شوہر کے لئے وہ محبوس ہوجاتی ہے ۔اسی حبس کے عوض شوہر پر مالی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ عورت کی یہ آزادی متعدد دینی ودنیوی مقاصد و مصالح کی خاطر بذریعہ نکاح چھین لی جاتی ہے۔ اس لئے نکاح  کی صحت جمہور علماء کے مذہب کے مطابق اس کی رضامندی پر موقوف ہے۔ اور اعلان اور گواہوں کی گواہی اس لئے ضروری ہے تاکہ نکاح ناجائز تعلقات سے ممتاز ہوجائے۔ علاوہ ازیں نکاح سے متعاقدین کے علاوہ بچے کا حق بھی وابستہ ہے۔ اس لئے بھی گواہی ضروری ہے تاکہ بچہ کی پیدائش کی صورت میں باپ ثبوت نسب کا انکار کرکے نومولود کی زندگی سے کھلواڑ نہ کرسکے۔ طلاق اسی ملک نکاح کو زائل کرنے اور عورت کی آزادی سے پابندی اٹھادینے کا نام ہے تاکہ عورت اپنی سابقہ حالت کی طرف لوٹ جائے۔ اس رفع قید نکاح میں نہ کسی غیرمتعاقدین کا حق وابستہ ہے۔ نہ ناجائز تعلقات سے کسی کو ممتاز کرنا مقصود ہے۔ اس لئے اب اس میں نہ شہادت ضروری ہے نہ عورت کی رضامندی۔
نکاح کی حیثیت اسلام میں ایک معاہدہ کی ہے جس کے نیچے دو آدمی زندگی گذارنے کا عہد کرتے ہیں مرد کی طرف سے مہر نان نفقہ کسوہ سکنی وحسن معاشرت کی شرط ہوتی ہے جبکہ عورت کی طرف سے پاکدامنی اور فرمانبرداری کا عہد وپیماں ہوتا ہے۔ جس طرح دنیا کے دیگر معاہدے شرطوں کے ٹوٹ جانے سے  ازخود منسوخ ہوجاتے ہیں، ایسے ہی معاہدہ نکاح بھی شرطوں کی پاسداری نہ ہونے سے ٹوٹ جائے گا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مرد کی طرف سے اگر شرائط ٹوٹ جائیں تو عورت خود بخود نکاح توڑنے کی مجاز نہیں ہوگی بلکہ حاکم وقت کے ذریعہ نکاح توڑ سکتی ہے، جیساکہ ولی کے ذریعہ سے شادی کرواسکتی یے اور یہ کمی اس کی فطرت اور نقصان عقل کی وجہ سے یے۔ لیکن مرد جیسے اپنے اختیار سے معاہدہ نکاح باندھ سکتا ہے ایسا ہی عورت کی طرف سے شرائط نکاح ٹوٹنے کے وقت طلاق دینے میں بھی خود مختار ہوگا۔ نہ اس میں عورت کی رضاء چاہئے نہ گواہوں کی گواہی۔ ہاں گواہ بنالے تو بہتر ہے۔ فطرت اور عالمی معاہدہ قانون کی عکسی تصویر ہے یہ نظام ۔۔
ھذا ماتیسر لی فی العجالة.والله أعلم وعلمه أتم وأكمل. 
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
( #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2024/10/blog-post_30.html

No comments:

Post a Comment