خیر کی چابی. شر کا تالا
جس وقت سرسید نے اس علی گڑھ کالج کی بنیاد ڈالی تو انہوں نے اپنے ایک خاص معتمد کو گنگوہ بھیجا. اس کام کے لئے کہ حضرت مولانا گنگوہی رحمت اللہ علیہ سے ملاقات کرکے مولانا کو یہ پیام پہنچاؤ کہ میں نے مسلمانوں کی فلاح اور بہبود و ترقی کے لئے ایک کالج کی بنیاد ڈالی ہے۔ دوسری قومیں ترقی کرکے بہت آگے پہنچ چکی ہیں۔ مسلمان پستی کی طرف جارہے ہیں۔ اگر آپ حضرات نے اس میں میرا ہاتھ بٹایا تو میں بہت جلد اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاؤں گا جو حقیقت میں مسلمانوں کی کامیابی ہے۔ غرضکہ سفیر وہ گنگوہ آئے اور حضرت مولانا کے پاس حاضر ہوکر بعد سلام مسنون کے سرسید کا پیام عرض کیا۔ حضرت مولانا نے سرسید کا پیام سن کر فرمایا کہ بھائی ہم تو آج تک مسلمانوں کی فلاح اور بہبود اور ترقی کا زینہ اللہ اور رسول کے اتباع ہی میں سمجھتے رہے مگر آج معلوم ہوا کہ ان کی فلاح و بہبود ترقی کا زینہ اور بھی کوئی ہے تو اس کے متعلق یہ ہے کہ میری ساری عمر قال الله وقال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں گزری ہے۔ مجھے ان چیزوں سے زیادہ مناسبت نہیں۔ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمت اللہ علیہ کا نام لیا کہ وہ ان باتوں میں مبصر ہیں۔ ان سے ملو وہ جو فرمائیں گے اس میں ہم ان کی تقلید کرلیں گے۔ ہم تو مقلد ہیں۔ یہ صاحب حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمت اللہ علیہ سے ملے اور سرسید کا سلام پیام اور حضرت مولانا گنگوہی رحمت اللہ علیہ سے جو گفتگو ہوئی تھی اور اس پر حضرت مولانا نے جو جواب دیا تھا سب حضرت مولانا قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو سنادیا گیا۔ حضرت مولانا نے سنتے ہی فی البدیہ فرمایا کہ بات یہ ہے کہ کام کرنے والے تین قسم کے ہوتے ہیں:
1۔ ایک وہ کہ ان کی نیت تو اچھی ہے مگر عقل نہیں۔
2۔ دوسرے وہ کہ عقل تو ہے مگر نیت اچھی نہیں۔
3۔ تیسرے یہ کہ نہ نیت اچھی نہ عقل۔ سر سید کے متعلق ہم یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ نیت اچھی نہیں مگر یہ ضرور کہیں گے کہ عقل نہیں۔ اس لئے کہ جس زینہ سے مسلمانوں کو وہ معراج ترقی پر لیجانا چاہتے ہیں اور ان کی فلاح اور بہبود کا سبب سمجھتے ہیں یہی مسلمانوں کی پستی کا سبب اور تنزل کا باعث ہوگا۔ اس پر ان صاحب نے عرض کیا کہ جس چیز کی کمی کی شکایت حضرت نے سر سید کے اندر فرمائی ہے اس کو پورا کرنے کے لئے تو آپ حضرات کو شرکت کی دعوت دی جارہی ہے۔ تاکہ تکمیل ہوکر مقصود انجام کو پہنچ جائے۔ یہ ایسی بات تھی کہ سوائے عارف کے دوسرا جواب نہیں دے سکتا تھا۔ حضرت مولانا نے فی البدیہ جواب فرمایا کہ سنت الہی یہ ہے کہ جس چیز کی بنا پر ڈالی جاتی ہے بانی کے خیالات کا اثر ساتھ ساتھ اس میں ضرور ہوتا ہے۔ سو چونکہ سر سید بنیاد ڈال چکے ان کے ہی خیالات کے آثار اس بناء میں ضرور ظاہر ہوں گے اور اس کی بالکل ایسی مثال ہے کہ ایک تلخ درخت کا پودہ قائم کرکے ایک مٹکے میں شربت بھرکر اور ایک مالی کو وہاں بٹھلاکر ان سے عرض کیا جائے کہ اس شربت کو اس درخت کی جڑ میں سینچا کرو۔ سو جس وقت وہ درخت پھول پھل لائے گا سب تلخ ہوں گے۔ واقعی عجیب ہی بات فرمائی۔ (ملفوظات حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ۔ جلد 5۔ صفحہ 167)
(عکس: ماخوذ از نگارشات، مضمون نگار ندیم الواجدی) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2024/09/blog-post_9.html
No comments:
Post a Comment