Monday, 13 May 2024

کیا عورت فتنہ ہے؟

"کیا عورت فتنہ ہے؟"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: میں نے اپنے
بعد ایسا کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ہے جو مردوں کے حق میں عورتوں کے فتنہ سے زیادہ ضرر رساں ہو: مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِي النَّاسِ فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ۔ (ترمذی: 2339)
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے موقوفاً مروی ہے کہ مجھے تمہارے اوپر سب سے زیادہ جس چیز کا خوف ہے وہ عورت کا فتنہ ہے۔
إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَتَخَوَّفُ عَلَيْكُمْ فِتْنَةُ النِّسَاءِ إِذَا تَسَوَّرْنَ الذَّهَبَ، وَلَبِسْنَ رَيْطَ الشَّامِ، فَأَتْعَبْنَ الْغَنِيَّ، وَكَلَّفْنَ الْفَقِيرَ مَا لَا يَجِدُ۔ (ابن ابی شیبہ: 37281)
دنیا شیریں اور سبز جاذب نظر ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس دنیا کا خلیفہ بنایا ہے اس لئے وہ ہر وقت دیکھتا ہے کہ تم اس دنیا میں کس طرح عمل کرتے ہو لہذا دنیا سے بچو اور عورتوں کے فتنہ سے بچو کیونکہ بنی اسرائیل کی تباہی کا باعث سب سے پہلا فتنہ عورتوں ہی کی صورت میں تھا۔
إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ، وَإِنَّ اللَّهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا فَنَاظِرٌ كَيْفَ تَعْمَلُونَ، أَلَا فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ۔ (ترمذی: 2191)
فَاتَّقُوا الدُّنْيَا، وَفِتْنَةَ النِّسَاءِ۔ (سنن بیہقی: 6511)

فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ، فَإِنَّ أَوَّلَ فِتْنَةِ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَتْ فِي النِّسَاءِ۔ (مسلم: 2742)
قیامت کی نشانیاں یہ ہیں کہ علم اُٹھالیا جائے گا، جہالت عام ہوجائے گی، زنا پھیل جائےگا، شرابیں پی جائیں گی، عورتوں کی کثرت ہوجائے گی اور مرد کم ہوجائیں گے، یہاں تک کہ پچاس عورتوں کے لئے ایک ہی نگران ہوگا۔
إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ: أَنْ يُرْفَعَ العِلْمُ، وَيَظْهَرَ الجَهْلُ، وَيَفْشُوَ الزِّنَا، وَتُشْرَبَ الخَمْرُ، وَيَكْثُرَ النِّسَاءُ، وَيَقِلَّ الرِّجَالُ حَتَّى يَكُونَ لِخَمْسِينَ امْرَأَةٍ قَيِّمٌ وَاحِدٌ۔ (ترمذی: 2205)
اے عورتو! صدقہ دیا کرو اس لئے کہ میں نے تمہیں کثرت سے دوزخ میں دیکھا ہے۔
وہ بولیں کہ یا رسول اللہ! یہ کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لعن طعن کثرت سے کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو اور میں نے تم سے زیادہ کسی کو باوجود عقل اور دین میں ناقص ہونے کے، پختہ رائے مرد کی عقل کا (اڑا) لیجانے والا نہیں دیکھا۔
عورتوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہمارے دین میں اور ہماری عقل میں کیا نقصان ہے؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت کی گواہی (شرعاً) مرد کی گواہی کے نصف کے برابر نہیں ہے؟
انھوں نے کہا: ہاں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے؟
انھوں نے کہا: جی ہاں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔
يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ فَإِنِّي أُرِيتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ، فَقُلْنَ: وَبِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ العَشِيرَ، مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ، قُلْنَ: وَمَا نُقْصَانُ دِينِنَا وَعَقْلِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: أَلَيْسَ شَهَادَةُ المَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ قُلْنَ: بَلَى، قَالَ: فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِهَا، أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ، قُلْنَ: بَلَى، قَالَ: فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا۔ (بخاری: 304)
ارشادِ نبوی ہے: میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو اُس میں اکثر فقراء نظر آئے اور مالدار لوگ (حساب و کتاب کے لئے) روکے گئے تھے، میں نے جہنم میں جھانک کر دیکھا تو اُس میں اکثر عورتیں نظر آئیں۔

اطَّلَعْتُ فِي الْجَنَّةِ فَإِذَا أَكْثَرُ أَهْلِهَا الْفُقَرَاءَ، وَإِذَا أَصْحَابُ الْجَدِّ مَحْبُوسُونَ، وَاطَّلَعْتُ فِي النَّارِ فَإِذَا أَكْثَرُ أَهْلِهَا النِّسَاءُ۔ (سنن کبریٰ نسائی:9220) اطَّلَعْتُ فِي الجَنَّةِ فَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا الفُقَرَاءَ، وَاطَّلَعْتُ فِي النَّارِ فَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ۔ (بخاری: 6449)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ عورت ٹیڑھی پسلی کی طرح ہے، اگر تم اُسے سیدھا کروگے تو توڑ ڈالوگے اور اگر فائدہ حاصل کروگے ٹیڑھے پَن کے ساتھ ہی فائدہ حاصل کرسکوگے: 

المَرْأَةُ كَالضِّلَعِ، إِنْ أَقَمْتَهَا كَسَرْتَهَا، وَإِنِ اسْتَمْتَعْتَ بِهَا اسْتَمْتَعْتَ بِهَا وَفِيهَا عِوَجٌ۔ (بخاری: 5184)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ عورتوں سے بھلائی کرتے رہنا کیونکہ عورتوں کی پیدائش پسلی سے ہوئی ہے اور پسلی اوپر ہی کی طرف سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو تو وہ ٹوٹ جائے گی اور اگر رہنے دو تو خیر ٹیڑھی رہ کر رہے گی تو سہی۔ میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ عورتوں سے بھلائی کرتے رہنا۔

وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا، فَإِنَّهُنَّ خُلِقْنَ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلاَهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا۔ (بخاری: 5185)

قتل و غارتگری اور خونریزی فتنہ ہے:
فتنہ کی ایک بہت بڑی شکل یہ ذکر کی گئی ہے کہ قتل و غارتگری عام ہوجائے گی، حتی کہ ایسا بھی وقت آجائے گاکہ مارنے والے کو مارنے کی اور مرنے والے کو مَرنے کی وجہ تک معلوم نہ ہوگی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: قسم اُس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! دنیا اُس وقت تک ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ لوگوں پر ایسا وقت آجائے گا کہ قاتِل کو معلوم نہ ہوگا کہ اُس نے کیوں قتل کیا اور مقتول کو بھی معلوم نہ ہوگا کہ اُسے کیوں قتل کیا گیا، پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! ایسا کیونکر ہوگا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ھرج“ یعنی قتل و غارتگری کی وجہ سے، قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہوں گے۔
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا، حَتَّى يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ يَوْمٌ لَا يَدْرِي الْقَاتِلُ فِيمَ قَتَلَ، وَلَا الْمَقْتُولُ فِيمَ قُتِلَ، فَقِيلَ: كَيْفَ يَكُونُ ذَلِكَ؟ قَالَ: الْهَرْجُ، الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ۔ (مسلم: 2908)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: میرے رب نے فرمایا: اے محمدؐ! جب میں کسی بات کا فیصلہ کر لیتا ہوں تو اسے تبدیل نہیں کیا جاتا اور بیشک میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے فیصلہ کرلیا ہے کہ انہیں عام قحط سالی کے ذریعہ ہلاک نہ کروں گا اور نہ ہی ان کے علاوہ ان پر ایسا کوئی دشمن مسلط کروں گا جو ان سب کی جانوں کو مباح وجائز سمجھ کر ہلاک کردے، اگرچہ ان کے خلاف زمین کے چاروں اطراف سے لوگ جمع ہوجائیں یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے اور ایک دوسرے کو خود ہی قیدی بنائیں گے۔
إِنَّ رَبِّي قَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَإِنَّهُ لَا يُرَدُّ، وَإِنِّي أَعْطَيْتُكَ لِأُمَّتِكَ أَنْ لَا أُهْلِكَهُمْ بِسَنَةٍ عَامَّةٍ وَأَنْ لَا أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مَنْ بِأَقْطَارِهَا_أَوْ قَالَ: مِنْ بَيْنِ أَقْطَارِهَا_حَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضًا وَيَسْبِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا۔ (ترمذی: 2176)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے رب سے تین عائیں مانگیں، اللہ تعالیٰ نے مجھے دو چیزیں عطاء کردیں اور ایک سے منع کردیا، میں نے یہ مانگا کہ اے اللہ! میری امّت کو اجتماعی طور پر قحط سالی کے ذریعہ ہلاک نہ فرما، یہ قبول ہوگئی، میں نے یہ مانگا کہ اے اللہ! میری امّت پر اُن کے علاوہ کسی دشمن کو مسلّط نہ فرما، یہ بھی قبول ہوگئی، میں نے یہ مانگا کہ اے اللہ! میری امّت کے افراد ایک دوسرےسے نہ لڑیں، یہ دعاء روک دی گئی۔ قبول نہ ہوئی۔
عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ خَبَّابِ بْنِ الأَرَتِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: ﷺ صَلَاةً فَأَطَالَهَا، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَلَّيْتَ صَلَاةً لَمْ تَكُنْ تُصَلِّيهَا، قَالَ: أَجَلْ إِنَّهَا صَلَاةُ رَغْبَةٍ وَرَهْبَةٍ، إِنِّي سَأَلْتُ اللَّهَ فِيهَا ثَلَاثًا فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ وَمَنَعَنِي وَاحِدَةً، سَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِسَنَةٍ فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُذِيقَ بَعْضَهُمْ بَأْسَ بَعْضٍ فَمَنَعَنِيهَا۔ (ترمذی: 2175)
بے شک شیطان اِس بات سے مایوس ہوگیا ہے کہ جزیرۃ العرب میں نماز پڑھنے والے مسلمان اُس کی عبادت کریں گے، لیکن مسلمانوں کے درمیان لڑائی جھگڑوں سے وہ مایوس نہیں ہوا۔
إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ أَنْ يَعْبُدَهُ الْمُصَلُّونَ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَلَكِنْ فِي التَّحْرِيشِ بَيْنَهُمْ۔
(مسلم: 2812)

ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! کیا اِسلام کی انتہاء بھی ہوگی؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جی ہاں! عرب یا عجم کے جس گھر میں بھی اللہ تعالیٰ خیر و بھلائی چاہیں گے اُس میں اِسلام داخل کردیں گے، اُس شخص نے سوال کیا کہ اُس کے بعد کیا ہوگا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اُس کے بعد سایوں کی مانند چھا جانے والےفتنے رونما ہوں گے اور تم لوگ ڈسنے والے کالے سانپ بن جاؤگے تم میں سے بعض لوگ بعض کی گردنیں مارنے لگ جائیں گے۔
قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ,هَلْ لِلْإِسْلَامِ مُنْتَهًى؟ قَالَ: نَعَمْ , أَيُّمَا أَهْلِ بَيْتٍ مِنَ الْعَرَبِ أَوِ الْعَجَمِ أَرَادَ اللَّهُ بِهِمْ خَيْرًا أَدْخَلَ عَلَيْهِمُ الْإِسْلَامَ, قَالَ: ثُمَّ مَهْ؟ قَالَ:ثُمَّ الْفِتَنُ تَقَعُ كَالظِّلِّ تَعُودُونَ فِيهَا أَسَاوِدَ صُبًّا. يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ. وَالْأَسْوَدُ: الْحَيَّةُ تَرْتَفِعُ ثُمَّ تَنْصَبُّ۔ (ابن ابی شیبہ: 37126)

تاریک فتنے اور قیامت کی علامات:
ایک اہم تنبیہ: واضح رہے کہ مسلمانوں کا کافروں سے لڑنا اور اُن پر فتح حاصل کرنا جس کو ”جہاد“ کہا جاتا ہے، یہ ”فتنہ“ نہیں ہے جیسا کہ مغرب نے اِس پروپیگنڈے کو عام کیا ہوا ہے اور اُن کے دیکھا دیکھی میں بہت سے سادہ لوح مسلمان بھی یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جہاد فتنہ ہے، غنڈہ گردی ہے، دہشت گردی ہے، انسانی حقوق کی پامالی ہے وغیرہ وغیرہ۔ خوب اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہئے کہ مسلمانوں کا کافروں سے لڑنا اور اُن پر فتح حاصل کرنا ہرگز ہرگز فتنہ نہیں، یہ تو جہاد ہے اور عین عبادت بلکہ عبادت کی بھی اعلیٰ ترین شکل ہے، جس کی سب سے بڑی دلیل خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مبارک اور پاکیزہ زندگیاں ہیں، اگر کفار سے لڑنا ”فتنہ“ ہوتا تو (نعوذ باللہ) خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثار صحابہ سب سے بڑے ”فتنہ پرور“ ہوتے، جہاد کو تو خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فتنہ کا سدِّباب قرار دیا ہے، چنانچہ ارشادِ باری ہے: 

﴿وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ﴾۔ (الانفال: 39)
حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب اہلِ حق اہلِ باطل پر غالب آجائیں تو یہ کوئی فتنہ نہیں ہے: ۔إِذَا ظَهَرَ أَهْلُ الْحَقِّ عَلَى أَهْلِ الْبَاطِلِ فَلَيْسَ هِيَ بِفِتْنَةٍ۔ (ابن ابی شیبہ: 37617)
خلاصہ کلام:
سوال: کیا یہ حدیث میں آیا ہے ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے عورتوں کو فتنہ کا نام دیا ہو؟ اگر ہے تو تفصیل کے ساتھ جواب ارسال کریں!
جواب: حدیث شریف میں ہے: "ماترکت بعدي فتنةً أضرّ علی الرجال من النساء". (صحیح البخاري، باب ما یتقی من شوم المرأة : ۷/۸، رقم الحدیث: ۵۰۹۶، ط: طوق النجاۃ)
اس حدیث میں عورت کو فتنہ قرار دیا ہے، لیکن یہ فتنہ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب آزمائش ہے، یعنی مردوں کے لئے سب سے بڑی آزمائش عورت ہے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ انسان کو کبھی نعمت دے کر آزماتے ہیں، کبھی نعمت چھین کر آزماتے ہیں، لہذا عورت بھی ایک نعمت ہے، لیکن آزمائش کا سبب و ذریعہ ہے، اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت منحوس یا بدی ہے۔ 
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر: 144106200902 - دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف 

https://saagartimes.blogspot.com/2024/05/blog-post_13.html

بنوری ٹاؤن ( #ایس_اے_ساگر )


No comments:

Post a Comment