Friday 3 May 2024

عربى تقرير وتحرير كا ملکہ كيسے پيدا كريں

بسم اللّه الرحمن الرحيم
عربى تقرير وتحرير كا ملکہ كيسے پيدا كريں؟
اسلام آباد، پاكستان ميں ندوه لائبريرى كے ذمہ دار مولانا عبدالوہاب صاحب مدظلہ نے لكھا:
السلام عليكم ورحمۃ الله وبركاتہ، امید ہے کہ اپ خیریت سے ہوں گے حضرت، بارك الله في عمركم وعلمكم وعملكم، آمين۔
 ایک طالب علمانہ سوال کرنے کی جسارت کرتا ہوں، حضرت! ہمارے دینی مدارس کے طلبۂ علم، عربی سیکھنے کے لئے - تكلما وإنشاءا وخطابة- كون کون سى کتابیں پڑھیں، یعنی طالب علم کس کتاب سے شروع کرے اور کس کتاب تک باقاعدہ أستاذ سے پڑھے، اور اس کے بعد مطالعہ کے لئے کونسی کتابیں اپنے ساتھ رکھے، جس سے وقتا فوقتا رجوع کرتا رہے، تاکہ اس میں فصیح عربی کا ملکہ پیدا ہوجائے اور اپنے ما فی الضمیر کا صحیح اظہار تقریر وتحریر میں کرسکے۔
جزاكم الله خيرا كثيرا، العبد الضعيف: عبدالوہاب بن محمد زمان، خادم الكتب في مكتبة الندوة، إسلام آباد باكستان۔
جواب:
ندوه لائبريرى  كے ذريعہ آپ جو گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہيں اس كے لئے آپ شكريہ اور قدردانى كے مستحق ہيں، اس وقت پاكستان ميں بلكہ دنيا كے ہر ملک ميں شديد ضرورت ہے كہ مسلمانوں كو دعوت دى جائے كہ دين كو مسلكوں اور مشربوں پر، اور كتاب وسنت كو انسانى آراء پر ترجيح ديں، اور جماعتوں اور فرقوں ميں بٹنے كے بجائے امت واحده بن كر اپنى قوم اور اپنے وطن كو مضبوط بنائيں، اس سمت ميں آپ كى لائبريرى اہم كردار ادا كرسكتى ہے، آپ صحيح كتابوں كا انتخاب كريں، مطالعه وتحقيق كى سہوليات فراہم كريں، اور تعميرى موضوعات پر سيمينار كروائيں۔
آپ نے جو سوال كيا ہے، وه بہت اہم ہے، كوشش كروں گا كه جواب مكمل ہو، اور تمام مدارس عربيه كے لئے مفيد ہو، آسانى كے لئے يه جواب تين حصوں ميں تقسيم كيا جاتا ہے:
صورت حال:
صورت حال جاننا اسى طرح ضرورى ہے جس طرح طبيب كے لئے علاج سے پہلے مبتلى به شخص كے مرض كى تفصيلات سے واقفيت اہم ہے، برصغير ميں ڈيڑهـ سو سال كے اندر جو مدارس قائم ہوئے ہيں انہوں نے عربى زبان (گفتگو، تقرير وتحرير) ميں ملكه پيدا كرنے كو نه يه كه نصاب تعليم سے خارج ركها بلكه اسے معيوب بناكر پيش كيا، نتيجه يہ ہے كه ايكـ عالم اپنے مدرسہ كا شيخ الحديث ہوتا ہے مگر كسى عرب عالم سے تبادلۂ خيال نہيں كرسكتا، ان واقعات كا ميں خود شاہد ہوں، استاد محترم مولانا نور عالم امينى رحمۃ الله عليہ نے دارالعلوم ندوة العلماء ميں ايكـ طويل عرصہ قيام كركے عربى انشاءپردازى كے ميدان ميں غيرمعمولى ترقى كى تهى، بعد ميں دارالعلوم ديوبند ميں تدريسى اور صحافتى خدمات انجام ديں، انتقال سے چند سال پہلے ايكـ ملاقات كے دوران ميں نے مولانا سے استفسار كيا كه كيا آپ نے كچهـ افراد تيار كئے؟ مولانا نے شكايت اور درد بھرے لہجے ميں فرمايا كه يہاں نه اس كا ذوق ہے اور نه اس كا ماحول، شروع سال ميں كچهـ طلبه آتے ہيں، پهر جلد ہى اس موضوع سے بيزار ہوجاتے ہيں، ميں نے مظاہرالعلوم كے ايكـ مدرس سے عرض كيا كه آپ لوگ طلبه ميں عربى زبان وادب كا ذوق پيدا كريں، فرمانے لگے كه يہاں اس كى گنجائش نہيں ہے۔
ظاہر ہے كه جب بڑے مدرسوں كا يه حال ہے تو چهوٹے مدرسے كس شمار ميں ہوں گے، پاكستان اور بنگلہ ديش كى صورت حال كچهـ مختلف نہيں، طوالت كا خوف نہ ہوتا تو وہاں كى بهى كچهـ مثاليں دى جاتيں، جبكه اسى بر صغير ميں عربى زبان كے بہترين ادباء پيدا ہوئے ہيں جن كى امامت علمائے عرب كے نزديكـ بهى مسلم رہى ہے، ان ميں ملا محمود جونپورى، شاه ولى الله دہلوى، علامه عبد الحى فرنگى محلى، علامه عبد الحى حسنى (صاحب نزهة الخواطر)، علامه شبلى نعمانى، مولانا حميد الدين فراہى، علامه سيد سليمان ندوى، مولانا مسعود عالم ندوى، مولانا سيد ابو الحسن على ندوى، مولانا سيد محمد رابع حسنى، مولانا محمد الحسنى، مولانا محمد واضح رشيد ندوى، مولانا نور عالم امينى، وغيرہم خاص طور سے نماياں ہيں۔

زبان پر قدرت كى اہميت:
زبان كے دو بنيادى وظائف ہيں، جس قدر تقرير وتحرير پر قدرت زياده ہوگى اسى كے بقدر وه دونوں وظائف بخوبى انجام پائيں گے:
فكر: زبان كا بنيادى عمل فكر ونظر كو ترقى دينا ہے، انسان زبان ہى كے وسيله سے سوچتا ہے، الفاظ وتعبيرات كى وسعت افكار وخيالات كى باريكيوں ميں فرق كرنے اور معانى ومفاہيم كى تمييز ميں معاون ہوتى ہے، فكر ولسان كے اسى گہرے تعلق كى وجه سے اہل يونان انسان كو حيوان ناطق كہتے تهے، قرآن كريم كى آيت "وعلمه البيان" ميں اسى طرف اشاره ہے، يونانى فلاسفه كے فلسفيانه تعمق كا راز بهى ان كى زبان دانى ہے، وه سب زبان پر غير معمولى قدرت ركهتے تهے، يہى حال علمائے اسلام كا ہے، امام شافعى نے الرساله جيسى كتاب اسى لئے لكهى كه وه عربى زبان كے نامور اديب تهے، امام محمد بن حسن شيبانى، ابن حزم ظاہرى، امام غزالى، ابن تيميه، شاه ولى الله دہلوى وغيره كے فكرى كارناموں كے پيچهے ان كى ادبى زبان بهى ہے۔
تعبير: زبان كا دوسرا عمل ترجمانى ہے، انسان جتنا زبان وبيان پر قادر ہوگا اتنا ہى كاميابى سے اپنے ما فى الضمير كى ترجمانى كرے گا۔
ہميں وه علماء پيدا كرنے ہيں جو ايكـ طرف مجتہدانه فكر كے مالكـ ہوں اور دوسرى طرف فصيح وبليغ زبان ميں اپنے خيالات كو پيش كرنے پر قادر ہوں، دنيا كى جن قوموں سے ہمارا مقابله ہے ان كى فكرى اور فلسفيانه سطح ہم سے بہت بلند ہے، ہمارى نا اہلى كا نتيجه ہے كه مدرسوں سے اتنے بڑى تعداد ميں فارغ ہونے والے علماء يا تو امامت كرتے ہيں، يا وعظ وميلاد خوانى ميں لگ جاتے ہيں، يا پهر مناظره بازى كرتے رہتے ہيں، ہم اہل مغرب كى سطح پر كوئى محققانه كام كرنے پر قادر نہيں ہيں، مغرب كو چهوڑيں بلكه اس وقت ہندوستان اور چين كے غيرمسلم بهى ہم سے بہت آگے ہيں۔
تقرير وتحرير ميں ملكه پيدا كرنے كا طريقه:
تقرير وتحرير ميں ملكه پيدا كرنے كے لئے ہميں دو كام كرنے ہوں گے:
نصاب كى اصلاح: مدرسوں ميں عربى زبان كا جو نصاب ہے وه نہايت نا كاره ہے، عربى ريڈرز كا كوئى اہتمام نہيں، نحو ميں ہداية النحو اور كافيه پڑهائى جاتى ہيں، دونوں بہت كمزور كتابيں ہيں، ان كى جگه ابن ہشام كى كتابيں (شرح قطر الندى، شرح شذور الذهب) وغيره داخل كى جائيں، صرف ميں (شذا العرف) اور ابن الحاجب كى (الشافية) پڑهائى جائيں، عربى ريڈرز كو ہر پانچ سال ميں بدلا جائے، ام القرى يونيورسٹى نے بہت كامياب عربى ريڈرز تيار كى ہيں انہيں داخل كيا جائے، يه كتابيں عربى سوم تكـ پڑهائى جائيں، ان كے بعد نثر ميں مولانا محمد رابع حسنى كى (منثورات) اور مولانا سيدابو الحسن ندوى كى (مختارات اول ودوم)، اور نظم ميں (ديوان حماسه)، اور (معلقات) وغيره پڑهائے جائيں۔
تقرير اور گفتگو كى مشق كے لئے ہر مدرسے ميں عربى زبان كى انجمنيں بنائى جائيں جن ميں فصيح عربى ميں تقرير، مكالمه وغيره كى پابندى سے مشق ہو، اس كے موضوعات ہر ہفتے بدلے جائيں۔
تحرير كے لئے عربى سوم تكـ ام القرى كے اسى نصاب كى تمرينات اچهى طرح حل كى جائيں، عربى چہارم سے آخر تكـ ہفتے ميں دو تين بار اردو سے عربى، اور عربى سے اردو ميں مضامين اور خبروں كے ترجمے كروائے جائيں، نيز انشاء پردازى كى بهى مشق كى جائے، كوشش رہے كه ہر سال معيار بلند ہوتا رہے، بلكہ سال كے ہر مہینے ترقى كا خيال ركها جائے، عالميت كے آخرى سال ميں ہر طالب سے لازمًا عربى ميں ايكـ تحقيقى مقالہ لكھوايا جائے، اس كے بغير سند ہرگز نہ دى جائے۔
خارج نصاب كى تعليم: 
تقرير كى مشق كے لئے طلبہ عربى زبان كے اچھے مقررين كى تقريريں سنيں، اور الجزيره وغيره عربى چينلوں كى خبريں، تبصرے، ثقافتى اور سياسى پروگرام بھى ديكھيں۔
مزيد برآں طلبہ عصرحاضر كے معيارى ادباء كى كتابوں كا مطالعہ كريں، ان ميں سے چند كے نام يہاں ديديئے جاتے ہيں: مصطفى لطفى منفلوطى، صادق الرافعى، احمد حسن الزيات، طه حسين، احمد امين، عباس محمود عقاد، ابو الحسن على ندوى، محمد الحسنى، على طنطاوى، محمود محمد شاكر وغيره۔
ان ميں سے بعض اديبوں كى زبان مشكل اور ان كا اسلوب قدرے پيچيده ہے، بہتر ہوگا كہ پہلے احمد امين كى (حياتى)، طہ حسين كى (الأيام)، (على هامش السيرة)، (مذكرات)، على طنطاوى كى (ذكريات)، ابو الحسن على ندوى كى (إذا هبت ريح الإيمان)، مولانا مسعود عالم ندوى كى (تاريخ الدعوة الإسلامية في الهند وتطوراتها)، محمد الحسنى كى (الإسلام الممتحن) پڑهيں، پهر احمد امين كے مقالات (فيض الخاطر)، رافعى كى (وحى القلم)، منفلوطى كى (عبرات) اور (نظرات) پڑهيں، اس كے بعد ان شاء الله اچها ذوق پيدا ہوجائے گا، اور كتابوں كا انتخاب آسان ہوگا۔
ذہن ميں رہے كه نصاب تعليم كا صرف ايكـ ستون ہے، كوشش كريں كه ہر مدرسہ ميں محنتى اور زبان وادب كا معيارى ذوق ركهنے والے اساتذه ہوں، اس ميں كوتاہى نہ كى جائے ورنه خاطر خواه نتيجه برآمد نہيں ہوگا۔ 
بقلم: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى (آكسفورڈ، برطانیہ)
( #ایس_اے_ساگر )
عربى تقرير وتحرير كا ملکہ كيسے پيدا كريں

No comments:

Post a Comment