Wednesday 13 June 2018

مصافحہ و معانقہ

مصافحہ و معانقہ
............
آج ہمارے معاشرے میں عید کے ایام میں ایسی رسوم شامل ہو گئی ہیں جن کا دین سے دور کا بھی تعلق نہیں اور عمومی طور پر مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ انہیں عید کے تہوار کا حصہ اور دین سمجھ کر انجام دے رہا ہے، ان رسوم میں سے ایک رسم عید کے دن ’مصافحہ ومعانقہ کرنا ‘ہے۔
عورتیں بھی ملوث:
عید کے موقع پر صر ف عید کی وجہ سے گلے ملنے کی رسم کو بہت سے لوگوں نے اس قدر اہم اور خاص عمل سمجھ لیا ہے کہ اس عمل میں سستی و کوتاہی کسی حال میں گوارا نہیں کرتے ،خواہ ایک ہی گھر کے افراد کیوں نہ ہوں اور ایک ساتھ عید کی نماز کیلئے گئے ہوں،ایک دوسرے کے قریب ہی کھڑے ہو کر نما زادا کی ہو اور خاص اس موقع پر ملاقات نہ ہو رہی ہو،یہاں تک کہ عید کے دن خواہ تمام نمازوں، مسنون اعمال اور گناہوں سے بچنے کی تو فیق نہ ہو، مگر یہ رسم ادا کرنا انتہائی لازم سمجھا جاتا ہے بلکہ خاص اس عمل کی غرض سے ایک دوسرے سے ملنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور اگر خاص عید کے دن کسی کیساتھ یہ رسم پوری نہ ہوسکے تو اگلے روز بھی اس کی جستجو اور کوشش رہتی ہے اوراگر کوئی اس کو ادا نہ کرے تو اسے بہت برا سمجھا جاتا ہے جیساکہ عام طور پر مشاہدہ ہے، سِتم اس پر یہ ہے کہ اس میں مردوں کے شانہ بشانہ عورتیں بھی ہیں۔
کیا ہے سنت؟
اس سلسلے میں یہ بات واضح رہے کہ مصافحہ یا معانقہ کرنے (یعنی دونوں ہاتھ ملانے اور گلے ملنے )میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاطریقہ یہ تھاکہ جب آپس میں ملاقات ہوتی تو پہلے سنت کے مطابق سلام کرتے اور سلام کے بعد مصافحہ کرتے اور جب سفر سے واپس آتے تو معانقہ کرتے (اس سے ہٹ کر مصافحہ ومعانقہ کا کوئی خاص دن مثلاً: کسی نماز کے بعد یا عید کا موقع مقرر نہ تھا)۔
روایتوں سے رجوع:چناں چہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی تو آپ نے مجھ سے مصافحہ فرمایااور ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلانے کیلئے (میرے گھر میں)کوئی قاصد بھیجا ، مگر اس وقت میں اپنے گھر میں موجود نہیں تھا (بلکہ باہر گیا ہوا تھا)جب میں اپنے گھر آیا تو مجھے اطلاع دی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلانے کیلئے قاصد بھیجا تھا ،میں فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا،اس وقت آپ اپنے بستر پر تشریف فرما تھے ، آپ نے مجھے فوراً اپنے ساتھ چمٹا لیا (یعنی مجھ سے معانقہ فرمایا)تو میں نے آپ کو بہت ہی حسین و جمیل اور خوبصورت پایا۔ (سنن ابی داود،رقم الحدیث: (2514) :4/453، داراحیا التراث العربی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم جب آپس میں ملاقات کرتے تو مصافحہ کرتے اور جب کسی سفر سے لو ٹتے تو معانقہ کیا کرتے تھے۔ (الترغیب والترہیب، رقم (4007)، ص:514، دار ابن حزم)
ان دونوں روایات (اور دیگر کئی روایات) سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ملاقات کے وقت مصافحہ کرتے اور سفر سے واپسی پر معانقہ فرماتے تھے، لہٰذامذکورہ تفصیل سے مصافحہ اور معانقہ کرنا مسنون و مستحب اور قابلِ ثواب ہے، اس پر عمل کرنا چاہئے۔
چناں چہ اگر کوئی مصافحہ اور معانقہ کے عمل کو عید کے دن، خاص عید کے دن کی وجہ سے لازم، ضروری اور سنت نہ سمجھے اور عیدین کے علاوہ سال کے دیگر ایام میں بھی اس عمل کو سنت سمجھ کر اپنی مستقل عادت بنا لے اور پھر عیدین کے دن اپنی گذشتہ عادت کے مطابق ملاقات کے وقت سنت کے مطابق سلام کرکے دونوں ہاتھو ں سے مصافحہ کرے یا جو عزیز، رشتہ دار یا دوست عید کے دن سفر سے آئیں اور سفر سے آنے کی وجہ سے ان سے گلے ملے، تو یہ نہ صرف جائز بلکہ عین سنت ہے۔
حکمت کا پہلو:
جبکہ خاص عید کی تخصیص کی وجہ سے مصافحہ اور معانقہ کرنا شرعاً ثابت نہیں، نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور نہ ہی خیر القرون میں، لہٰذا اس طریقہ کو ترک کرنے اور دوسروں کو حکمت و بصیرت کیساتھ سمجھا نے کی ضرورت ہے، جبکہ کسی شرعی دلیل سے اس کا ثبوت نہیں اور فقہائے کرام واکابر عظام رحمہم اللہ نے اسی پہلو سے اس کو بدعت اور ناجائز قرار دیا ہے اور اس سے بچنے کی تاکید فرما ئی ہے، تاہم اس سلسلہ میں کسی قسم کے فتنے و انتشار سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے،لہٰذا اگر کوئی اس موقع پر ملنے پر ہی بضد ہو تو اس وقت اس سے بغیر سنت کی نیت کئے، مل تو لیں، لیکن ہیئت مخصوصہ بدل دیں، یعنی تین کے بجائے ایک دفعہ ملنے پر اکتفا کریں اور پھر کسی دوسری نشست میں پیار و محبت سے اس کو سمجھاکر مسئلہ واضح کر دیں۔
کیا کہتے ہیں فقہا؟
 اس مسئلہ سے متعلق فقہ و فتاوی سے گہری مناسبت رکھنے والے اکابر علماو فقہاامت کی آرا کودیکھنا ضروری ہو جاتا ہے تاکہ اس رسم کی حقیقت پوری طرح واضح ہو جائے۔
… فقیہ النفس ،حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب رحمة اللہ علیہ ’فتاوی رشیدیہ ‘میں تحریر فرماتے ہیں:
”عیدین میں معانقہ کرنا بدعت ہے“۔ (ص:443،سعید)
…مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”عیدین میں معانقہ کرنا یا عید کی تخصیص سمجھ کر مصافحہ کرنا شرعی نہیں، بلکہ محض ایک رسم ہے“۔(کفایت المفتی: 3/302، دارالاشاعت)
…حکیم الامت، مجدد ملت، حضرت مولانا اشرف علی تھانو ی صاحب رحمة اللہ علیہ رقم طراز ہیں:
”قاعدہ کلیہ ہے کہ عبادات میں حضرت شارع علیہ السلام نے جو ہیئت و کیفیت معیّن فرمادی ہے،اس میں تغیّر وتبدّل جائز نہیں اور مصافحہ چوں کہ سنت ہے، اس لئے عبادات میں سے ہے، حسبِ قاعدہ مذکورہ اس میں ہیئت و کیفیت ِ منقو لہ سے تجاوز جائز نہ ہو گااور شارع علیہ السلا م سے صرف اولِ لِقائ کے وقت بالاجماع یاوداع کے وقت بھی علی الاختلاف منقول ہے، پس اب اس کیلئے ان دو وقتوں کے سوا اور کوئی محل و موقع تجویز کرنا تغییر عباد ت کرنا ہے، جوممنوع ہے لہٰذا مصافحہ بعد عیدین یا بعد نمازپنجگانہ مکروہ و بدعت ہے،شامی میں اس کی تصریح موجود ہے“۔ (امداد الفتاوی :1/557،مکتبہ دارالعلوم ،کراچی)
…حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
”عیدین کی نماز کے بعد مصافحہ کا جو رواج ہے یہ بدعت ہے، دوسرے اوقات کی طرح اگر کسی شخص سے اس وقت نئی ملاقات ہو تو مصافحہ کر لے، ورنہ نہیں“۔ (امداد الاحکام:1/188، مکتبہ دار العلوم،کراچی)
…مفتی اعظم پاکستان،حضرت مولانا،مفتی محمد شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
”یہ بدعت ہے اور شعار روافض ہے، ترک کرناچاہئے“۔ (امداد المفتین،ص:187،دارالاشاعت)
…صدر مفتی دارالعلوم دیوبند،حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمان صاحب رحمہ ا للہ لکھتے ہیں:
”نمازِ عیدین یا دیگر نمازوں کے بعد تخصیص مصافحہ کی کرنا اور اسی وقتِ خاص میں اس کو سنت جاننا اور معمول بہ ٹھہرانا بعض فقہائ نے منع لکھا ہے اور تبیین ِمحارم میں اس کو روافض کے طریقہ سے لکھاہے اور مکروہ فرمایا ہے“۔ (عزیز الفتاوی،ص:147، دار الاشاعت)
…فقیہ الامت، حضرت مولانامفتی محمود حسن گنگوہی صاحب رحمة اللہ علیہ اس سلسلے میں تحریر فرماتے ہیں:
”عید کا مصافحہ و معانقہ بدعت ہے“۔ (فتاوی محمودیہ: 8/464، ادارہ الفاروق، کراچی)
…حضرت مولانا ،مفتی سید عبد الرحیم لاجپوری صاحب رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
”عید کی نماز کے بعد ملنا اور معانقہ و مصافحہ کرنا کوئی امرِ مسنون نہیں ہے، لوگوں کی اختراعات اور بدعات میں سے ہے، احادیث میں جہاں تک معلوم ہے اس کا پتہ نہیں چلتا،غیبوبت کے بعد مصافحہ اور طویل غیبوبت پر معانقہ ثابت ہے، مگر عید کی نماز کے بعد ان کا ثبوت نہیں ہے، یہاں یہ حالت ہے کہ وہ رفقائ جو نماز میں شریک بلکہ برابر میں کھڑے تھے، سلام اور خطبہ کے بعد معانق ہوتے ہیں اور اس کو امرِ دینی سمجھتے ہیں، اس لئے یہ غلط چیز ہے“۔ (فتاوی رحیمیہ: 2/111،112، دارالاشاعت)
…مفکراسلام ،حضرت مولانا،مفتی محمود صاحب رحمة اللہ علیہ رقم طراز ہیں:
”واضح رہے کہ مصافحہ اور معانقہ ابتدائے ملاقات کے وقت مسنون ہے اور وداع کے وقت مختلف فیہ ہے،لہذا بعد از نماز عید مسنون تو ہر گز نہیں ہے، کیوں کہ اس کا ثبوت حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہے ، ہاں بعض علمااس کو بدعت مباحہ کہتے ہیں اور (بعض )علمااس کو بدعت مکروہہ کہتے ہیں اور مولانا عبد الحئی صاحب لکھنوی اپنے فتاوی کی جلد /2،ص/45 پر فرماتے ہیں،”علی کل تقدیر ترک اس کا اولیٰ ہے…“۔(فتاوی مفتی محمود:2/513،جمعیت پبلیکیشنز)
…حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب اعظمی فرماتے ہیں:
”مطلقاً نماز کے بعد بالالتزام مصافحہ یا معانقہ کرنا شرعاً درست نہیں ،حتیٰ الامکان اس عمل سے بچنا ضروری ہے،لیکن ابتدائی ملاقات کسی نماز کے بعد فوراً ہو رہی ہو تو اس صور ت میں گنجائش ہے کہ مصافحہ یا معانقہ کیاجا سکتا ہے “۔(نظام الفتاوی:1/59،مکتبہ رحمانیہ)
…فقیہ العصر،حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
”یہ طریقہ اختیارکرنا بدعت اور مکروہ ہے…بدعت یا کسی گناہ کا ارتکاب کسی مصلحت کے پیش ِ نظر ہر گزجائز نہیں ،البتہ دوسروں کو منع کرنااس وقت ضروری ہے جب قبول کی امید ہو،ورنہ ’نہی عن المنکر‘ ضروری نہیں، غرض یہ کہ خود نمازِ عید کے بعدکسی سے مصافحہ یا معانقہ نہ کرے،ہاں! اگر کسی سے ملاقات ہی بعد نماز کے ہوئی ہو تو اس سے جائز ہے،مگر تشبّہ بالبدعة اور اس کی تائید کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے اس سے بھی اجتناب کرنا چاہئے“۔ (احسن الفتاوی :1/354،سعید)
…حکیم العصر،حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید رحمةللہ علیہ فرماتے ہیں:
”یہ سنت نہیں،محض لوگوں کی بنائی ہوئی ایک رسم ہے،اس کو دین کی بات سمجھنا اور نہ کرنے والے کو لائق ملامت سمجھنا بدعت ہے“۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل:2/573،مکتبہ لدھیانوی)
…جامعہ حقانیہ (اکوڑہ خٹک)سے جاری ہونے والے فتاوی میں ہے کہ:
”عیدین اور جمعہ کی نمازوں کے بعد مصافحہ کرنے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے،حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ اوردیگر محققین علمائے کرام نے اس کو ممنوع قرار دیا ہے اور بعض دیگر حضرات نے اس کی اجازت مرحمت فرمائی ہے،لہذا اگر مصافحہ کرنے میں التزام مالا یلزم ہو توممنوع ہے،ورنہ نہیں تاہم نہ کرنا بہترہے“۔(فتاوی حقانیہ:2/53،جامعہ دار العلوم حقانیہ ، اکوڑہ خٹک،نوشہرہ)
…جامعہ خیر المدارس (ملتان)سے جاری ہونے والے فتاوی میں ہے:
”عیدین یا دوسری نمازوں کے بعد مصافحہ یا معانقہ کرنا بدعت ہے، مصافحہ یا معانقہ کی سنت صرف ملاقات یا رخصتی کے وقت ہے اور اسی ملاقات ہی کے مصافحہ کے متعلق آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ موجب تکفیر ذنوب و سقوط گناہ ہے، الحاصل مصافحہ نماز کے بعد بہر حال مکروہ ہے ، نیز ! یہ روافض کا طریقہ ہے، اس سے اجتناب لازم ہے“۔ (خیر الفتاوی:1/570،مکتبہ امدادیہ)
…صدر دارالعلوم کراچی ،حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب زید مجدہم فرماتے ہیں:
”عید پر معانقہ کرنا سنت سے ثابت نہیں،لہٰذا اس کا التزام بدعت ہے،اگر کوئی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ عید پر معانقہ سنت ہے یا عید کیساتھ معانقہ کی شرعاً کوئی خصوصیت ہے تو شرعاً ایسے شخص کیساتھ معانقہ نہیں کرنا چاہئے“۔ (امداد السائلین المعروف فتاوی دار العلوم کراچی: 1/165، 166،ادارة المعارف، کراچی)
…شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہم فرماتے ہیں:
”دو مسلمانوں کی ملاقات کے وقت مصافحہ مسنون ہے،نیز کوئی شخص سفر سے آئے تو اس سے معانقہ کرنا بھی سنت سے ثابت ہے،ان دونوں مواقع کے علاوہ سنت نہیں ہے،لیکن اگر سنت سمجھے بغیر اتفاقاً کبھی کر لے تو گناہ بھی نہیں اور سنت سمجھ کر کرے تو بدعت ہے، ہمارے زمانے میں چوں کہ فرض نمازوں کے بعد مصافحہ اور عیدین کے بعد معانقہ کو سنت سمجھا جانے لگا ہے،حالاں کہ یہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں،اس لئے اہل علم نے اس کو بدعت قرار دیا ہے اور اس سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے، لیکن کہیں اعتقاد سنت کا نہ ہو تو مباح ہے“۔(فتاوی عثمانی:1/103،مکتبہ معارف القرآن)
…دارالعلوم یاسین القرآن سے جاری ہونے والے فتاوی میں ہے کہ:
”صورت مسﺅلہ میں مصافحہ ،شریعت میں ا ±نس ومحبت کے پیدا کرنے کا ذریعہ ہے،اپنے مسلمان بھائی کیساتھ مصافحہ کرنا سنت ہے،لیکن اپنی طرف سے مصافحہ کو بعض مواقع کیساتھ خاص کر لینا اور ان مواقع پر اہتمام و التزام کیساتھ مصافحہ کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ اس کا ترک لازم ہے، جیساکہ نماز کے بعد مصافحہ کرنے کو علامہ شامی? نے شیعوں کا شعار قرار دیا ہے“۔ (نجم الفتاوی :1/136، دارالعلوم یاسین القرآن،کراچی)
…حضرت مولانا عبد الحئی لکھنوی صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”مصافحہ اور معانقہ کا وقت ابتدائے ملاقات ہے،پس عید کی نماز کے بعدمصافحہ اور معانقہ مسنون نہیں ہے اور علما اس باب میں مختلف ہیں،بعض بدعت مباحہ کہتے ہیں اور بعض ہر حال میں بدعتِ مکروہہ کہتے ہیں، اس کا تر ک اولیٰ ہے“۔ (مجموعة الفتاوی (مترجم):2/201،202،سعید)
…حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ:
”عیدین کے روز نمازِ عیدین کے بعد مصافحہ و معانقہ کرنا ہر حال میں مکروہ و بدعت ہے،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وسلف صالحین رحمہم اللہ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا،آج کل اس پر بہت زیادہ عمل ہو گیا ہے،حتیٰ الامکان اس کا ترک لازم ہے، بلکہ ہر نماز کے بعد بھی مصافحہ کرنا مکروہ اور بدعت ہے،بعض جگہ اس کا بھی رواج عام ہو گیا ہے،یہ طریقہ رافضیوں کا ہے اس لئے بھی اس سے پر ہیز ضروری ہے“۔(عمدة الفقہ :2/461،زوّار اکیڈمی)
جامعہ فاروقیہ (کراچی) سے جاری ہونے والے فتاوی میں ہے:
”نماز کے بعد بشمولِ عیدین، مصافحہ یا معانقہ کرنا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین واسلافِ امت رحمہم اللہ میں سے کسی سے بھی جزوی طور پر ثابت نہیں، فقہاو محدثین کرام سے اس عمل کی ممانعت منقول ہے، حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے اسے بدعتِ شنیعہ اور علامہ ابن ِ عابدین رحمة اللہ علیہ نے اسے روافض کی بدعت باور کرتے ہوئے ترک کا حکم دیاہے“۔(تبویب رجسٹر فتاوی:61/90،غیر مطبوعہ)
ان تمام فتاوی سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عیدین کی نماز کے بعدصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ،تابعین ، تبع تابعین اورسلف صالحین رحمہم اللہ اجمعین میں سے کسی سے اس مذکورہ عمل یعنی مصافحہ و معانقہ کا مسنون یا عبادت ہونا منقول نہیں۔
اس لئے اس بات کا اہتمام کرناہم سب کیلئے از حد ضروری ہے کہ اس بابرکت دن میں کہیں انجانے میں یہ عمل کر کے کسی گناہ کے مرتکب تو نہیں ہواجارہاہے، اگر ایسا ہے تو فی الفور اس عمل یا اس جیسے دیگر گناہوں سے اللہ جل جلالہ کے حضور توبہ تائب ہو کراعمال مسنونہ کو اپنانے کی ہر ممکن کوشش کریں اور پوری حکمت و بصیرت سے گرد ونواح میں موجوداس عمل میں مبتلا افراد امت کو سمجھانے کی کوشش کریں۔اللہ رب العزت ہم سب کو صراط مستقیم پر گامز ن رہنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
............
آج کا سوال نمبر ١۳۸۶
مصافحہ اور معانقہ کب کرے؟
جواب:
حامدا و مصلیا و مسلما:
جب بھی مسلمان بھائی سے ملاقات ہو سب سے پہلے اسے سلام کرے پھر مصافحہ کرے پہلے کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کی ۹۰ رحمتِ اترتی ہیں اور دوسرے پر ١۰ اور جدا ہونے سے پہلے اللہ تعالی دونوں کی مغفرت فرمادیتے ہیں، (مظاھرالحق)
مصافحہ سلام کا تکمیلہ ہے یعنی اس سے سلام مکمل ہوتا ہے اور سلام کے بعد کرنا چاہئے،
عید کے دن نماز کے بعد مسجد میں مصافحہ شیعوں کی مشابہت کے وجہ سے منع ہے، مسجد کے باہر اگر ملاقات نہ ہوئی ہو ملاقات کی نیت سے مصافحہ کرے، عید کی خاص سنت اور طریقہ سمجھ کر نہ کرے،
اگر معانقہ سفر سے آنے کے بعد یا پہلی دفعہ ملاقات ہورہی ہو تو معانقہ کرنا چاہئے، عید کی مخصوص رسم سمجھ کر معانقہ نہ کرے،
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ پھر بھی کوئی مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھائے تو ہاتھ نہ کھینچے ہاتھ کھینچنے میں اس کی ذلت ہوگی اور اسے تکلیف پہنچے گی اور یہ حرام ہے، اس وقت مصافحہ کرلے پھر پیار و محبت سے سمجھادیں، غرض نفرت کا ماحول پیدا ہو، ایسے کوئی صورت اختیار نہ کرے،
ہم اہل سنت والجماعت ہیں، جو عبادت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین و تابعین اور تبع تابعین رحمتہ اللہ علیہ سے جس طرح  جس درجے میں ثابت ہوگی اسے طرح ہم عمل کرینگے تو ہی سنت ادا ہوگی، اور ثواب ملے گا اپنی طرف سے ذرہ برابر کمی بیشی ہمارے اکابرین کو گوارا نہیں تھی اور یہی صراط مستقیم سیدھا راستہ ہے،
مسائل آداب ملاقات ۸۳ سے ۸۶
واللہ اعلم بالصواب
مفتی عمران اسماعیل میمن حنفی چشتی
استاذ دار العلوم رام پورہ سورت گجرات ہند
........
سوال # 7376
کیا عید کے دن گلے ملنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے؟ اگر کوئی ہم سے گلے ملنے کے لئے آگے بڑھے تو کیا گلنے ملنا چاہئے؟

Published on: Sep 15, 2008
جواب # 7376
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 895=895/ م
خاص عید کے دن گلے ملنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام سے ثابت نہیں، اس لیے اس کا التزام بدعت ہے، ہاں اگر کسی سے بہت دنوں پر اُسی دن ملاقات ہوئی ہو تو فرطِ محبت میں اس سے گلے ملنے میں مضائقہ نہیں بشرطیکہ اس دن (عید کے دن) گلے ملنے کو مسنون یا ضروری نہ سمجھتا ہو، اور اگر کوئی گلے ملنے کے لیے آگے بڑھے تو حکمت وحسن تدبیر سے منع کردینا چاہئے لیکن فتنے کی شکل نہ پیدا ہونی چاہئے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
.............

No comments:

Post a Comment