Sunday, 31 January 2021

ہر قسم کی پریشانی کے لئے

ہر قسم کی پریشانی کے لئے

----------------

#ایس_اے_ساگر

----------------

فرمایا نس بندی کا زور چل رہا تھا. مظفرنگر میں جھگڑا ہوا. تین آدمی شہید بھی ہوئے. میری بہت شکایتیں کلکٹر کے پاس پہنچ رہیں تھیں. میرے متعلقین میں سے بعض کی راۓ ہوئی کہ نظام الدین کچھ روز قیام کرلیں مگر حضرت شیخ (حضرت مولانا مفتی افتخارالحسن صاحب کاندھلوی) نوراللہ مرقدہ نے منع فرمایا کہ نہیں یہیں رہو. اس دوران میں نے خواب دیکھا کہ میں تنہا جنگل میں ہوں ایک شیر ببر میرے پیچھے آرہا ہے. میں بھاگتے بھاگتے روضہ اقدس کے اندر پہنچ گیا. یہاں آکر قلبی سکون ملا اور خیال ہوا کہ اب میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا. اس لئے کہ میں بالکل جالی کے اندر ہوں. یہاں شیر نہیں آسکتا اور کوئی بھی نہیں آسکتا. اس خواب کا تذکرہ میں نے حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ سے کیا. حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ نے کہا: کیا پڑھے تو؟

میں نے عرض کیا: اس دعاء کے پڑھنے کا معمول ہے. اور میں نے گھر میں بچیوں کو بھی یاد کروارکھی ہے. وہ بھی پڑھتی ہیں-

فرمایا: تو نے مجھے کیوں نہیں بتائی؟

عرض کیا حضرت میں آپ کو کیا بتاتا. یہ تو آپ ہی کا بتایا ہوا نسخہ ہے. حضرت شیخ نے کہا لکھ کر مجھے دو میں بھی یہاں گھروں میں بچیوں کو یاد کروادوں گا. اس کی تو بہت ضرورت ہے.

-------------

ہر قسم کی پریشانی کے لئے

ہر نماز کے بعد گیارہ گیارہ بار پڑھا جائے۔ اول آخر درود شریف تین تین مرتبہ پڑھیں۔

لا إله إلا الله محمد رسول الله صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلّم

سْمِ اللَّهِ عَلَى نَفْسِي وَدِينِي، بِسْمِ اللَّهِ عَلَى أَهْلِي وَمَالِي وَ وَلدي، 

بِسْمِ اللَّهِ عَلَى مَا أَعْطَانِي الله

الله، الله ربي لا أشرك به شيئاً، 

اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ،

وَاَعَزُّ وَاَجَلُّ وَاَعْظَمُ مِمَّا اَخَافُ وَاَحْذَرُ عَزَّ جَارُکَ وَجَلَّ ثَنَاوٴُکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ،

اللَّهُ أَكْبَرُ،

اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي وَ مِنْ شَرِّ كُلِّ شيطان مريد، ومن شر كل جبار عنيد، فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللهُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، اِنَّ وَلِیَّ اللهُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰبَ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ۔

آمین یا رب العالمین.

حضرت مولانا مفتی افتخارالحسن صاحب کاندھلوی۔ کاندھلہ ضلع مظفر نگر(یو پی) انڈیا


-------------

ستمبر 1976 کے دوران نس بندی کے خلاف وزراء اور ڈی ایم وغیرہ کے سامنے کھل کر بولنے کی وجہ سے اس وقت کے آبکاری وزیر ودیا بھوشن اور سنجے گاندھی کے کہنے پر مظفرنگر کے ڈی ایم برج راج یادو نے میرے والد اور مولانا افتخارالحسن کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفۂ خاص مولانا موسی رحمۃ اللہ علیہ پر بھی زندہ یا مردہ 5000 کا انعام رکھا تھا ۔۔۔ اس وقت کے ہندی روز نامہ دینک دیہات کی کٹنگ آج تک میرے پاس محفوظ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ قربان جائیے ان اکابر کے جنہوں نے ہر ظلم برداشت کیا لیکن حق سے روگردانی نہیں کی. والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی اس وقت سے آخر عمر تک 'دعائے انس' کا خاص اہتمام کرتے رہے. 18 اکتوبر 1976 کا فساد میں تو کبھی نہیں بھول سکتا. خالد زاہد مظفرنگری 

--------------------------

احادیث مشہورہ کی تحقیق: دعاء انس رضی اللہ عنہ کی تحقیق

یہ دعاء مشہور صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص ہیں، آپ نے دس سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے. دعاء کا واقعہ یہ ہےکہ: ایک دن حضرت انس رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف ثقفی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، حجاج نے اپنے اصطبل خانہ کے گھوڑوں کا معاینہ کرواکے تفاخرا ً حضرت انس سے دریافت کیا کہ: کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں بھی ایسے گھوڑے تھے؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑے تو جہاد کے لئے تھے، فخر وغرور ونمائش کے لئے نہیں تھے۔

اس جواب پر حجاج آپ پر غضب ناک ہوگیا۔ اور اس نے کہا کہ: اے انس اگر تو نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت نہ کی ہوتی اور امیرالمومنین عبدالملک بن مروان کا خط تمہاری سفارش میں نہ آیا ہوتا کہ اس نے تمہارے ساتھ رعایت کرنے کے بارے میں لکھا ہے، تو میں تمہارے ساتھ وہ کچھ کرتا جو میرا دل چاہتا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں اللہ کی قسم تو ہرگز میرے ساتھ کچھ نہیں کرسکتا، اور میری جانب بری آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا ۔بلاشبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چند کلمات کو سن رکھا ہے، میں ہمیشہ ان کلمات کی پناہ میں رہتا ہوں اور ان کلمات کے طفیل میں کسی بادشاہ کے غلبہ اور شیطان کی برائی سے نہیں ڈرتا۔

حجاج یہ سن کر ہیبت زدہ ہوگیا اور ایک ساعت کے بعد سر اٹھا کر کہا: اے ابوحمزہ! وہ کلمات مجھے سکھادو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: نہیں میں ہرگز وہ کلمات تمہیں نہیں سکھاؤں گا کیوں کہ تم اس کے اہل نہیں ہو.

جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی رحلت کا وقت قریب آیا تو آپ کے خادم حضرت ابان رضی اللہ عنہ کے استفسار پر آپ رضی اللہ عنہ نے ان کو یہ کلمات سکھلائے اور کہا کہ انہیں صبح و شام پڑھاکر اللہ تعالیٰ تجھے ہر آفت سے حفاظت میں رکھے گا. دعاء کے کلمات مختلف کتابوں میں کمی بیشی کے ساتھ اس طرح  ہیں:

اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ،

بِسْمِ اللَّهِ عَلَى نَفْسِي وَدِينِي، بِسْمِ اللَّهِ عَلَى أَهْلِي وَمَالِي، بِسْمِ اللَّهِ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ أَعْطَانِي رَبِّي،

بِسْمِ اللَّهِ خَيْرِ الْأَسْمَاءِ ، بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ دَاءٌ،

بِسْمِ اللَّهِ افْتَتَحْتُ، وَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ،

اللَّهُ اللَّهُ رَبِّي، لَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا،

أَسْأَلُكَ اللَّهُمَّ بِخَيْرِكَ مِنْ خَيْرِكَ، الَّذِي لَا يُعْطِيهُ أَحَدٌ غَيْرُكَ، عَزَّ جَارُكَ، وَجَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ ،

اجْعَلْنِي فِي عِيَاذِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ سُلْطَانٍ، وَمِنْ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ، وَمِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ،  

إِنَّ وَلِيَّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ، وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ، فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ: حَسْبِيَ اللَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ، عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ

اللّٰهم إني أستَجيرُك مِنْ شَرِّ جَمِيعِ كُلِّ ذِي شَرٍّ خَلَقْتَهُ، وَأَحْتَرِزُ بِكَ مِنْهُمْ،

وَأُقَدِّمُ بَيْنَ يَدَيَّ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، اللَّهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ}، وَمِنْ خَلْفِي مِثْلَ ذَلِكَ، وَعَنْ يَمِينِي مِثْلَ ذَلِكَ، وَعَنْ يَسَارِي مِثْلَ ذَلِكَ، وَمِنْ فَوْقِي مِثْلَ ذَلِكَ ، وَمِنْ تَحْتِي مِثْلَ ذَلِكَ،

وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ.

واقعہ کی تخریج:

عمل اليوم والليلة لابن السني (ص: 307)، الدعاء للطبراني (ص: 323)، الفوائد المنتقاة لابن السماك (ص: 27)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم (6/ 339)، تاريخ دمشق لابن عساكر (52/ 259)، مجموع رسائل الحافظ العلائي (ص: 358) الخصائص الكبرى (2/ 298)، سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد (10/ 228)

واقعہ کی اسانید:

۱۔ أبان بن أبي عياش، عن أنس بن مالك رضي الله عنه.

عمل اليوم والليلة لابن السني (ص: 307)، تاريخ دمشق لابن عساكر (52/ 259) الخصائص الكبرى (2/ 298)، سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد (10/ 228)۔

2۔ مُحَمَّدُ بْنُ سَهْل بن عُمَيرٍ القصَّارُ، عن أبِيهِ ، عَن أَنَس بْنِ مَالِكٍ

(الدعاء للطبراني ص: 323)، مجموع رسائل الحافظ العلائي (ص: 358)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم ( 6/ 339)

3- يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ

(الثاني من الفوائدالمنتقاة لابن السماك ص: 27)

4- عبدالملك بن خصاف الجزري، عن خصيف بن عبدالرحمن الجزري، عن أنس

شرف المصطفى للخركوشي 5/7

5- علاء بن زيد الثقفي، عن أنس 

مجموع رسائل الحافظ العلائي (ص: 359) بدون سند.

اسانید کا حال:

ابان بن ابی عیاش تو متروک ہے، تو اس کی روایت اگر تفرد ہو توشدید الضعف ہوگی، لیکن بقیہ اسانید کے راویوں کی متابعت کی وجہ سے ضعف میں تخفیف  ہوگی ۔ بقیہ اسانید وطرق سے نا واقفیت کی بناء پر بعض حضرات نے اس روایت کو باطل قرار دیا، جو صحیح نہیں ہے۔ محمد بن سہل بن عمیر قصار کی توثیق مسلمۃ بن قاسم سے زین الدین قاسم بن قطلوبغا نے کتاب (الثقات ۸/۳۲۹) میں نقل کی ہے، البتہ ان کے والد کا حال معلوم نہیں ھے۔

یحیی بن عباد، اس کے باپ دادا کا بھی حال معلوم نہیں ہے، کتابوں میں ترجمہ نہیں ملا، تو سند میں مجاہیل کی وجہ سے ضعیف مانی جائے گی۔

چوتھی سند کا حال ٹھیک ہے، کسی راوی میں جرح شدید نہیں ہے، تو اس کا اعتبار کرسکتے ہیں.

پانچویں سند بھی غیرمعتبر ہے، علاء بن زید متروک منکر الحدیث ہے۔

متن حدیث کے شواہد:

ظالم حاکم سے اندیشہ کے وقت پڑھنے کی جو دعائیں وارد ہیں، ان میں اس طرح کے الفاظ منقول ہیں، جو زیربحث روایت کی تایید کرسکتے ہیں، مثال کے طور پر:

* حديث عبدالله بن مسعود: «إِذَا تَخَوَّفَ أَحَدُكُمُ السُّلْطَانَ فَلْيَقُلِ: اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ، وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، كُنْ لِي جَارًا مِنْ شَرِّ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ " - يَعْنِي الَّذِي يُرِيدُ - " وَشَرِّ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ، وَأَتْبَاعِهِمْ أَنْ يُفْرُطَ عَلَيَّ أَحَدٌ مِنْهُمْ، عَزَّ جَارُكَ، وَجَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ»

 رواه ابن أبي شيبة، والطبراني في الدعاء 1056، والبخاري في الأدب. 707  وهو شاهد لا بأس به إلا أنه روي مرفوعا وموقوفا.

* حديث ابن عمر: إِذَا خِفْتَ سُلْطَانًا أَوْ غَيْرَهُ، فَقُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ رَبِّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، عَزَّ جَارُكَ، وَجَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ۔

 رواه ابن السني في عمل اليوم والليلة (345) وهو شاهد ضعيف.

* حديث ابن عباس: إِذَا أَتَيْتَ سُلْطَانًا مَهِيبًا تَخَافُ أَنْ يَسْطُوَ بِكَ فَقُلِ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِهِ جَمِيعًا، اللَّهُ أَعَزُّ مِمَّا أَخَافُ وَأَحْذَرُ، وَأَعُوذُ بِاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمُمْسِكِ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ أَنْ يَقَعْنَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ، مِنْ شَرِّ عَبْدِكَ فُلَانٍ، وَجُنُودِهِ، وَأَتْبَاعِهِ، وَأَشْيَاعِهِ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ، إِلَهِي كُنْ لِي جَارًا مِنْ شَرِّهِمْ، جَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَعَزَّ جَارُكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ (ثَلَاثُ مَرَّاتٍ).

 رواه البخاري في الأدب المفرد 708 وابن أبي شيبة 29177 والطبراني في الدعاء 1060. وهو شاهد لا بأس به، رجاله رجال الصحيح.

اسی طرح  (بِسْمِ اللَّهِ عَلَى نَفْسِي وَدِينِي، بِسْمِ اللَّهِ عَلَى أَهْلِي وَمَالِي) معرفۃ الصحابہ لأبی نعيم (1/ 438) میں بدر بن عبد اللہ مزنی  رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہیں۔

(بِسْمِ اللَّهِ خَيْرِ الْأَسْمَاءِ) التحیات کی روایات میں حضرت عمر کی روایت سے منقول ہیں، السنن الكبرى للبيهقي (2/ 203)۔

(بِسْمِ اللَّهِ خَيْرِالْأَسْمَاءِ بسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ دَاءٌ) مصنف ابن ابی شيبہ (5/ 138) میں حديث 24500.

خلاصہ: دعاء انس صحیح ہے، اس کے پڑھنے کی اجازت ہے، متن میں کوئی ایسے الفاظ نہیں ہیں جن پر شرعا کوئی گرفت ہو، اس کی اسانید میں اگرچہ ضعف ہے، لیکن تعدد طرق سے ضعف کا  انجبار ہوجائے گا ، اور اس کے الفاظ کے شواہد بھی احادیث میں وارد ہیں۔ ھذا ما تیسر جمعہ وترتیبہ، والعلم عنداللہ 

(#ایس_اے_ساگر)

https://saagartimes.blogspot.com/2021/01/blog-post_31.html

Friday, 29 January 2021

حالیہ زرعی قوانین اور اسلامی نقطۂ نظر

 حالیہ زرعی قوانین اور اسلامی نقطۂ نظر

-----------------

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی 

ترجمان وسکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

--------------------------------------

گزشتہ دنوں پارلیامنٹ سے جو زرعی قوانین پاس کئے گئے ہیں، حکومت کو ان قوانین پر اصرار ہے اور وہ قانون کے متن میں استعمال کئے گئے خوبصورت الفاظ کا سہارا لے کر کہتی ہے کہ یہ کسانوں کے حق میں ہے، کسان سراپا احتجاج ہیں کہ یہ قانون ان کے لئے انتہائی نقصاندہ اور ان کے استحصال پر مبنی ہے، تو پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ اس قانون کے کیا اثرات مرتب ہوں گے پھر دیکھنا چاہئے کہ اسلامی تعلیمات اس مسئلہ میں ہماری کیا رہنمائی کرتی ہیں؟

جہاں تک اس قانون کی بات ہے تو اس میں تین باتیں کہی گئی ہیں: اول یہ کہ کسان اس بات پر مجبور نہ ہوں گے کہ وہ سرکاری منڈی میں اور سرکارکی مقرر کی ہوئی ہی قیمت پر اپنی پیداوار فروخت کریں؛ بلکہ وہ براہ راست عوام سے اپنا مال فروخت کر سکیں گے اور اپنی پسندیدہ قیمت متعین کرسکیں گے، یہ یقیناََ بہت خوبصورت الفاظ ہیں، گورنمنٹ کہتی ہے کہ اس طرح کسان کو بااختیار بنایا گیا ہے، کسان کہتے ہیں کہ اگر حکومت کسانوں کی پیداوار نہیں خریدے گی، تو غیرسرکاری کمپنیاں ان کی پیداوار خرید کریں گی اور ہوگا یہ کہ وہ من مانی قیمت مقرر کریں گی، کسانوں میں پھوٹ ڈال کر بعض گروپوں کو اپنی طئے شدہ قیمت پر آمادہ کریں گی اور اس طرح کسان بالخصوص چھوٹے کسان مجبور ہوجائیں گے، بالآخر ان کو وہ قیمت نہیں مل پائے گی، جو سرکار کسانوں سے اناج حاصل کرنے کے لئے مقرر کرتی ہے اور ان کی پیداوار بڑی بڑی کمپنیوں پر منحصر ہوجائے گی، کسانوں کے پاس اپنی پیداوار کو دیر تک محفوظ رکھنے کے وسائل بھی نہیں ہوں گے اور نہ ہر کسان مارکیٹ میں جا کر اپنا مال فروخت کرسکے گا؛ البتہ کمپنیاں بڑے بڑے گودام بنائیں گی، سستے داموں میں پیداوار خریدیں گی اور من چاہی قیمت پر اس کو فروخت کریں گی۔

دوسرے قانون میں یہ بات کہی گئی ہے کہ یہ بات ممکن ہوگی کہ کسان پیداوار آنے سے پہلے ہی اپنی پیداوار کو فروخت کرلیں اور اپنے اختیار سے قیمت طئے کر لیں، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ فصل کو نقصان بھی ہو تب بھی ان کو پوری قیمت ملے گی، وہ کمپنیوں اور بڑے بڑے تاجروں سے تحریری معاہدہ کریں گے اور اگر کوئی اختلاف پیدا ہوا تو عدالتوں سے انہیں رجوع کرنے کا حق ہوگا، کسانوں کا کہنا ہے کہ اس قانون سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کمپنیاں قبل ازوقت بڑے پیمانے پر کسانوں کی پیداوار خرید کرلیں گی اور عملاََ چوں کہ کسان اپنی پیداوار بیچنے پر مجبور ہوگا، کمپنیاں لینے پر مجبور نہیں ہوں گی تو اس طرح قیمت کمپنیوں کے منشاء کے مطابق طئے ہوگی اور اختلاف کی صورت میں بھی کمپنیاں ہی مقدمات جیتیں گی؛ کیوں کہ کسانوں کے پاس تو اتنے پیسے ہیں نہیں کہ وہ مقامی کورٹ سے شروع کرکے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک پہنچیں؛ لیکن بڑی کمپنیوں کے پاس پیسوں کی کمی نہیں ہے، وہ اپنے مالی وسائل کی وجہ سے زیادہ بہتر طور پر مقدمہ لڑسکیں گی، اور اس میں کامیابی حاصل کریں گی۔

تیسرا قانون ضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی سے متعلق ہے، ۱۹۵۵ء میں ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کے لئے ایک قانون بنا تھا، جس کے مطابق ضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی جرم ہے اور ضروری اشیاء کی فہرست میں تقریباََ سبھی زرعی پیداوار کو شامل کیا گیا تھا؛ لیکن اب اس میں تبدیلی کر کے دال، تیل، پیاز، آلو وغیرہ جیسی بنیادی ضروریات کو ضروری اشیاء کی فہرست سے باہر کردیا گیا ہے، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ کمپنیاں کسانوں سے بڑی مقدار میں ان اشیاء کو خرید کرکے ذخیرہ کر لیں گی، خریدیں گی تو کم قیمت پر لیکن ان کو روک کر مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کریں گی، پھر اسے مہنگے داموں فروخت کریں گی، محنت تو کسان کرے گا مگر اس کو خاطر خواہ نفع نہیں ہوگا؛ البتہ سرمایہ داروں کو کثیر نفع حاصل ہوگا اور عوام کو سستی چیزیں مہنگی ملیں گی۔

اب اسلامی نقطۂ نظر سے اس پورے معاملہ پر غور کیجئے تو اصولی بات یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا عمل نہیں کیا جائے، جس سے فرد یا عوام کو نقصان پہنچے، جب کہ اس قانون کا ما حصل یہ ہے کہ محنت تو کسانوں کی ہوگی؛ لیکن سرمایہ کی بدولت ان کی محنت کا ماحصل بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھ میں چلا جائے گا، کسان عملاََ ان کے ہاتھ اپنا مال بیچنے پر مجبور ہوگا اور عوام کے لئے ضروریات زندگی مہنگی ہوجائیں گی، یہ بات شریعت کے دو بنیادی اصولوں کے خلاف ہے، 

ایک: عدل، 

دوسرے: ضرر سے فرد اور سماج کو بچانا۔

عدل کے معنیٰ انصاف کے ہیں، 

عدل کا تقاضہ یہ ہے کہ محنت کرنے والے کو اس کی پوری اجرت ادا کی جائے، اس کو کم قیمت دے کر مال حاصل کرلینا استحصال ہے، یہ انصاف نہیں ہے؛ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’بیع مضطر‘‘ سے منع فرمایا ہے، (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۳۳۸۲، باب فی بیع المضطر) یعنی کسی شخص کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو کوئی سامان اس کی منصفانہ قیمت سے کم پر بیچنے پر مجبور کردیا جائے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’اکراہ‘‘ سے منع فرمایا ہے، (سنن کبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: ۱۱۵۴۵) اکراہ کے معنیٰ ہیں دوسرے فریق کو مجبور کردینا کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قیمت گرادینا، یہ بھی اکراہ ہی کی ایک صورت ہے۔ (عون المعبود شرح سنن ابوداود، حدیث نمبر: ۳۳۸۲)

فقہاء نے اکراہ کا تجزیہ اس طرح کیا ہے کہ اس کی دو قسمیں ہیں، 

ایک: ’’اکراہ ملجئی‘‘ جس میں کسی عمل پر اس طرح مجبور کیا جائے کہ اگر وہ اس پر عمل نہیں کرے تو اس کو قتل کردیا جائے گا، یا اس کا ڈھیر سارا مال برباد کردیا جائے گا، یا اس کے متعلقین کو سخت جانی یا مالی نقصان پہنچایا جائے گا، 

دوسری صورت اکراہ غیرملجئی کی ہے، جس میں قتل وغصب کی دھمکی تو نہیں ہوتی؛ لیکن اخلاقی دباؤ کے ذریعہ کسی عمل پر مجبور کیا جاتا ہے، اسی کی ایک صورت بیع مضطر ہے کہ ایک شخص اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے پیسوں کا سخت ضرورت مند ہو اور قرض لے کر یا اپنا کوئی سامان فروخت کرکے اس ضرورت کو پورا کرنا چاہتا ہو تو اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر اس کی مناسب قیمت سے کافی کم پیسوں میں اس کا سودا کیا جائے، اس قانون کی رو سے بھی یہی ہوگا کہ کسان کو کم قیمت پر اپنا مال بیچنے پر مجبور کردیا جائے گا، یہ یقیناََ ظلم ہے۔

دوسرا پہلو عمومی ضرر کا ہے، ضروری اشیاء کو اگر چند تاجر اپنے ہاتھ میں لے لیں اور پھر اسے روک کر فروخت کریں؛ تاکہ قیمتیں بڑھ جائیں تو یہ جائز نہیں، اس کو عربی زبان میں ’’احتکار‘‘ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ذخیرہ اندوزوں کو خاطی وغلط کار قرار دیا ہے، (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۳۴۴۷) اور ان پر لعنت بھی بھیجی ہے، (المستدرک علی الصحیحین، حدیث نمبر: ۲۱۶۴) ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت پیدا کرنے کے کچھ اور طریقے بھی اسلام سے پہلے اختیار کئے جاتے تھے، ان میں ایک طریقہ وہ تھا کہ جس کو حدیث ’’تلقی رکبان‘‘ (مسلم، حدیث نمبر: ۱۵۱۵) سے تعبیر فرمایا گیا ہے، اس زمانہ میں موجودہ دور کی طرح بڑی بڑی مارکٹیں نہیں تھیں، وہ اپنی جگہ سے مال لے کر چلتے، مختلف منزلوں میں اپنا مال بیچتے جاتے اور وہاں کی پیداوار خریدتے جاتے، پھر اسے اگلی منزلوں پر فروخت کرتے، یہ تجارتی قافلے مختلف شہروں اور ملکوں کے درمیان تجارت کا ذریعہ تھے، ہوتا یہ تھا کہ جب شہر کے بڑے سرمایہ داروں کو خبر ہوتی کہ فلاں جگہ سے تجارتی سامان لے کر ایک قافلہ آرہا ہے تو وہ شہر سے باہر نکل کر پورا سامان خرید کرلیتے، قافلہ شہر میں داخلہ ہوئے بغیر باہر ہی باہر آگے بڑھ جاتا، اب قیمت ان تاجروں کے ہاتھ میں ہوتی، وہ اپنی من مانی قیمت میں سامان فروخت کرتے، ان کے آگے بڑھ کر قافلہ سے سامان خریدنے کا منشاء یہی ہوتا کہ اگر قافلہ شہر کے اندر آگیا تو قیمتیں گِرجائیں گی؛ کیوں کہ جب طلب کے مقابلہ میں رسد بڑھ جائے تو فطری طور پر قیمتیں کم ہوجاتی ہیں؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہ کو منع فرمایا، فقہاء نے لکھا کہ اگرچہ اس طرح خریدے ہوئے سامان پر خریدار کی ملکیت قائم ہوجائے گی؛ لیکن خریدوفروخت کا یہ معاملہ مکروہ ہوگا۔

مصنوعی گرانی پیدا کرنے کی ایک اور شکل وہ تھی جس کو حدیث میں ’’بیع حاضر للبادی‘‘ کہا گیا ہے، (بخاری، حدیث نمبر: ۲۱۶۲) یعنی دیہات کے لوگ خاص کر کاشتکار اپنا سامان بیچنے کے لئے شہر آتے، شہر کے تاجروں کو خطرہ ہوتا کہ سامان کی وافر مقدار آنے کی وجہ سے شہر میں قیمتیں گِرجائیں گی؛ اس لئے وہ ان دیہاتیوں کو کہتے کہ تم سامان ہمارے حوالہ کردو، ہم اسے بیچ کر تمیں پیسہ ادا کردیں گے، دیہات سے آئے ہوئے لوگ اس پر راضی ہوجاتے؛ کیوں کہ انہیں مناسب قیمت مل جاتی تھی اور اپنے مال کے فروخت کے لئے انتظار بھی نہیں کرنا پڑتا تھا، شہر کے تاجروں کا یہ فائدہ ہوتا تھا کہ بازار میں قیمت گرتی نہیں تھی اور جو قیمت انھوں نے مقرر کررکھی تھی، وہ قیمت جاری رہتی تھی؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت کو بھی منع فرمادیا۔

خریدوفروخت کی اِن صورتوں کو منع فرمانے کی حکمت یہی تھی کہ عوام کو نقصان سے بچایا جائے، فصل کی پیداوار آنے یا مارکیٹ میں زیادہ سامان آنے کی وجہ سے جو ارزانی پیدا ہوتی، وہ نہ ہونے پائے، اور اس کا عام لوگوں کو نقصان ہوتا، غور کریں تو یہ زرعی قوانین جہاں کسانوں کے لئے نقصان دہ ہیں، وہیں عوام کے لئے بھی پریشان کن ثابت ہوں گے، ان ہی بنیادی ضروریات بھی مہنگے داموں خریدنی پڑیں گی اور غریبوں کے لئے اپنی دال روٹی کا انتظام بھی مشکل ہو جائے گا، الغرض کہ یہ قانون ایک طرف کسانوں کا استحصال کرتا ہے، پھر اس سے ایک اور نقصان یہ ہوگا کہ زرعی پیداوار کے ذریعہ پہلے ہی سے کسانوں کو کم آمدنی حاصل ہو پاتی ہے، بعض دفعہ تو جو خرچ کیا جاتا ہے، وہ بھی نہیں مل پاتا، اس کی وجہ سے بہت سے علاقوں میں کسان اپنی آبادیوں کو چھوڑ کر محنت ومزدوری کے لئے شہر کے طرف آرہے ہیں اور وہ اپنے بال بچوں کے لئے چاہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو اس پیشہ سے دور رکھیں، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آہستہ آہستہ زرعی پیداوار کم ہوتی جائے گی، اور بنیادی ضروریات کی قلت پیدا ہوجائے گی، یقیناََ یہ بہت بڑا قومی نقصان ہوگا، اس میں شبہ نہیں کہ حکومت زیادہ قیمت پر کسانوں سے اناج خرید کرتی ہے اور کم قیمت پر عوام کو فروخت کرتی ہے، کسی وزیر کا بیان آیا تھا کہ اس کی وجہ سے حکومت کو ہر سال ایک ہزار کروڑ کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے، کتنی عجیب بات ہے کہ سرمایہ دار گھرانوں کا غصب کیا ہوا ہزاروں ہزار کروڑ کا قرض تو معاف کردیا جائے؛ لیکن جو کسان دھوپ، ٹھنڈ اور بارش کی پروا کئے بغیر کھیتی کرتا ہے اور پورے ملک کو ضروریات زندگی فراہم کرتا ہے، اس کے مفاد کے لئے ایک ہزار کروڑ بھی برداشت نہیں کیا جائے! (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

https://saagartimes.blogspot.com/2021/01/blog-post_29.html



Sunday, 24 January 2021

غلطی ہائے مضامین ۔۔۔ ہم جو کہتے ہیں سراسر غلط

غلطی ہائے مضامین ۔۔۔ ہم جو کہتے ہیں سراسر غلط 
زیرنظر کالم کا مستقل عنوان غالبؔ کی ایک غزل کے مشہور شعر سے ماخوذ ہے:۔
غَلَطی ہائے مضامیں مت پوچھ
لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں
(یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس شعر میں’’مضامیں‘‘ کو نون غُنّہ کے ساتھ پڑھا جائے گا، کچھ لوگ غلط طور پر ’’ن‘‘ ناطق کے ساتھ پڑھتے ہیں۔)
یوں تو یہ پوری غزل ہی غالبؔ نے خوب باندھی ہے، مگر اس معترضانہ شعر پر کئی اعتراضات ہوئے۔ ایک تو غالب نے پہلی بار کسی شعر میں لفظ ’’غَلَطی‘‘ استعمال کیا۔ اس سے قبل ایسی غلطی کسی نے نہیں کی تھی۔ ’’غلطی‘‘ کے لئے بھی لفظ ’’غلط‘‘ ہی استعمال ہوتا تھا، کہ فارسی میں ایسا ہی ہے۔ میرؔ کا یہ شعر اس کی مثال ہے:۔
غلط اپنا کہ اُس جفا جو کو
سادگی سے ہم آشنا سمجھے
اس شعر میں میرؔ نے اپنی ’’غلطی‘‘ ہی کا اعتراف کیا ہے، یعنی خطا میری ہی تھی۔ مگر اسے ’’اپنی غلطی‘‘ نہیں کہا ’’اپنا غلط‘‘ قرار دیا۔ تاہم غالبؔ کی غلطی سے اردو میں ’’غلطی‘‘ عام ہوگئی۔ مشہور مقولہ ہے غَلَط العام فصیحٌ۔ یعنی جو غلطی عام ہوجائے اور جسے فصحا جائز قرار دیں وہ فصیح سمجھی جائے گی۔ پس اب ’غلطی‘کہنا غلط نہیں رہا۔ البتہ ایسی غلطی جو عام لوگ اپنی ناواقفیت اور جہالت کی وجہ سے کرتے ہوں اور جس کو فصحا صحیح نہ مانتے ہوں (جیسے تابع کی جگہ تابعدار لکھنا اور بولنا) تو ایسی غلطیوں کو غلط العوام کہا جاتا ہے اور قبول نہیں، رَد کردیا جاتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ اس شعر میں ’’نالے کو رسا باندھنا‘‘ غلطی قرار دیا گیا ہے، بلکہ ’’غلطی ہائے مضامیں‘‘۔ اس کے باوجود غالبؔ نے خود بھی جا بجا نالے کو رسا باندھ رکھا ہے۔ مثلاً:۔
دل میں آجائے ہے، ہوتی ہے جو فرصت غش سے
اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں
خیر، اپنا اپنا تجربہ ہے۔ غالبؔ کا تجربہ یہ تھا کہ ان کے نالے (یعنی آواز کے ساتھ رونے دھونے) کی کہیں رسائی نہیں۔ لہٰذا ’’نالے کو رسا باندھنا‘‘ ٹھیک نہیں۔ اپنا تجربہ ذرا مختلف ہے۔ ہمارے ہاں جب سیلابی بارش ہوتی ہے تو راولپنڈی کے نالہ لئی اور کراچی کے لیاری نالے سمیت ہر نالے کی رسائی شہر بھر تک ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد کسی کی، کسی تک رسائی نہیں رہتی۔ سو، پنڈی میں تو ہم نے خود دیکھا ہے کہ لوگ نالے پر رسّا باندھ باندھ کر نالہ پار کے لوگوں تک رسائی کرتے رہتے ہیں۔
لڑکپن میں ہم اپنے ساتھیوں سے ایک سوال کیا کرتے تھے:۔
’’بتائیے وہ کون سا لفظ ہے جسے بڑے بڑے عالم فاضل لوگ بھی غلط لکھتے، غلط پڑھتے اور غلط بولتے ہیں؟‘‘
سوال سنتے ہی سب سوچ میں پڑجاتے۔ جب اپنی سوچ کے گھوڑے دوڑا دوڑا کر (مع اپنے گھوڑوں کے) تھک جاتے تو ہم انھیں فخر سے بتاتے:
’’وہ لفظ، خود لفظِ ’’غلط‘‘ ہے۔ ’’غلط‘‘ کو اگر غلط نہ لکھا جائے، غلط نہ پڑھا جائے اور غلط نہ بولا جائے تو اور کیا کیا جائے؟‘‘
مگر اب ہمارے ذرائع ابلاغ نے بتادیا ہے کہ ’’اور کیا کیا جائے‘‘۔ اِس ضمن میں انھوں نے یہ طے کیاکہ جب ہم دوسرے الفاظ کے غلط تلفظ عام کررہے ہیں، تو لفظ ’’غلط‘‘ کو کیوں بخشا جائے؟ چناں چہ اب ’’غلط‘‘ کا بھی غلط تلفظ عام کیا جارہا ہے۔ غلط کے ’’ل‘‘ کو جزم کے ساتھ (یعنی لام ساکن) بولا جانے لگا ہے۔ جب کہ ’’غلط‘‘ اور’’غلطی‘‘ میں غین اور لام دونوں پر زَبر ہے۔ رندؔ کہتے ہیں:۔
ہم جو کہتے ہیں سراسر ہے غَلَط
سب بجا آپ جو فرمائیے گا
لُغوی اعتبار سے غلط کا مطلب ہے ’’خطا کرنا‘‘۔ جیسا کہ اوپر میرؔ کے شعر سے ظاہر ہے۔ مگر اب لفظ ’’غلطی‘‘ رائج ہوجانے کی وجہ سے اردو میں غلط کا مطلب نادرست، غیرصحیح، بگڑا ہوا، خلافِ واقعہ اور جھوٹ ہے۔ جب کہ غلطی کا مطلب لغزش، قصور اور خطا ہے۔
عربی اور فارسی کا لفظ ہونے کی وجہ سے غلط کی جمع اغلاط ہے۔ مگر غلطی چوں کہ صرف اردو بولنے والے ہی کرتے ہیں، چناں چہ غلطی کی جمع غلطیاں ہے۔ غلط کا تابع مہمل سَلَط ہے۔ ’’کیسی غلط سلط باتیں کررہے ہو!‘‘ غلط کے ساتھ دوسرے الفاظ نتھی کرکے نئے معانی بنالئے جاتے ہیں۔ مثلاً ’’غلط انداز‘‘۔ اس کا مطلب ہے نشانے پر نہ لگنے والا تیر، یا نشانے تک نہ پہنچنے والی نگاہ۔ فضل احمد کریم فضلیؔ کا شعر ہے:۔
اُس نگاہِ غلط انداز سے بچنا کیسا؟
اور گھایَل ہوا جو دُور نشانے سے رہا
’’رَہا‘‘ پر یاد آیا کہ اس کا ایک مطلب کسی کام سے رُک جانا یا باز رہنا بھی ہے۔ فضلیؔ کی اسی غزل کا مطلع ہے:۔
میں اُنھیں حالِ دلِ زار سنانے سے رہا
آہ کرنے سے رہا، اشک بہانے سے رہا
اگر کوئی بات سمجھنے میں غلطی ہوجائے تو اُسے ’’غلط فہمی‘‘ کہتے ہیں۔ اپنی ناسمجھی یا کسی اور وجہ سے کچھ غلط سمجھ لینے کو (میم پر پیش کے ساتھ) مُغالَطہ ہونا کہا جاتا ہے، اور جان بوجھ کر کسی واقعے میں غلط باتیں بیان کرنا مُغالَطہ پیدا کرنا کہلاتا ہے۔ محاورہ تو سمجھنے یا سمجھانے میں ’’غلطی ہونا‘‘ اور ’’غلطی کرنا‘‘ ہے، مگر ذرائع ابلاغ ہی سے معلوم ہوا کہ بعض لوگوں کو ’’غلطی لگتی‘‘ بھی ہے اور بڑے زوروں سے لگتی ہے۔ پچھلے سنیچر کوایک ٹی وی چینل سے ’’علم و حکمت‘‘ کی باتیں سنتے ہوئے یہ جان کر حد درجہ حیرت ہوئی کہ ہمارے عالم و فاضل برادرِ بزرگ علّامہ جاوید احمد غامدی کو بھی ’’غلطی لگی‘‘ اور اچھی خاصی لگی۔ اس کے باوجود یہ لوگ اپنی غلط اُردو دُرست کرنے کی فکر نہیں کرتے۔ غلط فہمی ہی کی طرح غلط گوئی، غلط بیانی اور غلط بخشی بھی ہے۔ ’’غلط بخشی‘‘ بے موقع سخاوت دکھانے کو کہتے ہیں۔ نہیں معلوم کہ صحیح ہے یا غلط، مگر ایک قصہ مشہور ہے کہ تیمور لنگ ایران فتح کرتے ہوئے جب شیراز پہنچا تو اُس نے حافظؔ شیرازی کو اپنے دربار میں طلب کیا۔ تیمور کو حافظؔ کے بہت سے اشعار زبانی یاد تھے۔ حافظؔ شیرازی خاصے خوش پوش تھے۔ اچھے سے اچھا لباس پہنا کرتے تھے۔ مگر تیمور کے دربار میں گئے تو معمولی کپڑے پہن کر گئے تاکہ بظاہر غریب نظر آئیں۔ جب وہ تیمور کے سامنے جاکر مؤدب کھڑے ہوگئے تو بادشاہ نے تیوریوں پر بل ڈال کر پوچھا: ’’یہ شعر تمھارا ہے؟
اگر آں تُرکِ شیرازی بدست آرد دلِ ما را
بخالِ ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را‘‘
(اگر وہ شیرازی تُرک [مُراد ہے محبوب] میرا دل اپنے ہاتھوں میں لے لے تو میں اُس کے سیاہ تل پر سمرقند و بخارا نچھاور کردوں)
تیمور کی زبان سے حافظؔ کو اپنا شعر سن کر خوش گوار حیرت ہوئی اور سر جھکا کر کہا:’’ہاں اے بادشاہ! یہ میرا ہی شعر ہے‘‘۔
بادشاہ نے غصے بھری رعونت سے کہا:۔
’’سمر قند کو ہم نے قیمتی جانیں گنواکر بزورِ شمشیر حاصل کیا ہے۔ پھر دنیا بھر سے نوادرات لاکر اسے مزیّن کیا اور اُس کے حسن وجمال میں چار چاند لگائے۔ اِدھر تم ہو کہ اس عظیم شہر کو مفت میں شیراز کی ایک دوٹکے کی چھوکری کو بخشے دے رہے ہو‘‘۔
بادشاہ کا غیظ و غضب دیکھ کر حافظؔ پہلے تو بہت سٹپٹائے اور گھبرائے کہ آج تو بُرے پھنسے، اس شعر نے تو جان لے لینے میں کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی۔ پھر ہمت کرکے اپنے ملبوس کی طرف اشارہ کیا اور کہا:۔
’’اے امیرِ تاتار! انھی غلط بخشیوں نے تو اِس حال کو پہنچایا ہے‘‘۔
’’این جواب بادشاہ را خوش آمد‘‘
یعنی یہ جواب بادشاہ کو پسند آیا اور اُس نے بہت سا انعام و اکرام دے کر حافظؔ کو رخصت کیا۔
https://saagartimes.blogspot.com/2021/01/blog-post_24.html



Saturday, 23 January 2021

سیاست کا کیا مطلب ہے؟

سیاست کا کیا مطلب ہے؟

لغت میں سیاست کے معنیٰ: 

حکومت چلانا اور لوگوں کی امر و نہی کے ذریعہ اصلاح کرنا ہے۔

اصطلاح میں: فن حکومت اور لوگوں کو اصلاح سے قریب اور فساد سے دور رکھنے کو سیاست کہتے ہیں۔

قرآن میں سیاست کے معنی: حاکم کا لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرنا، معاشرے کو ظلم و ستم سے نجات دینا، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا اور رشوت وغیرہ کو ممنوع قرار دینا ہے' دین اسلام کو اپنی اصل روح میں بھرپور طریقے سے نافذ کرنا۔

حدیث میں سیاست کے معنی: عدل و انصاف و فلاحی معاشرے کا قیام' اور تعلیم و تربیت کے ہیں۔

فلسفہ کی نظر میں: فلسفہ کے نزدیک فن حکومت، اجتماعی زندگی کا سلیقہ، صحیح اخلاق کی ترویج وغیرہ سیاست ہے۔

چوں کہ انسان خود بخود مندرجہ بالا امور سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا،لہٰذا کسی ایسے قانون کی ضرورت ہے جو انسانوں کو بہترین زندگی کا سلیقہ سکھائے، جس کو دین کہتے ہیں۔

اسلام میں سیاست اس فعل اور عمل کو کہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگ اصلاح کے قریب اور فساد سے دور ہوجائیں۔ اہل مغرب فنِ حکومت کو سیاست کہتے ہیں۔ امور مملکت کا نظم ونسق برقرار رکھنے والوں کو سیاستدان کہا جاتا ہے۔

اسلام دراصل ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور دین کا مفہوم تقریباً ہی سیاست کے بنتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں لفظ سیاست تو نہیں البتہ ایسی بہت سی آیتیں موجود ہیں جو سیاست کے مفہوم کو واضح کرتی ہیں، بلکہ قرآن کا بیشتر حصّہ سیاست پر مشتمل ہے، مثلاً عدل و انصاف، امربالمعروف و نہی عن المنکر، مظلوموں سے اظہارِ ہمدردی وحمایت ،ظالم اور ظلم سے نفرت اور اس کے علاوہ انبیا کرام علیہم الصلوۃ والسلام' چوٹی کے آصحاب الرسول' اہل بیت العظام اور اولیأ کرام کا اندازِسیاست بھی قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔

وَ قَالَ لَہُمۡ نَبِیُّہُمۡ  اِنَّ اللّٰہَ قَدۡ بَعَثَ لَکُمۡ طَالُوۡتَ مَلِکًا ؕ قَالُوۡۤا  اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہُ الۡمُلۡکُ عَلَیۡنَا وَ نَحۡنُ اَحَقُّ بِالۡمُلۡکِ مِنۡہُ وَ لَمۡ یُؤۡتَ سَعَۃً مِّنَ الۡمَالِ ؕ قَالَ  اِنَّ اللّٰہَ  اصۡطَفٰٮہُ عَلَیۡکُمۡ وَ زَادَہٗ بَسۡطَۃً فِی الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِ ؕ وَ اللّٰہُ یُؤۡتِیۡ مُلۡکَہٗ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ  وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۴۷﴾ سورہ البقرۃ آیت نمبر 247

ترجمہ: اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ: اللہ نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ بناکر بھیجا ہے۔ کہنے لگے: بھلا اس کو ہم پر بادشاہت کرنے کا حق کہاں سے آگیا؟ ہم اس کے مقابلے میں بادشاہت کے زیادہ مستحق ہیں، اور اس کو تو مالی وسعت بھی حاصل نہیں۔ نبی نے کہا: اللہ نے ان کو تم پر فضیلت دے کر چنا ہے اور انہیں علم اور جسم میں (تم سے) زیادہ وسعت عطا کی ہے، اور اللہ اپنا ملک جس کو چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت اور بڑا علم رکھنے والا ہے۔ آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی

ہُوَ الَّذِیۡۤ  اَرۡسَلَ  رَسُوۡلَہٗ  بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ  لِیُظۡہِرَہٗ  عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ  شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾ سورہ الفتح آیت نمبر 28

ترجمہ: وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے، تاکہ اسے ہر دوسرے دین پر غالب کردے۔ اور (اس کی) گواہی دینے کے لیے اللہ کافی ہے۔  آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی

ان آیات سے ان لوگوں کے سیاسی فلسفہ کی نفی ہوتی ہے جو سیاست کے لئے مال کی فراوانی وغیرہ کو معیار قرار دیتے ہیں ،سیاستدان کے لئے ذاتی طور پر ”دولت مند“ ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اسے عالم باعمل اور شجاع (دلیر) ہونا چاہئے۔

جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جُدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

(شاعرِمشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ)

مرادِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم' خلیفۂ الراشد الثانی امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہٗ کا دورِخلافت کرۂ ارض پر عالمِ انسانیت کے لئے ایک بہترین فلاحی اور اصلاحی حکومت کا نمونہ تھا جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ سیاست کو اگر دینِ حق سے جُدا کردیا جائے تو سیاست کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل دُنیائے سیاست کا ہے۔ ۔۔۔!

ایک دفعہ خلیفۂ الثانئ الاسلام' امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی الله تعالٰی عنہٗ مسجد نبوی ﷺ میں منبرِ رسول اللہ ﷺ پر کھڑے ہوکر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ: "اے عمر! ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہیں بتاؤگے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ دُگنا ہے جبکہ بیت المال سے جو کپڑا تمہارے حصّے میں ملا تھا وہ اس سے آدھا تھا"۔ تو سیّدنا عمر فاروق رضی الله تعالٰی عنہٗ نے کہا کہ: "کیا اس مجمع میں میرا بیٹا عبدالله ابنِ عمر موجود ہے؟ "۔ چنانچہ سیدنا عبدالله بن عمر رضی الله تعالٰی عنہٗ کھڑے ہوتے ہیں۔ سیدنا عمر فاروق رضی الله تعالٰی عنہٗ نے پوچھا کہ بیٹا بتاؤ کہ: "تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے؟ ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے میں قیامت تک اس مبارک منبر پر نہیں چڑھوں گا۔" سیدنا عبداللہ ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بتایا  کہ: "بابا کے حِصّہ میں جو کپڑا ملا تھا وہ ناکافی تھا کہ حِصّہ بقدرِجُثّہ آپ کا پورا جسم ڈھانپ سکے جبکہ آپ کے پاس پہلے سے پہنا ہوا جو لباس تھا وہ بھی بہت حد درجہ کا خستہ حال ہوچکا تھا۔ اس لئے میں نے اپنے حِصّے کا کپڑا اپنے والد گرامی کو دے دیا تاکہ آپ پورا لباس زیب تن کرسکیں."

ابن سعد اپنے طبقات میں یہ واقعہ بھی بیان کرتے ہیں کہ: "لوگ ایک دن امیرالمؤمنین سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کنیز (باندی) کا گزر ہوا۔ اُن لوگوں میں سے بعض کہنے لگے یہ باندی امیرالمؤمنین کی ہے۔ آپ (حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہٗ) نے سنتے ہی یہ فرمایا کہ: "امیرالمؤمنین کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ اللہ جل جلالہٗ کے مال میں سے باندی رکھے۔ میرے لئے صرف دو جوڑے کپڑے ایک گرمی کا اور دوسرا جاڑے کا اور اوسط درجے کا کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے۔ باقی میری وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے"۔

اپنے دورخلافت میں جب آپ رضی اللہ تعالٰی عنہٗ کسی شخص کو بطورِگورنر یا عاملِ حکومت تقرری کرکے کسی خطے میں بھیجتے تو یہ شرائط بتادیتے کہ:

"1- ترکی گھوڑے پر کبھی سوار نہیں ہونا؛

2۔ عمدہ کھانا کبھی نہ کھانا؛

3۔ باریک یا ریشمی کپڑا کبھی نہ پہننا اور؛

4۔ حاجت مندوں کی داد رسی کرتے رہنا۔"

اگر کسی گورنر یا عمالِ حکومت کو ان شرائط کی پاسداری کرتے نہ پاتے تو احتساب کرتے اور سزائیں دیتے۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

https://saagartimes.blogspot.com/2021/01/blog-post.html