ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کے دو قصوں کی استنادی حیثیت کیا ہے؟
صحابی رسول سیدنا ابو دجانہ رضی اللہ عنہ سے متعلق جو ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کا معمول تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کیا کرتے؛ مگر جوں ہی نماز سے فارغ ہوتے بعجلت تمام مسجد سے نکل جاتے۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھ ہی لیاکہ: ابو دجانہ! کیا تمھیں اللہ تعالی سے کسی حاجت کی طلب نہیں ہوتی؟ ابو دجانہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: کیوں نہیں اللہ کے رسول؟ بلکہ میں ایک لمحہ کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے بے نیاز نہیں ہوسکتا. تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: پھر کیوں نماز ختم ہوتے ہی اٹھ کر مسجد سے چلے جاتے ہو یعنی بیٹھ کر اطمینان سے اذکار وغیرہ کیوں نہیں کرتے اور فوراً نکل جاتے ہو؟
سیدنا ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وجہ یہ ہے کہ میرا ایک یہودی پڑوسی ہے اس کے ہاں کھجور کا ایک درخت ہے، جس کی شاخیں میرے گھر کے صحن میں پھیلی ہوئی ہیں، صبح اس کی پکی کھجوریں میرے صحن میں گری ہوتی ہیں۔ میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کے بیدار ہونے سے پہلے جلد کھجوروں کو سمیٹ کر پڑوسی کے گھر پہنچادوں کہیں ایسا نہ ہو کہ بھوکے پیاسے میرے بچے ان کھجوروں میں سے کوئی حصہ کھاجائیں۔
اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم میں نے ایک دفعہ اپنے ایک بچے کو ان کھجوروں میں سے کھاتے ہوئے دیکھا تو میں نے اس کے حلق میں اپنی انگلی ڈال کر اسے نگلنے سے پہلے واپس نکال لیا، جب میرا بچہ رونے لگا تو میں نے ڈانٹتے ہوئے کہا: کیا تم لجاتے نہیں کہ کل تمھارا باپ اللہ کے سامنے چور بن کر حاضر ہو؟
ابودجانہ کی بات سنتے ہی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہودی کے گھر جاکر کھجور کا وہ درخت اس سے خریدا اور ابودجانہ اور ان کی اولاد کو بلامعاوضہ ہبہ کردیا۔ جب یہودی کو حقیقت حال کا علم ہوا تو وہ اتنا متاثر ہوا کہ اپنے اہل وعیال سمیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور علانیہ اسلام قبول کرلیا۔ انتہی
الجواب وباللہ التوفیق:
یہ جو قصہ ہے یہ من گھڑت اور جھوٹا قصہ ہے جس کا کسی معتبر و مستند حدیث کی کتاب میں ذکر نہیں ہے.... اسے البكري نے (إعانة الطالبين على حل ألفاظ فتح المعين) اور الصفوري نے ("نزهة المجالس ومنتخب النفائس" (1/ 206)) میں بیان کیا ہے جس میں درج ذیل کئیں قباحتیں ہیں:
1) اس کی کوئی سند موجود نہیں اور البکری و الصفوری نے بھی اسے بلا سند ذکر کیا ہے.
2) صفوری کوئی محقق عالم بھی نہیں ہیں بلکہ ادیب و قصہ نگار ہیں جو بس قصوں و حکایتوں کو بیان کرتے ہیں اس بات سے صرف نظر کہ وہ صحیح و معتبر بھی ہیں یا نہیں. اسی لیے بکری نے اسے لطیفہ (فائدہ) اور صفوری نے اسے حکایت کہہ کر بیان کیا ہے جیسے اردو میں کہا جاتا ہے کہ "کہا جاتا ہے" "ایک دفعہ کا ذکر ہے" وغیرہ وغیرہ جس کا حقیقت وسچ سے تعلق ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی. اور یہاں اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے.
3) تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ درخت پر لگے یا درخت سے زمین پر گرے ہوئے پھلوں کو شرعاً عندالحاجہ یعنی ضرورت کے وقت بھوک میں کھایا جاسکتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ یا تو گرے ہوئے ہوں یا انہیں ہاتھ سے توڑا جاسکے اور صرف بھوک میں کھانے کے لئے لیا جائے ناکہ جمع کرنے یا لیجانے کے لئے ... جس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے جو جامع ترمذی (1287) و سنن ابن ماجہ (2301) میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مَنْ دَخَلَ حَائِطًا فَلْيَأْكُلْ وَلا يَتَّخِذْ خُبْنَةً) ورواه ابن ماجه بلفظ : (إِذَا مَرَّ أَحَدُكُمْ بِحَائِطٍ فَلْيَأْكُلْ وَلا يَتَّخِذْ خُبْنَةً ) والحديث صححه الألباني في صحيح الترمذي وابن ماجه.
کہ جب تم میں سے کوئی کسی باغ میں داخل ہو یا وہاں سے گزرے تو وہ (وہاں سے پھل وغیرہ) کھاسکتا ہے اور اسے ذخیرہ یا کپڑوں وغیرہ میں جمع نا کرے.
یہی رائے سیدنا عمر و ابن عباس رضی اللہ عنہم کی بھی ہے اور امام احمد و دیگر محققین اہل علم جیسے شیخ ابن عثيمين وغیرہ کی بھی ہے.
لہذا معلوم ہوا کہ یہ نا صرف موضوع قصہ ہے بلکہ مذکورہ صحیح احادیث اور ان سے ثابت شدہ مسئلہ کے بھی خلاف ہے جس سے اس قصے کی غیراستنادی حیثیت مزید واضح ہوجاتی ہے.
اور سب سے آخری بات یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و دیگر سلف صالحین کی عدالت، امانت اور تقویٰ ثابت کرنے کے لئے اور بہت سی احادیث ومستند واقعات موجود ہیں... لہٰذا جھوٹے اور من گھڑت قصے کہانیوں کے سہارے لینے کی کوئی ضرورت نہیں.
السؤال
أريد أن أسأل عن مدي صحة هذه القصة: اعتاد أبو دجانة أن يكون في صلاة الفجر خلف الرسول الكريم، ولكنه ما كاد ينهي صلاته حتى يخرج من المسجد مسرعا ، فلفت ذلك نظر الرسول الكريم، فاستوقفه يوما، وسأله قائلا: (يا أبا دجانة ، أليس لك عند الله حاجة ؟) قال أبو دجانة: بلى يا رسول الله ، ولا أستغنى عنه طرفة عين . فقال النبى: (إذن لماذا لا تنتظر حتى تختم الصلاة معنا، وتدعو الله بما تريد؟) قال أبو دجانة: السبب فى ذلك أن لى جارا من اليهود، له نخلة فروعها في صحن بيتى، فإذا ما هبت الريح ليلا أسقطت رطبها عندي، فترانى أخرج من المسجد مسرعا لأجمع ذلك الرطب، وأرده إلى صاحبه قبل أن يستيقظ أطفالى، فيأكلون منه وهم جياع ، وأقسم لك يا رسول الله أننى رأيت أحد أولادي يمضغ تمرة من هذا الرطب فأدخلت أصبعى في حلقه، وأخرجتها قبل أن يبتلعها، ولما بكى ولدي قلت له: أما تستحى من وقوفى أمام الله سارقا ؟ ولما سمع أبو بكر ما قاله أبو دجانة ، ذهب إلى اليهودي، واشترى منه النخلة ، ووهبها لأبى دجانة وأولاده، وعندما علم اليهودي بحقيقة الأمر أسرع بجمع أولاده وأهله، وتوجه بهم إلى النبى معلنا دخولهم الإسلام"؟
نص الجواب
الحمد لله
هذه القصة لا أصل لها ، وقد ذكر نحوها الصفوري في "نزهة المجالس ومنتخب النفائس" (1/ 206)، ونصها عنده:
"كان في زمن النبي صلى الله عليه وسلم رجل يقال له أبو دجانة، فإذا صلى الصبح خرج من المسجد سريعا، ولم يحضر الدعاء، فسأله النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال: جاري له نخلة يسقط رطبها في داري ليلا من الهواء، فأسبق أولادي قبل أن يستيقظوا، فأطرحه في داره، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لصاحبها: ( بعني نخلتك بعشر نخلات في الجنة، عروقها من ذهب أحمر، وزبرجد أخضر، وأغصانها من اللؤلؤ الأبيض ) فقال: لا أبيع حاضرا بغائب، فقال أبو بكر: قد اشتريتها منه بعشر نخلات في مكان كذا، ففرح المنافق ووهب النخلة التي في داره لأبي دجانة، وقال لزوجته: قد بعت هذه النخلة لأبي بكر بعشر نخلات في مكان كذا، وهي داري، فلا ندفع لصاحبها إلا القليل، فلما نام تلك الليلة وأصبح، وجد النخلة قد تحولت من داره إلى دار أبي دجانة ".
هكذا ذكرها، ولم يُحل على مصدرها، وحري بها أن يكون لا أصل لها، لما فيها من الركاكة.
قال ابن القيم رحمه الله:
"والأحاديث الموضوعة عليها ظلمة وركاكة ومجازفات باردة، تنادي على وضعها واختلاقها على رسول الله صلى الله عليه وسلم " انتهى من "المنار المنيف" (ص 50)
ثم ذكر جملة من الأمور الكلية، التي يعرف بها كون الحديث موضوعا ، ومنها : " ركاكة ألفاظ الحديث، وسماجتها، بحيث يمجها السمع، ويدفعها الطبع، ويسمج معناها للفطن" .
انتهى من "المنار المنيف" (ص 99) .
والصفوري ليس من العلماء المحققين، وإنما هو رجل أديب، يسوق في كتابه هذا الكثير من الأحاديث والحكايات المنكرة ، فلا يعتمد عليه.
لكن روى أحمد في المسند (12482)، وابن حبان (7159)، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: "يَا رَسُولَ اللهِ: إِنَّ لِفُلَانٍ نَخْلَةً، وَأَنَا أُقِيمُ حَائِطِي بِهَا، فَأْمُرْهُ أَنْ يُعْطِيَنِي حَتَّى أُقِيمَ حَائِطِي بِهَا، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (أَعْطِهَا إِيَّاهُ بِنَخْلَةٍ فِي الْجَنَّةِ) فَأَبَى، فَأَتَاهُ أَبُو الدَّحْدَاحِ فَقَالَ: بِعْنِي نَخْلَتَكَ بِحَائِطِي ، فَفَعَلَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي قَدِ ابْتَعْتُ النَّخْلَةَ بِحَائِطِي. قَالَ: فَاجْعَلْهَا لَهُ، فَقَدْ أَعْطَيْتُكَهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ( كَمْ مِنْ عَذْقٍ رَدَاحٍ لِأَبِي الدَّحْدَاحِ فِي الْجَنَّةِ) قَالَهَا مِرَارًا.
وصححه محققو المسند على شرط مسلم.
وينظر للفائدة جواب السؤال رقم : (87565).
---------------------------------------------------------------------------------------
روایتِ ’’حرزِ ابی دجانہؓ‘‘ کی تحقیق
علامہ بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں ’’حرزِ ابی دجانہؓ‘‘ کے نام سے ایک روایت نقل کی ہے کہ: حضرت ابودجانہ صحابی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جنات کی طرف سے ایذاء رسانی کی شکایت کی، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو اپنے تکیے کے نیچے رکھ کر سوگئے اور جنات کی عجیب وغریب حالت دیکھی- جس کا ذکر اس روایت میں موجود ہے، اس طرح وہ جنات کے شر سے محفوظ ہوگئے۔ اب لوگ جنات کے شر سے حفاظت کی غرض سے اس خط کو اپنے گھروں، دکانوں، وغیرہ میں رکھتے ہیں۔
ذیل میں اس بارے میں کلام ہے کہ کیا ’’دلائل النبوۃ‘‘ والی مذکورہ روایت (حرزِ ابی دجانہؓ) مطلقاً موضوع ہے؟ یا ’’دلائل النبوۃ‘‘ والی روایت کے علاوہ دیگر کتب میں دوسری سند سے مروی روایت موضوع ہے؟
واضح رہے کہ روایتِ حرز ابی دجانہؓ دو مختلف سندوں سے مروی ہے: ایک کو علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ نے ’’اللأٓلی المصنوعۃ‘‘ میں موسیٰ نامی راوی کے طریق سے نقل کرکے اسے موضوع قرار دیا ہے، اور وہ تقریباً بالاتفاق موضوع ہے، اس روایت سے بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے، البتہ آخر میں بمع سند کے ذکر کردی جائے گی، چنانچہ علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’موضوع وإسنادہٗ مقطوع وأکثر رجالہٖ مجہولون ولیس فی الصحابۃؓ من اسمہٗ موسٰی أصلا۔ ‘‘(۱)
جبکہ دوسری سند سے مروی روایت کو علامہ بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے’’دلائل النبوۃ‘‘ میں ذکر کرنے کے بعد اس کا تابع بھی بتایا ہے، اور موضوع روایت کی طرف اشارہ بھی فرمایا ہے۔ یہ روایت پہلی روایت سے سنداً تو مکمل مختلف ہے، متناً بھی اختلاف پایا جاتاہے۔
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں روایتِ حرزِ ابی دجانہؓ کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’تابعہٗ أبو بکر الإسماعیلي، عن أبی بکر محمد بن عمیر الرازي الحافظ عن أبی دجانۃ محمد بن أحمد ہٰذا، وقد روي فی حرز أبی دجانۃؓ حدیث طویل، وہو موضوع لا تحل روایتہٗ۔ ‘‘(۲)
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی اسی روایت کو علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’الخصائص الکبرٰی‘‘ میں ذکر کرنے کے بعد اس پر کوئی کلام اور تبصرہ نہیں کیا، جبکہ یہ صراحت بھی کی ہے کہ اس کی تخریج امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے، اگر یہ روایت ان کے ہاں موضوع ہوتی، تو ضرور اس کی تصریح کرتے، جیسا کہ ’’اللأٓلی المصنوعۃ‘‘ میں درج روایت کو نقل کرنے کے بعد اُسے واضح الفاظ میں موضوع قرار دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بیہقی vکی روایت ان کے نزدیک موضوع نہیں ہے، چنانچہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’باب فیہ ذکر حرز الجن المعروف بحرز أبی دجانۃؓ: أخرج البیہقي عن أبی دجانۃؓ قال: شکوت إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔۔ ‘‘ (۳)
’’دلائل النبوۃ‘‘ والی روایت ذکر کرتے ہوئے، اور اُسے ضعیف قرار دیتے ہوئے ائمہ نے اس بات کی صراحت بھی کی ہے کہ یہ روایت جس کو علامہ بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے، اس روایت کے علاوہ ہے جسے علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے’’اللأٓلی المصنوعۃ‘‘ میں ذکر کیا ہے، جو کہ موضوع ہے، چنانچہ حافظ ابن عبد البر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’سماک بن خرشۃ۔۔۔۔۔۔ وإسناد حدیثہٖ فی الحرز المنسوب إلیہ ضعیف۔ ‘‘(۴)
ابو سعد عبد الملک بن محمد نیسابوری خرکوشی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’أخرجہ البیہقي فی الدلائل، وقد اشترط ألا یخرج الموضوع وما لا أصل لہٗ، قال البیہقي عقبہٗ : وقد روي فی حرز أبی دجانۃؓ حدیث طویل وہو موضوع لاتحل روایتہٗ۔ فدل علٰی أن ما أوردہٗ بخلاف ذٰلک، واللّٰہ أعلم۔ ‘‘(۵)
علامہ ابن الاثیر جزری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’سماک بن خرشۃ: سماک بن خرشۃ، وقیل: سماک بن أوس بن خرشۃ بن لوذان بن عبد ود بن زید بن ثعلبۃ بن الخزرج بن ساعدۃ بن کعب بن الخزرج الأنصاري الساعدي، أَبُو دجانۃؓ ، وہو مشہور بکنیتہٖ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وأما الحرز المنسوب إلیہ فإسنادہٗ ضعیف۔ ‘‘ (۶)
ابن الکتان عراقی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’(ابن الجوزي) وفی سندہٖ انقطاع إذ لیس فی الصحابۃؓ من اسمہٗ موسٰی أصلا وأکثر رجالہٖ مجہولون (تعقب) بأن البیہقي أخرجہٗ فی الدلائل ( قلت) یعنی من طریق آخر بمخالفۃ لہٰذا بالزیادۃ والنقص ، ثم قال البیہقي: وقد روي فی حرز أبی دجانۃؓ حدیث طویل وہو موضوع لا تحل روایتہٗ، انتہٰی، ونقل القرطبي فی المفہم عن ابن عبد البرؒ أنہٗ قال: حدیث أبی دجانۃؓ فی الحرز المنسوب إلیہ فیہ ضعف وکأنہٗ یعنی روایۃ البیہقي ، واللّٰہ تعالٰی أعلم۔ ‘‘ (۷)
قال المحشی: ’’بل روایۃ البیہقي موضوعۃ أیضاً قطعاً۔ غ۔ ‘‘
محشی عبد اللہ محمد صدیق غماری صاحب کا اس روایت کو موضوع قرار دینا درست نہیں، کیونکہ اول تو انہوں نے کوئی دلیل ذکر نہیں کی، بغیر دلیل کے ان کی بات قابل قبول نہیں۔
اور اگر انہوں نے علی بن محمد الحمادی راوی پر امام حاکم اور دیگر حضرات کے کلام کی وجہ سے موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے تو اس کی پوری تفصیل آرہی ہے، یعنی اس راوی پر کلام کی وجہ سے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’دلائل النبوۃ‘‘ والی روایت کو موضوع نہیں کہا جاسکتا۔
اور اگر اس روایت میں مذکورہ مجاہیل روات کی وجہ سے موضوع کہا ہے تو بھی قواعد اور اصول کی رُو سے درست نہیں، کیونکہ کسی مجہول راوی کی وجہ سے حدیث پر وضع کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔
’’دلائل النبوۃ‘‘ والی روایت کی اِسنادی حیثیت
علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے موسیٰ نامی راوی کے طریق سے جس روایت کو ذکر کیا ہے، وہ تقریباً سب کے ہاں موضوع ہے۔ البتہ ’’دلائل النبوۃ‘‘ والی روایت کی سند میں تفصیل یہ ہے کہ ابتدائی دو راویوں کے علاوہ حضرت ابودجانہ صحابی رضی اللہ عنہ تک سلسلۂ سند ’’روایۃ الأٓباء عن الأبناء‘‘ ہے۔
ابتدائی دو راویوں میں پہلا راوی ثقہ ہے، صحیح بخاری کا راوی ہے، اس پر کوئی کلام نہیں، البتہ دوسرا راوی متکلم فیہ ہے، امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ اس راوی پر جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’سمعت مسعود بن علي یقول: سألت الحاکم أبا عبد اللّٰہ عن أبی أحمد الحبیبي، فقال: کان یکذب مثل السکر، فقلت: الحسنوی خیر أم الحبیبی؟ فقال الحسنوی أحسن منہ حالاً۔ ‘‘(۸)
علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے اتباع میں مذکورہ راوی کی طرف کذب کی نسبت کی ہے، چنانچہ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’قال الحاکم: یکذب مثل السکر، الحسنوی أحسن حالا منہ۔ ‘‘(۹)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’کذبہ أبو عبد اللّٰہ الحاکم۔۔۔۔ وقال الحاکم أیضًا: کان یکذب، وکان الحسنوی أحسن حالا منہ۔ ‘‘(۱۰)
اس کے علاوہ بعض دیگر ائمہ سے بھی اس پر جرح ثابت ہے، مگران کی جرح اس درجے کے نہیں جس سے روایت پر وضع کا حکم لگایا جاسکے۔
چنانچہ علامہ دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’وأما الحبیبي، فہو عبد الرحمٰن بن محمد الحبیبي المروزي، وعلي بن محمد الحبیبي ابن عمہٖ یحدثان بنسخ وأحادیث مناکیر۔ ‘‘ (۱۱)
سوالات حمزہ بن یوسف سہمی رحمة اللہ علیہ میں ہے:
’’وسألت أبا زرعۃ أحمد بن الحسین الرازي بالکوفۃ عن أبی أحمد علي بن محمد بن حبیب المروزي ، فقال: ضعیف جدا۔ ‘‘ (۱۲)
مذکورہ راوی علی بن محمد المروزی الحمادی کی صحت اور ضعف کا اصل دارومدار امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے قول پر ہے، کیونکہ یہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے استاذ اور ان کے ہم عصر ہیں، اس لئے اس بارے میں ان کے قول کا اعتبار کیا جائے گا۔ باقی جن ائمہ سے اس پر جرح منقول ہے، امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ ان کے اور اس راوی کے زمانے میں کافی بعد ہے، اور انہوں نے بھی اصل مدار امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو ہی قرار دیا ہے۔
امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس راوی پر جرح کرتے ہوئے اسے ’’کَذَّاب‘‘ کہا ہے، یعنی اس راوی پر ان سے جرح مفسر ثابت ہے، اور اکیلا ان الفاظ سے جرح مفسر کی صورت میں کسی روایت کو موضوع بھی قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن یہاں پر اگر اس اصل کو جاری کیا جائے، تو پھر ’’المستدرک علی الصحیحین‘‘ والی روایت کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ جبکہ اسی راوی کے ہوتے ہوئے اسے ’’صحیح الإسناد‘‘ بھی کہا ہے، صرف وہ نہیں، علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے ’’صحیح غریب‘‘ کہا ہے، حالانکہ جس روایت کی سند میں اگر کوئی راوی کذاب ہو، تو اصول وقواعد کی رو سے اسے موضوع قرار دیا جاتا ہے، مگر یہاں پراس کے برعکس امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو ’’صحیح الإسناد والمتن‘‘ اور ’’صحیح غریب‘‘ کہا ہے، اس لئے روایتِ حرزِ ابی دجانہؓ کو مذکورہ راوی علی بن محمد الحمادی پر کلام کی وجہ سے موضوع قرار دینا درست نہیں، جبکہ دیگر بعض ائمہ نے بھی اُسے ضعیف یا سندِ ضعیف سے مروی روایت کہا ہے، ورنہ پھر ’’المستدرک علی الصحیحین‘‘ والی روایت کو بھی موضوع کہنا پڑے گا، چنانچہ’’المستدرک علی الصحیحین‘‘ میں امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’حدثنا علي بن محمد الحمادي بمرو، ثنا أبو یعقوب إسحاق بن إبراہیم السرخسي، ثنا عبد الرحمٰن بن علقمۃ المروزي، ثنا عبد اللّٰہ بن المبارک، عن شعبۃ، ومسعر، عن عمرو بن مرۃ، عن أبی البختري، عن علي رضی اللّٰہ عنہ، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لجبریل علیہ الصلاۃ والسلام: من یہاجر معي؟ قال: أبو بکر الصدیقؓ۔ ’’ہذا حدیث صحیح الإسناد والمتن ولم یخرجاہ۔‘‘ (۱۳)
اور امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کے بارے میں ’’صحیح غریب‘‘ کہا ہے۔
اب یہاں پر اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ مذکورہ حدیث کی سند میں جس راوی کا ذکر ہے واقعۃً وہی راوی ہے، جس پر امام حاکم رحمت اللہ علیہ نے جرح کی ہے یا کوئی اور ہے؟ تو اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ حمادی نسبت کے دو شخص ہیں: ایک کا نام قاضی ابو الحسن الحمادی ہے، جبکہ دوسرے کا نام علی بن محمد بن عبد اللہ الحمادی ہے، یہ دوسرے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے استاذ ہیں، جن سے مستدرک میں روایت بھی ذکر کی ہے، اور جن پر جرح بھی کی ہے۔
چنانچہ ابوبکر محمد بن موسی الحازمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’باب الحمادي ، والحمادي: الأول من ولد حماد بن زید وہو القاضی أبو الحسن الحمادي۔۔۔۔۔۔۔ والثانی ینسب إلی جدہٖ وہو علي بن محمد بن عبد اللّٰہ الحمادي من أہل مرو، سمع محمد بن موسی بن حماد وغیرہ، روی عنہ الحاکم أبو عبد اللّٰہ الضبي۔ ‘‘ (۱۴)
محمد بن عبد الغنی ابن نقطہ الحنبلی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’وأما الحمادي بفتح الحاء المہملۃ والمیم المشددۃ أیضا وبعد الألف دال مہملۃ مکسورۃ فہوأبو أحمد علي بن محمد بن عبید اللّٰہ الحمادي حدث عن محمد بن موسی بن حاتم الباشاني وصالح بن محمد جزرۃ فی آخرین حدث عنہ الحاکم أبو عبد اللّٰہ فی تاریخ نیسابور۔ ‘‘ (۱۵)
ابن الاثیر الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’قلت: فاتہ النسبۃ إلی حماد بن زید واشتہر بہا القاضی أبو الحسن الحمادي روی عن الفتح بن شحرف۔ وفاتہ أیضًا علي بن محمد بن عبد اللّٰہ المروزي الحمادي سمع محمد ابن موسی بن حماد وغیرہ وروی عنہ الحاکم أبو عبد اللّٰہ۔ ‘‘(۱۶)
ان دو راویوں کے علاوہ مذکورہ سند میں جتنے راوی ہیں سب مجاہیل ہیں، سوائے ابو دجانہ صحابی رضی اللہُ عنہ کے، کافی تلاش کے بعد کہیں پر ان کا ذکر نہیں ملا۔ ان مجاہیل راویوں میں سے ہر ایک راوی مجہول العین ہے۔
واضح رہے کہ مجہول اور اس کے حکم میں محدثین اور احناف کا اختلاف ہے:
احناف کے ہاں مجہول راوی کی روایت کا حکم یہ ہے کہ اگر صدرِ اول یعنی قرونِ ثلاثہ کا راوی ہو، تو اس کی روایت مقبول ہوگی، ورنہ نہیں۔ (۱۷)
جبکہ محدثین کے ہاں مجہول کی اقسامِ ثلاثہ (ان کے نزدیک) میں سے مجہول العین راوی کی روایت کے حکم کے بارے میں تین قول ہیں:
پہلا قول یہ ہے کہ: مجہول العین کی روایت مطلقاً مقبول ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ: مطلقاً غیر مقبول ہے۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اکثر اہل علم کا اس پر اتفاق نقل کیا ہے، بعض کا اس میں بھی اختلاف ہے۔
تیسرا قول یہ ہے کہ: اس سے روایت کرنے والا اگر صرف ثقات سے روایت کرنے کا عادی ہو، تو مقبول ہوگی، ورنہ نہیں۔
لہٰذا اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مذکورہ روایت احناف کے ہاں مطلقاً اور محدثین کے ایک قول -جو کہ محقق ہے- کے مطابق غیر مقبول ہے، یعنی اس میں توقف اختیار کیا جائے گا، جب تک مذکورہ مجاہیل روات کی توثیق یا عدم توثیق ظاہر نہ ہو، اس وقت تک یہ روایت غیر مقبول ہوگی۔ (۱۸)
غیر مقبول ہونے کایہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ وہ موضوع ہے۔
اس لئے مذکورہ مجاہیل راویوں کی وجہ سے روایتِ حرزِ ابی دجانہؓ کو موضوع کہنا درست نہیں ہے۔
اب یہ امر قابل غور ہے کہ قواعد کی رو سے تو یہ روایت احناف اور محدثین کے نزدیک غیرمقبول ثابت ہوئی، مگر ان روات کے ہوتے ہوئے بعض ائمہ حدیث، جن میں حافظ ابن عبد البرؒ، ابن الاثیر الجزریؒ، ابو سعد عبد الملک بن محمد النیسابوریؒ اور ابن الکتان رحمہم اللہ جیسے ائمہ حدیث حضرات شامل ہیں، انہوں نے صراحت کے ساتھ ’’دلائل النبوۃ‘‘ والی روایت کو ضعیف یا سندِ ضعیف سے مروی روایت تو کہا ہے، موضوع نہیں کہا۔ جو تفصیل اور قواعد آج ہمارے سامنے موجود ہیں، یقینا یہ سب کچھ ان کے سامنے بھی موجود تھا، مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے ’’دلائل النبوۃ‘‘ والی روایت کو موضوع نہیں کہا۔ ’’دلائل النبوۃ‘‘ والی روایت کو کسی نے بھی صراحت کے ساتھ موضوع نہیں کہا، جس کسی نے بھی اس روایت کو ذکر کیا، اس نے یا تو سکوت اختیار کیا ہے یا واضح الفاظ میں اُسے ضعیف یا ضعیف الاسناد کہا ہے، البتہ ’’الخصائص الکبری‘‘ والی روایت کو واضح الفاظ میں موضوع قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا اس باب میں کلام کرنے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے، چنانچہ استاذ نور الدین عتر صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’غیر أنہٗ لما کان العہد قد بعد برجال الأسانید فإنہٗ یجب الاحتیاط الشدید فی ہٰذا الأمر، ولا یظن ظان أنہٗ من السہولۃ بحیث یکتفی فیہ بتقلیب کتب فی الرجال، کما یتوہم بعض الناس، حتی قد یتجرأ علی مخالفۃ الأئمۃ فیما حققوہ وقرروہ، بل یجب أن یوضع فی الحسبان کافۃ احتمالات الوہن والنقد فی السند والمتن، ثم لا یکون الحکم جازمًا، بل ہو حکم علی الظاہر الذی تبدی لنا۔‘‘(۱۹)
باقی علامہ ذہبی رحمة اللہ علیہ نے میزان الاعتدال میں یزید بن صالح کے ترجمہ میں غلامِ خلیل -جس کانام احمد بن محمد بن غالب البغدادی ہے- کے بارے میں جو فرمایا ہے کہ: انہوں نے یزید بن صالح کے طریق سے حرزِ ابی دجانہؓ -جو کہ مکذوب ہے- نقل کیا ہے، جسے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی من گھڑت قرار دیا ہے۔ سند کے صحیح ہونے کے باوجود بھی علامہ ذہبی رحمة اللہ علیہ نے اسے موضوع قرار دیا ہے، کیا اس سے مراد ’’دلائل النبوۃ‘‘ والی روایت ہے یا اس کی وجہ سے ’’دلائل النبوۃ‘‘ والی روایت پر کوئی اثر پڑتا ہے؟
اس کی وجہ سے ’’دلائل النبوۃ‘‘ والی روایت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ ہی وہ اس سے مراد لی جاسکتی ہے دو وجہ سے:
پہلی وجہ یہ ہے کہ ’’دلائل النبوۃ‘‘ کی روایت میں احمد بن محمد بن غالب البغدادی المعروف بہ غلامِ خلیل اور شعبہ کے نام کا کوئی راوی موجود نہیں ہے، یعنی وہ غلام خلیل کے طریق سے مروی نہیں ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ علامہ ذہبی رحمة اللہ علیہ نے ’’بسند الصحیح‘‘ کہہ کر یہ صراحت کردی کہ غلام خلیل کے طریق سے حرزِ مکذوب صحیح سند سے منقول ہے، جبکہ ’’دلائل النبوۃ‘‘ کی روایت سندِ صحیح سے منقول نہیں ہے، اس لیے یہاں پر حرزِ مکذوب سے مراد ’’دلائل النبوۃ‘‘ کی روایت نہیں لی جاسکتی۔
نیز اگر علامہ ذہبی رحمة اللہ علیہ کی مراد اس سے ’’دلائل النبوۃ‘‘ والی روایت ہوتی، تو اس کی تصریح ضرور فرماتے، مگر انہوں نے اس طرف التفات ہی نہیں فرمایا۔
دونوں حضرات علامہ ذہبیؒ اور حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ کے کلاموں کو بالترتیب نقل کیا جاتا ہے، چنانچہ علامہ ذہبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’یزید بن صالح الذی روی عنہ غلام خلیل حرز أبی دجانۃؓ، وہو حرز مکذوب، کأنہٗ من صنعۃ غلام خلیل، یرویہ عنہ شعبۃ بقلۃ حیاء بسند الصحیح۔‘‘ (۲۰)
حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’یزید بن صالح: الذی روی عنہ غلام خلیل: حرز أبی دجانۃؓ وہو حرز مکذوب کأنہٗ من صنعۃ غلام خلیل، یرویہ عن شعبۃ بقلۃ حیاء بسند الصحیح، انتہٰی۔ وہٰذا إن کان غلام خلیل اختلق المتن فلعلہٗ دلس الإسناد فأوہم أن شیخہٗ فیہ یزید بن صالح الفراء المذکور بعدہٗ۔ ‘‘(۲۱)
’’دلائل النبوۃ‘‘ کی روایت
اب اس کے بعد ’’دلائل النبوۃ‘‘ والی روایت ملاحظہ ہو، چنانچہ امام بیہقی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’أخبرنا أبو سہل محمد بن نصرویہ المروزي، قال: حدثنا أبو أحمد علي ابن محمد بن عبد اللّٰہ الحبیبي المروزي، قال: أخبرنا أبو دجانۃؓ، محمد بن أحمد بن سلمۃ بن یحیی بن سلمۃ بن عبد اللّٰہ بن زید بن خالد بن أبی دجانۃؓ، واسم أبی دجانۃؓ سماک بن أوس بن خرشۃ بن لوزان الأنصاري أملأہ علینا بمکۃ فی مسجد الحرام بباب الصفا سنۃ خمس وسبعین ومائتین، وکان مخضوب اللحیۃ۔ قال: حدثنی أبی أحمد بن سلمۃ قال: حدثنا أبی سلمۃ بن یحیی، قال: حدثنا أبی یحیٰی بن سلمۃ، قال: حدثنا أبی سلمۃ بن عبداللّٰہ، قال: حدثنا أبی عبد اللّٰہ بن زید بن خالد قال: حدثنا أبی زید بن خالد قال: حدثنا أبی خالد بن أبی دجانۃؓ، قال: سمعت أبی أبا دجانۃؓ یقول:
شکوت إلٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقلت: یا رسول اللّٰہ! بینما أنا مضطجع فی فراشی، إذ سمعت فی داری صریرًا کصریر الرحی، ودویًا کدوی النحل، ولمعًا کلمع البرق، فرفعت رأسی فزعًا مرعوبًا، فإذا أنا بظل أسود مولی یعلو، ویطول فی صحن داری فأہویت إلیہ فمسست جلدہٗ، فإذا جلدہٗ کجلد القنفذ، فرمی فی وجہی مثل شرر النار، فظننت أنہٗ قد أحرقنی، (وأحرق داری) فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: عامرک عامر سوء یا أبا دجانۃ ! ورب الکعبۃ ! ومثلک یؤذی یا أبادجانۃ ! ثم قال: ائتونی بدواۃ وقرطاس، فأتی بہما فناولہٗ علي بن أبی طالب وقال: اکتب یا أبا الحسن ! فقال: وما أکتب؟ قال: اکتب:’’ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ ہٰذا کتاب من محمد رسول رب العالمین صلی اللّٰہ علیہ وسلم، إلی من طرق الدار من العمار، والزوار، والصالحین، إلا طارقًا یطرق بخیر یا رحمٰن ! أما بعد: فإن لنا، ولکم فی الحق سعۃً، فإن تک عاشقًا مولعًا، أو فاجرًا مقتحمًا أو راغبًا حقًا أو مبطلاً، ہٰذا کتاب اللّٰہ تبارک وتعالٰی ینطق علینا وعلیکم بالحق، إنا کنا نستنسخ ما کنتم تعملون، ورسلنا یکتبون ما تمکرون، اترکوا صاحبَ کتابی ہذا، وانطلقوا إلی عبدۃ الأصنام، وإلی من یزعم أن مع اللّٰہ إلٰہًا آخر۔ لا إلٰہ إلا ہو کل شیء ہالک إلا وجہہٗ لہ الحکم وإلیہ ترجعون۔ یغلبون حم لا ینصرون، حٰمٓ عٓسٓقٓ، تفرق أعداء اللّٰہ، وبلغت حجۃ اللّٰہ، ولا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ فسیکفیکہم اللّٰہ وہو السمیع العلیم ‘‘۔۔۔ قال أبو دجانۃؓ: فأخذت الکتاب فأدرجتہٗ وحملتہٗ إلی داری، وجعلتہٗ تحت رأسی وبت لیلتی فما انتبہت إلا من صراخ صارخ یقول: یا أبادجانۃ! أحرقتنا، واللات والعزی، الکلمات بحق صاحبک لما رفعت عنا ہٰذا الکتاب، فلا عود لنا فی دارک، وقال غیرہٗ فی أذاک، ولا فی جوارک، ولا فی موضع یکون فیہ ہٰذا الکتاب۔ قال أبو دجانۃؓ: فقلت لا، وحق صاحبی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لأرفعنہٗ حتی أستأمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ قال أبودجانۃؓ: فلقد طالت علی لیلتی بما سمعت من أنین الجن وصراخہم وبکائہم، حتی أصبحت فغدوت، فصلیت الصبح مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأخبرتہٗ بما سمعت من الجن لیلتی، وما قلت لہم۔ فقال لی: یا أبا دجانۃ! ارفع عن القوم، فو الذی بعثنی بالحق نبیًا إنہم لیجدون ألم العذاب إلٰی یوم القیامۃ۔ تابعہٗ أبو بکر الإسماعیلی، عن أبی بکر محمد بن عمیر الرازي الحافظ عن أبی دجانۃ محمد بن أحمد ہٰذا، وقد روي فی حرز أبی دجانۃؓ حدیث طویل، وہو موضوع لا تحل روایتہٗ۔ ‘‘ (۲۲)
’’اللأٓلی المصنوعۃ‘‘ کی روایت
ذیل میں امام سیوطی رحمة اللہ علیہ کی ’’اللأٓلی المصنوعۃ‘‘ والی روایت اور امام بیہقی رحمة اللہ علیہ کی ’’دلائل النبوۃ‘‘ والی روایت، دونوں بمع ان کی سندوں کے ذکر کی جاتی ہیں، چنانچہ علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’( أخبرنا ) ہبۃ اللّٰہ بن أحمد الجریري أنبأنا إبراہیم بن عمر البرمکي أنبأنا أبوبکر محمد بن عبد اللّٰہ بن خلف بن نجیب حدثنا یحیی أبو یعلی عن حمزۃ بن محمد بن شہاب العکبري حدثنا أبی حدثنا إبراہیم بن مہدي الأیلي حدثنا عبد اللّٰہ بن عبد الوہاب أبو محمد الخوارزمي حدثنی محمد بن بکر البصري حدثنا محمد بن أدہم القرشي عن إبراہیم عن موسی الأنصاري عن أبیہ قال: شکی أبو دجانۃ الأنصاريؓ إلٰی رسول اللّٰہ فقال: یا رسول اللّٰہ ! بینا أنا البارحۃ نائم إذ فتحت، فإذا عند رأسی شیطان فجعل یعلوہ ویطول ، فضربت بیدی إلیہ فإذا جلدہ القنفذ ، فقال رسول اللّٰہ: ومثلک یؤذی یا أبا دجانۃ ! عامر دارک عامر سوء ورب الکعبۃ ! ادع لی علی بن أبی طالب فدعاہ یا أبا الحسن! اکتب لأبی دجانۃ الأنصاري کتابًا لا شیء یؤذیہ من بعدہ ، فقال: وما أکتب؟ قال: اکتب:
’’ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ہٰذا کتاب من محمد النبي العربي الأمي التہامي الأبطحي المکي المدني القرشي الہاشمي صاحب التاج والہراوۃ والقضیب والناقۃ والقرآن والقبلۃ صاحب قول لا إلٰہ إلا اللّٰہ إلٰی من طرق الدار من الزوار والعمار إلا طارقًا یبرق بخیر ، أما بعد! فإن لنا ولکم فی الحق سعۃً فإن یکن عاشقًا مولعًا أو مؤذیًا مقتحمًا أو فاجرًا مجتہرًا أو مدعی حق مبطلاً فہٰذا کتاب اللّٰہ ینطق علینا وعلیکم بالحق ورسلہ لدیکم یکتبون ما تمکرون، اترکوا حملۃ القرآن وانطلقوا إلٰی عبدۃ الأوثان إلٰی من اتخذ مع اللّٰہ إلہًا آخر، لا إلٰہ إلا ہو رب العرش العظیم یرسل علیکما شواظ من نار ونحاس فلاتنتصران فإذا انشقت السماء فکانت وردۃ کالدہان فیومئذ لا یسأل عن ذنبہ إنس ولا جان ، ثم طوی الکتاب ، فقال: ضعہ عند رأسک فوضعہ فإذا ہم ینادون النار النار أحرقتنا بالنار واللّٰہ ما أردناک ولا طلبنا أذاک ولکن زائر زارنا فطرق فارفع الکتاب عنا ، فقال والذی نفس محمد بیدہٖ لا أرفعہ عنکم حتی أستأذن رسول اللّٰہ فأخبرہٗ فقال: ارفع عنہم ، فإن عادوا بالسیئۃ فعد علیہم بالعذاب، فوالذی نفس محمد بیدہٖ ما دخلت ہذہ الأسماء دارا ولا موضعًا ولا منزلًا إلا ہرب إبلیس وذریتہٗ وجنودہٗ والغاوون۔‘‘
موضوع: وإسنادہٗ مقطوع وأکثر رجالہٖ مجاہیل ولیس فی الصحابۃؓ من اسمہٗ موسٰی أصلا۔ ‘‘ (۲۳)
مذکورہ بالا راویت کی سند میں موسیٰ نامی راوی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’موسٰی الأنصاريّ شخص کذّاب، أو اختلقہٗ بعض الکذابین، قال أبو الفرج بن الجوزيّ فی الموضوعات - بعد أن ساق حرز أبی دجانۃؓ، من طریق محمد بن أدہم القرشي، عن إبراہیم بن موسی الأنصاريّ، عن أبیہ ۔۔۔ بطولہٖ: ہٰذا حدیث موضوع، وإسنادہٗ منقطع، ولیس فی الصحابۃؓ من اسمہٗ موسی، وأکثر رجالہٖ مجاہیل۔ ‘‘ (۲۴)
محمد طاہر پٹنی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’حدیث حرز أبی دجانۃؓ فیہ مجاہیل، قلت: أخرجہ البیہقي فی الدلائل۔ الصغانی حرز أبی دجانۃؓ واسمہ سماک بن خرشۃ موضوع۔ وفی اللآلی عن موسی الأنصاري شکی أبو دجانۃ الأنصاري فقال: یا رسول اللّٰہ! بینا أنا البارحۃ نائم إذ فتحت عیني ، فإذا عند رأسی شیطان فجعل یعلو ویطول فضربت بیدی إلیہ ، فإذا جلدہٗ کجلد القنفذ ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ومثلک یؤذی یا أبا دجانۃ ! عامرک عامر سوء ورب الکعبۃ ادع لی علي بن أبی طالب فدعاہ ، فقال: یا أبا الحسن ! اکتب لأبی دجانۃؓ کتابا لا شیء یؤذیہ من بعدہ فقال: وما أکتب؟ قال: اکتب:
’’بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ہٰذا کتاب من محمد النبي العربي الأمي التہامي الأبطحي المکي المدني القرشي الہاشمي صاحب التاج والہراوۃ والقضیب والناقۃ والقرآن والقبلۃ صاحب قول لا إلٰہ إلا اللّٰہ إلٰی من طرق الدار من الزوار والعمار إلا طارقًا یطرق بخیر ، أما بعد فإن لنا ولکم فی الحق سعۃً ، فإن یکن عاشقًا مولعًا أو مؤذیًا مقتحمًا أو فاجراً یجہر أو مدعیًا محقًا أو مبطلاً فہٰذا کتاب اللّٰہ ینطق علینا وعلیکم بالحق ، ورسلنا لدینا یکتبون ما تمکرون ، اترکوا حملۃ القرآن وانطلقوا إلی عبدۃ الأوثان إلٰی من اتخذ مع اللّٰہ إلہا آخر لاإلٰہ إلا ہو رب العرش العظیم یرسل علیکما شواظ من نار ونحاس فلاتنتصران فإذا انشقت السماء فکانت وردۃ کالدہان فیومئذ لا یسأل عن ذنبہٖ إنس ولاجان ثم طوی الکتاب فقال: ضعہ عند رأسک فوضعہ فإذا ہم ینادون النار النار أحرقتنا بالنار واللّٰہ ما أردناک ولا طلبنا أذاک ولکن زائر زارنا وطرق فارفع عنا الکتاب ، فقال: والذی نفس محمد بیدہٖ لا أرفعہٗ عنکم حتی أستأذنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، فلما أصبح أخبرہٗ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: ارفع عنہم، فإن عادوا بالسیئۃ فعد إلیہم بالعذاب ، فوالذی نفس محمد بیدہٖ ما دخلت ہٰذہ الأسماء دارًا ولا موضعًا ولا منزلًا إلا ہرب إبلیس وجنودہٗ وذریتہٗ والغاوون۔ ‘‘
موضوع وإسنادہٗ مقطوع وأکثر رجالہٖ مجہولون ولیس فی الصحابۃؓ من یسمی بموسٰی أصلا۔ ‘‘ (۲۵)
مذکورہ بالا تفصیل سے یہ ثابت ہوگیا کہ ’’دلائل النبوۃ‘‘ کی روایت کو جس طرح مطلقاً صحیح کہنا درست نہیں، اسی طرح اسے مطلقاً موضوع کہنا بھی درست نہیں، البتہ حرزِ ابی دجانہؓ سے متعلق ’’اللآلی المصنوعۃ‘‘ میں موسیٰ نامی راوی سے منقول روایت کو ائمہ نے واضح الفاظ میں موضوع قرار دیا ہے، جبکہ ’’دلائل النبوۃ‘‘ والی روایت کے بارے میں یہ صراحت نہیں ملتی۔ مجاہیل راویوں کے ہوتے ہوئے اُسے ضعیف قرار دیا گیا ہے، اس لیے ائمہ کی تصریح کے بعد ہم اسے موضوع نہیں کہہ سکتے۔ یہ ساری تفصیل جو آج ہمارے سامنے ہے، یقینا ان کے سامنے بھی موجود تھی، مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے اسے موضوع نہیں کہا، بلکہ ضعیف کہا ہے، اس لئے کسی حدیث مبارکہ پر کلام کرنے میں غایت درجہ کی احتیاط کی ضرورت ہے۔
نیز اکابر میں سے حکیم الامت حضرت مولانا تھانوی رحمة اللہ علیہ نے بہشتی زیور میں، محمد قطب الدین دہلوی رحمة اللہ علیہ نے ظفر جلیل شرح حصن حصین میں حرز ابی دجانہؓ کا ذکر کیا ہے، جبکہ حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ نے اسے نہایت مجرب بھی بتایا ہے۔ اور حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ سے تجلیاتِ صفدرمیں نقل کیا گیا ہے۔ (۲۶)
--------------------------------------------------------------------------------
حواشی وحوالہ جات
۱:-اللآلی المصنوعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ، ، ج:۲، ص:۲۹۲، ’’کتاب الذکر والدعاء‘‘، ط: دار الکتب العلمیۃ۔ تذکرۃ الموضوعات:(۲۱۱) ’’باب حرز آخر جمعۃ من رمضان وحرز أبی دجانۃؓ ورقیۃ العقرب‘‘ ، ط:المکتبۃ القیمۃ۔
۲:-دلائل النبوۃ للبیہقی: (ج:۷، ص:۱۱۸) ’’باب ما یذکر من حرز أبی دجانۃؓ‘‘، ط: دار الکتب العلمیۃ۔
۳:-الخصائص الکبری: ج:۲، ص: ۱۶۶، ’’ذکر المعجزات فی رؤیۃ أصحابہ الجن‘‘، ط:دار الکتب العلمیۃ۔
۴:-الإستیعاب فی معرفۃ الأصحابؓ: (ج:۲، ص:۶۵۱) ’’ باب السین‘‘، رقم الترجمۃ: ۶۰۱۰، ط:دار الجیل۔
۵:-شرف المصطفیٰ، ج:۵، ص:۵۰۶، ’’ فصل: ذکر الآیات فی دعائہ المبارک‘‘، ط: دار البشائر الإسلامیۃ۔
۶:-أسد الغابۃ، ج:۲، ص:۳۰۰، ’’باب السین والمیم (سماک بن مخرمۃ، ‘‘، ط: دار الفکر، بیروت۔
۷:-تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الأخبار الشنیعۃ الموضوعۃ، ج:۲، ص:۳۲۴، ’’ کتاب الذکر والدعاء ‘‘، ط: مکتبۃ القاہرۃ۔
۸:-سؤالات مسعود بن علی السجزی:(۷۵) رقم الترجمۃ:۳۰، ط: دار الغرب الإسلامی ، بیروت۔
۹:-سیر أعلام النبلاء :ج:۱۶، ص:۴۸، ’’ الطبقۃ العشرون‘‘، ط:مؤسسۃ الرسالۃ۔
۱۰:-لسان المیزان:، ج:۶، ص:۲۲، ’’من اسمہ علي‘‘۵۴۹۱، ط: دار البشائر الإسلامیۃ۔
۱۱:-المؤتلف و المختلف، ج:۹، ص:۲۵۷، ’’باب الخشي و الحنیني والحبیبي‘‘، ط: دار الغرب الإسلامي، بیروت۔
۱۲:-سؤالات حمزۃ بن یوسف السہمی: (۲۲۴) ’’باب العین‘‘ رقم الترجمۃ: (۴۰۸)، ط: مکتبۃ المعارف الریاض۔
۱۳:- المستدرک علی الصحیحین، ج:۳، ص:۵۳۸، ’’ کتاب الہجرۃ وقد صح أکثر أخبارہا عند الشیخین‘‘، رقم الحدیث: ۴۳۲۵، ط: دار المعرفۃ۔
۱۴:- الفیصل فی علم الحدیث، ج:۷، ص:۵۸۸، ’’باب: الحمادی والحمادی‘‘ رقم الترجمۃ: ۱۱۲۱، ط:مکتبۃ الرشد۔
۱۵:- إکمال الإکمال ( تکملۃ لکتاب الإکمال لابن ماکولا) ابن نقطۃ الحنبلی البغدادی، ج:۱، ص:۱۵۰، ’’باب الجماری والحمادی‘‘ رقم الترجمۃ: ۱۳۰۹، ط: جامعۃ أم القری۔
۱۶:- اللباب فی تہذیب الأنساب لابن الأثیر الجزری، ج:۱، ص:۳۸۴، ’’باب الحاء المیم‘‘، ط: دار صادر۔
۱۷:- قال عبد العزیز بن أحمد البخاري الحنفي:’’وفی الحقیقۃ المجہول والمستور واحد إلا أن خبر المجہول فی القرون الثلاثۃ مقبول؛ لغلبۃ العدالۃ فیہم وخبر المجہول بعد القرون الثلاثۃ مردود لغلبۃ الفسق‘‘۔ (کشف الأسرار شرح أصول البزدوي، ج:۲، ص:۴۰۰، ’’باب تقسیم الراوي الذی جعل خبرہ حجۃ: الراوی المجہول‘‘، ط:دار الکتاب الإسلامي)
۱۸:- مجہول راوی کی دو قسمیں ہیں: ایک کو مجہول العین جبکہ دوسرے کو مجہول الحال کہا جاتاہے، مجہول العین وہ راوی ہے جس سے روایت کرنے والا صرف ایک شخص ہو، جیسے جبار الطائی ہے کہ ان سے صرف ابو اسحق سبیعی نے روایت کیا ہے۔
مجہول الحال کی بھی دو قسمیں ہیں: ظاہراً وباطناً دونوں طرح مجہول ہوگا یا صرف باطناً مجہول ہوگا، جس کو مستور کہا جاتا ہے، پہلے کی روایت مردود ہے اور دوسرے یعنی مستور کی روایت جمہور کے ہاں مقبول ہے، البتہ احناف کے ہاں مستور کی روایت مقبول ومعتبر ہونے کے لیے مستور کا قرونِ ثلاثہ میں سے ہونا شرط ہے۔
چنانچہ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: ’’فإن سمی الراوی، وانفرد راوٍ واحد بالروایۃ عنہ، فہو مجہول العین کالمبہم‘‘۔ (نزہۃ النظر (۱۲۵) ’’مجہول العین‘‘، ط: مکتبۃ سفیر)
علامہ سخاویؒ فرماتے ہیں: ’’واختلفوا أی: العلماء ( ہل یقبل ) الراوی ( المجہول ) مع کونہ مسمی ( وہو علی ثلاثۃ ) من الأقسام الأول: ( مجہول عین )، وہو کما قالہ غیر واحد:( من لہ راو ) واحد ( فقط ) کجبارالطائي۔۔۔۔۔۔۔ فإن کل واحد من ہؤلاء لم یرو عنہ سوی أبی إسحاق السبیعي۔ ( و ) لکن قد ( ردہ) أی: مجہول العین ( الأکثر ) من العلماء مطلقًا۔ وعبارۃ الخطیب: ‘‘ أقل ما یرتفع بہ الجہالۃ أی: العینیۃ عن الراوی، أن یروي عنہ اثنان فصاعدا من المشہورین بالعلم ، بل ظاہر کلام ابن کثیر الاتفاق علیہ، حیث قال: ’’ المبہم الذی لم یسم، أو من سمی ولا تعرف عینہ، لا یقبل روایتہ أحد علمناہ۔ نعم، قال: إنہ إذا کان فی عصر التابعین والقرون المشہود لأہلہا بالخیریۃ فإنہٗ یستأنس بروایتہ، ویستضاء بہا فی مواطن، کما أسلفت حکایتہ فی آخر رد الاحتجاج بالمرسل۔ وکأنہ سلف ابن السبکي فی حکایۃ الإجماع علی الرد ونحوہ قول ابن المواق: ’’ لا خلاف أعلمہ بین أئمۃ الحدیث فی رد المجہول الذی لم یرو عنہ إلا واحد، وإنما یحکی الخلاف عن الحنفیۃ ۔‘‘، یعنی کما تقدم۔ وقد قبل أہل ہذا القسم مطلقًا من العلماء من لم یشترط فی الراوي مزیدا علی الإسلام، وعزاہ ابن المواق للحنفیۃ حیث قال: إنہم لم یفصلوا بین من روی عنہ واحد وبین من روی عنہ أکثر من واحد، بل قبلوا روایۃ المجہول علی الإطلاق۔انتہی۔‘‘ (فتح المغیث، ج:۲، ص:۴۸، ’’ معرفۃ من تقبل روایتہٗ ومن لا ترد: الاختلاف فی المجہول‘‘ ، ط:مکتبۃ السنۃ)
۱۹:-منہج النقد فی علوم الحدیث:( ۲۸۴) ’’الفصل الثانی: فی أنواع الحدیث المردود‘‘، ط: دار الفکر۔
۲۰:-میزان الإعتدال، ج:۴، ص:۴۲۹، ’’حرف الیاء ‘‘ رقم الترجمۃ: ۱۲۹۷، ط:دار المعرفۃ۔
۲۱:-لسان المیزان، ج:۸، ص:۴۹۸، ’’ حرف الیاء:من اسمہ یزید‘‘ رقم الترجمۃ:۸۵۷۱، ط: دار البشائر الإسلامیۃ۔
۲۲:-دلائل النبوۃ للبیہقي:، ج:۷، ص:۱۱۸، ’’باب ما یذکر من حرز أبی دجانۃؓ‘‘، ط:دار الکتب العلمیۃ۔
۲۳:-اللآلی المصنوعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ، ج:۲، ص:۲۹۲، ’’ کتاب الذکر والدعاء ‘‘، ط: دار الکتب العلمیۃ۔
۲۴:-الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج:۶، ص:۳۰۵، رقم الترجمۃ:۸۶۵۷، ط: دار الکتب العلمیۃ۔
۲۵:-تذکرۃ الموضوعات:۲۱۱، ’’باب حرز آخر جمعۃ من رمضان وحرز أبی دجانۃؓ ورقیۃ العقرب‘‘ ط:المکتبۃ القیمۃ۔
۲۶:-بہشتی زیور:۶۵۶، ’’حصہ نہم‘‘، ط:دار الإشاعت۔ ظفر جلیل، ص:۱۹۰، ط:حیدری، بمبئی۔ تجلیاتِ صفدر، ج:۴، ص:۴۶۳، ’’تعویذ کی ایک کتاب پر تبصرہ‘‘، ط: مکتبۃ امدادیۃ۔