ترکی کا سبق؛ دوسری قسط
مگر ترک مسلمانوں میں اسلام کی طرف واپسی کی آرزو باقی رہی، اور انہوں نے اس کے لئے ایک طویل اور پُرمشقت سفر طے کیا، جب دینی مدارس اور مذہبی اداروں پر پابندی لگ گئی تو وہاں کے علماء ومشائخ نے خانقاہوں کے ذریعہ اسلام کے تحفظ کا فریضہ انجام دیا، اور صوفیانہ اوراد واشغال کے پردہ میں نئی نسل کو دین کی تعلیم دی، اور انہیں اسلام سے جوڑا، جو لوگ اپنی ظاہری وضع قطع کے اعتبار سے بالکل آزاد خیال اور سیکولر نظر آتے تھے، ان کے دل ودماغ پر بھی محنت کی، پھر یہی تربیت یافتہ افراد بتدریج سیاست کے میدان میں آئے، اور پہلی بار جب ایک وزیر اعظم نے عربی زبان میں اذان کی اجازت دی تو اسی کی پاداش میں اس مرد مومن کو پھانسی کا پھندا قبول کرنا پڑا، پھر آہستہ آہستہ اسلام پسندوں کے نمائندہ کی حیثیت سے نجم الدین اربکان میدان عمل میں اُترے، فوج کے مظالم کے باوجود عوامی تائید وتقویت کی وجہ سے اس طبقہ کی قوت بڑھتی گئی، یہاں تک کہ طیب اردگان ایک روشنی بن کر طلوع ہوئے، اور پختہ عزم وحوصلہ، جہد مسلسل، خداداد ذہانت اور جذبۂ خدمت کی بدولت اب ترکی کی مسند صدارت پر جلوہ افروز ہیں، یہ مقام انہوں نے اکثر مسلم ممالک کی طرح خاندانی بادشاہت اور فوجی آمریت کے ذریعہ حاصل نہیں کیا؛ بلکہ وہ لوگوں کے دلوں کی دھڑکن، ان کی محبت کا مرکز اور ان کا مطلوب ومقصود بن گئے، اللہ تعالیٰ ہر طرح کے شرور سے ان کی حفاظت فرمائے، اور ترکوں کو اس لائق بنائے کہ وہ نہ صرف اپنی؛ بلکہ پورے عالم اسلام کی عظمت رفتہ کو واپس لائیں، اور صہیونی وصلیبی طاقتوں کی غلامی سے عالم اسلام کو آزاد کروائیں۔
ترکی کے اس خوش گوار انقلاب میں کئی سبق آموز پہلو ہیں، جو عالم اسلام کے لئے بھی اہم ہیں، اور غیر مسلم اکثریت ممالک میں آباد مسلمانوں کے لئے بھی۔
۱۔ افراد سے سماج بنتا ہے اوراکثر ملک مختلف سماجی اکائیوں پر مشتمل ہوتا ہے، عموماََ جو لوگ اصلاح کا عَلَم لے کر اُٹھتے ہیں، وہ شروع ہی سے ایک وسیع، ملک گیراور بے لچک اصلاح کی بات کرتے ہیں اور حکومت یا نظام حکومت کی تبدیلی کی بات کی جاتی ہے، اس کی وجہ سے باہمی ٹکراؤ کی نوبت آتی ہے، جیسے ہر جاندار کو سب سے زیادہ عزیز اپنی جان ہوتی ہے، حکمرانوں کو اپنی جان سے بھی بڑھ کر اپنی حکومت عزیز ہوتی ہے، اس کا نتیجہ ہوتا ہے کہ ظالم حکمرانوں کے جوروظلم کی وجہ سے احتجاج کرنے والی قوتیں پاش پاش ہوکر رہ جاتی ہیں، کبھی کوششوں کا آغاز پورے سماج سے کیا جاتا ہے؛ لیکن اگر افراد تربیت یافتہ نہ ہوں تو ایسی کوششیں تشدد کا رنگ اختیار کرلیتی ہیں؛ چنانچہ پڑوسی ملک میں ایسا ہوا کہ برائی کی کی اصلاح کے نام پر لوگوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ایسا عمل اور رد عمل شروع ہوا کہ پورے ملک کا امن وامان غارت ہوگیا۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ فرد سے اصلاح شروع کی جائے، اس کا نتیجہ بتدریج ظاہر ہو تا ہے، مگر اس کا اثر گہرا ہوتا ہے اوریہ کوشش پُر امن انداز میں انجام پذیرہوتی ہے، ترکی میں ایسا ہی ہوا کہ کوئی سیاسی تحریک برپا کئے بغیر انفرادی طور پر ذہن سازی کی گئی، یہ ذہن سازی عوام کی تو کی ہی گئی؛ لیکن خاص طور پر ان نوجوان طلبہ وطالبات کی بھی کی گئی، جن کو مستقبل میں سرکاری عہدوں کی کرسیوں پر بیٹھنا تھا، اور فوجی نظام کا حصہ بننا تھا، اس میں دیر تو لگی؛ لیکن ایسی تبدیلی آئی کہ فوج میں بھی اچھی خاصی تعداد اسلام پسند لوگوں کی ہو گئی، اور جب اردگان کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی تو فوج کی ایک بہت چھوٹی سی ٹکڑی ہی اس بغاوت میں شامل ہوئی،اور عوام اس طرح دیوانہ وار باہر نکل آئے کہ آخر یہ بغاوت ناکام ہوئی۔
۲۔ ترکی کے حالیہ انقلاب نے ثابت کیا ہے کہ آج بھی صالح انقلاب کے لئے سب سے مؤثر طریقہ وہی ہے، جو خانقاہوں کے ذریعہ اختیار کیا جاتا رہا ہے، یہ نظام دلوں میں ایمان کی چنگاری کو سلگاتا ہے، سوچ کو بدلتا ہے اور کسی ٹکراؤ کے بغیر اپنے حلقے کو وسیع کرتا جاتا ہے، اسی نظام کے ذریعہ بہت سے ملکوں میں اسلام کی اشاعت ہوئی، خاص کر برصغیر میں اسلام کی اشاعت میں اس کا بڑا رول رہا ہے، اسی طریقہ پر ہندوستان میں حضرت مجدد الف ثانیؒ کی کوششیں بار آور ہوئیں، اسی انداز پر نورسی تحریک نے پورے ترکی پر اپنا اثر ڈالا؛ چونکہ تزکیہ نفس کے یہ ادارے کسی ٹکراؤ کے بغیر کام کرتے ہیں اور دوست ودشمن سب کو گلے لگاتے ہیں؛ اس لئے ان کی مزاحمت نہیں ہوتی، اگر اس نظام کو بدعت سے بچاتے ہوئے فروغ دیا جائے تو افراد کی اصلاح کے لئے شاید ہی اس سے مؤثر کوئی اور طریقہ ہو۔
۳۔ یہ بھی ضروری ہے کہ دینی کام کا بیڑا اُٹھانے والے حضرات عبادت اور حُسن اخلاق کے ساتھ ساتھ خلق اللہ کے لئے اپنی نافعیت ثابت کریں، اور اس کی بنیاد ہے: عصری تعلیم اور جدید ٹکنالوجی کی طرف توجہ، افسوس کہ گزشتہ کئی صدیوں سے نہ مسلمانوں نے اس پر توجہ دی اور نہ مسلم حکومتوں نے، آج کل دانشور حضرات کو اجتہاد کی بڑی فکر دامن گیر ہوتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے سارے زوال کا سبب اجتہاد کا بند ہو جانا ہے، یہ بالکل سطحی اور غیر واقعی سوچ ہے، اولاََ تو علماء نے جہاں اجتہاد کی ضرورت نہیں ہے،وہیں اجتہاد سے منع کیا ہے، اگر نئے مسائل درپیش ہوں اور اجتہاد کی ضرورت ہو تو وہاں کسی نے اجتہاد سے منع نہیں کیا؛ لیکن یہ حضرات غور کریں کہ اُن کا میدان توعصری تعلیم، سائنس اورٹکنالوجی کا ہے، کیا کبھی کسی عالم نے آپ کے میدان میں اجتہاد کرنے سے منع کیا ہے؟ طب یونانی سیکڑوں سال سے مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے؛ مگر جو لوگ اس علم سے وابستہ ہیں، انہوں نے اس کو آگے بڑھانے پر کیا توجہ دی اوریہ دوسرے طریقہ ہائے علاج کے مقابلہ کیوں پیچھے ہوگیا؟ یہی حال عرب ملکوں کا ہے، اللہ نے ان کو بغیر محنت کے دولت دی، جو زمین کے اندر سے ابلتی ہے؛ لیکن انہوں نے صرف بلندو بالا عمارتیں اور خوب صورت محلات تعمیر کرنے میں اپنے پیسے خرچ کئے، وہ سوئی سے لے کر جہاز ، اور بندوق سے لے کر میزائل تک ہر چیز کے لئے مغربی ملکوں پر منحصر ہیں، یہ کس قدر شرمناک بات ہے!مسلمانوں کو منصوبہ بند طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے اور ہر مسلمان کو اپنا اپنا حصہ ادا کرنا چاہئے۔
ترکوں کی موجودہ حکومت کی مقبولیت اور عوامی تائید کا اہم سبب یہ ہوا کہ موجودہ حکومت نے ملک کو تعلیم اور ٹکنالوجی کی اعتبار سے بھی آگے بڑھایا، پہلے یہاں یونیورسٹیوں کی تعداد ۹۸؍تھی جو بڑھ کر ۱۹۰؍ہو گئی، اُن اداروں میں طلبہ کی تعداد ۶۵؍ہزار تھی، جو بْڑھ کر ۸؍لاکھ تک پہنچ گئی، تمام یونیورسٹیز اور کالجز میں ترکوں کے لئے مفت تعلیم فراہم کی جا ر ہی ہے، جدید ٹکنالوجی کے لئے ۳۵؍ہزار لیبارٹریاں قائم کی گئیں، اس ترقی کے نتیجہ میں تعلیمی بجٹ ساڑھے سات ارب سے بڑھ کر ۳۴؍ارب پہنچ گیا، ایک تخمینہ کے مطابق ۲۰۲۳ء تک ترکی میں اسکالرز کی تعداد ۳؍لاکھ ہو جائے گی، ٹکنالوجی کو دیکھا جائے تو اس وقت یورپ میں فروخت ہونے والے الکٹرانک سامان میں سے ہر تیسرا سامان تُرکی کا ہے۔
۴۔ تعلیمی ترقی کے ساتھ ساتھ عوامی سہولتوں کی حامل مادی ترقی پر بھی پوری توجہ دی گئی؛ چنانچہ ۲۰۰۲ء سے ۲۰۱۱ء کے درمیان ۱۳۵۰۰؍کیلومیٹرسڑکیں اور ۱۰۷۶؍کیلومیٹر ریلوے لائنیں ببچھائی گئیں، ہوائی اڈوں کی تعداد ۲۶؍سے ۵۰؍ہو گئی، اور ترکش ائیرلائن دنیا کی ساتویں بڑی ائیرلائن بن گئی، نیز معاشی ترقی کا یہ حال ہے کہ جو ترکی ورلڈ بینک کا مقروض تھا، اب اس نے پانچ ارب ڈالر ورلڈ بینک کو قرض دیا ہے، تنخواہوں میں ۳۰۰؍ فیصد اضافہ ہوا ہے، فی کس آمدنی ساڑھے تین ہزار سے بڑھ کر گیارہ ہزار ڈالر ہو چکی ہے، اقتصادی لحاظ سے اب یہ ملک ایک سو گیارہویں نمبر سے ۱۶؍ویں نمبر پر آچکا ہے، نیز G20 گروپ میں شامل ہو گیا ہے۔
مسلم ملکوں کے لئے ترکی کی یہ حالیہ ترقی قابل تقلید نمونہ ہے، قدرتی وسائل نہ ہونے کے باوجود ترکی نے کس طرح صنعتی ترقی کے ذریعہ اور اپنی برآمدات کو بڑھا کر معاشی ترقی کا سفر طے کیا، مسلم ملکوں کے ساتھ ساتھ مسلم سماج کو بھی اس پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اونچا یعنی دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے(بخاری، حدیث نمبر: ۱۴۲۹)؛ لیکن اس وقت ہمارے ملک ہندوستان میں اعدادو شمار کے مطابق گداگروں میں چالیس فیصد مسلمان ہیں،یہ کس قدر شرم کی بات ہے؟ مسلمانوں میں یہ جذبہ پیدا کرنا چاہئے کہ وہ تجارت اور صنعت پر توجہ دیں، جو نوجوان تعلیم یافتہ نہیں ہیں، وہ فنی تعلیم حا۔صل کریں، اچھے ہنر مند بنیں اور اجتماعی محنت سے ایک ایسی قوم بنیں جس کے پاس دینے والا ہاتھ ہو نہ کہ صرف لینے والا۔
۵۔ ترکی کی ترقی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ دفاعی اعتبار سے خود کفیل ہونے کی طرف تیز گامی کے ساتھ قدم بڑھا رہا ہے، اس نے ناٹو کا ممبر ہونے کے باوجود صرف ناٹو کی مدد کی امید پر اپنے آپ کو بے دست وپا بنا کر نہیں رکھا، ترکی کے علاوہ بھی بعض مسلم ممالک اس سمت میں پیش قدمی کر رہے ہیں؛ مگر افسوس کہ بیشتر دولت مند مسلم ملکوں کی کوششیں اس سلسلہ میں صفر کے برابر ہیں،انہوں نے اپنے تحفظ کا ٹھیکہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کو دے رکھا ہے، اور ان ہی پر بھروسہ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں، اس کی وجہ سے ان کی حیثیت ایسی نام نہاد آزاد قوم کی ہے، جو بظاہر آزاد اور حقیقت میں غلام ہے، یہاں تک کہ انہوں نے اپنا ضمیر اور اپنا دل ودماغ بھی بیچ ڈالاہے، اللہ تعالیٰ جلد وہ وقت لائے کہ انہیں اس غلامی سے آزادی نصیب ہو۔
مسلمان اقلیتوں کے لئے یہ بات سوچنے کی ہے کہ دفاع صرف آتشیں ہتھیاروں سے نہیں ہوتا، اور جنگ صرف بارودوں سے نہیں لڑی جاتی؛ بلکہ اس سے بڑا ہتھیار علم کا ہتھیار ہے، مسلمان اگر تعلیم میں آگے بڑھیں تو وہ اس ہتھیار سے اپنے بد خواہوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں، آج تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے اعلیٰ سرکاری عہدوں پر مسلمانوں کا تناسب نہایت کم ہے، قانون اور صحافت کا میدان مسلمانوں سے خالی ہے، اس سمت میں ہمیں محنت کرنی چاہئے ؛ کہ ایک جمہوری نظام میں یہی سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
دنیامیں جو حوصلہ افزا یا حوصلہ شکن واقعات پیش آتے ہیں ،بحیثیت مسلمان ہمار افریضہ ہے کہ ہم اس میں عبرت وموعظت کے پہلو تلاش کریں، اور ان کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں؛ لیکن یہ ان قوموں کے لئے ہے، جن میں عمل کا جذبہ اور آگے بڑھنے کا حوصلہ ہو، جو قوم اس جذبے سے محروم ہوتی ہے، اس کے لئے اس طرح کے واقعات ایک بے جان مورت کی طرح ہوتے ہیں کہ انسان نہ ان کی آواز سن سکتا ہے اور نہ ان سے روشنی کی کوئی کرن مانگ سکتا ہے۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
No comments:
Post a Comment