طویل النہار میں روزے کا کیا حکم ہوگا؟
طویل النہار مقامات میں (یعنی جن علاقوں میں دن کافی لمبا ہو ان میں) روزے کا کیا حکم ہوگا؟
وہ ممالک جو قطب شمالی وجنوبی North and South Pole کے قریب واقع ہیں ان میں بعض مقامات پر دن کافی لمبا ہوتا ہے صبح صادق سے غروب کا کل وقت 23 گھنٹے سے بھی اوپر ہوجاتا ہے ان مقامات میں مقیم مسلمانوں کی طرف سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ کیا ہم اتنا لمبا روزہ رکھیں یا اس کی کوئی اور صورت ہوگی ؟؟
جواب: دن چھوٹا بڑا ہونے سے نماز روزے میں کوئی اثر نہیں پڑتا دن بڑا ہونے کی صورت میں اگر چوبیس گھنٹے کے اندر غروب آفتاب کے بعد بقدر ضرورت کچھ کھانے پینے کا وقت مل جاتا ہو تو غروب تک روزہ رکھنا فرض ہے البتہ اس کا تحمل نہ ہو تو چھوٹے دنوں میں قضا رکھے، اور اگر غروب کے بعد بقدر ضرورت کھانے کا وقت نہ ہو یا چوبیس گھنٹے کے اندر غروب ہی نہ ہو تو اس میں مختلف اقوال ہیں ان میں سے ہر ایک پر عمل کرنے کی گنجائش ہے:
۱۔ قول شافعی رحمہ اللہ کے مطابق اس قریب تر علاقے میں جہاں غروب آفتاب کے بعد بقدر ضرورت کھانے ہینے کا وقت مل جاتا ہو اس کے مطابق عمل کرے۔
۲۔ ہر چوبیس گھنٹے پورے ہونے سے پہلے صرف اتنے وقت کے لئے روزہ چھوڑا جائے جس میں بقد ضرورت کچھ کھاسکے۔ ان دونوں اقوال میں نتیجے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں۔
۳۔ دوسرے معمولی ایام میں روزے قضا رکھے۔
۴۔ چوبیس گھنٹے کے اندر غروب والے ایام میں سب سے آخری دن میں ابتدا وقت عصر سے جتنی دیر بعد غروب ہوا تھا، عصر سے اتنی دیر بعد افطار کرلے۔
یہ آخری قول موافق استصحاب حال و حدیث دجال و اقرب الی قول الشافعی ہونے کے علاوہ اسہل (زیادہ آسان) بھی ہے۔
قطبین کے قریب سال بھر میں کسی بھی عام معمول کے مطابق چوبیس گھنٹے میں شب و روز پورے نہیں ہوتے، اس مقام میں آخری دو اقوال پرعمل نہیں ہوسکتا لہذا وہاں پہلا اور دوسرا قول ہی عمل کے لئے متعین ہوگا اس کا تحمل نہ ہوتو قول شافعی کے مطابق قریب ترین علاقے کے چھوٹے دنوں میں ان کی مقدار کے مطابق روزے رکھے۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
وہ ممالک جو قطب شمالی وجنوبی North and South Pole کے قریب واقع ہیں ان میں بعض مقامات پر دن کافی لمبا ہوتا ہے صبح صادق سے غروب کا کل وقت 23 گھنٹے سے بھی اوپر ہوجاتا ہے ان مقامات میں مقیم مسلمانوں کی طرف سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ کیا ہم اتنا لمبا روزہ رکھیں یا اس کی کوئی اور صورت ہوگی ؟؟
جواب: دن چھوٹا بڑا ہونے سے نماز روزے میں کوئی اثر نہیں پڑتا دن بڑا ہونے کی صورت میں اگر چوبیس گھنٹے کے اندر غروب آفتاب کے بعد بقدر ضرورت کچھ کھانے پینے کا وقت مل جاتا ہو تو غروب تک روزہ رکھنا فرض ہے البتہ اس کا تحمل نہ ہو تو چھوٹے دنوں میں قضا رکھے، اور اگر غروب کے بعد بقدر ضرورت کھانے کا وقت نہ ہو یا چوبیس گھنٹے کے اندر غروب ہی نہ ہو تو اس میں مختلف اقوال ہیں ان میں سے ہر ایک پر عمل کرنے کی گنجائش ہے:
۱۔ قول شافعی رحمہ اللہ کے مطابق اس قریب تر علاقے میں جہاں غروب آفتاب کے بعد بقدر ضرورت کھانے ہینے کا وقت مل جاتا ہو اس کے مطابق عمل کرے۔
۲۔ ہر چوبیس گھنٹے پورے ہونے سے پہلے صرف اتنے وقت کے لئے روزہ چھوڑا جائے جس میں بقد ضرورت کچھ کھاسکے۔ ان دونوں اقوال میں نتیجے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں۔
۳۔ دوسرے معمولی ایام میں روزے قضا رکھے۔
۴۔ چوبیس گھنٹے کے اندر غروب والے ایام میں سب سے آخری دن میں ابتدا وقت عصر سے جتنی دیر بعد غروب ہوا تھا، عصر سے اتنی دیر بعد افطار کرلے۔
یہ آخری قول موافق استصحاب حال و حدیث دجال و اقرب الی قول الشافعی ہونے کے علاوہ اسہل (زیادہ آسان) بھی ہے۔
قطبین کے قریب سال بھر میں کسی بھی عام معمول کے مطابق چوبیس گھنٹے میں شب و روز پورے نہیں ہوتے، اس مقام میں آخری دو اقوال پرعمل نہیں ہوسکتا لہذا وہاں پہلا اور دوسرا قول ہی عمل کے لئے متعین ہوگا اس کا تحمل نہ ہوتو قول شافعی کے مطابق قریب ترین علاقے کے چھوٹے دنوں میں ان کی مقدار کے مطابق روزے رکھے۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
بحوالہ: احسن افتاویٰ صفحہ 113 جلد 2
تصنیف: مفتی رشید احمد لدھیانوی نوراللہ مرقدھم
تصنیف: مفتی رشید احمد لدھیانوی نوراللہ مرقدھم
آپ تصویر میں دیکھ سکتے ہیں دائیں جانب سویڈن کی ایک مسجد کے اوقات نماز دکھائے گئے ہیں ان اوقات کے مطابق مغرب سے فجر میں صرف 38 منٹ کا فرق ہے اور دن 23 گھنٹے اور 22 منٹ کا ہے۔
.................
سوال # 148485
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص سعودی عرب سے عید کی نماز پڑھ کر بھارت آیا تو یہاں پر رمضان چل رہے تھے تو اب کیا وہ شخص روزے رکھے گا یا نہیں؟
Published on: Mar 27, 2017
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 410-555/sd=6/1438
ایسا شخص اگر زوال سے پہلے ہندوستان پہنچ جائے، تو بعض علماء کے نزدیک اُس کی روزہ کی نیت معتبر ہوگی؛ لیکن راجح یہ ہے کہ روزہ کی نیت معتبر نہیں ہوگی ، جیساکہ نصف النہار شرعی سے پہلے اگر کوئی بچہ بالغ ہوجائے ، تو اُس پر روزہ کی نیت ضروری نہیں ہے، اگر وہ نیت بھی کر لے، تب بھی اُس کا فرض روزہ نہیں سمجھا جائے گا، لہذا صورت مسئولہ میں اُس کو روزہ رکھنے کا حکم نہیں دیا جائے گا اور اگر اُس کے انتیس روزے پورے ہوگئے ہیں، تو اُس پر قضاء بھی لازم نہیں ہوگی ؛ ہاں اُس کے لیے مقام پر روزہ داروں کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے منافی روزہ اعمال سے بچنا لازم ہوگا اور اگرنصف النہار شرعی کے بعد ہندوستان پہنچا ہے، تو بالاتفاق روزہ کی نیت صحیح نہیں ہوگی، اس لیے کہ نیت کا وقت نکل چکا ہے (کتاب المسائل : ۲/۱۳۶، ۱۳۷)
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
No comments:
Post a Comment