آپ سے یہ معلوم کرنا تھا کہ اقامت کے وقت کھڑا ہونا یا بیٹھنا، دونوں میں سے خلاف سنت کیا ہے؟ برا ہ کرم، قرآن وحدیث اور علماء و محدثین کے حوالے سے جواب دیں۔
Published on: May 1, 2012
جواب # 38621
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 925-759/B=6/1433
اگر نماز پڑھانے کے لیے امام کو آتا ہوا مقتدیوں نے دیکھ لیا یا مصلے پر آگیا تو تمام مقتدیوں کے لیے کھڑے ہوجانا ضروری ہے، بخاری شریف کی حدیث ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”لاَ تَقُومُوا حتی تَرَوْني خَرَجْتُ“ بخاری شریف کی مشہور شرح فتح الباری میں ہے کہ شروع اقامت سے کھڑا ہوجانا مستحب ہے، ملک العلماء صاحب بدائع نے لکھا ہے کہ شروع اقامت سے کھڑے ہونے میں مشارعة الی الصلاة پائی جاتی ہے، یعنی نماز کا شوق اور نماز کی ادائیگی کے لیے جلدی اور پہلے سے تیاری پائی جاتی ہے جو مسلمان کے لیے بہت ہی مستحسن ہے، اقامت کے وقت بیٹھے رہنا بدشوقی اور کاہلی کی علامت ہے۔ علامہ طحطاوی نے حاشیہ در مختار میں لکھا ہے کہ اگر کوئی کسی عذر کی وجہ سے شروع اقامت میں کھڑا نہ ہوسکا تو اسے زیادہ سے زیادہ حی علی الصلاة پر کھڑا ہوجانا چاہئے، اس سے زیادہ تاخیر نہ کرنی چاہئے۔ حدیث بخاری سے، محدثین وفقہاء کی عبارتوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اقامت کے وقت کھڑا ہونا مستحب ہے اور بیٹھنا خلافِ سنت ومستحب ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
......
۳۱۹/ن= ۴۶۳/ص
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین دار الافتا دار العلوم دیوبند درج ذیل سوالات کے بارے میں:
(۱): امام اور مقتدیوں کو اقامت کے وقت کب کھڑا ہونا چاہئے؟ اس سلسلہ میں قرآن وحدیث، فقہ حنفی اور تعامل امت کی رو سے صحیح کیا ہے؟
(۲): نیز اس سلسلہ میں بریلوی مکتب فکر والوں کے یہاں جو طریقہ رائج ہے یعنی: ان کا امام اقامت سے پہلے مصلے پر آکر بیٹھ جاتا ہے ، اس کے بعد اقامت کہنے والا اقامت شروع کرتا ہے اور جب وہ حي علی الفلاح پر پہنچتا ہے تو امام اور مقتدی سب کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ اس طریقہ کو عملی طور پر لازم پکڑتے ہیں اور جو لوگ اس کے خلاف کرتے ہیں ان پر طعن وتشنیع کرتے ہیں ؛ بلکہ اختیار وقدرت کی صورت میں زبردستی بٹھادیتے ہیں تو یہ صحیح ہے یا غلط ؟بینوا توجروا۔
مستفتیان:حافظ معین الدین، عبد الرزاق سابق پردھان
ودیگر مسلمانان اہل حق موضع تیلی والا،تحصیل ڈوئی والا
ضلع دہرہ دون، اترا کھنڈ
-----------------------------------------------------------------------------------------
۳۰۸/ن= ۴۶۳/ص
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق: ۔
(۱): نماز با جماعت میں امام اور مقتدیوں کو کب کھڑا ہونا چاہئے ؟ اس سلسلہ میں صحیح یہ ہے کہ اقامت کہنے والا امام کو نماز کے لیے تیار دیکھ کراقامت شروع کرے ، اس کے بعد امام مصلے پر پہنچ جائے اور مقتدی حضرات بھی کھڑے ہوکر صفیں درست کرنا شروع کردیں ، پھر جب اقامت پوری ہوجائے اور صفیں بھی درست وصحیح ہوجائیں تو امام نماز شروع کردے ۔ ہمارے رسول: حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم، صحابہ کرام اور تابعین عظام وغیرہم سے اسی طرح ثابت ہے ،اور اگر امام یا کوئی مقتدی تسبیح وغیرہ میں مشغول ہو اور وہ شروع اقامت سے کھڑا نہ ہوکر حي علی الفلاح پر یا اس سے پہلے کھڑا ہوجائے تو یہ بھی درست ہے، خلاف ادب نہیں ہے۔ پس فقہائے کرام نے حي علی الفلاح پر کھڑے ہونے کا جو ادب ذکر کیا ہے یہ ابتدائے اقامت سے حي علی الفلاح تک ممتد ہے، جو شخص شروع اقامت میں یا اس کے بعد حي علی الفلاح تک کسی بھی وقت کھڑا ہوگیا تو وہ ادب ومستحب ہی پر عمل کرنے والا ہوگا،اس کے خلاف کرنے والا نہ ہوگا، البتہ امام کے مصلے پر پہنچنے کے بعد بلا وجہ بیٹھے نہ رہنا چاہئے۔اور اگر کوئی شخص حي علی الفلاح کے بعد بھی بیٹھا رہے تو البتہ یہ خلاف ادب وخلاف مستحب ہے۔ یہ تو اس صورت میں ہے جب امام مسجد میں حاضر ہو۔ اور اگر امام مسجد میں نہیں ہے اور اقامت کہنے والے نے امام کو حجرہ میں تیار سمجھ کر یا مسجد کی طرف آتا ہوا دیکھ کر اقامت شروع کردی تو لوگ اس وقت تک نہ کھڑے ہوں جب تک امام کو آتا ہوانہ دیکھ لیں اگر امام کا حجرہ مسجد کی جہت قبلہ میں ہو اور امام آگے سے آئے۔ اور اگر امام پیچھے سے آئے تو اظہر قول کے مطابق امام جس صف سے گذرتا جائے وہ صف کھڑی ہوتی جائے، یہاں تک کہ جب وہ مصلے پر پہنچے تو سارے لوگ کھڑے ہوچکے ہوں۔ الحاصل ایسا نہیں ہے کہ ہر صورت میں امام اور مقتدی سب لوگ صرف حي علی الفلاح ہی پر کھڑے ہوں؛کیوں کہ اقامت کے کسی لفظ سے امام اور مقتدیوں کا قیام مربوط و وابستہ نہیں ہے کذا في فتح الباري (۲: ۱۵۷ ط دار السلام، الریاض)۔ اورحافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری (۲:۲۵۷، ۲۵۸ مطبوعہ دار السلام الریاض ) میں امام قرطبی ( المفہم ۲: ۲۲۱، ۲۲۲ مطبوعہ دار ابن کثیر دمشق) کے حوالے سے زیر بحث مسئلہ سے متعلق روایات میں تطبیق اور ان کی صحیح مراد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:حضرت بلال حضرت نبی کریم صلی اللہ علہ وسلم کی تشریف آوری کی تاک میں رہتے تھے اور جوں ہی (مسجد میں موجود )دیگر اکثر لوگوں سے پہلے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو تشریف لاتے ہوئے دیکھتے، اقامت شروع فرمادیتے تھے ، پھر جب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تو کھڑے ہوجاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی اپنے مصلے پر کھڑے نہ ہونے پاتے تھے کہ ساری صفیں درست ہوجایاکرتی تھیں۔دیگر شراح حدیث مثلاً :قاضی عیاض،ابی، سنوسی، امام نووی اور علامہ عینی وغیرہ نے بھی زیر بحث مسئلہ سے متعلق احادیث میں یہی تطبیق اور خلاصہ ذکر فرمایا ہے ( دیکھئے: إکمال المعلم ۲: ۵۵۶، ۵۵۷ مطبوعہ دار الوفا، إکمال إکمال المعلم، مکمل إکمال الإکمال ۲: ۲۹۱، ۲۹۲ مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ بیروت، المنہاج مع الصحیح لمسلم ۱: ۲۲۱ مطبوعہ مکتبہ اشرفیہ دیوبند بحوالہ قاضی عیاض،عمدة القاری ۵:۲۲۵ مطبوعہ دار الکتب العلمیة، بیروت اور فتح الملہم مع التکملة۴: ۲۰۳، ۲۰۴ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت بحوالہ فتح الباری )۔ اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے فرمایا کہ اس کی تائید مصنف عبد الرزاق کی اس روایت سے ہوتی ہے جو عبد الرزاق نے ابن جریج سے، اور ابن جریج نے ابن شہاب زہری سے نقل کی ہے کہ صحابہ کرام موٴذن کے اللہ اکبر کہتے ہی نماز کے لیے کھڑے ہوجایا کرتے تھے، یہاں تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلے پر پہنچنے سے پہلے ساری صفیں درست ہوجایا کرتی تھیں (فتح الباری ۲: ۱۵۸)۔ اور علامہ سید احمد طحطاوی نے در مختار کے حاشیہ میں فرمایا : ہمارے فقہائے کرام نے یہ جو فرمایا ہے : کہ امام اور لوگ حي علی الفلاح پر کھڑے ہوں، اس کا ظاہر مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد بھی بیٹھے نہ رہیں، یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پہلے کھڑے نہ ہوں؛ لہٰذا اس سے پہلے کھڑے ہونے میں کچھ حرج نہیں ہے (حاشیہ در مختار ۱: ۲۱۵ مطبوعہ مکتبہ اتحاد دیوبند)؛ بلکہ بہتر ہے، تاکہ پہلے سے لوگ نماز کے لیے تیار ہوجائیں اور صفیں بھی درست ہوجائیں؛ کیوں کہ نماز میں صفیں سیدھی رکھنا نہایت اہم ؛بلکہ سنت موٴکدہ ہے، احادیث میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے (دیکھئے: مشکوة شریف، کتاب الصلاة، باب تسویة الصفص ۹۷ - ۹۹ مطبوعہ مکتبہ اشرفیہ دیوبند)۔ اور امام محمد نے اپنی کتاب: کتاب الصلاة میں فرمایا: میں نے حضرت امام ابو حنیفہ سے دریافت کیاکہ ایک شخص نماز کے لیے اس وقت کھڑا ہوتا ہے جب مکبر حي علی الفلاح کہتا ہے تو امام صاحب نے فرمایا: لا حرج، کچھ حرج نہیں۔ پھر دریافت کیا کہ ایک شخص شروع اقامت ہی سے کھڑا ہوجاتا ہے تب بھی یہی ارشاد فرمایا: لا حرج، کچھ حرج نہیں۔ (یہ نسخہ ابھی مخطوطہ ہے ، حضرت فقیہ الامت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی نے کتب خانہ آصفیہ حیدرآباد میں دیکھا تھا، فتاوی محمودیہ ۵: ۴۹۶، سوال:۲۲۸۲ مطبوعہ ادارہٴ صدیق، ڈابھیل، گجرات)۔ نص الطحطاوي فی الحاشیة علی الدر ھکذا:(قولہ:والقیام لإمام وموٴتم الخ )مسارعة لامتثال أمرہ، والظاھر أنہ احتراز عن التاخیر لا التقدیم، حتی لو قام أول الإقامة لا بأس اھ، وکلمة ” لا بأس“ ھنا مستعملة فی المندوب ؛لأنہا لیست مطردة لما ترکہ أولی، بل تستعمل فی المندوب أیضاً إذا کان المحل مما یتوھم فیہ البأس أي الشدة، خاصة إذا تأید ذلک الأمر بالأحادیث النبویة - علی صاحبھا الصلاة والسلام - وأقوال الصحابة وعملھم وعمل السلف والخلف کذا حققہ الحصکفي وابن عابدین الشامي فی الدر المختار وحاشیتہ رد المحتار (کتاب الطھارة۱: ۲۴۱، کتاب الصلاة، باب العیدین ۳: ۶۵،باب الجنائز في شرح قول الدر: ” ولا بأس برش الماء علیہ “ ۳:۱۴۳ وکتاب الجھاد ، باب المغنم وقسمتہ ۶: ۲۵۷ ط مکتبة زکریا دیوبند)، ومثلہا کلمة ” لا جناح “ بل قد استعملت ھذہ في سورة البقرة (رقم الآیہ: ۱۵۸)بمعنی الوجوب کما في رد المحتار لابن عابدین الشامي (۶: ۲۵۷)،وکلمة ” لا حرج “ أیضاً؛لأنہا بمعناھا۔ نیز عُتْبیّہ میں امام مالک سے نقل کیا گیا کہ قرب قیامت کے وقت جب حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلاة والسلام آسمان سے نزول فرمائیں گے تو لوگ اس وقت (اس مسجد میں جہاں نزول فرمائیں گے) کھڑے ہوکر اقامت سن رہے ہوں گے، جیسا کہ ابی اور سنوسی نے (إکمال إکمال المعلم۱: ۱۶۶اور مکمل إکمال الإکمال۱: ۱۶۶ میں بحوالہ عُتْبیّہ) ذکر کیا ہے۔
(۲): اب سے تقریباً ڈیڑھ صدی پیشتر ایک نیا فرقہ وجود میں آیا جو بریلوی فرقہ سے جانا جاتا ہے ، اس نے زیر بحث مسئلہ میں احادیث شریفہ، تصریحات وتشریحات فقہائے کرام اور تعامل امت کو یکسر نظر انداز کرکے بعض مجمل ومبہم فقہی عبارات سے ایک نیا مطلب نکال کر اور اس میں اپنی طرف سے مزید کچھ باتیں بڑھاکر اسے اپنے لیے بطور شعار وعلامت اختیار کرلیاہے اور وہ اس میں غلو وتشدد کا رویہ رکھتا ہے، یعنی:اس فرقہ کے یہاں امام اقامت شروع ہونے سے پہلے لازمی طور پر مصلے پر آکر بیٹھ جاتا ہے، اس کے بعد اقامت کہنے والا اقامت کہتا ہے ، پھر جب وہ حي علی الفلاح پر پہنچتا ہے تو امام اور مقتدی سب لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی شخص دوران اقامت آئے تو امام کی موجودگی کی صورت میں بھی امام اور دیگر مقتدیوں کی طرح وہ بھی بیٹھ جاتا ہے اور اس کے خلاف کبھی بھی ان میں سے کوئی شخص اقامت کے شروع میں نہیں کھڑا ہوتا ،اور جو لوگ اس کے خلاف کرتے ہیں یہ لوگ ان پر طعن وتشیع بھی کرتے ہیں اور اسی طریقہ کو مستحب؛ بلکہ لازم وضروی سمجھتے ہیں تو یہ طریقہ بلاشبہ بدعت وناجائز ہے؛ کیوں کہ اس طریقہ میں امام کا اقامت سے پہلے مصلے پر آکربیٹھ جانا تو بالکل بے اصل وبے بنیاد ہے؛ بلکہ احادیث ، فقہی نصوص اور تعامل امت کے خلاف ہے۔نیز اس میں ایک ہی جزو کو مستحب سمجھنا اور اور شروع اقامت سے کھڑے ہونے کو امام کی موجودگی میں بھی مکروہ قرار دینا ؛ بلکہ اس مکتب فکر کی مشہور کتاب : فتاوی رضویہ (کتاب الصلاة ۲: ۳۹۱ مطبوعہ رضا آفسیٹ، ممبئی ۳) میں علی الإطلاق کھڑے ہوکر تکبیر سننے کو مکروہ قرار دینا یہ سب امور بالکل غلط ومن گھڑت ہیں؛ کیوں کہ صحابہ کرام وغیرہم کا معمول امام کی آمد پر شروع اقامت ہی سے کھڑے ہوجانے کا تھا (جیسا کہ ماقبل میں ذکر کیا گیا)،اور اس صورت میں ظاہر ہے کہ اقامت کھڑے ہوکر ہی سنی جائے گی۔اور مبسوط سرخسی (۱: ۳۹ مطبوعہ دار المعرفة بیروت) میں حضرت عمر فاروق کے متعلق مروی ہے کہ وہ موٴذن کے اقامت سے فارغ ہونے کے بعد محراب میں (مصلے پر) آکر کھڑے ہوتے تھے، فإنہ - أي : فإن عمر رضي اللہ تعالی عنہ - بعد فراغ الموٴذن من الإقامة کان یقوم فی المحراب۔ نیز نمبر: ۱ میں فقہائے کرام کی وہ تصریحات گذر چکی ہیں جن سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ امام کی آمد کے بعد شروع اقامت ہی سے کھڑا ہوجانا بلاکسی کراہت جائز ہے اوریہ خلاف مستحب وادب بھی نہیں ہے؛ بلکہ ادب ومستحب کے عین مطابق ہے ، اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کے زمانہ سے اب تک تمام اسلامی شہروں بالخصوص مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں اسی پر عمل ہوتا چلا آرہا ہے، جس کا مشاہدہ، وہاں حج یا عمرے کے لیے جانے والے حضرات کرتے چلے آرہے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ بریلوی مکتب فکر کا یہ طریقہ گھڑا ہوا اور ناجائز وبدعت ہے،قرآن وحدیث اور فقہی عبارات سے اس پورے مجموعہ پر کوئی ثبوت نہیں ہے؛ لہٰذا اہل السنة والجماعة کے لیے اس پر عمل کی اجازت نہ ہوگی، مرقاة المفاتیح (۳: ۲۶ مطبوعہ دار الکتب العلمیة، بیروت) میں علامہ طیبی کے حوالے سے ہے: من أصر علی أمر مندوب وجعلہ عزماً ولم یعمل بالرخصة فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال، فکیف من أصر علی بدعة أو منکر۔فقط واللہ تعالی أعلم۔
محمد نعمان سیتا پوری غفرلہ
معین مفتی دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
۲۸/۳/ ۱۴۳۶ھ م۲۰/۱/۲۰۱۵ء سہ شنبہ
الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، محمود حسن بلند شہری غفرلہ، زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی،
وقار علی غفرلہ،
فخر الاسلام عفی عنہ،
محمد مصعب عفی عنہ،
محمد اسد اللہ غفرلہ
No comments:
Post a Comment