نکاح
مسیار کی حقیقت
اور اس کا شرعی حکم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(سلسلہ نمبر 1748)
زوجین کے درمیان نکاح سے حاصل ہونے والا تعلق صرف شہوانی نہیں، بلکہ جسم وروح کا رشتہ، دائمی وابستگی اور بدن ولباس جیسے لازمی ارتباط پر مبنی مقدس تعلق ہونا چاہئے۔
چند بلند ترین مقاصد کے حصول کے لئے عمل میں آنے والا دیرپا اور بابرکت رشتہ "حل استمتاع" کو شرعا "نکاح" کہتے ہیں۔
جائز اور مباح النکاح لڑکی (غیر محرم) سے، عاقدین کی رضامندی، ایجاب وقبول کے ساتھ، شرعی گواہوں کی موجودگی میں، غیرمحدود مدت کے لئے، لڑکی کے سرپرست کی موجودگی اور اعلان نکاح (حنفیہ کے یہاں یہ شرط ضروری نہیں) کے ساتھ منعقد ہونے والا ہر نکاح اصولا صحیح ہوگا۔
جس عقد میں ان شرعی شروط کا لحاظ نہ کیا گیا ہو وہ اسلامی اور شرعی نکاح نہ ہوگا۔
عرصہ دراز سے عالم عرب میں ایک نکاح کا طریقہ رائج ہے جو نکاح مسیار (زواج مسیار) جیسے نام سے معروف ہے۔ اس کی حمایت ومخالفت میں اب تک بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اور گرما گرم بحثیں ہوچکی ہیں۔
"سار" يسر" سيرا" کے معنی ہیں چلنا، سفر کرنا۔
عرب کہتے ہیں:
سار الرجل يسير سيراً. وتسيراً ومسيرة وسيرورة إذا ذهب۔
و تقول العرب: سار الكلام أو المثل فهو سائر وسيَار إذا شاع وأنتشر وذاع. والمثل السائر الجاري الشائع بين الناس۔
"مسيار" "مفعال" کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے ۔بمعنی بہت زیادہ چلنا۔
بہت زیادہ چلنے والے آدمی کو
"رجل مسيار" و "رجل سيار"
کہتے ہیں۔
(المفردات في غريب القران ،الأصفهاني: أبوالقاسم. ص,247۔
لسان العرب، أبن منظور: ج 2/ ص 252۔ المعجم الوسيط، إبراهيم أنيس: ج1/ ص 467)
"مسیار" بمعنی مسافرت یا آسانی سے بھی مشتق ہوسکتا ہے۔
مرد حالت مسافر وملازمت میں
کسی غیرملک میں کام کے سلسلے میں جائے پھر اسے وہاں نکاح کی حاجت ہو تو طلاق کی نیت سے نکاح کرلے یعنی دل میں یہ سوچے کہ جب میں سال دو سال بعد واپس آؤں گا تو طلاق دیدوں گا۔
عورت نان نفقہ کے حق اور ساتھ رہنے کے حق وغیرہ سے دستبردار ہوجائے۔ بیوی اپنے میکے ر ہے اور مرد کو جب موقع ملے بیوی سے اس کے میکے آکے یا کچھ وقت کے لئے ساتھ میں کہیں دوسری جگہ لے جاکر (غالبا یہیں سے "مسیار" نام پڑا ہو) حلال طریقے سے جنسی ضروریات پوری کرلے تو اسے "نکاح مسیار" اور عربی میں
"زواج مسیار" کہتے ہیں۔
خلیج اور نجد کے بعض دیہی علاقوں میں صرف گزرنے اور معمولی مدت کے لئے ٹھہرنے کے لئے بھی "مسیار" کا اطلاق ہوتا ہے۔
چونکہ نکاح مسیار میں شوہر سسرال میں قلیل مدت کے لئے آتاجاتا ہے اسی لئے اسے مسیار کہتے ہیں۔
عموما یہ نکاح جانبین کی رضامندی، ولی کی موجودگی، ایجاب وقبول، شرعی گواہوں اور اعلان کے ساتھ ہوتا ہے! اس لئے فقہی اعتبار سے اس کی صحت وانعقاد سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔
اس میں مدت نکاح کی تحدید بھی نہیں ہوتی، کہ متعہ کے مماثل قرار پائے، نسب کا الحاق بھی شوہر سے ہوتا ہے۔ ہاں سال دو سال بعد واپسی کے وقت طلاق دینے کی نیت ہوتی ہے، تو ایسی نیت کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔
فی العنایۃ علی ھامش فتح القدیر (۲۵۰/۳): واستشکل ھذہ المسئلۃ بما اذا شرط وقت العقد ان یطلقھا بعد شھر فان النکاح صحیح والشرط باطل ولا فرق بینھا وبین مافیہ واجیب بان الفرق بینھما ظاھر لان الطلاق قاطع للنکاح فاشتراط بعد شھر لینقطع بہ دلیل علی وجود العقد مؤبدا ولھذا لومضی الشھر لم یبطل النکاح فکان النکاح صحیحا ۔۔۔ والشرط باطلا وأما صورۃ النزاع فالشرط انما ھو فی النکاح لافی قاطعہ۔
وفی الشامیۃ (۵۱/۳): (قولہ: ولیس منہ الخ) لأن اشتراط القاطع یدل علی انعقادہ مؤبدا وبطل الشرط، بحر۔
فتح القدیر میں ہے:
أما لوتزوج وفي نيته أن يطلقها بعد مدة نواها صح. ٣\١٥٢ .
هكذا في الدر المختار٣\٥١}
عورت نے جو نفقہ وسکنی کے حقوق معاف کئے ہیں وہ معاف نہیں ہونگے بلکہ بدستور شوہر کے ذمے باقی رہیں گے۔
اصولا تو یہ نکاح جائز ہے لیکن چونکہ اس رشتے میں دوام نہیں ہے اور ابغض المباحات "طلاق" دینے کی نیت بھی ہے ۔اس لئے نکاح مسنون کی روح سے ہم آہنگ نہ ہونے اور عمرانی حقوق کے خاطر خواہ تحفظ کا ضامن نہ ہونے کی وجہ سے اس طریقہ نکاح کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی اور ایسے نکاح سے اجتناب کی ضرورت ہے۔
رابطہ عالمی اسلامی 'او آئی سی' کے تحت جدہ سعودی عربیہ میں قائم اسلامک فقہ اکیڈمی "مجمع الفقه الإسلامي" نے نکاح کے مروجہ طریقوں کے بارے میں یوم الخميس 15 ربيع الأول / 1427 هـ الخميس 13 أبريل 2006 وقت 01:26 کو غور وخوض کے لئے اجلاس عام بلایا تھا۔ اس اکیڈمی میں اسلامی ممالک کے نامور چوٹی کی علمی شخصیات کی نمائندگی ہے۔ پاکستان سے مفتی تقی عثمانی صاحب، وطن عزیز سے فقیہ اسلام حضرت قاضی مجاہدالاسلام قاسمی رحمہ اللہ تاحیات رکن رہے۔
اٹھارویں اجلاس مکہ میں عالم اسلام کی ممتاز شخصیت ڈاکٹر وہبہ مصطفی زحیلی رحمہ اللہ کے زیر صدارت منعقد ہوا تھا جس میں موضوع پہ غور وخوض اور بحث وتمحیص کے بعد صدراجلاس کی طرف سے یہ متفقہ اعلامیہ جاری ہوا تھا:
المجمع الفقهي الإسلامي برابطة العالم الإسلامي، الدورة الثامنة عشرة المنعقدة بمكة المكرمة
نظر المجمع في موضوع «عقود النكاح المستحدثة» وبعد الاستماع إلى البحوث المقدمة والمناقشات المستفيضة قرر ما يأتي:
يؤكد المجمع أن عقود الزواج المستحدثة وإن اختلفت أسماؤها وأوصافها وصورها لابد أن تخضع لقواعد الشريعة المقررة وضوابطها من توافر الأركان والشروط وانتفاء الموانع..
وقد أحدث الناس في عصرنا الحاضر بعض تلك العقود المبينة أحكامها فيما يأتي:
1 / إبرام عقد زواج تتنازل فيه المرأة عن السكن والنفقة والقسم أو بعض منها وترضى بأن يأتي الرجل إلى دارها في أي وقت شاء من ليل أو نهار، ويتناول ذلك أيضا..إبرام عقد زواج على أن تظل الفتاة في بيت أهلها ثم يلتقيان متى رغبا في بيت أهلها أو في أي مكان آخر حيث لا يتوافر سكن لهما ولا نفقة. هذان العقدان وأمثالهما صحيحان إذا توافرت فيهما أركان الزواج وشروطه وخلوه من الموانع ولكن ذلك خلاف الأولى.
الخميس / 15 / ربيع الأول / 1427 هـ الخميس 13 أبريل 2006 01:26
اسلامک فقہ اکیڈمی اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ شادی کے نئے عقد کو اگرچہ اس کے نام اور اوصاف وصورتیں مختلف ہوں شریعت مطہرہ کے مقرر کردہ قواعد وضوابط کے تابع ہونا چاہئے۔ اور اس میں ارکان وشروط پورے ہوں۔ اور موانع سے خالی ہوں۔
عصرحاضر میں لوگوں نے بعض عقد ایجاد کرلئے ہیں جس کے احکام درج ذیل ہیں:
ایسا عقد زواج جس میں عورت رہائش، خرچ اور تقسیم یا کچھ دوسرے حقوق اپنی مرضی سے ختم کردے کہ مرد جب چاہے دن یا رات میں اس کے پاس آسکتا ہے۔ اور اس میں یہ بھی شامل ہے کہ ایسا عقد نکاح جس میں عورت اپنے گھر والوں کے ساتھ میکے میں ہی رہے۔ اور میاں بیوی جب چاہیں عورت کے میکے یا کسی اور جگہ مل لیں۔اس طرح خاوند بیوی کو نہ رہائش دے نہ ہی خرچ وغیرہ ۔ 'یہ دونوں عقد صحیح ہیں'۔ اور اس طرح کے دوسرے عقد اس وقت صحیح ہونگے جب اس میں شادی کے ارکان وشرائط موجود ہوں اور کوئی مانع موجود نہ ہو ۔لیکن یہ نکاح خلاف اولی ہے۔ ایسا نکاح جائز ہے چاہے اسے مسیار کا نام دیا جائے چاہے کچھ اور)
نکاح مسیار کو جائز کہنے والوں میں سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز ابن باز، شیخ عثیمین، امام حرم مکی شیخ سعود الشریم، سابق امام ازہر سید طنطاوی اور ڈاکٹر یوسف قرضاوی خصوصیت سے قابل ذکر ہیں.
جبکہ ناجائز کہنے والوں میں پروفیسر ڈاکٹر قرة داغی اور البانیہ سے تعلق رکھنے والے شیخ ناصر الدین البانی سرفہرست ہیں۔
جامعہ بنوریہ کراچی کے دارالافتاء سے نکاح مسیار کو اصولا جائز جبکہ مقاصد نکاح سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے مکروہ کہتے ہوئے اس سے پرہیز کرنے کی نصیحت کی گئی ہے۔
دیکھئے فتوی نمبر 9881
مجریہ 15 محرم ١٤٣٢ ہجری
(موافق 29/9/2010)
عاجز کا خیال یہ ہے کہ اگر نکاح مسیار سطور بالا میں درج شرائط وارکان کی رعایت کے ساتھ انجام دیا گیا ہو تو شرعا درست ہے البتہ سماجا اور معاشرتا نکاح کی یہ صورت جائز نہیں۔ اس میں یک گونہ عورت کے جسمانی اور اس کی اولاد کی تربیتی واخلاقی حقوق کا استحصال ہے۔ اور اگر نکاح شرعی کے قواعد وضوابط کا لحاظ کئے بغیر اس نکاح کو منعقد کیا گیا ہو پھر تو یہ سرے سے حرام ہی ہوگا۔
سعودی عرب کے شیخ بن باز 1996 میں اور بعدہ شیخ عثیمین نے اگر چہ ابتدائی طور پہ اسے جائز کہا تھا لیکن بعد میں اس سے ناجائز اور غلط فائدہ اٹھانے کی رسم پڑجانے کی وجہ سے وہ بھی توقف اختیار کرگئے تھے۔
معاشرہ میں اس نکاح کا منفی اثر پڑنا یقینی ہے۔ اس لئے میں معاشرتا اسے ناقابل قبول سمجھتا ہوں!
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
مركز البحوث الإسلامية العالمي
٦\٧\١٤٣٩هجرية
http://saagartimes.blogspot.in/2018/03/blog-post_75.html?m=1