Saturday, 31 March 2018

غائبانہ نماز جنازہ کا کیا حکم ہے؟

سوال: حضرت، میں سعودی عرب میں رہتا ہوں، یہاں جب کسی کا کوئی رشتہ دار انڈیا میں مر جاتا ہے تو یہاں غائبانہ نماز جنازہ پڑھتے ہیں، غائبانہ نماز جنازہ کا کیا حکم ہے؟ سعودی عرب کے علماء سے پوچھا تو انہوں نے جائز کہا ہے، کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی تھی۔
Published on: Nov 27, 2017 جواب # 155387
بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa:125-171/H=3/1439
احناف اور مالکیہ کے نزدیک نمازِ جنازہ غائبانہ جائز نہیں، امام شافعی اور امام احمد ابن حنبل رحمہما اللہ تعالیٰ کے نزدیک جائز ہے، حنفی ومالکی مسلک کی دلیل یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت نجاشی شاہ حبشہ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھی تھی وہاں درحقیقت تمام حجابات اٹھادیئے گئے تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے معجزہ کے طور پر نجاشی کا جنازہ کردیا گیا تھا تو ایسی صورت میں وہ غائبانہ نمازِ جنازہ نہ تھی تفصیل کے لیے دلائل کے ساتھ ابوداوٴد شریف کی شرح بذل المجہود ملاحظہ کرلیں، یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں بے شمار واقعاتِ وفات پیش آئے بہت سے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت ووفات کے واقعات ہوئے مگر ثابت نہیں کہ نماز جنازہ غائبانہ کا معمول اور عادتِ شریفہ رہی ہو خود نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا تو حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم دور دراز علاقوں میں مقیم تھے مگر ثابت نہیں کہ انھوں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی ہو، خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے عہد مبارک میں بھی غائبانہ نماز جنازہ کا معمول کہیں منقول نہیں ملتا۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
.....
مرقاۃ المفاتیح میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ  نے زبردست دلائل کے ساتھ بحث کی ہے.
https://library.islamweb.net/Newlibrary/display_book.php?bk_no=79&ID=84&idfrom=3285&idto=3376&bookid=79&startno=6

صدر باز کا دوائوں کا نرخ متعین (ریٹ کنٹرول) کرنا؟

صدر باز کا دوائوں کا نرخ متعین (ریٹ کنٹرول) کرنا؟

(سلسلہ 1752 )

سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میڈیسن کی ایک مارکیٹ میں تین ھول سیل ڈیلر ھیں جوکہ گاھک کے ساتھ %13 تک رعایت کرتے ھیں اور اسی مارکیٹ میں موجود دیگر دکاندار %5 تک رعایت کرتے ھیں ۔ زیادہ رعایت کرنے کی وجہ سے گاھک مارکیٹ میں موجود ھول سیل دکانداروں کے پاس جاتے ھیں اور عام دکانداروں کے پاس نھیں جاتے ۔ مارکیٹ میں موجود عام دکانداروں نے بازار کے صدر اور دیگر عہدیداروں سے گاھک کے نہ آنے اور سیل کے نہ ھونے کی فریاد کرتے ھوئے مطالبہ کیا کہ مارکیٹ میں % 5 سے زیادہ رعایت کرنے والوں کو اس بات کا پابند بنائے کہ وہ بھی گاھک کے ساتھ % 5 سے زیادہ رعایت نہ کریں۔ بازار کے صدر نے دوسرے دکانداروں کی مجبوری کو دیکھ کر مارکیٹ میں موجود تمام دکانداروں پر یہ پابندی عاید کردی کہ کوئی بھی دکاندار گاھک کے ساتھ 5 فیصد سے زیادہ رعایت نہ کریں اور اگر کسی نے اس پابندی کی پاسداری نھیں کی تو اس پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد ھوگا اور مارکیٹ کا کوئی بھی دکاندار اور تمام میڈیسن کمپنی والے اس کے ساتھ کاروبار نہ کرنے کے پابند ھوگئے۔
مارکیٹ میں موجود ایک ھول سیل ڈیلر بازار کے صدر اوردیگر عھدیداروں کے اس فیصلے پر اعتراض کرتا ھوا کہتا ہے کہ یہ فیصلہ غیر شرعی اور ناجائز ھے اور بازار کے صدر وغیرہ کو اس طرح فیصلے کرنے کاشرعا حق حاصل نھیں جبکہ مارکیٹ کے تمام دکاندار اس فیصلے پر راضی ھیں اور اس کو قبول کرتےھیں ۔ مطلوبہ مسئلہ یہ ھے کہ صورت مذکورہ میں شرعا حق بجانب کون ھے ؟
مذکورہ مسئلہ سے فریقین کے درمیان اختلافات کے پیدا ھونے کا قوی امکان ھے اس لیے آپ مفتی صاحب کی خدمت میں درخواست ھے کہ حتی الوسع جواب جلدی اور مفصل دینے کی کوشش فرمائیں ۔ مستفتی اسد خلیل پشاور شھر۔ پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
بائع اور مشتری کے مالی لین دین میں حکومت کو ریٹ کنٹرول کرکے مداخلت کرنا اصولا جائز نہیں ہے ۔
لیکن اگر ایسا نہ کرنے سے مارکیٹ کے اکثر تاجروں کی معاشی حالت خراب ہوسکتی ہو تو حکومت ماہرین اقتصادیات اور معاشی تجربہ کاروں کی مشاورت سے دوائوں کا نرخ متعین کرسکتی ہے ۔
تاکہ مارکیٹ میں اشیاء ضروریہ کی خرید وفروخت معتدل طریقہ سے چلتی رہے۔
صدر بازار یا حکومتی عہدیداران کی طرف سے مفاد اور حقوق عامہ کے پیش نظر ریٹ کنٹرول ہوجانے کے بعد بھی بائع کو یہ حق ہے کہ اپنی مملوکہ چیز جس سے جتنے میں چاہے فروخت کرسکتا ہے ۔
لیکن خریدار کے لئے متعین نرخ کے خلاف خریدنے کی اجازت نہیں ہے۔
اگر بازار کے اکثر تاجر دوائوں کی قیمت متعین کردینے کے حق میں ہوں تو صدر بازار یا حکومتی عہدیداران کے لئے عام تجارتی نظام کو اپنی رفتار پر جاری رکھنے اور تجار کی معاشی حالتوں کو پٹری پر بحال رکھنے کے لئے قیمتیں متعین کردینے کی گنجائش ہے۔
خلاف ورزی کرنے والے پر مناسب جرمانہ لازم کرنے کا حق بھی شرعا ملتا ہے۔
حد سے زیادہ قیمت بڑھادینے کی صورت میں صارفین وگراہکوں کے ضرر فاحش کی وجہ سے نرخ متعین کردینے کا حق حاکم کو ملتا ہے ۔
اسی طرح جب بعض ہول سیل دکانداروں کی طرف سے زیادہ رعایت دینے کی صورت میں اکثر ریٹیل تاجروں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہو تو اب یہاں بھی اسی علت ضرر کی وجہ سے تعیین نرخ کا حق شرعا ثابت ہوگا۔۔۔۔

ویکرہ التسعیر إلا إذا تعدی أرباب الطعام في القیمۃ تعدیا فاحشا کالضعف وعجز الحاکم عن صیانۃ حقوقہم إلا بالتسعیر فلا بأس بہ أي بالتسعیر بمشورۃ أہل الخبرۃ، أي أہل الرأی والبصارۃ؛ لأن فیہ صیانۃ حقوق المسلمین عن الضیاع، فإن باع بأکثر مما سعرہ أجازہ القاضي قیل: إذا خاف البائع أن یضربہ الحاکم إن نقص من سعرہ لا یحل ما باعہ لکونہ من معنی المکرہ … لکن في الہدایۃ وغیرہا: ومن باع منہم بما قدرہ الإمام صح؛ لأنہ غیر مکرہ علی البیع۔ (مجمع الأنہر، کتاب الکراہیۃ، فصل في البیع، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۴/ ۲۱۴-۲۱۵)

قال العلامۃ التمرتاشی رحمہ اللّٰہ: ولایسعر حاکم الا اذا تعدی الارباب عن القیمۃ تعدّیَا فاحشًا بمشورۃ اھل الراي۔(تنویر الابصار علی صدر ردالمحتار:ج؍۶،ص؍۴۰۰، کتاب الکراھیۃ ، فصل فی البیع)
قال العلامۃ عبداللّٰہ بن محمودالموصلیؒ:ولاینبغی للسلطان ان یسعر علی الناس لمابیناقال الاان یتعدی ارباب الطعام تعدیافاحشافی القیمۃ فلابأس بذٰلک بمشورۃ اھل الخبرۃبہٖ لأن فیہ صیانۃ حقوق المسلمین عن الضیاع۔(الاختیار لتعلیل المختار:ج؍۴،ص؍۱۶۱،کتاب الکراھیۃ،فصل الاحتکار)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
12 رجب 1439 ہجری

Tuesday, 27 March 2018

ذرائع ابلاغ کا اسلامی جائزہ خدارا اپنی عاقبت خراب نہ کریں!

ذرائع ابلاغ کا اسلامی جائزہ
خدارا اپنی عاقبت خراب نہ کریں!

ظاہر حال اور قرائن سے ناقابل اعتماد ووثوق (فاسق) کی خبر، افواہ بازی، افواہ طرازی، بے سند وبے تحقیق اور من گھڑت باتوں کی تحقیق کرلینا ضروری ہے۔تحقیق سے پہلے ان پہ کان دھرنے ،اقدام کرنے ، دوسرے لوگوں تک اسے چلتا کرنے سے  شرمندگی ،معاشرے میں مختلف الجہات الجھنوں ، بے چینیوں اور پیچیدگیوں کے زنجیری سلسلہ قائم ہونے کے ساتھ ساتھ دخول جہنم کا استحقاق بھی گناہ بے لذت کے طور پہ ثابت ہوجاتا ہے ۔
فیس بک ، ٹوئٹر، وہاٹس ایپ کے صارفین اسلامی آئین کی اس شق (الحجرات : آیت نمبر 6 اور صحیحین کی حدیث :

مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ (صحیح البخاری :۱۲۹۱، صحیح مسلم : ۹۳۳)
(جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے۔)
عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ.
مقدمة صحيح مسلم. رقم الحديث 5.
یعنی انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ بلاتحقیق ہر سنی سنائی بات آگے بڑھا دے ۔ "

پہ بطور خاص توجہ دیں !

کسی ملحد ،کذاب اور بے دین کی طرف سے پہیلائے گئے اس دجل اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی جھوٹی نسبت :
"من اخبر بخبر رمضان اولا حرام علیہ نار جھنم "
یعنی جس نے سب سے پہلے رمضان کی خبر دی اس پر جہنم کی آگ حرام ہوگئی "
کی حقیقت  کو جانیں،  اور بلاسوچے سمجھے اسے آگے بڑھاکر اپنی عاقبت برباد نہ کریں !
شکیل منصور القاسمی
4 رجب المرجب 1439 ہجری

نکاح مسیار کی حقیقت اور اس کا شرعی حکم

نکاح 
مسیار کی حقیقت 
اور اس کا شرعی حکم 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(سلسلہ نمبر 1748)
زوجین کے درمیان نکاح سے حاصل ہونے والا تعلق صرف شہوانی نہیں، بلکہ جسم وروح کا رشتہ، دائمی وابستگی اور بدن ولباس جیسے لازمی ارتباط پر مبنی مقدس تعلق ہونا چاہئے۔
چند بلند ترین مقاصد کے حصول کے لئے عمل میں آنے والا دیرپا اور بابرکت رشتہ "حل استمتاع" کو شرعا "نکاح" کہتے ہیں۔
جائز اور مباح النکاح لڑکی (غیر محرم) سے، عاقدین کی رضامندی، ایجاب وقبول کے ساتھ، شرعی گواہوں کی موجودگی میں، غیرمحدود مدت کے لئے، لڑکی کے سرپرست کی موجودگی اور اعلان نکاح (حنفیہ کے یہاں یہ شرط ضروری نہیں) کے ساتھ منعقد ہونے والا ہر نکاح اصولا صحیح ہوگا۔
جس عقد میں ان شرعی شروط کا لحاظ نہ کیا گیا ہو وہ اسلامی اور شرعی نکاح نہ ہوگا۔
عرصہ دراز  سے عالم عرب میں ایک نکاح کا طریقہ رائج ہے جو نکاح مسیار (زواج مسیار) جیسے نام سے معروف ہے۔ اس کی حمایت ومخالفت میں اب تک بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اور گرما گرم بحثیں ہوچکی ہیں۔
"سار"  يسر" سيرا"  کے معنی ہیں چلنا، سفر کرنا۔
عرب کہتے ہیں: 
سار الرجل يسير سيراً. وتسيراً ومسيرة وسيرورة إذا ذهب۔
 و تقول العرب: سار الكلام أو المثل فهو سائر وسيَار إذا شاع وأنتشر وذاع. والمثل السائر الجاري الشائع بين الناس۔
"مسيار"  "مفعال" کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے ۔بمعنی بہت زیادہ چلنا۔
بہت زیادہ چلنے والے آدمی کو 
 "رجل مسيار" و  "رجل سيار" 
کہتے ہیں۔
(المفردات في غريب القران ،الأصفهاني: أبوالقاسم. ص,247۔
لسان العرب، أبن منظور: ج 2/ ص 252۔ المعجم الوسيط، إبراهيم أنيس: ج1/ ص 467)
"مسیار" بمعنی مسافرت یا آسانی سے بھی مشتق ہوسکتا ہے۔
مرد حالت مسافر وملازمت میں 
  کسی غیرملک میں کام کے سلسلے میں جائے پھر اسے وہاں نکاح کی حاجت ہو تو طلاق کی نیت سے نکاح کرلے یعنی دل میں یہ سوچے کہ جب میں سال دو سال بعد واپس آؤں گا تو طلاق دیدوں گا۔
عورت نان نفقہ کے حق اور ساتھ رہنے کے حق وغیرہ سے دستبردار ہوجائے۔ بیوی اپنے میکے ر ہے اور مرد کو جب موقع ملے بیوی سے اس کے میکے آکے  یا کچھ وقت کے لئے ساتھ میں کہیں دوسری جگہ لے جاکر (غالبا یہیں سے "مسیار" نام پڑا ہو) حلال طریقے سے جنسی ضروریات پوری کرلے تو اسے "نکاح مسیار" اور عربی میں 
"زواج مسیار" کہتے ہیں۔
خلیج اور نجد کے بعض دیہی علاقوں میں صرف گزرنے اور معمولی مدت کے لئے ٹھہرنے کے لئے بھی "مسیار" کا اطلاق ہوتا ہے۔
چونکہ نکاح مسیار میں شوہر سسرال میں قلیل مدت کے لئے آتاجاتا ہے اسی لئے اسے مسیار کہتے ہیں۔
عموما یہ نکاح جانبین کی رضامندی، ولی کی موجودگی، ایجاب وقبول، شرعی گواہوں اور اعلان کے ساتھ ہوتا ہے! اس لئے فقہی اعتبار سے اس کی صحت وانعقاد سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔
اس میں مدت نکاح کی تحدید بھی نہیں ہوتی، کہ متعہ کے مماثل قرار پائے، نسب کا الحاق بھی شوہر سے ہوتا ہے۔ ہاں سال دو سال بعد واپسی کے وقت طلاق دینے کی نیت ہوتی ہے، تو ایسی نیت کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔
فی العنایۃ علی ھامش فتح القدیر (۲۵۰/۳): واستشکل ھذہ المسئلۃ بما اذا شرط وقت العقد ان یطلقھا بعد شھر فان النکاح صحیح والشرط باطل ولا فرق بینھا وبین مافیہ واجیب بان الفرق بینھما ظاھر لان الطلاق قاطع للنکاح فاشتراط بعد شھر لینقطع بہ دلیل علی وجود العقد مؤبدا ولھذا لومضی الشھر لم یبطل النکاح فکان النکاح صحیحا ۔۔۔ والشرط باطلا وأما صورۃ النزاع فالشرط انما ھو فی النکاح لافی قاطعہ۔
وفی الشامیۃ (۵۱/۳): (قولہ: ولیس منہ الخ) لأن اشتراط القاطع یدل علی انعقادہ مؤبدا وبطل الشرط، بحر۔
فتح القدیر میں ہے: 
أما لوتزوج وفي نيته أن يطلقها بعد مدة نواها صح. ٣\١٥٢ .
هكذا في الدر المختار٣\٥١}
عورت نے جو نفقہ وسکنی کے حقوق معاف کئے ہیں وہ معاف نہیں ہونگے بلکہ  بدستور شوہر کے ذمے باقی رہیں گے۔
اصولا تو یہ نکاح جائز ہے لیکن چونکہ اس رشتے میں دوام نہیں ہے اور ابغض المباحات "طلاق" دینے کی نیت بھی ہے ۔اس لئے نکاح مسنون کی روح سے ہم آہنگ نہ ہونے اور عمرانی حقوق کے خاطر خواہ تحفظ کا ضامن نہ ہونے کی وجہ سے اس طریقہ نکاح کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی اور ایسے نکاح سے اجتناب کی ضرورت ہے۔
رابطہ عالمی اسلامی 'او آئی سی' کے تحت جدہ سعودی عربیہ میں قائم اسلامک فقہ اکیڈمی "مجمع الفقه الإسلامي" نے نکاح کے مروجہ طریقوں کے بارے میں یوم  الخميس 15 ربيع الأول / 1427 هـ الخميس 13 أبريل 2006 وقت 01:26 کو غور وخوض کے لئے اجلاس عام بلایا تھا۔ اس اکیڈمی میں اسلامی ممالک کے نامور چوٹی کی علمی شخصیات کی نمائندگی ہے۔ پاکستان سے مفتی تقی عثمانی صاحب، وطن عزیز سے فقیہ اسلام حضرت قاضی مجاہدالاسلام قاسمی رحمہ اللہ تاحیات رکن رہے۔
اٹھارویں اجلاس مکہ میں عالم اسلام کی ممتاز شخصیت ڈاکٹر وہبہ مصطفی زحیلی رحمہ اللہ کے زیر صدارت منعقد ہوا تھا جس میں موضوع پہ غور وخوض اور بحث وتمحیص کے بعد صدراجلاس کی طرف سے یہ متفقہ اعلامیہ جاری ہوا تھا:
المجمع الفقهي الإسلامي برابطة العالم الإسلامي، الدورة الثامنة عشرة المنعقدة بمكة المكرمة
نظر المجمع في موضوع «عقود النكاح المستحدثة» وبعد الاستماع إلى البحوث المقدمة والمناقشات المستفيضة قرر ما يأتي:
يؤكد المجمع أن عقود الزواج المستحدثة وإن اختلفت أسماؤها وأوصافها وصورها لابد أن تخضع لقواعد الشريعة المقررة وضوابطها من توافر الأركان والشروط وانتفاء الموانع..
وقد أحدث الناس في عصرنا الحاضر بعض تلك العقود المبينة أحكامها فيما يأتي:
 1 / إبرام عقد زواج تتنازل فيه المرأة عن السكن والنفقة والقسم أو بعض منها وترضى بأن يأتي الرجل إلى دارها في أي وقت شاء من ليل أو نهار، ويتناول ذلك أيضا..إبرام عقد زواج على أن تظل الفتاة في بيت أهلها ثم يلتقيان متى رغبا في بيت أهلها أو في أي مكان آخر حيث لا يتوافر سكن لهما ولا نفقة. هذان العقدان وأمثالهما صحيحان إذا توافرت فيهما أركان الزواج وشروطه وخلوه من الموانع ولكن ذلك خلاف الأولى.
الخميس / 15 / ربيع الأول / 1427 هـ الخميس 13 أبريل 2006 01:26
اسلامک فقہ اکیڈمی اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ شادی کے نئے عقد کو اگرچہ اس کے نام اور اوصاف وصورتیں مختلف ہوں شریعت مطہرہ کے مقرر کردہ قواعد وضوابط کے تابع ہونا چاہئے۔ اور اس میں ارکان وشروط پورے ہوں۔ اور موانع سے خالی ہوں۔
عصرحاضر میں لوگوں نے بعض عقد ایجاد کرلئے ہیں جس کے احکام درج ذیل ہیں:
ایسا عقد زواج جس میں عورت رہائش، خرچ اور تقسیم یا کچھ دوسرے حقوق اپنی مرضی سے ختم کردے کہ مرد جب چاہے دن یا رات میں اس کے پاس آسکتا ہے۔ اور اس میں یہ بھی شامل ہے کہ ایسا عقد نکاح جس میں عورت اپنے گھر والوں کے ساتھ میکے میں ہی رہے۔ اور میاں بیوی جب چاہیں عورت کے میکے یا کسی اور جگہ مل لیں۔اس طرح خاوند بیوی کو نہ رہائش دے نہ ہی خرچ وغیرہ ۔ 'یہ دونوں عقد صحیح ہیں'۔ اور اس طرح کے دوسرے عقد اس وقت صحیح ہونگے جب اس میں شادی کے ارکان وشرائط موجود ہوں اور کوئی مانع موجود نہ ہو ۔لیکن یہ نکاح خلاف اولی ہے۔ ایسا نکاح جائز ہے چاہے اسے مسیار کا نام دیا جائے چاہے کچھ اور)
نکاح مسیار کو جائز کہنے والوں میں سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز ابن باز، شیخ عثیمین، امام حرم مکی شیخ سعود الشریم، سابق امام ازہر سید طنطاوی اور ڈاکٹر یوسف قرضاوی خصوصیت سے قابل ذکر ہیں. 
جبکہ ناجائز کہنے والوں میں پروفیسر ڈاکٹر قرة داغی اور البانیہ سے تعلق رکھنے والے شیخ ناصر الدین البانی سرفہرست ہیں۔
جامعہ بنوریہ کراچی کے دارالافتاء سے نکاح مسیار کو اصولا جائز جبکہ مقاصد نکاح سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے مکروہ کہتے ہوئے اس سے پرہیز کرنے کی نصیحت کی گئی ہے۔
دیکھئے فتوی نمبر 9881 
مجریہ 15 محرم ١٤٣٢ ہجری 
(موافق 29/9/2010)
عاجز کا خیال یہ ہے کہ اگر نکاح مسیار سطور بالا میں درج شرائط وارکان کی رعایت کے ساتھ انجام دیا گیا ہو تو شرعا درست ہے البتہ سماجا اور معاشرتا نکاح کی یہ صورت جائز نہیں۔ اس میں یک گونہ عورت کے جسمانی اور اس کی اولاد کی تربیتی واخلاقی حقوق کا استحصال ہے۔ اور اگر نکاح شرعی کے قواعد وضوابط کا لحاظ کئے بغیر اس نکاح کو منعقد کیا گیا ہو پھر تو یہ سرے سے حرام ہی ہوگا۔
سعودی عرب کے شیخ بن باز 1996 میں اور بعدہ شیخ عثیمین نے اگر چہ ابتدائی طور پہ اسے جائز کہا تھا لیکن بعد میں اس سے ناجائز اور غلط فائدہ اٹھانے کی رسم پڑجانے کی وجہ سے وہ بھی توقف اختیار کرگئے تھے۔
معاشرہ میں اس نکاح کا منفی اثر پڑنا یقینی ہے۔ اس لئے میں معاشرتا اسے ناقابل قبول سمجھتا ہوں!
واللہ اعلم بالصواب 
شکیل منصور القاسمی 
مركز البحوث الإسلامية العالمي 
٦\٧\١٤٣٩هجرية

http://saagartimes.blogspot.in/2018/03/blog-post_75.html?m=1


Sunday, 18 March 2018

ماہ رجب کی آمد آمد!

گزشتہ شب جمادی الاُخری کی ٢۹ تاریخ تھی، مغرب میں ماہِ رجب کا چاند نظر نہیں آیا تاہم آج مغرب سے یکم رجب المرجب ہے ...
اللّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِىْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَ بَلِغْنَا رَمَضَانَ
يا الله! رجب اور شعبان کے مہینوں کو ہمارے لئے بابرکت بنا، ان مہینوں میں ہمارے ایمان علم ہدایت أعمال و أموال دین و دنیا میں  برکت مقدر فرما، اور انہی برکتوں کے ساتھ ہم کو رمضان المبارک کے مہینہ تک پہنچادے.
رمضان المبارک کی روحانی علمی باطنی تیاری کے لئے یہ دو مبارک مہینے ہیں. ماہرین کے مطابق رجب المرجب کے چاند کی پیدائش عالمی معیاری وقت کے مطابق گزشتہ روز ہفتہ 17 مارچ 2018 کو 13:12 GMT/UT پر ہوچکی ہے۔ سورج اور چاند کے ایک سیدھ میں آجانے کا وقت ولادت قمر یعنی چاند کی پیدائش New Moon یا اجتماع شمس و قمر Conjunction کہلاتا ہے اور اس حالت کو حالت محاق کہا جاتا ہے۔ ولادت قمر کے بعد گزرنے والا وقت چاند کی عمر کہلاتا ہے. عین ولادت کے وقت چاند کی عمر صفر ہوتی ہے۔ ولادت قمر کے وقت چاند کا جو نصف تاریک حصہ ہماری طرف ہوتا ہے، ہمیشہ وہی حصہ زمین کی طرف رہتا ہے اس کا روشن نصف حصہ ہمارے بالمقابل دوسری جانب ہوتا ہے، اسی وجہ سے چاند ہمیں نظر نہیں آتا. یہ اجتماع ہر قمری ماہ کے آخری ایک دو دن مین ہوتا ہے چاند یکم کے بعد آہستہ آہستہ آفتاب سے بطرف مشرق دور ہوتا جاتا ہے تو ہمیں اس کا چمکتا ہوا کنارہ نظر آتا ہے وہی کنارہ ’ہلال‘ کہلاتا ہے۔ پھر اس کے روشن حصے کی مقدار بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ چودھویں کا چاند بن جاتا ہے پھر گھٹنے لگتا ہے یہی صورت حال ہر مہینے رہتی ہے۔
رجب و شعبان میں ایمان و قرآن اور سنت و ہدایت والے اعمال میں جو جتنی ترقی کرے گا اس کو اتنی زیادہ رمضان المبارک کی برکتیں نصیب ہوں گی ....
آج مغرب سے لے کر رمضان المبارک کے چاند تک کا نظام الاوقات مرتب کیا جائے.. موبائل فون کی، دوست و احباب کی، سیر سپاٹے کی، ہوٹلوں بازاروں کی، بستروں میں گھنٹوں سوتے پڑے رہنے اور وقت ضائع کرنے کی اب تک کی ترتیب بدل دی جائے!
اور رجب و شعبان کے دن رات میں تین تین پارے قرآن پاک کی تلاوت، آسان ترجمہ قرآن (مفتی تقی عثمانی صاحب  زیدمجدہ) سے روز ایک پارے کا ترجمہ اور تفسیر پڑھی جائے..
نیز معارف الحدیث (مولانا منظور صاحب نعمانی نوراللہ مرقدہ) سے روزمرہ کی زندگی کے احکام والی پچاس سو حدیثیں اور ان کی تشریح پڑھی جائے..
اسی طرح زندگی میں چھوٹی ہوئی نمازیں، قضا روزے، زکوٰۃ اور اپنے ذمہ اللہ کے حق اور مخلوقِ خدا کے حق جو باقی ہیں وہ ادا کرنے میں رجب و شعبان کے أن دو مہینوں میں اپنے کو مشغول رکھاجائے..
الغرض آج شام سے یعنی رجب کا چاند دیکھتے ہی مذکورہ ذیل کاموں میں تلاوت، ذکر، عبادت، تفسیر، حدیث، خدمت خلق اور ادائیگی حقوق میں اور اس کی دعوت اور دعاء میں خود مشغول ہوا جائے اور سب کو اس کی ترغیب و دعوت دی جاتی رہے..
رب العالمين ہم سب کو رجب و شعبان کی کماحقہ قدردانی کی توفیق عطا فرمائے،
آمین یا رب العالمین

Saturday, 17 March 2018

میت کو غسل دینے اور کفنانے کا طریقہ؟

سوال: میت کو غسل دینے اور کفنانے کا طریقہ کیا ہے؟
جواب: میت کو غسل دینے کا طریقہ درج ذیل ہے:
جس تختہ پر غسل دیا جائے پہلے اس کو تین یا پانچ یا سات مرتبہ لوبان وغیرہ کی دھونی دے لیں، اس پر میت کو قبلہ رخ کرکے یا جیسے بھی آسان ہو لٹایا جائے، اس کے بعد میت کے بدن کے کپڑے چاک کرلیں اور ایک تہبند اس کے ستر پر ڈال کر بدن کے کپڑے تارلیں، یہ تہبند موٹے کپڑے کا ناف سے لے کر پنڈلی تک ہونا چاہئے تاکہ بھیگنے کے بعد ستر نظر نہ آئے، پھر بائیں ہاتھ میں دستانے پہن کر میت کو استنجا کروائیں، اس کے بعد وضو کروائیں اور وضو میں کلی نہ کروائیں نہ ناک میں پانی ڈالا جائے اور نہ گٹوں تک ہاتھ دھوئے جائیں، ہاں البتہ کوئی کپڑا یا روئی وغیرہ انگلی پر لپیٹ کر تر کرکے ہونٹوں، دانتوں اور مسوڑھوں پر پھیر دیں، پھر اسی طرح ناک کے سوراخوں کو بھی صاف کردیں، خاص کر اگر میت جنبی یا حائضہ ہو تو منہ اور ناک پر انگلی پھیرنے کا زیادہ اہتمام کیا جائے، اس کے بعد ناک، منہ اور کانوں کے سوراخوں میں روئی رکھ دیں؛ تاکہ وضو وغسل کرواتے ہوئے پانی اندر نہ جائے، وضو کروانے کے بعد ڈاڑھی وسر کے بالوں کو صابن وغیرہ سے خوب اچھی طرح دھوویں، پھر مردے کو بائیں کروٹ پر لٹاکر بیری کے پتوں میں پکا ہوا یا سادہ نیم گرم پانی دائیں کروٹ پر خوب اچھی طرح تین مرتبہ نیچے سے اوپر تک بہادیں تاکہ پانی بائیں کروٹ کے نیچ پہنچ جائے۔ پھر دائیں کروٹ پر لٹاکر اس طرح بائیں کروٹ پر سر سے پیر تک تین مرتبہ پانی ڈالا جائے کہ پانی دائیں کروٹ تک پہنچ جائے، نیز پانی ڈالتے ہوئے بدن کو بھی آہستہ آہستہ ملا جائے، اگر میسر ہو تو صابن بھی استعمال کریں۔ اس کے بعد میت کو ذرا بٹھانے کے قریب کردیں اور پیٹ کو اوپر سے نیچے کی طرف آہستہ آہستہ ملیں اور دبائیں اگر کچھ نجاست نکلے تو صرف اس کو پونچھ کر دھو ڈالیں، وضو وغسل لوٹانے کی ضرورت نہیں، اس کے بعد اس کو بائیں کروٹ پر لٹاکر کافور ملے ہوئے پانی سرسے پیر تک تین دفعہ ڈالیں، پھر سارے بدن کو تولیہ وغیرہ سے پونچھ دیا جائے،
ویوضع کما مات کما تیسر في الأصح علی سریرٍ مجمرٍ وترًا إلی سبعٍ فقط ”فتح“ ککفنہ․․․ إلی قولہ: وینشف في ثوبٍ إلخ․ (الدر المختار مع رد المحتار: ۳/ ۸۴-۸۹، ط: زکریا دیوبند)
کفنانے کا طریقہ:
ایک لکڑی یا دھاگہ لے کر میت کے سر سے پیر تک ناپ لو دوسرا دھاگہ لے کر میت کی کمر اور سینہ کے نیچے سے نکال کر دھاگہ کے دونوں سروں سے چھ سات گرہ عرض میں زیادہ ناپ لو پھر سر سے پاوٴں تک برابر والی لکڑی یا دھاگہ کے بقدر لمبی اور عرض والے دھاگہ کے بقدر چوڑی ایک چادر لو اس کو ازار کہتے ہیں اور اس چادر سے تقریباً چار پانچ گرہ بڑی دوسری چادر لو جو عرض میں ازار کے برابر ہو اس کو لفافہ کہتے ہیں کرتا بغیر آستین اور بغیر کلی کا اس کو کفنی یا قمیص کہتے ہیں جو گردن سے پاوٴں تک ڈبل پارٹ کا ہوگا جس کو بیچ میں سے عرض میں شگاف دیدیں۔

مرد کو کفنانے کی یہ صورت ہوگی کہ چارپائی پر پہلے لفافہ بچھائیں اس کے اوپر ازار بچھادیں پھر کرتہ اس طرح کہ اس کا نچلا حصہ تو ازار پر رہے گا اور اوپر والے حصہ کو پاوٴں کی طرف سے سمیٹے ہوئے سرہانہ تک لے آئیں پھر میت کو غسل والے تختہ سے اطمینان سے اٹھا کر بچھے ہوئے کفن پر لٹادیں اور قمیص (کفن) کا جو حصہ سرہانہ کی طرف لپیٹ کر رکھا تھا اس کو سرسے سینہ کی طرف اُلٹ دیں تاکہ قمیص کا سوراخ گلے میں آجائے اور پھر اس کو پیروں کی طرف بڑھادیں جب قمیص پہنادیں تو غسل کے بعد جو تہبند میت پر ڈالا گیا تھا اس کو نکال دیں اور پیشانی پر ناک پر دونوں ہتھیلیوں پر دونوں گھٹنوں اور پاوٴں پر کافور مل دیں اس کے بعد ازار کا بایاں پلہ میت کے اوپر لپیٹ دو پھر دایاں لپیٹ دیں پھر لفافہ اسی طرح لپیٹو کہ بایاں پلہ نیچے اور دایاں اوپر رہے اس کے بعد کپڑے کی تین کتریں لے کر سر اور پاوٴں کی طرف سے اور کمر کے نیچے سے نکال کر ایک سے کفن کو باندھ دیں تاکہ ہوا سے یا ہلنے جلنے سے میت کا کفن ہٹ کر کوئی حصہ نہ کھلے۔
..........

{۳۱۳} نماز جنازہ کے لئے تیمم کرنا
سوال: جنازہ تیار ہو، تو جنبی اور بے وضو شخص تیمم کرکے نماز میں شامل ہوجائیں تو جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: حامداً و مصلیاً و مسلماً…
جنازہ کی نماز پڑھنے کے لئے ولی کے علاوہ اور کوئی شخص جنبی یا بے وضو ہو اور وہ وضو اور غسل کرنے جاوے وہاں تک جنازہ کی نماز فوت ہوجانے کا امکان ہو تو تیمم کرکے نماز میں شامل ہوسکتا ہے۔ (شامی، ۱؍۱۶۱) 

كيفية التوفيق بين حقوق الوالدين وحقوق الزوجة:-

سؤال وجواب:-

كيفية التوفيق بين حقوق الوالدين وحقوق الزوجة:-

بقلم فضيلة الشيخ الدكتور خلدون عبد العزيز مخلوطة.
______________________
سئلت ماذا يفعل الزوج عندما تتعارض مصلحة الوالدين مع مصلحة الزوجة ؟
وفي حال ما إذا طلبت الأم من ولدها أمراً وفي نفس الوقت طلبت الزوجة أمراً بخلافه فأيهما يقدم ؟
*الجواب:-*
هنا قضيتان :
القضية الأولى :
بِر الوالدين وهو فرض لازم على الزوج، إذا أمرته أمه أو أمره أبوه في غير معصية من معاصي الله عز وجل وجب عليه أن يطيع .
القضية الثانية :
الزوجة لها حق حسن العشرة .
ينبغي للزوج أن يوازن بين رأي الأم ورأي الزوجة فلا تخلو القضية من حالتين :
① إما أن تكون قضيةً شرعيةً قد فصل الله ورسوله في حكمها فلا خيار للأم ولا للزوجة، بل يطبق ما أمر الله بتطبيقه، إذا وقفت في الخيار وكان الخيار في قضية شرعية واجبة أو نهي عنها، فقدم أمر الله وشرع الله سواءً كان مع الأم أو كان مع الزوجة.
② الحالة الثانية:
أن يكون في القضايا التي وسع فيها كفضول الأمور، فحينئذٍ بِر الوالدين فرض لازم وقد تعارض بِرٌ واجبٌ مع أمر قد يكون من المستحبات كالإحسان إلى الزوجات، فلو فرضنا أن أماً دعت ابنها في عصر ذات يوم إلى أن يأتيها لقضاء حاجةٍ تحتاجها وقالت المرأة: إنها تريده لأمر ما من الفضول كالخروج في نزهة ونحوه من فضول الأمور، فحينئذٍ لا إشكال في أنه يقدم بِر الوالدة وطاعتها على تلك الزوجة؛ لأن الله تعالى أوجب على الإنسان أن يبر والديه وهذا فرض، وأما الإحسان في العشرة فإذا لم يصل إلى مراتب الفروض والواجبات فحينئذٍ لا إشكال في تقديم غيره عليه كما قرر العلماء ذلك في المسألة المعروفة بازدحام الفروض، يعني: إذا اجتمع فرضان أيهما يقدم؟
فالمقصود أنه إذا كانت هذه الأمور من الأمور الموسعة فيقدم بِر والدته على حق زوجته.
أما إذا كانت من الأمور الواجبة كأن تحتاج المرأة أمراً واجباً عليه كالنفقة والسكنى ونحو ذلك، فحينئذٍ لا إشكال فإنه يلبي حق زوجته الواجب
لأنه يبر والدته في غير معصية الله؛ وهو إذا برها في هذه الحالة التي يضيع فيها حق الزوجة، كان في هذه الحال مطيعاً للأم في معصية الله .
*والخلاصة:-*
التوفيق بين حق الأم وبين حقوق الزوجة يحتاج ذلك إلى زوج حكيم يستطيع الفصل بينهما .
وعلى الزوجة كذلك أن تكون حكيمة بأن تعرف نفسية والدة زوجها، فمن طبيعة المرأة التي هي دائمة الارتباط بغيرها، تحب أن تعيش في كنف الرجل وتحت رعايته، ومن ثم فهي ترتبط بابنها ارتباطاً قوياً، وتريد أن تمتلكه ويكون لها وحدها، ويعز عليها أن تحظى امرأة أخرى غيرها بعاطفة ابنها، فهي التي حملته في بطنها وسهرت الليالي الطويلة إلى جانبه ترعاه وتقوم على أمره، ولا نستطيع أن نغفل هذه المشاعر التي يفيض بها قلب كل أم.
وهنا فعلى الزوجة أن تتفهم جيداً هذه المشاعر والأحاسيس، بل قد تتأكد من هذه الحقيقة بأن تنظر إلى مكانه ابنها الصغير في قلبها ومدى علاقتها به، وأن تتخيل يوماً أن فتاة صغيرة سوف تسلب قلبه ومشاعره!! وإن كانت ليس لديها أولاد فلتنظر إلى حنينها إلى ذلك الطفل الذي تنتظره ويملأ قلبها بحبه على الرغم من أنه لم يأت إلى الوجود بعد.
وفي المقابل لابد أن تدرك كل أم أن الأمومة لا تعني أبداً امتلاك الأبناء، بل هي العطاء الذي لا ينقطع أبداً وهي سبل سعادة الأبناء لا سبيل تعاسة وشقاء، فالابن عندما يتزوج قد دخل مرحلة جديدة من الحياة والتي لها ظروفها الخاصة، وأصبح من حقه أن يكون له بيت مستقل، وحياة زوجية خاصة، وهذه هي سنة الحياة.