سوال:
کیا بیت المقدس ہمارا پہلا قبلہ ہے یا خانہ کعبہ ہی شروع سے مسلمانوں کا قبلہ رہا ہے؟
جواب:
قرآن مجید کی درج ذیل آیات میں تحویل قبلہ کا یہ حکم بیان ہوا ہے۔ارشاد باری ہے:
سَيَقُولُ السُّفَهَاء مِنَ النَّاسِ مَا وَلاَّهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوْا عَلَيْهَا قُل لِّلّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَن يَشَاء إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوْا شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاء فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوِهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوْتُوْا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ (البقره٢: ١٤٢-١٤٤)
''(ابراہیم کی بنائی ہوئی مسجد کو، اے پیغمبر ،ہم نے تمھارے لیے قبلہ ٹھیرانے کا فیصلہ کیا ہے تو) اب اِن لوگوں میں سے جو احمق ہیں ، وہ کہیں گے : اِنھیں کس چیز نے اُس قبلے سے پھیر دیا جس پر یہ پہلے تھے؟ اِ ن سے کہہ دو : مشرق اور مغرب سب اللہ ہی کے ہیں ، وہ جس کو چاہتا ہے، (اِن تعصبات سے نکال کر) سیدھی راہ دکھا دیتا ہے ۔ (ہم نے یہی کیا ہے ) اور (جس طرح مسجد حرام کو تمھارا قبلہ ٹھیرایا ہے) اِسی طرح تمھیں بھی ایک درمیان کی جماعت بنا دیا ہے تاکہ تم دنیا کے سب لوگوں پر (دین کی) شہادت دینے والے بنو اور اللہ کا رسول تم پر یہ شہادت دے۔ اور اِس سے پہلے جس قبلے پر تم تھے ، اُسے تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے ٹھیرایا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ یہ ایک بھاری بات تھی، مگر اُن کے لیے نہیں ، جنھیں اللہ ہدایت سے بہرہ یاب کرے۔ اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ (اِس طرح کی آزمایش سے وہ) تمھارے ایمان کو ضائع کرنا چاہے۔ اللہ تو لوگوں کے لیے بڑا مہربان ہے، سراسر رحمت ۔تمھارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھتے رہے ہیں۔ (اے پیغمبر) ، سو ہم نے فیصلہ کر لیا کہ تمھیں اُس قبلے کی طرف پھیر دیں جو تم کو پسند ہے۔ لہٰذا اب اپنا رخ مسجد حرام کی طرف پھیر دو اور جہاں کہیں بھی ہو، (نماز میں) اپنا رخ اُسی کی طرف کرو۔ یہ لوگ جنھیں کتاب دی گئی تھی ، جانتے ہیں کہ اُن کے پروردگار کی طرف سے یہی حق ہے اور (اِس کے باوجود) جو کچھ یہ کر رہے ہیں ، اللہ اُس سے بے خبر نہیں ہے۔''
ان آیات کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے، البتہ آپ اس بات کا اہتمام ضرور کرتے تھے کہ آپ اس رخ پر کھڑے ہوں جس پر خانہ کعبہ اور بیت المقدس دو نوں ہی قبلے آپ کے سامنے آ جائیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک اہل کتاب سے مختلف کوئی طریقہ اختیار نہ کیا کرتے تھے، جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو اس کا حکم یا اس کی اجازت نہ مل جاتی تھی۔
پھر جب آپ مدینہ میں آئے تو وہاں دونوں قبلوں کو بیک وقت سامنے رکھنا ممکن نہ تھا۔ لہٰذا، آپ نے اپنے اصول کے مطابق بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا شروع کر دی، لیکن آپ کا جی یہ چاہتا تھا کہ آپ خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں۔ پھر جیسا کہ درج بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے، کچھ ہی عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ حکم دے دیا کہ آپ کعبہ ہی کواپنا قبلہ بنائیں۔
چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مدینے میں مسلمانوں نے پہلے بیت المقدس کو اپنا قبلہ بنایا تھا۔
http://www.al-mawrid.org/index.php/questions/view/qibla-awel
No comments:
Post a Comment