حضرت سعید بن المُسیِّب رحمہ اللہ مشہور تابعی ہیں، بڑے مُحدِّثین میں شمار ہیں، اُن کی خدمت میں ایک شخص عبداللہ بن اَبی وَداعہ کثرت سے حاضر ہوا کرتے تھے، ایک مرتبہ چند روز حاضر نہ ہوسکے،
کئی روز کے بعد جب حاضر ہوئے تو حضرت سعید رحمہ اللہ نے دریافت فرمایا:
کہاں تھے؟
عرض کیا کہ:
میری بیوی کا انتقال ہوگیا ہے، اُس کی وجہ سے مَشاغل میں پھنسا رہا،
فرمایا:
ہم کو خبر نہ کی، ہم بھی جنازے میں شریک ہوتے،
تھوڑی دیر کے بعد مَیں اُٹھ کر آنے لگا،
فرمایا:
دوسرا نکاح کرلیا؟
مَیں نے عرض کیا:
حضرت، مجھ سے کون نکاح کر دے گا؟ دو تین آنے کی میری حیثیت ہے،
آپ نے فرمایا:
ہم کر دینگے،
ور یہ کہہ کر خطبہ پڑھا اور اپنی بیٹی کا نکاح نہایت معمولی مہر پر مجھ سے کردیا،
نکاح کے بعد مَیں اُٹھا اور اللہ ہی کو معلوم ہے کہ مجھے کس قدر مَسرَّت تھی!
خوشی میں سوچ رہا تھا کہ، رخصتی کے انتظام کے لئے کس سے قرض مانگوں، کیا کروں؟
اِسی فکر میں شام ہوگئی،
میرا روزہ تھا، مغرب کے وقت روزہ افطار کیا، نماز کے بعد گھر آیا، چَراغ جَلایا،
روٹی اور زیتون کا تیل موجود تھا، اُس کو کھانے لگا کہ کسی شخص نے دروازہ کھَٹکھٹایا،
مَیں نے پوچھا:
کون ہے؟
کہا: سعید ہے،
مَیں سوچنے لگا کہ: کون سعید ہے؟
حضرت کی طرف میرا خَیال بھی نہ گیا،
کہ چالیس برس سے اپنے گھر یا مسجد کے سِوا کہیں آنا جانا تھا ہی نہیں تھا،
باہر آکر دیکھا کہ حضرت سعید بن المُسیِّب ہیں،
مَیں نے عرض کیا:
آپ نے مجھے نہ بُلالیا،
فرمایا:
میرا ہی آنا مناسب تھا،
مَیں نے عرض کیا:
کیا ارشاد ہے؟
فرمایا:
مجھے یہ خَیال آیا کہ اب تمھارا نکاح ہوچکا ہے، تنہا رات کو سونا مناسب نہیں؛ اِس لئے تمھاری بیوی کو لایا ہوں،
یہ فرماکر اپنی لڑکی کو دروازے کے اندر کردیا، اور دروازہ بند کرکے چلے گئے،
وہ لڑکی شرم کی وجہ سے گِر گئی.
مَیں نے اندر سے کِواڑ بند کئے، اور وہ روٹی اور تیل جو چَراغ کے سامنے رکھا تھا، وہاں سے ہٹا دیا کہ اُس کی نظر نہ پڑے،
اور مکان کی چھت پر چڑھ کر پڑوسیوں کو آواز دی،
لوگ جمع ہوگئے تو مَیں نے کہا کہ:
حضرت سعیدؒ نے اپنی لڑکی سے میرا نکاح کر دیا ہے، اور اِس وقت وہ اُس کو خود ہی پہنچا گئے ہیں،
سب کو بڑا تعجب ہوا، کہنے لگے:
واقعی وہ تمھارے گھر میں ہے؟
مَیں نے کہا:
ہاں،
اِس کا چرچا ہوا، میری والدہ کو خبر ہوئی، وہ بھی اُسی وقت آگئیں، اور کہنے لگیں کہ: اگر تین دن تک تُونے اِس کو چھیڑا تو تیرا منہ نہ دیکھوں گی، ہم تین دن میں اِس کی تیاری کرلیں،
تین دن کے بعد جب مَیں اُس لڑکی سے مِلا تو دیکھا:
نہایت خوب صورت، قرآن شریف کی بھی حافظہ، اور سنتِ رسول سے بھی بہت زیادہ واقف، شوہر کے حقوق سے بھی بہت زیادہ باخبر،
ایک مہینے تک نہ تو حضرت سعیدؒ میرے پاس آئے نہ مَیں اُن کی خدمت میں گیا، ایک ماہ کے بعد مَیں حاضر ہوا تو وہاں مجمع تھا، مَیں سلام کرکے بیٹھ گیا، جب سب چلے گئے تو فرمایا:
اُس آدمی کو کیسا پایا؟
مَیں نے عرض کیا:
نہایت بہتر ہے کہ دوست دیکھ کر خوش ھوں، دشمن جلیں،
فرمایا:
اگر کوئی بات ناگوار ہوتو لکڑی سے خبر لینا،
مَیں واپس آگیا تو ایک آدمی کو بھیجا جو بیس ہزار درہم مجھے دے گیا۔۔۔۔
اُس لڑکی کو عبدالملک بن مَروان بادشاہ نے اپنے بیٹے ولید کے لئے، جو وَلیٔ عَہد بھی تھا، مانگا تھا، مگر حضرت سعید رحمہ اللہ نے عُذر کردیا تھا، جس کی وجہ سے عبدالملک ناراض بھی ہوا، اور ایک حِیلے سے حضرت سعید رحمہ اللہ کے سو کوڑے سخت سردی میں لگوائے، اور پانی کا گھڑا اُن پرگِروایا---
(حلیۃ الاولیاء 2)
(فضائل ذکر )
No comments:
Post a Comment