ایس اے ساگر
العیاذ باللہ ہمارے معاشرے میں غیبت کا خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے کہ ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکا ہے اور معاشرے کی جڑوں کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے، معاشرے کا بیش تر حصہ بلاتفریق مردوزن کے اس بیماری و اخلاقی برائی میں مبتلا نظر آتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ عورتوں کو موردالزام ٹھہرایا جاتا تھا کہ یہ غیبت و چغل خوری کرنے، رائی کا پہاڑ بنانے، بات کا بتنگڑ بنانے، ایک کے ساتھ دس لگانے اور اپنی غیبت و چغل خوری کا ماہرانہ صلاحیتوں کی وجہ سے گھروں میں فساد کروانے اور خاندانوں میں پھوٹ ڈلوانے میں یہ یدطولیٰ رکھتی تھیں ، لیکن اگر ہم اپنے گردوپیش کا بنظر غائر جائزہ لیں تو مرد حضرات بھی اس برے اور قبیح فعل میں عورتوں کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں، زمیندار ہوں یا گاؤں کے چوہدری حضرات ، دوران سفر بس میں سوار خواتین و حضرات ہوں یا نماز کے بعد مسجد میں بیٹھے ہوئے نمازی لوگ ، سب کے سب واضح و پوشیدہ انداز یا اشارہ و کنایہ سے غیبت و چغل خوری میں مصروف نظر آئیں گے۔ اس خطرناک اور تباہ کن مرض میں مبتلا مردوزن جن کے نزدیک غیبت یا چغل خوری کرنا، کسی کا راز فاش کرنا، کسی کے گھریلو معاملات کو برسرِعام کرنا، مسلمانوں کے عیوب کا پردہ فاش کرنا کوئی عیب یا گناہ نہیں ہوتا بلکہ معاشرے کے یہ چلتے پھرتے بظاہر انتہائی شریف اور معصوم نظر آنے والے یہ لوگ پس پردہ خطرناک اور مذموم مقاصد کار فرما ہوتے ہیں ۔ بظاہر ہمدردی و تعاون کی آڑ میں نہایت عیاری اور چالاکی سے کسی محفل یا مجلس مین بیٹھے مرد ہوں یا گھر میں بیٹھی ہوئی چار عورتیں ، اپنے مسلمان بھائی کا گوشت کھانے ( غیبت کرنے ) سے پہلے روایتی طور پر چند جملے ضرور کہتے نظر آئیں گے، قسم سے ڈرلگتا ہے کہیں غیبت نہ ہو جائے، میں یہ بات صرف تیرے ساتھ ہی کر رہا ہوں ( یا کر رہی ہوں ) غیبت و چغل خوری کرنا تو گناہ ہے ایک بات بتاتا ہوں…. تو پھر یہ لوگ ایسے ماہرانہ اور فاضلانہ انداز میں مسلمانوں کی عزت نفس کی دھجیاں بکھیرتے ہیں کہ سامعین بھی ان کی معلومات اور ذہانت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے ۔
:گناہ ہی نہیں سمجھا
اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس کو گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا جبکہ یہ گناہ کبیرہ ہے اور عام طور سے اس سے بے تو جہی ہے۔ انھیں کون سمجھائے کہ مسلمان کی غیبت و آبروریزی ہے اوربدظنی، بدگمانی گناہ کبیرہ ہے۔ برکة العصرکة قطب الاقطابشیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی نور اللہ مرقدہ نے فضائل ماہ رمضان کی فصل اول میں بہت ہی درد بھرے الفاظ میں قلبی کڑھن و بے چینی کو اس طرح بیان فرمایا ہے:
”ہم لو گ اس سے بہت ہی غافل ہیں۔ عوام کا ذکر نہیں، خواص مبتلا ہیں۔ ان لوگوں کو چھوڑ کر، جو دنیادار کہلاتے ہیں، دین داروں کی مجالس بھی بالعموم اس سے کم خالی ہوتی ہیں۔ اگر اپنے یا کسی کے دل میں کچھ کھٹک بھی پیدا ہو جائے تو ا س پر اظہارِ واقعہ اور بیانِ حقیقت کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ ہم اپنی محفلوں، مجلسوں اور گفتگو پر جب نظر ڈالیں گے تو پھر ہی اندازہ ہو گا کیا کما کر اور گنوا کراٹھتے ہیں. اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سود کے علاوہ اتنے سخت الفاظ ذکر نہیں فرمائے۔نبی کریم رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم نے بھی اس معصیت پر بڑی سخت وعیدیں بیان فرمائی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
﴿وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضاً اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُ﴾
یعنی ”ایک دوسرے کی غیبت مت کرو (کیوں کہ یہ ایسابرا عمل ہے جیسے اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانا) کیا تم میں سے کوئی اس کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردار بھائی کا گوشت کھائے؟ تم اس کو برا سمجھتے ہو“
لہٰذا جب اس عمل کو برا سمجھتے ہو تو غیبت کو بھی برا سمجھو۔ سنن ابی داؤد کی ایک حدیث میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ
”سود بہت بڑا گناہ ہے۔بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہے، اس گناہ کا ادنی درجہ یہ ہے کہ ”العیاذباللہ“ جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے زنا (بدکاری) کرے“ پھر فرمایا کہ سب سے بدترین سودیہ ہے کہ کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی آبرو (عزت) پر حملہ کرے۔ ایک حدیث میں فرمایا کہ”غیبت کا گناہ زنا کے گناہ سے بھی بد تر ہے(کیوں کہ زنا کو گناہ سمجھا جاتا ہے لیکن غیبت کو گناہ نہیں سمجھا جاتا، جیسا کہ عام مشاہدہ ہے)۔“
حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیاہے کہ”ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا
یا رسول اللہ ! غیبت کیا ہے؟
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”ذکرک اخاک بما یکرہ“ کسی کی پیٹھ پیچھے اس کے بارے میں ایسی بات کرنی جو اسے نا گوار ہو۔
سائل نے پوچھا: ”ان کان فی اخی ما اقول؟“
اگر اس میں واقعةً وہ بات موجود ہو جو کہی گئی ہے؟
حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب ہی تو غیبت ہے۔ اگر واقعةً موجود نہ ہو تب تو بہتان ہے اور یہ دوہرا گناہ ہے۔
ایک مسلم جان کی حرمت وتقدس:
علامہ شکیل منصور القاسمی صاحب رقمطراز ہیں:
اسلام میں ایک مسلم جان کی حرمت وتقدس کعبہ سے بھی بڑھ کے ہے۔ عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہ حضورصلَّى اللهُ عليه وسلَّم کی یہ حدیث نقل فرماتے ہیں
- رأيتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يطوفُ بالكعبةِ ويقولُ ما أطيبَك وما أطيبَ ريحَك ما أعظمَك وما أعظمَ حُرمتَك والَّذي نفسُ محمَّدٍ بيدِه لحُرمةُ المؤمنِ عند اللهِ أعظمُ من حُرمتِك مالُه ودمُه
الراوي:
عبدالله بن عمرو
المحدث:
المنذري - المصدر: الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 3/276خلاصة حكم المحدث: [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]۔
اسی لئے اسلام نے ہر مومن کے عیوب واقعی کو چھپانے کا حکم دیا ہے۔کسی کےافشاء راز کی اجازت قطعا نہ دی ۔ایسا کرنا اسلام میں سخت گناہ قرار پایا۔
حقیقت غیبت:
اپنے بھائی کے بارے میں اس کے خاندان، اخلاق، جسمانی ساخت ،قول و فعل، حرکات و سکنات، یہاں تک کہ کپڑا، مکان اور سواری کے بارے میں"غائبانہ" ایسی واقعی بات کہنا یا اشارہ کنایہ کرنا جو متعلق شخص کو ناگوار گذرے "غیبت"؛کہلاتا ہے.
(احیاء علوم الدین ۔جلد 3۔صفحہ 143 )
پیٹھ پیچھے تکلیف دہ واقعی بات کا تذکرہ کرنا غیبت ہے۔ غیر واقعی بات کا تذکرہ کرنا خواہ سامنے ہو یا پیچھے "بہتان" کہلاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم خود غیبت اور بہتان کی تعریف اس طرح فرماتے ہیں:
ذكرك أخاك بما يكره..........ان كان فيه ما تقول فقد اغتبته. وان لم يكن فيه فقد بهته
(أخرجه مسلم جلد4.صفحه 2001.باب تحريم الغيبة)
غیبت کی تعریف میں یہ قید ضروری ہے کہ کسی کے امر واقعی کا ذکر اس کے غائبانہ میں ہو. اور یہ تذکرہ اس کے لئے باعث تکلیف بھی ہو ۔
اس کے بغیر غیبت کی تعریف صادق نہیں آئے گی۔
ایک لفظ بہتان آتا ہے اس کے بارے میں فقہاء لکھتے ہیں کہ تکلیف دہ امر غیر واقعی کو بیان کیا جائے خواہ سامنے ہو یا غیبوبت میں۔
تو غیبت کے لئے غیبوبت ضروری ہے.
جرجانی رحمہ اللہ لکھتے ہی،
معنی اصطلاحی معنی لغوی سے خارج نہیں ہو سکتے۔
والفرق بين الغيبة والبهتان هو أن الغيبة ذكر الإنسان "في غيبته" بما يكره.والبهتان وصفه بما ليس فيه.سواء أكان ذا لك في غيبته أم في وجوده.
دیکھئے جامع البیان جلد 26۔صفحہ 137۔ط الحلبی۔۔التعریفات 143۔
غیبت کی شناعت:
جمہور علماء امت کے یہاں غیبت حرام ہے اور گناہ کبیرہ میں داخل ہے۔ قرآن وحدیث میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں۔ قرآن نے اسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت قرار دیا ہے.
(الحجرات :12 احکام القرآن للقرطبی ۔جلد 16۔صفحہ 237۔الزواجر ۔جلد 2۔صفحہ7۔)
مختلف احادیث میں اس کی سخت مذمت آئی ہے۔
ایک حدیث میں ہے سب سے بڑا گناہ کسی کی عزت کے پیچھے پڑنا ہے۔
ان من اکبر الکبائر استطالة المرء فی عرض رجل مسلم بغیر حق۔
(اخرجہ ابودائود جلد5۔صفحہ 193۔عن ابی ھریرہ)
ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن غیبت کر نے والے کے ناخن پیتل کے ہوں گے اور خود اپنے ناخن سے اپنے چہرے اور سینے کو نوچیں گے۔
(اخرجہ ابو داءود جلد 5۔صفحہ 164۔عن انس بن مالک ۔وصححہ العراقی) ۔
ایک حدیث میں ہے کہ غیبت زناء سے بھی زیادہ سخت ہے۔کیونکہ آدمی احوال سے مغلوب ہوکے اگر زناء کرلے پہر ندامت کے بعد توبہ کرلے تو اللہ اسے معاف فرمادیتے ہیں۔ جبکہ غیبت ایسا گناہ ہے کہ جب تک صاحب حق معاف نہ کرے اس کی مغفرت نہیں ہوگی۔
(یہ حدیث سند کے اعتبار سے اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس کے معنی صحیح ہیں )
- الغِيبةُ أشدُّ من الزِّنا ، قالوا : يا رسولَ اللهِ ! وكيف الغِيبةُ أشدُّ من الزِّنا ؟ قال : إنَّ الرَّجلَ ليزني فيتوبُ فيتوبُ اللهُ عليه ، وفي روايةِ حمزةَ : فيتوبُ فيغفرُ له ، وإنَّ صاحبَ الغِيبةِ لا يُغفَرُ له حتَّى يغفِرَها له صاحبُه
الراوي:
أبو سعيد الخدري و جابر بن عبدالله
المحدث:
البيهقي - المصدر: شعب الإيمان - الصفحة أو الرقم: 5/2298خلاصة حكم المحدث: إسناده ضعيف
چونکہ غیبت سے انسانی عزت کی دھجیاں اڑتی ہیں اور ایک مسلم بے آبرو ہوتا ہے، اس لئے انسانی عزت کے پاس ولحاظ میں شریعت اسلامیہ میں اس کو حرام قرار دیا گیا.
(الفروق للقرافی2001/4 )
غیبت ہی سے ملتے جلتے الفاظ بہتان، حسد، حقد و بغض، سب وشتم، چغلخوری (نمیمہ ) وغیرہ ہیں
ان میں معمولی فرق کے سوا کوئی قابل ذکر بیں، فرق نہیں ہے۔ یہ سب اسلام کی نظر میں اخلاقی بیماریاں ہیں جن سے اسلامی معاشرہ کی تطہیر ضروری ہے۔
پتے کی بات:غیبت کے زنا سے بھی شدید تر ہونے کی وجہ سید الطائفہ حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمہ اللہ یوں بیان فرماتے ہیں :
زناء " گناہ باہی" (شہوت سے صادر ہونے والا ) ہے۔ اور غیبت " گناہ جاہی" (تکبر سے صادر ہونے والا گناہ ) ہے۔زناء کے صدور کے بعد آدمی میں ندامت وشرمندگی پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں اسے توبہ کی توفیق مل جاتی ہے اورمعافی مانگ کر اللہ کی مغفرت کا مستحق بن جاتا ہے۔جبکہ مبتلائے غیبت کو ندامت تک نہیں ہوتی کیونکہ اسے ہلکا اور معمولی سمجھتا ہے بلکہ بعض اوقات اسے گناہ بھی نہیں سمجھا جاتا ۔جس کی وجہ سے نہ توبہ کی طرف توجہ ہوتی ہے اور نہ ہی توفیق۔ یوں توبہ سے محروم ہوجاتا ہے ۔اس لئے حدیث میں اسے زناء سے زیادہ سخت کہاگیا ہے ۔ملفوظات حکیم الامت 218/2۔ملفوظ نمبر 693۔۔
غیبت کیوں کی جاتی ہے ؟
غیبت ایک اختیاری، اخلاقی اور نفسیاتی بیماری ہے۔اس کے صدور کی تہ میں کوئی نہ کوئی اخلاقی کمزوری ضرور ہوتی ہے۔ اللہ حضرات فقہاء کو جزاء خیر عطاء فرمائے کہ ان کی دقیقہ و نکتہ سنج طبیعتوں نے یہاں بھی نکتہ سنجی کرتے ہوئے یہاں تک ذکر فرمادیا کہ آدمی کتنے وجوہ و محرکات کے تحت دوسروں کی غیبت کرتا ہے. امام غزالی رحمہ اللہ نے احیاء میں اس کے گیارہ اسباب گنوائے ہیں۔ آٹھ اسباب عوام میں پائے جاتے ہیں اور تین خواص و اہل دین میں۔
(احیاء علوم الدین۔جلد 3۔صفحہ 145۔ط الحلبی۔)۔
عوام میں غیبت کے محرکات;
1۔۔۔۔غصہ۔۔۔کسی بات پر ناراضگی کی وجہ سے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے دوسروں کی برائی بیان کی جاتی ہے۔
2۔۔۔۔دوستوں کی مجلس میں دیکھا دیکھی دوسروں کی برائی بیان کی جاتی ہے ۔
3۔۔اپنے خلاف دی جانے والی کسی کی سچی گواہی کو غیر موثر اور ناقابل سماع کرنے کی خاطر پہلے ہی سے اس آدمی کی برائی بیان کی جانے لگتی ہے۔
4۔۔۔حقیقت بیانی ۔۔۔۔یعنی کسی پہ کسی چیز کا بےبنیاد اور جھوٹا الزام تھونپ دیاجائے۔جبکہ اصل مجرم کا اسے پتہ ہے۔تو ذاتی برات وتصفیہ کے لئے اب اصل مجرم کا نام اور برے کام بتایا جائے۔
5۔۔۔۔تکبر۔۔۔
خود کو بڑا باور کرانے کے لئے دوسروں کے عیوب بیان کیا جائے کہ مبادا اس کی بھی نہ تعظیم ہونے لگے !
6۔۔۔۔حسد ۔۔۔ابھرتے ہوئے شخص کو دیکھ کر اس کی عزت کو خاک میں ملانےکے درپے ہوجانا اور اس کی ترقی وعوامی پذیرائی کو روکنے کے لئے اس کی کردار کشی کی جائے ۔ اور تسکین انا کی خاطر اس کے خلاف بے بنیاد الزامات کے جال بنے جائیں ۔
7۔۔۔ہنسی مذاق اور دوسروں کو ہنسانے کے لئے یا مجمع کو قہقہہ زار بنانے کے لئے دوسروں کی پگڑی اچھالی جائے اور عیوب بیان کئے جائیں ۔
8۔۔۔تمسخر اور استہزاء کے لئے کسی کی برائی بیان کی جائے ۔
خواص میں غیبت کے اسباب:
1۔۔۔تعجب
2۔۔۔رحمت
3۔۔۔غضب
تعجب: کسی شخص کے ناجائز عمل پہ نکیر کرنے کے بعد مجلس میں جاکر بطور اظہار تعجب اس کا نام لیکر اس کے منکر کو بیان کیا جائے ۔منکر پہ نکیر اور پہر اس پہ تعجب یقینا امر مستحسن ہے لیکن نام لے لینے کی وجہ سے اب معروف منکر میں بدل گیا۔
رحمت: کسی کے فسق وفجور وآوارگی کو دیکھ کر تڑپ اٹھنا اور اس کے لئے سسکیاں یا آہیں بھرنا یقینا باعث ثواب عمل وجذبہ ہے لیکن پہر نجی مجلسوں میں جاکر اس شخص کا نام لے لینے سے اب یہ جذبہ حسیں غیبت کے زمرہ میں آگیا اور جو ثواب کمائے تھے شیطان نے اس پہ غیبت پہ قلعی چڑھا کے رائیگاں کردیا۔
غضب : کسی کی معصیت دیکھ ک غصہ ہوجانا اچھا جذبہ بیشک ہے !! لیکن اس اظہار غضب کے لئے مرتکب شخص کانام لینا غیبت ہو جائے گا۔
احیاء العلوم 143/3۔۔۔منہاج القاصدین ص 171 ۔۔۔
مباح شکلیں:
قرآن و حدیث کی دلائل کی وجہ سے غیبت تو اصلا حرام ہی ہے لیکن بعض ناگزیر شرعی ضرورتوں کے پیش نظر بر بنائے مصلحت اس کی بعض شکلیں مباح ہیں۔
امام غزالی، علامہ نووی، امام قرطبی، قاضی شوکانی اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہم اللہ جیسے محققین نے اس کے جواز کی چھ شکلیں نقل فرمائی ہیں۔
1۔۔۔۔ظلم سے بچنے کے لئے حاکم یا قاضی کو کسی شخص کے ظلم وعدوان کی خبر دینا۔
2۔۔۔۔۔کسی برائی کے دور کرنے اور اصلاح کے مقصد سے کسی کی غلطی اور خامیوں کو ذکر کرنا۔ بشرطیکہ اصلاح مقصود ہو کسی کی توہین نہیں ۔
3۔۔۔دینی مسئلہ معلوم کرنے کے لئے کہ فلاں مثلا میرے باپ یا بھائی نےمیرے ساتھ ایسے ویسے ظلم کیا ہے تو اس کا شرعی حکم کیا ہے؟۔
4۔۔کسی مسلمان کو دین یا دنیا کے نقصان سے بچانے کے لئے کسی کی غیبت کی جاسکتی ہے تاکہ دوسرے مسلمان اس کے دام فریب میں نہ آسکیں ۔رشتہ ناطہ کے بارے میں کوئی کسی سے استفسار کرے تو صحیح صورتحال کی وضاحت ضروری ہے چاہے اس میں کسی کی عیب جوئی ہی کیوں نہ کرنا پڑے!
5۔۔۔اگر انسان کسی ایسے لقب سے مشہور ہو جس میں اس کے نقص کا اظہار ہو لیکن یہی نام اس کے لئے معروف ہوچکا ہو تو اس کے استعمال کی اجازت ہے جیسے "اعمش" اعرج وغیرہ۔
6۔۔۔۔ایسے شخص کی غیبت بھی ناجائز نہیں جس کی زندگی کے ظاہری احوال ہی اس کے گناہوں کا اعلان کرتے ہوں اور وہ برسر عام فسق وفجور کا مرتکب ہو۔(احیاءعلوم الدین جلد 3۔صفحہ 145۔ شرح صحیح مسلم للنووی جلد2۔صفحہ322۔ط ھند۔الاذکار للنووی صفحہ 303۔۔رفع الریبہ للشوکانی صفحہ 13۔ط سلفیہ۔۔۔الجامع لاحکام القرآن جلد 16۔صفحہ 339۔۔ط مصر۔۔۔۔فتح الباری جلد 10۔صفحہ 472۔ط الریاض۔۔
جواز کی ان شکلوں کی بنیاد حضرت ھند زوجہ ابو سفیان کی وہ حدیث ہے جو صحیحین میں مروی ہے کہ انھوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ سے اپنے شوہر ابو سفیان کی برائی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ،
"ابو سفیان بڑا مکھی چوس ہے."
ان ابا سفیان رجل شحیح"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس عیب جوئی پہ کوئی نکیر نہ فرمائی
(اخرجہ البخاری ۔فتح الباری 507/9۔ و مسلم 1338/3 ۔قاموس الفقہ 446/4۔)
اس سلسلہ میں مسند ابویعلی کی ایک مرفوع حدیث بھی ہے "اذکروا الفاجر بمافیہ یحذرالناس"
اور حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل مبارک نقل فرماتے ہیں کہ ہم سفر کے دوران ایک منزل پہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ٹھہرے ۔حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مختلف افراد آتے۔ چلے جانے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم کسی کے بارے میں فرماتے،
یہ بہت گھٹیا آدمی ہے۔
کسی کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے،
یہ بہت اچھا آدمی ہے۔
عن ابی ھریرہ : نزلنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منزلا فجعل الناس یمرون فیقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نعم عبد اللہ ھذا۔وبئس عبد اللہ ھذا۔
(مرقات المفاتیح شرح مشکات المصابیح لعلی القاری ۔جلد 11۔صفحہ 446۔ط رشیدیہ۔
غیبت کے مفاسد:شیخ عبد الوہاب شعرانی تنبیہ المغترین میں لکھتے ہیں کہ جو شخص غیبت کرتا ہے وہ اپنی نیکیوں کو منجنیق پر رکھ کر منتشر کرتا ہے اور دوسروں کو دے رہا ہے ۔
حضرت سلطان ابراھیم بن ادھم کسی کے یہاں مہمان بنے۔میزبان نے کسی کی غیبت کی۔فورا اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ پہلے ہی گوشت کھلادیا ! وہ بھی مردہ بھائی کا ! اب کھاکر کیا کریں ؟؟؟ اگر شرم کی جگہ زخم ہو تو سوائے معالج کے کسی کو دیکھنادکھانا جائز نہیں ۔اسی طرح اپنے بھائی کے عیوب کو صرف اور صرف معالج اور مصلح کے علاوہ کسی سے کہنا جائز نہیں ۔حرام ہے۔غیبت کرنا اور سننا دونوں حرام ہے ایسا شخص قیامت کے روز مفلس اٹھے گا۔
حضرت سفیان بن حسین ایک مرتبہ قاضی ایاس بن معاویہ کی مجلس میں بیٹھ کر کسی کا تذکرہ کرنے لگے ۔جو غیبت تک جاپہنچا۔ تو قاضی ایاس بن معاویہ نے بڑی خوبی کے ساتھ اس پر متنبہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ کیا آپ نے رومیوں کے ساتھ جہاد کیاہے ؟؟؟؟
کہنے لگے نہیں !!
پہر فرمایا کہ کیا آپ نے سندھ وہند کے جہاد میں شرکت کی ؟؟
کہا نہیں !
تو قاضی صاحب نے فرمایا: عجیب بات ہے ! روم سندھ وہند کے کفار تو آپ کی تلواروں سے محفوظ رہے لیکن ایک بیچارہ مسلمان بھائی آپ کی زبان اور غیبت سے نہ بچ سکا۔ آپ نے زبان کی تلواریں اس پر چلادیں !
"دل دشمناں سلامت دل دوستاں نشانہ " والا معاملہ !!!
حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ مجھے قاضی صاحب کے اس جملہ کا اتنا اثر ہوا کہ اس کے بعد زندگی بھر پہر میں نے کسی کی غیبت نہیں کی۔
البدایہ والنہایہ 336/9 ۔۔
غیبت سے تحفظ کی صورتیں:
غیبت انسان اپنے اختیار سے کرتا ہے۔ اس سے بچنا بھی اس کے اختیار میں ہے۔درج ذیل صورتوں سے بچا جاسکتا ہے ۔
2۔۔۔اللہ سے اس سے بچنے کی دل سے دعاء کرے۔
2۔۔۔غیبت کی مذمت میں جو وعیدیں وارد ہیں ان کا استحضار کرے۔جیسے کہ غیبت کرنے سے محنت کی کمائی مفت میں ہاتھ سے چلی جائے گی ۔اچھے اعمال غیبت کئے ہوئے آدمی لوگوں کے قبضہ میں چلے جاتے ہیں ۔اور ان کی برائی اس کے سر تھونپ دی جائے گی ۔
- ( أتدرون مَن المُفلِسُ ؟ ) قالوا: المُفلِسُ فينا يا رسولَ اللهِ مَن لا درهمَ له ولا متاعَ له فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: ( المُفلِسُ مِن أمَّتي مَن يأتي يومَ القيامةِ بصلاتِه وصيامِه وزكاتِه وقد شتَم هذا وأكَل مالَ هذا وسفَك دمَ هذا وضرَب هذا فيقعُدُ فيُعطى هذا مِن حسناتِه وهذا مِن حسناتِه فإنْ فنِيَتْ حسناتُه قبْلَ أنْ يُعطيَ ما عليه أُخِذ مِن خطاياهم فطُرِحت عليه ثمَّ طُرِح في النَّارِ )
الراوي:
أبو هريرة
المحدث:
ابن حبان - المصدر: صحيح ابن حبان - الصفحة أو الرقم: 4411خلاصة حكم المحدث: أخرجه في صحيحه۔
امام غزالی منہاج العابدین میں لکھتے ہیں کہ اگر اسلام میں غیبت جائز ہوتی تو ماں کی غیبت جائز ہوتی تاکہ ان کے عظیم احسانات کے بدلہ اولاد کی نیکیاں وضع ہوکے ماں ہی کو مل جائے ۔یعنی گھر کی نیکی گھر ہی میں رہ جائے !!!
3۔۔۔جب غیبت کا داعیہ پیدا ہو تو اس کے تقاضا پہ عمل نہ کرے۔بلکہ اپنے عیوب پہ فورا نظر ڈال لے ۔جس کو اپنے عیوب کی فکر ہو وہ دوسروں کے عیوب کی تلاش میں کیوں پڑے گا ؟؟؟؟ جو خود بیمار ہو اسے دوسرے بیماروں کی کیا فکر ؟؟؟؟
بہادر شاہ ظفر مرحوم نے کتنی ظفر مندانہ بات کہی ہے
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر
رہے دیکھتے اوروں کے عیب وہنر
پڑی اپنی برائی پہ جو نظر تو جہاں میں کوئی برا نہ رہا
4۔۔۔کسی کا کوئی تذکرہ ہی نہ کرے ۔نہ اچھا نہ برا!
غیبت کا علاج :
1۔۔استحضار عقوبت وقت غیبت
2۔۔۔تامل قبل کلام
3۔۔۔معافی چاہنا بعد صدور غیبت
4۔۔۔اپنے اوپر کچھ جرمانہ نقدی یا نوافل کا ۔ تسہیل تربیت السالک 160/3۔۔۔۔
غیبت سے معافی کا طریقہ:
دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اگر کبھی کسی کی غیبت کرلی گئی ہو تو اس کے تدارک کا طریقہ یہ ہے کہ
اس آدمی کے پاس جاکے جو غیبتیں کی گئی تھیں ان کا تفصیلا بیان کرکے خلوص دل سے ان تمام برائیوں سے معافی مانگی جائے ۔البتہ اگر تفصیلی بیان میں اندیشہ ضرر ہو تو مجہولا بیان ہی میں معافی مانگ لے۔ اگر اس آدمی تک غیبت کی خبر نہ پہنچی ہو یا مرگیا ہو یا کافی دور دراز علاقہ میں رہتا ہو تو اس کے لئے اتنی مغفرت کرے کہ دل گواہی دیدے کہ اس گناہ کی تلافی ہوگئی ہوگی۔ اس کی تعریف کی جائے۔ اس کے لئے دعائے خیر کی جائے۔ اس کے لئے ایصال ثواب کیا جائے ۔
- إنَّ من كفَّارةِ الغيبةِ أن تستغفِرَ لِمَن اغتبتَهُ تقولُ اللَّهمَّ اغفِر لنا ولَهُ
الراوي:
أنس بن مالك
المحدث:
البيهقي - المصدر: الدعوات الكبير - الصفحة أو الرقم: 2/213خلاصة حكم المحدث: في [إسناده] ضعف
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
+597 8836887
غیبت کر نیوالوں کا انجام:
سنن ابی داؤد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
”قَالَ رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم: لما عرج بی مررت بقوم لھم اظفار من نحاس، یخمشون بھا وجوھھم و صدورھم، فقلت:من ھوٴلآء یا جبریل؟قال: ھوٴلآء الذین یأکلون الناس، ویقعون فی أعراضھم“․
(کتاب الادب،باب الغیبة)
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
”جب مجھے معراج کرائی گئی تو وہاں میرا گذر ایسے لوگوں پر ہوا جو اپنے ناخنوں سے اپنے چہرے وسینے کو نوچ رہے تھے۔ میں نے حضرت جبرئیل غیبت میں مشغول سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟
انہوں نے بتایا کہ یہ ”وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے(غیبت کرتے تھے) اورلوگوں کی عزت وآبرووٴں پر حملے کیاکرتے تھے۔“
ایک حدیث پاک میں ہے کہ غیبت کرنے والوں کو پل صراط کے اوپر جانے سے روک دیا جائے گااور کہا جائے گا کہ تم آگے نہیں بڑھ سکتے جب تک اس غیبت کا کفارہ ادا نہ کردو گے، یعنی جن کی غیبت کی ہے ان سے معافی نہ مانگ لو اور وہ تمہیں معاف نہ کردیں، اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتے۔
غیبت میں مشغول:
حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ نے نقل فرمایا ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں دو عورتوں نے روزہ رکھا۔ روزے میں اس شدت سے بھوک لگی کہ ناقابل برداشت بن گئی، ہلاکت کے قریب پہنچ گئیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دریافت کیا تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایک پیالہ ان کے پاس بھیجا اور قے کرنے کا حکم فرمایا۔ دونوں نے قے کی تو تازہ کھایا ہوا خون اور گوشت کے ٹکڑے نکلے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حیرت پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ حلال روزی سے تو روزہ رکھا اور حرام چیزوں کو کھایا کہ لوگوں کی غیبت میں مشغول رہیں۔
اگر یہ صحیح ہے تو....
بندہ نے اپنے بڑوں سے سنا کہ ایک مرتبہ حضرت لقمان حکیم علیہ السلام نے اپنے خادم وغلام کو جانور ذبح کرنے کا حکم فرمایا اور کہا کہ سب سے عمدہ اور بہترین حصہ لے کر آوٴ،وہ زبان اور جگر لایا، دوسرے دن پھر ذبح کرنے کا حکم دے کر کہا کہ آج سب سے خراب گوشت کا حصہ لانا۔چناں چہ اس نے دوسرے دن بھی زبان و جگرہی پیش کیا، جس پر تعجب ہوا اور دریافت فرمایا کہ یہ کیا بات ہے کہ ایک ہی چیز عمدہ وطیب بھی اور خراب و خبیث بھی؟
اس نے دست بستہ عرض کیا کہ حضرت! اگر یہ صحیح ہے تو تمام بدن و اعمال صحیح اور اگر یہ خراب تو پھر سب کچھ خراب ہے۔
عبرت ناک خواب:
حضرت ربعی رحمةاللہ علیہ ایک تابعی ہیں ،وہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ بیٹھے ہوئے باتیں کررہے ہیں ،میں بھی اس مجلس میں بیٹھ گیا،دوران گفتگو غیبت شروع ہو گئی،مجھے یہ بہت ناگوار ہوا اورمیں اٹھ کر چلا گیا،تھوڑی دیر بعد خیال آیا کہ غیبت کا موضوع ختم ہو گیا ہو گا، چناں چہ واپس آکر بیٹھ گیا پھر تھوڑی دیر مختلف باتیں ہوتی رہیں،اس کے بعد غیبت کا سلسلہ شروع ہو گیا، اب میری ہمت کمزور پڑگئی اور میں اٹھ کرنہ جا سکا۔
ان لوگوں کی غیبت پہلے تو میں سنتارہا اور پھر میں نے بھی غیبت میں ایک دو جملے کہہ دیے۔جب اس مجلس سے اٹھ کر گھر آگیا اور رات کو سویا تو خواب دیکھا ”انتہائی سیاہ فام(حبشی) آدمی ایک بڑے طشت میں میرے پاس گوشت لایا، غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ خنزیر کا گوشت ہے اور سیاہ فام آدمی مجھے یہ گوشت کھانے کو کہہ رہا ہے کہ کھاوٴ! یہ خنزیر کا گوشت۔میں نے کہا کہ میں تو مسلمان آدمی ہوں،یہ گوشت ناپاک حرام ہے، کیسے کھاوٴں؟اس نے کہا کہ تمہیں کھانا پڑے گا اور وہ ٹکڑے اٹھا، اٹھا کر زبردستی میرے منہ میں ٹھونسنے شروع کردیے۔میں منع کررہا ہوں اور وہ ٹھونس رہا ہے۔اسی شدید اذیت وتکلیف میں آنکھ کھل گئی۔
غیبت کا اثر:
بیدار ہونے کے بعد سے تیس دن تک میرایہ حال رہا کہ جب بھی کھانے کے وقت کھانا کھاتا تو خنزیر کا گوشت بدترین، بدبودار، خراب وہی ذائقہ، جو خواب میں کھاتے ہوئے محسوس ہوا تھا، میرے کھانے میں شامل ہو جاتا، اس واقعہ اور خواب کے ذریعہ اللہ کریم نے مجھے متنبہ کردیا کہ ذراسی دیر جو میں نے غیبت کی تھی اس کا یہ اثر ہے کہ تیس دن تک براذائقہ برداشت کرنا پڑا۔ غیبت کا تعلق اللہ جل شانہ کی نافرمانی کے ساتھ ساتھ اللہ کے بندوں کی حق تلفی سیبھی ہے، یہی وجہ کہ اللہ تعالیٰ شانہ اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بہت ہی سخت الفاظ کے ذریعہ اس کی حرمت کو بیان کیا ہے۔یہ بات بھی اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مردوعورت،امیر،غریب،مالک،مزدور،استادو شاگرد، والدین، میاں بیوی میں کوئی فرق نہیں ہے۔غیبت جس طرح زبان سے ہوتی ہے اسی طرح ہاتھ،آنکھ کے اشاروں سے بھی ہوتی ہے۔غیبت کا دنیا میں بدترین اثریہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قلوب میں دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں اللہ کی رحمت سے محرومی ہو جاتی ہے۔آپس کی محبتیں ختم ہو جاتی ہیں اور دیگر کئی گناہ وجود میں آتے ہیں، ہم کو اس طرف بہت ہی توجہ کرنی چاہیے کہ ابتلائے عام ہے۔اس طرف بھی توجہ کریں کہ ماتحتوں،ملازمین،گھر میں کام کرنے والیوں کی کوتاہی پر برا بھلا کہنے کے بجائے دعائیہ جملے کہہ دیا کریں۔مثلاً اللہ تم کو ہدایت دے،اللہ تمہیں جنت میں لے جائے،اللہ تم کو نیک بخت کرے۔
چھٹکارا پانے کا طریقہ:
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے تمام گناہوں سے بچنے، بالخصوص غیبت سے چھٹکارا پانے اور تلافی کا طریقہ بھی اپنی امت کو تعلیم فرمایا۔
(الف) مندرجہ ذیل دعا خوب اہتمام سے اللہ تعالیٰ سے مانگی جائے۔
”اللہم، انی اتخذ عندک عھداً لن تخلفنیہ، فانما انا بشر، فایما رجل موٴمن اٰذیتہ، او شتمتہ، او لعنتہ، او جلدتہ، او ضربتہ، او غبتہ، او ظننتہ سوءً فاجعلھا لہ صلٰوة و زکٰوةً، تقربہ بھا الیک“․
(ب) ہر مجلس کے اختتام پر مجلس کے کفارہ والی دعا اہتمام سے پڑھی جائے۔سبحانک اللہم وبحمدک، نشھد ان لا الہ الا انت، نستغفرک، ونتوب الیک۔دوسری دعا۔سبحان ربک رب العزت عما یصفون، وسلام علی المرسلین، والحمدللہ رب العالمین․
(ج) جس مسلمان کی غیبت کی ہے اس سے معافی مانگی جائے۔ اگر معافی مانگنا ممکن نہ ہو تو خوب ایصال ثواب کیا جائے۔
(د) خود غیبت سے بچنے کی کوشش کریں کہ ہر مجلس کے بعد چند لمحوں کے لیے سوچیں کہ غیبت تو نہیں ہوئی۔
(ھ) کوئی غیبت کررہا ہے تو پیار محبت سے اس کو منع کریں یا خود اس مجلس سے اٹھ کر چلے جائیں۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”فوالذی نفسی بیدہ لا یوٴمن احدکم حتٰی یحب لاخیہ مایحب لنفسہ“․
”تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوگا جب تک تم اپنے بھائی(دوسرے مسلمان) کے لیے وہی پسند کرو جو تم اپنے لیے کرتے ہو۔“ جب ہم اپنے لیے پسند نہیں کرتے کہ کوئی ہماری غیبت کرے تو ہم بھی دوسرے کی غیبت نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت نصیب فرمائے اور اس گناہ کبیرہ کی نفرت نصیب فرمایا کر چھوڑنے، بچنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
غیبت کا کفارہ کیا ہے؟
راوی: أنس رضي الله عنه قال صاحب الزنا يتوب وصاحب الغيبة ليس له توبة . روى البيهقي الأحاديث الثلاثة في شعب الإيمان
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم اس شخص کی مغفرت و بخشش کی دعا
مانگو جس کی تم نے غیبت کی ہے اور اس طرح دعا مانگو کہ اے اللہ ہم کو اور
اس شخص کو جس کی میں نے غیبت کی ہے بخش دے اس روایت کو بہیقی نے اپنی کتاب
دعوات کبیر میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند میں ضعف ہے۔
تشریح
دعا و مغفرت کے الفاظ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غیبت کرنے والا پہلے خواہ اپنے
حق میں مغفرت کی دعا کرے اس میں نکتہ یہ ہے کہ استغفار کرنے والے کے بارے
میں حق تعالیٰ کا وعدہ یہ ہے کہ اس کی دعا و مغفرت کو قبول کیا جائے گا
لہذا غیبت کرنے والا جب پہلے خود اپنے حق میں استغفار کرے گا اور اس کے
نتیجے میں وہ اس معصیت سے پاک ہو جائے گا تو دوسرے کے حق میں بھی اس کی
دعاء مغفرت قبول ہو گئی۔
" اغفرلنا " میں جمع متکلم کا صیغہ اس صورت کے اعتبار سے ہے کہ جب کہ غیبت
کا صدور بھی لوگوں سے ہوا ہو یعنی اگر غیبت کرنے والے کئی لوگ ہوں تو سب اس
طرح دعا مانگیں اور اگر غیبت کرنے والا ایک شخص ہو تو پھر " اغفرلی " کے
الفاظ استعمال ہوں گے یا یہ مراد کہ استغفار کرنے والا اپنی دعاء مغفرت میں
تمام مسلمانوں کو شامل کرے اس صورت میں اس دعا کے معنی یہ ہوں گے کہ اے
اللہ ہم سب مسلمانوں کو اور خاص طور پر اس شخص کو کہ جس کی میں نے غیبت کی
ہے بخش دے۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مغفرت کی دعا کرنا اس صورت سے متعلق ہے جبکہ اس
کی غیبت کی خبر اس شخص کو نہ پہنچی ہو جس کی غیبت کی گئی ہے اور اگر یہ
صورت ہو کہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے اس کو معلوم ہو گیا کہ فلاں شخص نے
میری یہ غیبت کی ہے تو غیبت کرنے والے کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ اس شخص سے
اپنے آپ کو معاف کرائے بایں طور کہ پہلے اس کو یہ بتائے کہ میں نے تمہاری
غیبت میں اس طرح کہا ہے اور پھر اس سے معاف اپنے آپ کو معاف کرائے اور اگر
غیبت کرنے والا کسی مجبوری اور عذر کی بناء پر ایسا نہ کر سکے تو پھر یہ
ارادہ رکھے کہ جب بھی ہو سکے گا اس سے اپنے آپ کو معاف کراؤں گا، چنانچہ اس
کے بعد جب بھی وہ اپنے آپ کو معاف کروا لے اس سے تو اس ذمہ داری سے بری ہو
جائے گا۔ اور اس غیبت کے سلسلہ میں اس پر کوئی حق ومواخذہ باقی نہیں رہ
جائے گا، ہاں اگر وہ اپنے آپ کو معاف کرانے سے بالکل عاجز رہا بایں سبب کہ
جس شخص کی اس نے غیبت کی ہے وہ مثلا مر گیا یا اتنی دور رہائش پذیر ہے کہ
اس سے ملاقات کا کوئی امکان نہیں ہے تو اس صورت میں اس کے لئے ضروری ہوگا
کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت و بخشش کا طلب گار ہو، اور اس کے فضل و کرم سے
یہ امید رکھے کہ وہ اس شخص کو اس کے تئیں راضی کر دے گا۔
فقیہ ابوللیث رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ علماء نے غیبت کرنے والے کی توبہ کے
بارے میں کلام کیا ہے کہ آیا اس کے لئے یہ جائز ہے یا نہیں؟ کہ اس نے جس
شخص کی غیبت کی ہے اس سے معاف کروائے بغیر توبہ کرے چنانچہ بعض علماء نے اس
کو جائز کہا ہے کہ جب کہ ہمارے نزدیک اس کی صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ اگر
اس کی غیبت کی خبر اس شخص کو پہنچ گئی ہے جس کی اس نے غیبت کی ہے تو اس کی
توبہ بس یہی ہے کہ وہ اس سے معاف کرائے اور دوسرے یہ کہ اگر کسی شخص کو اس
کی غیبت کی خبر پہنچی ہے تو اس صورت میں وہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت و بخشش کی
دعا مانگے اور دل میں یہ عہد کر لے کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔
بہیقی نے اس روایت کو گویا ضعیف قرار دیا ہے لیکن اس کا ضعف ہونا حدیث کے
اصل مفہوم پر اثر انداز نہیں ہوتا کیونکہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث سے بھی
استدلال کرنا کافی ہو جاتا ہے علاوہ ازیں جامع صغیر میں بھی اس طرح کی ایک
حدیث حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے جو اس روایت کو تقویت
پہنچاتی ہے اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ کفارۃ من الغیبۃ ان تستغفرلہ، یعنی
غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ اس شخص کے حق میں مغفرت کی دعا کی جائے جس کی غیبت
کی گئی ہے۔
مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 808
غیبت کا کفارہ