السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
سوال. کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ بیٹی اپنے والد کے انتقال کے بعد بهائی سے حق وراثت (ترکہ حصہ) کے مطالبہ کیا. جس کے بعد بهائی نے مکمل طور پر حق حصہ نہیں دیا بلکہ کچھ زمین سبهی بہن کو دیکر اور استعفیٰ نامہ لکھ کر اس پر سبھی بہنوں سے دستخط کروایا گیا ہے! لہٰذا اس گھر میں اب بہن اور بہنوئی کو کھانا پینا درست ہے کہ نہیں یا پھر اس گھر میں کوئی پروگرام ہو یا شادی بیاہ ہو تو اس میں شریک ہو کر کھانا کھایا جاسکتا ہے کہ نہیں؟
تفصیلی وضاحت کروائیں مہربانی ہوگی.
نوشاد احمد ہردیا بیگوسرائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
کسی وارث کو وراثت سے محروم کرنا اور اس کا حق مارنا بہت سخت گناہ ہے ۔ حدیثوں میں اس پہ سخت وعید آئی ہے۔
بھائی اگر بہنوں کا حصہ ختم کرنا چاہے تو اس سے ان کا حصہ ختم نہیں ہوگا بلکہ وہ بدستور والدین کی میراث میں حسب فروض حصہ دار رہے گی۔
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: من قطع میراث وارثہ، قطع اللّٰہ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ۔ (مشکاۃ المصابیح، کتاب البیوع / باب الوصایا، الفصل الثالث ۲۶۶، وکذا في سنن ابن ماجۃ، کتاب الوصایا / باب الحیف في الوصیۃ ۱۹۴ رقم: ۲۷۰۳ دار الفکر بیروت)
الإرث جبری لا یسقط بالإسقاط۔ (تکملۃ شامي ۱۱؍۶۷۸ زکریا)
سئل في امرأۃ ماتت عن أم وأخت شقیقۃ، وخلفت ترکۃً مشتملۃً علی أمتعۃ وأوانٍ أشہدت الأخت المزبورۃ علی نفسہا بعد قسمۃ بعضہا أنہا أسقطت حقہا من بقیۃ إرث أختہا وترکتہا لأمہا المزبورۃ، فہل لا یصح الإسقاط المذکور؟
الجواب: الإرث جبريٌ لا یسقط بالإسقاط۔ (تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ، کتاب الإقرار / مطلب: الإرث جبري لا یسقط بالإسقاط ۲؍۵۴ المکتبۃ المیمنیۃ مصر)۔
لیکن اگر بہن ' بھائیوں سے کچھ لے کے برضاء ورغبت اپنے حصہ میراث سے دستبردار ہوجائے اور بخوشی استعفاء لکھ دے تو یہ جائز ہے جسے علم فرائض کی اصطلاح میں"تخارج" کہتے ہیں۔ چند شرطوں کے ساتھ تخارج جائز ہے۔
جس شخص کی آمدنی کا آدھا سے زیادہ حصہ حلال ذریعہ پہ مشتمل ہو اس کی دعوت قبول کرنی چاہئے۔
اگر حرام کمائی غالب ہو لیکن دعوت کے لئے بطور خاص کسی حلال ذریعہ مثلا قرض یا ھدیہ سے حاصل شدہ ذریعہ کی تصریح کردی جائے پھر بھی دعوت قبول کی جائے گی۔ بعض ایسی دعوتوں کو جو سنت سے ثابت ہیں مثلا ولیمہ عقیقہ وغیرہ بلا عذر ترک کردینا معصیت ہے الا یہ کہ وہاں شرعی قباحت،مالی قباحت یا اعتقادی قباحت ہو تو پہر ایسی دعوتوں کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔
ولو دعى إلى دعوة فالواجب أن يجيبه إذا لم يكن هناك معصية ولا بدعة .الهندية 422/5.
زبان سے قبول کرلینے سے اجابت دعوت کی سنیت ادا ہوجاتی ہے۔ قبولیت کھانے پہ موقوف نہیں۔ ہاں بنفس نفیس شریک ہوکر کھالینا بہتر ضرور ہے !
واذا أجاب فقد فعل ماعليه .اكل أو لم يأكل. وإن لم يأكل فلا بأس به. والأفضل أن يأكل لوكان غير صائم كذا في الخلاصة. الهندية 422/5.
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
No comments:
Post a Comment