ایس اے ساگر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم:
(( لَیْسَ شَيْئٌ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ مَنْ قَطْرَتَیْنِ وَأَثَرَیْنِ: قَطْرَۃُ دُمُوْعٍ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ، وَقَطْرَۃُ دَمٍ تُھْرَاقُ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ وَأَمَّا الْأَثَرَانِ: فَأَثَرٌ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَأَثَرٌ فِيْ فَرِیْضَۃٍ مِنْ فَرَائِضِ اللّٰہِ۔ ))
صحیح سنن الترمذي، رقم: ۱۳۶۳۔
’’ اللہ تعالیٰ کے ہاں دو قطرے اور دو نشان سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہیں، اللہ کے ڈر سے آنسوؤں کا ایک قطرہ اور اللہ کے رستہ میں بہنے والے خون کا قطرہ دو نشان یہ ہیں ایک تو اللہ کے رستے میں زخم کا نشان اور دوسرا اللہ تعالیٰ کے فرائض میں سے ایک فریضہ کی ادائیگی کا نشان۔ ‘‘
اللہ کے خوف سے آنسوؤں کا قطرہ:
رب تعالیٰ کے خوف کی شدت اور اس کی محبت پیدا کرنے والی عظمت کی وجہ سے آنکھ سے بہنے والے قطرے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو کوئی چیز بھی زیادہ پسندیدہ نہیں۔ چنانچہ اس آنکھ کو آگ ہرگز نہ چھوئے گی رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم:
(( عَیْنَانِ لَا تَمُسُّھُمَا النَّارُ: عَیْنٌ بَکَتْ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ، وَعَیْنٌ بَاتَتْ تَحْرُسُ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ ))
صحیح سنن الترمذي، رقم: ۱۳۳۸۔
’’دو آنکھوں کو آگ نہیں چھوئے گی ایک وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے رو پڑی اور دوسری جس نے اللہ کے راستے میں پہرہ دیتے ہوئے رات گزاری۔‘‘
یعنی ایسی آنکھ والے کو ہرگز ہرگز آگ میں نہ ڈالا جائے گا اور نہ ہی آگ اسے چھو سکے گی اور یہی مرتبہ مجاہدین کا ہے۔ ایسے انسان کو رب رحمان اس دن سایہ نصیب کرے گا جس دن سوائے اس کے سایہ کے اور کسی چیز کا سایہ نہ ہوگا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( سَبْعَۃٌ یُّظِلُّھُمُ اللّٰہُ فِيْ ظِلِّہِ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّہُ: … وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ۔ ))
أخرجہ البخاري في کتاب الأذان، باب: من جلس في المسجد ینتظر الصلاۃ، وفضل المساجد، رقم: ۶۶۰۔
’’سات آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اس دن سایہ نصیب کرے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا… ان میں اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
سات افراد کو اللہ تعالیٰ قیامت کے اس دن اپنے (عرش کے) سائے میں رکھے گا جس دن اس کے (عرش کے ) سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ عدل پر وری کرنے والا حکمران۔ وہ (صالح)نوجوان جس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت وریاضت میں اپنی جوانی کے ایاّم بسر کیے ۔جس شخص نے اپنی تنہائی اور خلوت میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔وہ شخص جس کا دل (ہمیشہ ) مسجد میں معلق رہا ۔وہ دو افراد جو محض اللہ کو راضی کرنے کے لیے آپس میں محبت کرتے رہے۔وہ مردِ پاک باز جسے کسی حسین و جمیل اور مال دار خاتون نے دعوتِ گناہ دی اور اس نے کہا کہ میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں۔اور وہ شخص جس نے بڑی رازداری سے چھپا کر صدقہ کیا حتیٰ کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوسکی کہ اس کے دائیں ہاتھ نے (راہِ مولا میں )کیا دیا ہے۔
(بخاری،ترمذی)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مسلمان کے ایمان کا افضل درجہ یہ ہے کہ اسے اس امر کا یقین رہے کہ وہ جہاں بھی ہے اس کا خدا اس کے ساتھ (نگران )ہے۔
ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث بھی روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس حال میں کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے۔ اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے ۔
(بخاری، مسلم، ترمذی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ اللہ تبارک وتعالیٰ سے (حدیث قدسی) روایت کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت ارشادفرماتا ہے کہ مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم کہ میں اپنے بندے پر دوخوف اور دو امن اکھٹے نہ کروں گا۔ اگر وہ دنیا میں مجھ سے ڈرتا رہا (اور گناہوں سے مجتنب رہا ) تو میں قیامت کے دن اسے امن میں رکھوں گا اور اگر وہ دنیا میں مجھ سے بے خوف رہا تو میں اسے قیامت کے دن اپنے خوف میں مبتلا کروں گا۔
(بیہقی )
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کی عیادت کے لئے تشریف لائے دیکھا کہ وہ قریب المرگ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے پوچھا، اس وقت تیری کیا حالت ہے؟
اس نے عرض کیا،
میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امید وار ہوں، مگر اپنے گناہوں کی وجہ سے ڈر بھی رہا ہوں ۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا،
ایسے موقع پر کسی بندے کے دل میں یہ دو چیزیں جمع نہیں ہوتیں مگر یہ کہ اللہ اس شخص کو اس کی امید کے مطابق عطا فرماتا ہے اور اسے خوف وخطر سے امن میں بھی رکھتا ہے۔
(ترمذی ، ابن ماجہ)
ایک وہ آدمی ہے جس نے تنہائی میں اللہ کا ذکر کیا تو اس کی آنکھیں بہہ پڑیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انعام یافتہ انبیاء کی مدح و ستائش کی ہے جو اللہ کی آیات سن کر رو پڑتے اور سجدے کی حالت میں چلے جاتے، سورۃ مریم میں فرمایا:
{إِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُکِیًّا o} [مریم: ۵۸]
’’ ان کے سامنے جب رحمان کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی تھی یہ سجدہ کرتے اور روتے گڑگڑاتے ہوئے گر جاتے تھے۔‘‘
حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ الرَّمْلِيُّ حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ بْنِ خَدِيجٍ الْمَعَافِرِيُّ عَنْ أَرْطَاةَ بْنِ الْمُنْذِرِ عَنْ أَبِي عَامِرٍ الْأَلْهَانِيِّ عَنْ ثَوْبَانَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لَأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِي يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالِ جِبَالِ تِهَامَةَ بِيضًا فَيَجْعَلُهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَبَائً مَنْثُورًا قَالَ ثَوْبَانُ يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا جَلِّهِمْ لَنَا أَنْ لَا نَکُونَ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَا نَعْلَمُ قَالَ أَمَا إِنَّهُمْ إِخْوَانُکُمْ وَمِنْ جِلْدَتِکُمْ وَيَأْخُذُونَ مِنْ اللَّيْلِ کَمَا تَأْخُذُونَ وَلَکِنَّهُمْ أَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللَّهِ انْتَهَکُوهَا
ابن ماجہ شریف میں وارد ہے کہ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یوں فرمایا کہ میں جانتا ہوں ان لوگوں کو جو قیامت کے دن تہامہ کے پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے لیکن اللہ تعالیٰ ان کو اس غبار کی طرح کر دے گا جو اڑ جاتا ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے عرض کیا،
یا رسول اللہ، ان لوگوں کا حال ہم سے بیان کر دیجئے اور کھول کر بیان فرمائیے تاکہ ہم لاعلمی سے ان لوگوں میں نہ ہو جائیں۔
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا،
تم جان لو کہ وہ لوگ تمھارے بھائیوں میں سے ہیں اور تمھاری قوم میں سے اور رات کو اسی طرح عبادت کریں گے، جیسے تم عبادت کرتے ہو لیکن وہ لوگ یہ کریں گے کہ جب اکیلے ہوں گے تو حرام کاموں کا ارتکاب کریں گے۔
No comments:
Post a Comment