Thursday, 6 October 2016

نماز جنازہ

ایس اے ساگر
اس فانی دنیا میں ہر انسان کی زندگی طے شدہ ہے۔ وقت معیّن آنے کے بعد مہلت نہیں دی جاتی۔ اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے ....جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا ہے... ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ موت کے وقت کی سختی گناہوں کے سبب ہوتی پے لیکن حدیث پاک سے اس کی تردید ہوتی ہے. 
 بلندی درجات کی علامت: 
راوی:
وعن عائشة رضي الله عنها قالت : مات النبي صلى الله عليه و سلم بين حاقنتي وذاقنتي فلا أكره شدة الموت لأحد أبدا بعد النبي صلى الله عليه و سلم . رواه البخاري
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سینہ اور گردن کے درمیان وفات پائی، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی شخص کی موت کی سختی کو کبھی برا نہیں سمجھتی۔ (بخاری)
تشریح
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ارشاد کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات اس حالت میں ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا سہارا لئے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مبارک میرے سینہ اور گردن کے بیچ رکھا ہوا تھا لہٰذا میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت نزع کی کتنی شدید تکلیف میں مبتلا تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت کتنی سخت تھی!۔
حدیث کے دوسرے جزو فلا اکرہ شدۃ الموت کا مطلب یہ ہے کہ پہلے تو میں یہ سمجھتی تھی کہ حالت نزع کی تکلیف اور موت کی سختی گناہوں کی کثرت کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن جب میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت دیکھی تو مجھے معلوم ہوا کہ موت کی سختی گناہوں کی کثرت اور خاتمہ بالخیر نہ ہونے کی علامت نہیں ہے بلکہ موت کی سختی اور سکرات الموت کی شدت بلندی درجات کے لئے ہوتی ہے۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ موت کی آسانی اور سکرات الموت میں تخفیف بزرگی اور فضیلت کی بات نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فضیلت بطریق اولیٰ حاصل ہوتی۔
مشکوۃ شریف –جلد دوم –جنازوں کا بیان – حدیث 20مشکوۃ شریف – جلد دوم .اردو
تجہیز و تکفین:
انتقال کے بعد جتنی جلدی ہوسکے میت کو غسل وکفن کے بعد اس کی نمازِ جنازہ کا اہتمام کرنا چاہئے۔ نمازِ جنازہ فرضِ کفایہ ہے، یعنی اگر دو چار لوگ بھی پڑھ لیں تو فرض ادا ہوجائیگا۔ لیکن جس قدر بھی زیادہ آدمی ہوں اسی قدر میت کے حق میں اچھا ہے کیونکہ نہ معلوم کس کی دعا لگ جائے اور میت کی مغفرت ہوجائے۔ نبی اکرم  نے ارشاد فرمایا:
اگر کسی جنازہ میں ۱۰۰ مسلمان شریک ہوکر اس میت کے لئے شفاعت کریں (یعنی نمازِ جنازہ پڑھیں) تو ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ (مسلم)
اگر کسی مسلمان کے انتقال پر ایسے ۴۰ آدمی جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے ہیں، اس کی نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت (دعا) کو میت کے حق میں قبول فرماتا ہے۔ (مسلم)
نمازِ جنازہ کی اتنی فضیلت ہونے کے باوجود ، انتہائی افسوس اور فکر کی بات ہے کہ باپ کا جنازہ نماز کے لئے رکھا ہوا ہے اور بیٹا نمازِ جنازہ میں اِس لئے شریک نہیں ہورہا ہے کہ اس کو جنازہ کی نماز پڑھنی نہیں آتی ۔ حالانکہ جنازہ کی دعا اگر یاد نہیں ہے تب بھی نمازِ جنازہ میں ضرور شریک ہونا چاہئے، تاکہ جو رشتہ دار یا دوست یا کوئی بھی مسلمان اِس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کررہا ہے ، اس کے لئے ایک ایسے اہم کام (نمازِ جنازہ کی ادائیگی) میں ہماری شرکت ہوجائے جو اُس کی مغفرت کا سبب بن سکتا ہے۔
نمازِجنازہ میں چار تکبیریں (یعنی چار مرتبہ اللہ اکبر کہنا) ضروری ہیں، جن کی ترتیب اس طرح سے ہے :
پہلی تکبیر کے بعد : ثنا (سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ) ، یا پھر حمد وثنا کے طور پر سورہ فاتحہ پڑھ لیں۔
دوسری تکبیر کے بعد : درود شریف پڑھ لیں۔ (صرف اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّد پڑھنا بھی کافی ہے)۔
تیسری تکبیر کے بعد: جنازہ کی دعا پڑھیں۔ (احادیث میں دعا کے مختلف الفاظ مذکور ہیں، یاد نہ ہونے پر صرف اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤمِنِےْنَوَالْمُؤمِنَاتپڑھ لیں(
چوتھی تکبیر کے بعد: سلام پھیر دیں۔ (ایک طرف سلام پھیرنا کافی ہے، دونوں طرف سلام پھیرنا بھی نبی اکرم ا سے ثابت ہے۔ (مسلم(
مسائلِ متفرقہ:
* نمازِ جنازہ میں تکبیر اولیٰ کے وقت یقیناًدونوں ہاتھ اٹھائے جائیں گے، البتہ دوسری ،تیسری اور چوتھی تکبیر کے وقت رفع یدین کرنے یا نہ کرنے میں علماء کا اختلاف ہے، ان شاء اللہ دونوں شکلوں میں کامل نماز ادا ہوگی۔
* اگر نمازِ جنازہ میں ایک، دو یا تین تکبیر چھوٹ گئی ہیں، تو صف میں کھڑے ہوکر امام کی اگلی تکبیر کے ساتھ تکبیر کہہ کر جماعت میں شریک ہوجائیں۔ امام کے سلام پھیرنے کے بعد صرف چھوٹی ہوئی تکبیریں (یعنی اللہ اکبر) کہہ کر جلدی سے سلام پھیر دیں، کیونکہ چار تکبیریں کہنے پر نمازِ جنازہ ادا ہوجائے گی، ان شاء اللہ۔
* حرمین میں تقریباً ہر نماز کے بعد جنازہ کی نماز ہوتی ہے، لہذا فرض نماز سے فراغت کے بعد فوراً ہی سنن ونوافل کی نیت نہ باندھیں ، بلکہ تھوڑی دیر انتظار کرلیں، کیونکہ نمازِ جنازہ پڑھنے والے کو بھی اجروثواب ملتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: جو شحض کسی مسلمان کے جنازے میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے ساتھ چلا یہاں تک کہ اسکی نمازِ جنازہ پڑھی اور اسکو دفن کرنے میں بھی شریک رہا تو وہ دو قیراط اجر (ثواب) لیکر لوٹتا ہے اور ہر قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہے۔ اور جو شخص نماز جنازہ میں شریک ہوا مگر تدفین سے پہلے ہی واپس آگیا تو وہ ایک قیراط اجر (ثواب) کے ساتھ لوٹتا ہے۔ (بخاری ۔ مسلم(
* جنازہ کی نماز مسجد کے باہر کسی میدان میں پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔ البتہ مسجد کے باہر جگہ نہ ملنے کی صورت میں مسجد میں بھی نمازِ جنازہ ادا کی جاسکتی ہے۔ حرمین میں بغیر کسی کراہیت کے نمازِ جنازہ ادا کی جاسکتی ہے۔
* حرمین میں خواتین بھی نمازِ جنازہ میں شریک ہوسکتی ہیں۔
* نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے لئے طہارت یعنی کپڑوں اور بدن کا پاک ہونا، اسی طرح وضو کا ہونا ضروری ہے۔
* نمازِ جنازہ میں اگر لوگ کم ہوں تب بھی تین صفوں میں لوگوں کا کھڑا ہونا زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ بعض احادیث میں جنازہ کی تین صفوں کی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے۔ ( ابو داؤد(
* دیگر نمازوں کی طرح مذکورہ تین اوقات میں نمازِ جنازہ بھی پڑھنے سے نبی اکرم ا نے منع فرمایا ہے:
۱)سورج طلوع ہونے کے وقت۔ ۲) زوال (ٹھیک دوپہر)کے وقت۔ ۳) سورج ڈوبنے کے وقت
* اگر جوتے ناپاک ہوں تو ان کو پہن کر نمازِ جنازہ ادا نہیں کی جاسکتی ۔
* جنازہ کی نماز میں تکبیر کہتے ہوئے آسمان کی طرف منہ اٹھانا بے اصل ہے۔
* اگر کسی مسلمان کو بغیر نمازِجنازہ کے دفن کردیا گیا ہو تو جب تک نعش کے پھٹ جانے کا اندیشہ نہ ہو اسکی قبر پر نمازِ جنازہ ادا کی جاسکتی ہے۔
* کافر شخص کی نمازِ جنازہ ادا نہیں کی جائے گی، اسی طرح غسل یا کفن کا اہتمام بھی کافر شخص کے لئے نہیں ہے۔
* جس شہر یا جس علاقہ میں انتقال ہوا ہے اسی جگہ میت کو دفن کرنا زیادہ بہتر ہے، اگرچہ دوسرے شہر یا دوسرے ملک میں میت کو منتقل کرکے وہاں دفن کرنا جائز ہے۔
* جو حضرات جنازہ کے ساتھ قبرستان جارہے ہیں، اُن کو قبرستان میں جنازہ زمین پر رکھنے سے پہلے بیٹھنا مکروہ ہے۔
* جنازہ کو قبرستان کی طرف تھوڑا تیز چل کر لے جانا بہتر ہے۔ جنازے کے دائیں بائیں پیچھے آگے ہر طرف چل سکتے ہیں۔ البتہ آگے چلنے کے مقابلے میں جنازہ کے پیچھے چلنا زیادہ بہتر ہے۔
* نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات کے مطابق ایک دو دن میت کے گھر کھانا بھیجنا اخلاق حسنہ کا ایک نمونہ ہے۔ (مسند احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ، ترمذی) ۔ البتہ میت کے گھر والوں کا رشتہ داروں کو جمع کرکے اُن کو کھانا کھلانے کا خاص انتظام کرنا غلط ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایاہے۔ (ابن ماجہ ۱۶۱۲ ۔ مسند احمد ۶۹۰۵)
نوحہ گری:
کسی رشتہ دار کے انتقال پر دل یقیناًغمگین ہوتا ہے۔ آنکھ سے آنسوبھی بہتے ہیں۔ مگر بآواز بلند اور مختلف لہجوں کے ساتھ رونے سے گریز کیا جائے کیونکہ اس سے میت کو تکلیف ہوتی ہے۔ حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: نوحہ گری کی وجہ سے میت کو قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: گھر والوں کے زیادہ رونے پیٹنے کی وجہ سے میت کو عذاب ہوتا ہے۔ (مسلم)
غائبانہ نمازِ جنازہ :
اگر کوئی مسلمان ایسے علاقہ میں فوت ہوجائے جہاں اس کی نمازِ جنازہ ادا نہیں کی گئی تو ایسے شخص کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی جاسکتی ہے۔ شاہ حبشہ نجاشی فوت ہوئے تو وہاں کوئی اور مسلمان نہیں تھا ، لہذا خود حضور اکرم ا نے ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا فرمائی۔ اس واقعہ کے علاوہ کسی کی غائبانہ نمازِ جنازہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے نہیں پڑھی۔ آپ ا کے بہت سے جان نثار صحابہؓ ، قراء صحابہؓ ، آپ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر طیارؓ ، آپ کے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہؓ ان سب کا انتقال حالتِ سفر میں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو مدینہ منورہ میں خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انکی غائبانہ نمازِ جنازہ نہیں پڑھی۔ اسی لئے علامہ ابن القیم ؒ اپنی کتاب ( زاد المعاد ج ۱۔ ص ۵۲۰) میں لکھتے ہیں کہ جس شخص کی نمازِ جنازہ پڑھی جاچکی ہے اس کی غائبانہ نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ علامہ محمد ناصر الدین الالبانی ؒ نے اپنی کتاب (تلخیص احکام الجنائز ص ۴۸) میں لکھا ہے کہ جس شخص کی نمازِ جنازہ ادا کی جاچکی ہے اس کی غائبانہ نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد خلفاء راشدین میں سے کسی کی غائبانہ نمازِ جنازہ نہیں پڑھی گئی۔
نماز پڑھئے قبل اس کے کہ آپ کی نماز پڑھی جائے۔ عقلمند شخص وہ ہے جو مرنے سے پہلے اپنے مرنے کی تیاری کرلے۔

محمد نجیب قاسمی ، ریاض
..................................
اہل علم کے نزدیک نمازِ جنازہ بھی ایک نماز ہے ، چنانچہ حدیث میں ہمیشہ اس کے لئے’صلاۃ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے ،اور اس نماز کے لئے بھی طہارت و غیرہ کی وہی شرطیں ہیں، جو دوسری نمازوں کے لئے ہیں، اس کی بھی ابتداء تکبیر تحریمہ سے ہوتی ہے ،اور انتہاء سلام پر ، اس لئے جیسے دوسری نمازوں میں دو دفعہ سلام کیا جاتا ہے، اس نماز میں دائیں اوربائیں دونوں طرف سلام ہونا چاہئے ،نمازِ جنازہ کے سلسلے میں جو صحیح روایتیں ہیں ان میں ،مطلق سلام کا ذکر ہے ،ایک یا دو کی صراحت نہیں، اس لئے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ دوسری نمازوں کو سامنے رکھتے ہوئے نمازِ جنازہ میں بھی دو سلام کے قائل ہیں، دوسرے فقہاء رحمہم اللہ ایک ہی سلام کے قائل ہیں، یہی رائے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی ہے، سعودی عرب میں چونکہ زیادہ تر لوگ حنبلی المسلک ہیں، اس لئے وہ ایک سلام پر اکتفاء کرتے ہیں، ان کی دلیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت ہے، اس روایت میں ایک ہی سلام پھیر نے کا ذکر ہے ۔ اگر روایت معتبر ہوتی تو واقعی حجت تھی، مگر محدثین نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے، اس کی سند میں ایک راوی عبد اللہ بن صبہان بن ابو العنبس ہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں کہ یہ ضعیف ہیں۔ جہاں تک عمل کرنے کی بات ہے ، تو چونکہ یہ ایک فروعی مسئلہ ہے ، اس لئے جب آپ سعودی عرب میں رہیں ، تو جس امام کے پیچھے نماز پڑھیں اس کی اتباع کرلیں، اس کی گنجائش ہے ، اور جب خود امامت کریں یا حنفی امام کے پیچھے پڑھیں تو دوسلام پھیریں کہ دلیل کے اعتبار سے یہ رائے زیادہ قوی ہے 
از کتاب الفتاوی
......

نمازِ جنازہ کا مفصل طریقہ
میت کو صفوں کے آگے وست میں رکھا جائے اور امام میت کے سینے کے مقابل قبلہ رخ کھڑا ہو اور لوگ پیچھے صفیں بنائیں جیسا کہ تفصیل آگے آتی ہے امام ! اور قوم نمازِ جنازہ کی نیت اس طرح کریں کہ
“میں نمازِ جنازہ پڑھنے کی نیت کرتا ہوں اور خانہ کعبہ کی طرف متوجہ ہوں نماز اللّٰہ کے لئے ہے اور دعا میت کے لئے”
مقتدی امام کی اقتدا کی نیت بھی کرے پھر دونوں ہاتھ کانوں کی لو تک اٹھا کر امام بلند آواز سے تکبیر ( اللّٰہ اکبر) کہے اور مقتدی آہستہ آواز سے کہیں اور امام و مقتدی سب عام نمازوں کی طرح ناف کے نیچے ہاتھ باندھ لیں اور دوسری نمازوں کی طرح ثنا (سبحاک اللھم) آہستہ پڑھیں لیکن اس ثنا میں! وتعالٰی جدک کے بعد و جلّ ثنائُ ک زیادہ کرنا بہتر ہے پھر بغیر ہاتھ اٹھائے امام بلند آواز سے اس کے بعد مقتدی آہستہ اللّٰہ اکبر کہیں اور درود شریف پڑھیں بہتر وہی درود شریف ہے جو دوسری نمازوں میں آخری قعدہ میں پڑھتے ہیں پھر تیسری تکبیر اسی طرح بلا ہاتھ اٹھائے امام بلند آواز سے اور مقتدی آہستہ کہیں اور اپنی اور میت اور تمام مومنین اور مومنات کے لئے دعا کریں جو دعائیں احادیث میں آئیں ہیں ان میں سے پڑھنا بہتر ہے مشہور دعا جو عام طور پر پڑھی جاتی ہے یہ ہے
” اَللّٰھُمَّ اغفِر لِحَیِّنَا وَ مَیِّتِنَا وَ شَاھِدِ نَا وَ غَائِبِنَا وَ صَغِیرِنَا وَ کَبِیرِنَا وَذَکَرِنَا وَ اُنثَانَا اللّٰھُمَّ مَن اَحیَیطَہُ مِنَّا فَاحیِہِ عَلَی الاِسلَامِ وَمَن تَوَفَّیتَہُ مِنَا فَتَوفَّہُ عَلَی الاِیمَانِ ط”
اگر یہ دعا یاد نہ ہو تو جو دعا یاد ہو وہی پڑھ لے لیکن وہ دعا اور آخرت سے متعلق ہو اگر کوئی یاد نہ ہو تو یہ پڑھ لینا کافی ہے
“اللّٰھُمَّ الغفِر لِلمُومِنِینَ وَالمُومِنَاتِ”
اگر میت ایسے مجنون مرد کی ہو جو بالغ ہونے سے پہلے مجنون ہوا ہو یا نابالغ لڑکے کی ہو تو مذکورہ بالا دعا کے بجائے یہ دعا پڑھیں
” اللّٰھُمَّ اجعَلہُ لَنَا فَرَطًا وَّ اجعَلہُ لَنَا اَجراً وَّ ذُخراً وَّ اجعَلہُ لَنَا شَافِعا وَّ مُشَفَّعاً ”
اگر میت ایسی مجنون عورت یا نابالغ لڑکی کی ہو تو یہی دعا مونث کا صیغہ بدل کر یوں پڑھیں
” اللّٰھُمَّ اجعَلہُ لَنَا فَرَطًا وَّ اجعَلھَا لَنَا اَجراً وَّ ذُخراً وَّ اجعَلھَا لَنَا شَافِعتً وَّ مُشَفَّعتً”
دعا کے بعد ہاتھ اٹھائے بغیر چوتھی تکبیر امام بلند آواز سے اور مقتدی آہستہ کہیں اس کے بعد اور کوئی دعا نہ پڑھیں بلکہ سلام پھیر دیں جیسا کہ اور نمازوں میں پھیرتے ہیں اور دوسرے سلام کے بعد ہاتھ چھوڑ دیں دائیں طرف کے سلام میں دائیں طرف کے حاضرین اور فرشتوں کی نیت کرے اور بائیں طرف کے سلام میں بائیں طرف کے حاضرین اور فرشتوں کی اور امام و میت جس طرف ہوں اس طرف کے سلام میں ان کی بھی نیت کرے میت کے سلام کی نیت کرنے میں اختلاف ہے اور دونوں قول صحیح ہیں لیکن نیت میں میت کو شامل کرنے کے قول کو ترجیع معلوم ہوتی ہے

چار تکبیریں اور سلام امام جہر کے ساتھ کہے اور دوسرا سلام پہلے سے کچھ آہستہ ہو اور مقتدی سب کچھ آہستہ کہیں امام اور مقتدی صرف پہلی تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھائیں پھر ہاتھ نہ اٹھائیں، نمازِ جنازہ میں نہ قرائت قرآن ہے اور نہ رکوع و سجود و تشہد ہے
................
دفن کے بعد سرکی جانب سورہ بقرہ کا اول رکوع اور پیرکی جانب اس کا آخری رکوع پڑھنا بھی حدیث شریف سے ثابت ہے۔
جیسا کہ مشکوٰۃ شریف میں ہے عن عبداللّٰہ بن عمر ؓقال سمعت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول اذا مات احدکم فلا تجسوہ واسرعوابہ الیٰ قبرہ ولیقرأ عندرأسہ فاتحۃ البقرۃ وعندرجلیہ بخاتمۃ البقرۃ، رواہ البیہقی (مشکوٰۃ ص۱۴۹؍ باب دفن المیت ،طبع یاسرندیم دیوبند ،شامی زکریا، ج۳؍ ص۱۴۳؍ باب صلوٰۃ الجنازۃ ،مطلب فی دفن المیت، 
مگر یہ بھی مستحب ہے فرض سمجھنا غلط ہے۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم 
حررہ العبدمحمودغفرلہٗ
از فتاوی محمودیہ
........
دفن کرنے کے بعد مردہ کے سر کی طرف سورہ ٔ بقرہ کا ابتدائی حصہ اور پاؤں کی طرف اس کا آخری حصہ پڑھنا حدیث سے ثابت ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ 
’’ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا، کہ جب تم میں سے کسی کا انتقال ہو جائے تو اسے روکو نہیں، اور اسے جلدی دفن کر دو ، اور اس کے سر کے پاس سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات (فاتحہ البقرۃ) اور پاؤں کی طرف سورۂ بقرہ کی آخری آیات (خاتمۃ البقرۃ )پڑھی جائیں.‘‘
(۱) محدثین کا خیال ہے کہ از روئے تحقیق یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد نہیں ہے، بلکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے، 
(۲) اور صحابی رضی اللہ عنہ کا قول بھی حجت اور دلیل ہوتا ہے، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طریقہ کو درست قرار دیا ہے، جس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہوں، 
(۳) اس لئے فقہاء نے بھی تدفین کے بعد سورۂ بقرہ کا ابتدائی اور آخری حصہ پڑھنے کو مستحب قرار دیا ہے ۔ (۴)
(۱) مشکوۃ المصابیح :۱/۱۴۹ ، بہ حوالہ : سنن بیھقی ، نیز دیکھئے : مجمع الزوائد :۳/۴۴ بہ حوالہ : طبرانی ۔
(۲) سنن أبي داؤد، حدیث نمبر: ۳۲۲۱ ۔
(۳) کنزالعمال ، حدیث نمبر : ۹۲۸ ۔ بہ حوالہ : سنن ابن ماجۃ ، عن ابن عمر ص ۔مرتب ۔
(۴) الجوھرۃ النیرۃ :۱/۱۵۸ ، الدر المختار مع الرد :۲/۲۳۷ ۔ محشی ۔
کتاب الفتاوی
...........................................
الجواب بعون الملک الوھاب
… (۱)۔نمازِ جنازہ کے بعد دعا کرنا جائز نہیں، بلکہ بدعت ہے۔ خواہ صفوں میں کھڑے کھڑے کی جائے یا صفیں توڑ کر کی جائے۔ اور جو لوگ نمازِ جنازہ کے بعد صفیں توڑ کر دعا کرنے کو جائز کہتے ہیں یہ بالکل غلط ہے۔ فقہاء کرام ومحدثین عظام نے نمازِ جنازہ کے بعد مطلقاً دعا کرنے کو منع فرمایا ہے۔
(۲)۔ میت کو دفن کرنے کے بعد تھوڑی دیر قبر کے پاس بیٹھنا مستحب ہے اور اس وقت قرآن پاک کی تلاوت کرنا اور میت کیلئے دعا کرنا جائز ہے۔ اور اسی طرح اس وقت میں ایسا وعظ کرنے کی بھی گنجائش ہے جو موت اور آخرت کی یاد دلانے کیلئے ہو، اور اس میں دوسرے منکرات اور بدعات کا ارتکاب نہ کیا جاتا ہو۔
(۳)۔ سب سے بہتراور اچھا طریقہ یہ ہے کہ دفن کرنے کے بعد کوئی میت کے سرہانے سورۃ البقرۃ کے اوائل پڑھے اور دوسرا میت کی پائنتی (پائوں کی طرف) سورۃ البقرۃ کے اواخر پڑھے اور باقی لوگوں کو بھی اگر یہ یاد ہوں تو یہی پڑھیں ورنہ جو بھی سورۃ یا آیات ان کو یاد ہوں وہ پڑھیں۔انہیں سرًا یا جہرًا دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے۔نیز کھڑے ہونے یا بیٹھے ہونے دونوں حالتوں میں پڑھنا جائز ہے۔ نیز دفن کرنے کے بعد اگرچہ قبر کے پاس بیٹھنا، دعا کرنا، سورۃ البقرۃ کے اوائل واواخر پڑھنا مستحب ہے لیکن ان امور کا التزام کرنا (یعنی ان کو ضروری سمجھنا) درست نہیںہے۔ دفن کرنے کے بعد اگر کوئی ان امور کے بغیر جانا چاہے تو اس کیلئے بغیر کراہت کے جانا درست ہے۔
========
لما مشکوۃ المصابیح مع مرقاۃ المفاتیح(۸۰/۴): وعن عمرو ابن العاص قال لابنہ وھو فی سیاق الموت اذا أنامت فلا تصحبنی نائحۃ ولا نار فاذا دفنتمونی فشنوا علی التراب شنا ثم اقیموا حول قبری قدر ما ینحر جذور ویقسم لحمھا حتی استأنس بکم واعلم ماذا أراجع بہ رسل ربی رواہ مسلم۔
وفی المرقاۃ تحت قولہ (ثم اقیموا حول قبری) لعلہ للدعاء بالتثبیت وغیرہ وتحت قولہ (حتی استأنس بکم) ای بدعائکم واذکارکم وقراءتکم واستغفارکم وقدورد فی خبر أبی داؤد انہ علیہ الصلاۃوالسلام کان اذا فرغ من دفن الرجل یقف علیہ ویقول استغفر وااﷲ لأخیکم واسألوالہ التثبیت وفی روایۃ التثبت فانہ الآن یسئل۔
=======
وفیہ ایضاً(صـ۸۱): وعن عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہما) قال سمعت النبی ﷺ یقول اذا مات احدکم فلا تحبسوہ واسرعوا بہ الی قبرہ ولیقرأ عند رأسہ فاتحۃ البقرۃ وعند رجلیہ بخاتمۃ البقرۃ رواہ البیھقی فی شعب الایمان وقال والصحیح انہ موقوف علیہ۔
=======
وفی الھندیۃ (۱۶۶/۱): ویستحب اذا دفن المیت ان یجلسوا ساعۃ عند القبر بعد الفراغ بقدر ما ینحر جزور ویقسم لحمھا یتلون القرآن ویدعون للمیت کذا فی الجوھرۃ النیرۃ۔ قراء ۃ القرآن عند القبور عند محمد رحمہ اللہ تعالیٰ لا تکرہ، ومشایخنا رحمہم اللہ اخذوا بقولہ وھل ینتفع والمختار انہ ینتفع ھکذا فی المضمرات۔
=======
وفی الدر المختار(۲۳۶،۲۳۷/۲): ویستحب حثیہ من قبل رأسہ ثلاثا، وجلوس ساعۃ بعد دفنہ لدعاء وقراء ۃ بقدر ما ینحر الجزور ویفرق لحمہ وفی الشامی تحت(قولہ وجلوس الخ) لمافی سنن أبی داؤد ((کان النبی ﷺ اذا فرغ من دفن المیت وقف علی قبرہ وقال: استغفر والأخیکم واسألو اﷲ لہ التثبیت فإنہ الآن یسأل)) وکان ابن عمر(رضی اللہ عنہما) یستحب ان یقرأ علی القبر بعد الدفن اول سورۃ البقرۃ وخاتمتہا …
وفی الشامیۃ (۳۸۱/۶):وکذا قالوا بسنیۃ قراء ۃ السور الثلاثۃ فی الوتر مع الترک احیانا لئلا یعتقد وجوبھا۔
==========================
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمد مصروف مظاھری
.......
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامداومصلیا
قبرستان میں قبلہ رو ہو کر ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا
سوال: صلوۃ جنازرہ کے متصل بعد ثابت نہیں، مسلم ہے اور بعد الدفن دعاء مسنون ہے مگر وضاحت طلب امر یہ ہے کہ بعد الدفن اور بعد پڑھنے سورۂ بقرہ کا اول اور آخر، جو دعاء کی جاتی ہے آیا اس میں ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنی چاہئے یا ہاتھ چھوڑ کر؟ قبل ازیں تو دعاء کیلئے ہاتھ اٹھا کر دعاء کرتے کراتے رہے مگر حضرت مولانا خیر محمد صاحب مرحوم کی نماز حنفی مترجم نظر سے گزری جس میں درج ہے کہ بغیر ہاتھ اٹھائے دعاء کرنی چاہئے، جبکہ اس کے مقابل حافظ ابن حجرؒ نے صحیح ابی عوانہ سے فتح الباری ص۱۲۲ ج۱۱ میں حدیث عن ابن مسعود رایت رسول اللہ ﷺ فی قبر عبداللہ ذی الجبادین، الحدیث و فیہ فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلۃ رافعاً یدیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعاء فرمائی ہے۔ جو بات سنت یا مستحب ہو بحوالہ کتب ارشاد فرمادیں کہ آیا بعد الدفن ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنی چاہئے یا چھوڑ کر؟
جواب:
قبرستان میں قبلہ رو ہونے کی صورت میں ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا آنحضرت ﷺ سے ثابت اور جائز ہے۔ صحیح مسلمؒ میں لیلۃ البرائۃ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
حتی جاء البقیع فقام فاطال ثم رفع یدیہ ثلاث مرات۔
(ص۳۱۳ ج۱ قبیل کتاب الزکوٰۃ) (۱)
اس کے تحت علامہ نوویؒ لکھتے ہیں: فیہ استحباب اطالۃ الدعاء و تکریرہ و رفع الیدین فیہ، اور حنفیہ کے اصولوں پر بھی مسئلہ یہی ہے، چنانچہ علامہ ابن نجیمؒ لکھتے ہیں: و یکرہ عند القبر کل ما لم یعھد من السنۃ و المعھود منھا لیس الا زیارتھا و الدعاء عندما قائما کما کان یفعل ﷺ فی الخروج الی البقیع۔ (البحر الرائق)(۲)
اور اوپر گزر گیا کہ بقیع میں آپ ﷺ سے رفع یدین ثابت ہے۔ اس کے علاوہ صحیح ابو عوانہؒ کی جو حدیث آپ نے نقل فرمائی ہے وہ فتح الباری کی کتاب الاستیذان باب الدعاء مستقبل القبلۃ کے تحت حافظؒ نے نقل کی ہے اور اس پر سکوت کیا ہے، وہ بھی اس کی دلیل ہے۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی پر فتوی دیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں: فی رد المحتار آداب زیارۃ القبور ثم یدعوا قائما طویلا (۳) اس سے دعاء کا جائز ہونا ثابت ہوا اور ہاتھ اٹھانا مطلقاً آداب دعاء سے ہے یہ بھی درست ہوا۔
(امداد الفتاوی)(۴)
لہٰذا اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ رفع یدین جائز ہے، البتہ اکابر دیوبند کا عام معمول ترک رفع کا رہا ہے جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ ہندوستان میں قبر پرستوں کی کثرت تھی جو صاحب قبر سے دعائیں مانگتے تھے۔ ان کے ساتھ تشبیہ سے پرہیز کیلئے وہ ہاتھ اٹھائے بغیر دعاء کر لیتے تھے لیکن کسی نے رفع یدین کو ناجائز بھی نہیں کہا، بلکہ بعض مستند علماء دیوبند کو احقر نے خود ہاتھ اٹھا کر دعاء کرتے دیکھا ہے، لہٰذا حضرت مولانا خیر محمد صاحبؒ نے جو بات لکھی ہے وہ مبنی بر احتیاط ہے ، رفع یدین کے ناجائز ہونے کے بناء پر نہیں۔ ھذا ما عندی
و اللہ سبحانہ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
۳-۱۰-۱۳۹۷ھ
(۱) طبع قدیمی کتب خانہ۔
(۲) البحر الرائق ص۱۹۶ ج۲ (طبع سعید)۔
(۳) شامیہ ج۲ ص۲۴۲۔
(۴) امداد الفتاوی ص۵۰۰ ج۱۔
فتاوی عثمانی ج۱
قبر پر ہاتھ اٹھا کردعا کرنا
سوال :- میت کو دفن کرنے کے بعد جو دعاء مغفرت کی جاتی ہے، وہ ہاتھ اٹھا کر کی جائے یا بغیر ہاتھ اٹھائے۔
*الجواب حامداً ومصلیا*ً
دعا بغیر ہاتھ اٹھائے بھی کی جاسکتی ہے، اورہاتھ اٹھا کر بھی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دفن کے بعد قبلہ کی طرف رُخ فرما کر ہاتھ اٹھا کر دعا کی ہے، اگر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا چاہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے قبر کی طرف رخ نہ کیا جائے بلکہ قبلہ کی طرف رخ کر لیا جائے: وفی حدیث ابن مسعودؓ رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی قبر عبد اللّٰہ ذی النجادین الحدیث وفیہ فلما فرغ من دفنہ استقبل
القبلۃ رافعا یدیہ
اخرجہ ابوعوانۃ فی صحیحہ ۱ہـ فتح الباری۱؂ شرح بخاری ص:۱۲۲، ج:۱۲۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
فقط واللہ سبحانہٗ تعالیٰ اعلم
حررہٗ العبد محمود غفرلہٗ
دارالعلوم دیوبند
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
فتاوی محمودیہ ج۱۳
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
میت دفنانے کے بعد تین بار دعا کرنا
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میت دفنانے کے بعد ہاتھ اٹھا کر ایک یا تین بار دعا مانگنا جائز ہے یا ناجائز؟ بینواتوجروا
المستفتی: حاجی غلام نبی چورنگی کوہاٹ …۲۱/شعبان ۱۴۰۳ھ
*الجواب:*
زیارۃ القبور کے وقت ہاتھ اٹھا کر تین دفعہ دعاکرنے کی روایت صحیح مسلم میں مسطور ہے{۱}
اور دفنانے کے بعد دعا کی مشروعیت میں شک نہیں ہے، لحدیث واسئلوا لہ بالتثبیت فانہ الآن یسئل او کما قال علیہ السلام{۲}
لیکن اس دعا میں ہاتھ اٹھانا نہ مطلوب ہے اور نہ ممنوع ہے{۳}
۔ وھوالموفق
{۱}
عن عائشہ الا احدثکم
عنی وعن رسول اللہﷺ… حتی جاء البقیع فقام فاطال القیام ثم رفع یدیہ ثلاث مرات ثم انحرف فانحرفت فاسرع فاسرعت الخ۔
(الصحیح مسلم ۱:۳۱۳ باب التسلیم علی اہل القبور والدعاء والاستغفار لہم)
{۲}
(سنن ابی داؤد ۲:۱۰۳ باب الاستغفار عند القبر للمیت فی وقت الانصراف)
{۳}
قبر کے پاس بیٹھے ہوئے ہاتھ اٹھائے ہوئے اور بلا ہاتھ اٹھائے ہوئے اور دوسرے رخ پر کسی بھی طریقہ سے دعا جائز اور مباح ہے، اور دعا میں ہاتھ اٹھانا آداب دعا سے ہے لہٰذا بعض الناس کا اس دعا میں ہاتھ اٹھانے سے مطلق منع چنداں معنیٰ نہیں رکھتا اس میں ایک حدیث مسلم ہے کہ ،
جاء البقیع فاطال القیام ثم رفع یدیہ ثلاث مرات، اس حدیث کے ذیل میں امام نووی فرماتے ہیں کہ ، فیہ استحباب اطالۃ الدعاء وتکریرہ ورفع الیدین وفیہ ان دعاء القائم اعلیٰ من دعاء الجالس فی القبور
(نووی شرح مسلم ۱:۳۱۳)
فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے، عن ابن مسعود رأیت رسول اللہﷺ فی قبر عبد اللہ بن ذی البجادین الحدیث وفیہ فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلۃ رافعا یدیہ (اخرجہ ابوعوانۃ فی صحیحہ (۱۱:۱۲۲ باب الدعاء مستقبل القبلۃ)۔
اور بہتر یہ ہے کہ منہ بجانب قبلہ کرے اور بجانب قبر بھی جائز ہے،
قال العلامۃ الحلبی: ویستحب زیارۃ القبور للرجال وتکرہ للنساء ویدعو قائما مستقبل القبلۃ وقیل یستقبل وجہ المیت وہو قول الشافعی۔
( غنیۃ المستملی ۵۶۰ مسائل شتیٰ کتاب الجنازۃ)(ازمرتب)
فتاوی فریدیہ ج۳
Question: 50833
بعد از دفن میت حکم دعا خواندن چیست؟ اگر احادیث است لطفا آنہا را ذکر کنید؟
Feb 06,2014
Answer: 50833
Fatwa ID: 487-406/H=4/1435-U
دعاء کردن بعد از دفن میت مشروع است و دعاء عبارت است طلب مغفرت وحاجات از رب ذو الجلال- اما دعاء کردن نزد قبرے چنانکہ دستہا برداشتہ باشند در دلہائے حاضرین شبہ می اندازد کہ سوال ودعاء از صاحبِ قبر دعاء کنندگان می کردند، اگرچہ آنہا ایں نیت نہ دارند ودعاء از صاحب قبر نمی کنند، پس برائے صیانت ازیں شبہ کہ حاضرین وبینندگان را در شک مبتلا می کند واجب است کہ داغی دستہا نہ بردارد البتہ اگر ایں وجہ مرتفع شود بہ سبب آنکہ ہیچ کس نزدِ دعا کنندہ نہ باشد یا باشد مگر صالح الاعتقاد است جائز گردد کہ دستہا بردارد لیکن چوں دستہا بردارد رو بقبلہ شود وپشت خود جانب قبر کردہ دعاء کند عن ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ رأیت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم في قبر عبد اللہ ذی النجادین الحدیث وفیہ فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلة رافعا یدیہ أخرجہ أبو عوانہ في صحیحہ (فتح الباري ج۱۱ ص۱۷۳) واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، 
دارالعلوم دیوبند
................
کافر سے سوال قبر ؟
السوال: کیا مسلمانوں کی طرح کافر سے بھی منکر نکیر قبر میں سوال کرتے ہیں؟؟؟ اگر ہاں تو کیسے ؟؟؟ جبکہ کافر کا جسم آگ میں جلا دیا جاتا ہے ؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق 
قبر میں سوال وجواب جن سے ہوگا ان کے بارے میں اکثر روایتوں میں "اماالمنافق او المرتاب " ہی مروی ہے 
بعض روایتوں میں "او الکافر" ایک نسخہ میں "والکافر" بدون واو کے بھی ہے ۔
اس اختلاف الفاظ کی وجہ سے علماء امت میں اس کے متعلق اختلاف ہوا کہ سوال قبر صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے یا کفار بھی مسئول ہونگے ؟؟؟ یعنی سوال محدود ہے یا غیر محدود ؟؟؟
حافظ ابن عبد البر فرماتے ہیں سوال قبر صرف مومن مخلص اور مومن ظاہری یعنی منافق کے ساتھ خاص ہے تاکہ اس سوال کے نتیجہ میں اصل مومن اور بناءوٹی مومن (منافق ) کا امتیاز ہوسکے۔کھلے مہار کافر سے سوال ہی بے سود ہے ۔علامہ سیوطی نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے اور شرح الصدور فی احوال الموتی والقبور میں اس کو ثابت کیا ہے۔
علامہ قرطبی اور حافظ ابن قیم جوزیہ سوال کے عموم کے قائل ہیں۔قاضی شوکانی لکھتے ہیں : قال ابن القیم السوال عام للامة وغیرھا ولیس فی الاحادیث مایدل علی الاختصاص ۔نیل الاوطار 77/4۔کیونکہ جب مومن ومنافق سے سوال ہوگا تو کافر سے بدرجہ اولی سوال ہوگا ۔الروح صفحہ 86۔87 میں لکھتے ہیں" فلنسالن الذين أرسل إليهم ولنسالن المرسلين " کے بموجب جب قیامت میں کافر سے سوال ہوگا تو قبر میں کیوں نہیں ہوگا ؟؟؟
حافظ عسقلانی نے سوال کے عموم والی روایتوں کو سوال کے مخصوص بالمسلمین والی روایتوں پر ترجیح دی ہے۔حکیم ترمذی نے کفار کے سوال قبر کو بالیقین ثابت مانا ہے۔علامہ شامی رحمہ اللہ مسلمانوں کے ساتھ سوال کے مخصوص ہونے کو راجح کہتے ہیں ۔دیکھئے شامی جلد 1۔صفحہ 572۔سعید۔
حافظ کشمیری نے بھی فیض الباری صفحہ 85 ق میں السوال غیر مخصوص کہکر اسی کو راجح قرار دیا ہے ۔فیض الباری کے بعض نسخہ میں طباعت کی غلطی سے "السوال مخصوص " چھپ گیا ہے "غیر" چھوٹ گیا ہے ۔جو قابل اصلاح ہے۔
پہر جب قبر میں کافر سے سوال ہوگا تو کیسے ؟؟؟ جبکہ اسے شمشان گھاٹ میں نذر آتش کردیا جاتا یے ؟؟ 
تو خوب سمجھ لینا چاہئے کہ "قبر" عالم برزخ کا نام ہے ۔اس گڑھے کا نام قبر نہیں ہے جس میں مردہ کو دفن کیا جاتا ہے ۔سورہ عبس کی آیت نمبر 21 کے ذیل میں معارف القرآن کی بحث اس سلسلہ میں قابل مطالعہ یے۔
مرشد تھانوی قدس سرہ اپنے ملفوظات میں فرماتے ہیں 
" اس روح کو برزخ میں دوسرا جسم مثالی عطا ہوتا ہے اور ساتھ ہی اس جسم عنصری کے ساتھ بھی تعلق رہتا ہے ۔قبر کا سوال اسی جسم مثالی سے ہوتا ہے جو برزخ میں عطاہوتاہے۔اور اس جسد عنصری کے ساتھ تعلق بھی رہتا ہے ۔ملفوظات حکیم الامت صفحہ 214۔
لہذا سوال قبر پر اب یہ شبہ بیکار ہے کہ اگر کافر کی نعش کو جلادیا جائے یا کسی میت کو شیر یا بھیڑیا کھاجائے تو اس سے سوال کیسے ہوگا؟ ؟؟ 
ہاں برزخ کے بعد دوزخ میں اسی دنیاوی جسد عنصری پر عذاب بھی ہوگا اور جنت میں اسی پر انعام واکرام بھی۔امداد الفتاوی 129/6۔میں اس کی تفصیلی اور تمثیلی بحث موجود ہے۔
واللہ اعلم 

شکیل منصور القاسمی
.........................
قبرستان میں عیدگاہ بنانا
سوال: یہاں پر ایک قبرستان ہے، قبرستان جاری ہے، قبرستان کی زمین بہت بڑی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ایک حصہ میں عیدگاہ بنالی جائے، عیدگاہ کے لئے وہ حصہ مختص کیا گیا ہے، جہاں پر ان قبروں کے آثار بہت کم ہیں، کیا اس قبرستان میں عیدگاہ بنانا جائز ہے؟
الجواب حامداً ومصلیاً 
جو زمین قبرستان کے لئے وقف کی گئی ہو، اس میں عیدگاہ بنانے کی اجازت نہیں، خاص کر جب کہ وہ جاری ہو اور وہاں مردے دفن ہوتے ہیں، اس لئے عیدگاہ دوسری جگہ بنائی جائے۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم 
حررہٗ العبد محمود غفرلہ ٗ دارالعلوم دیوبند
..............
چاند کی پہلی تاریخ میں انتقال ہوجائے تو قمری مہینے کے اعتبار سے چار ماہ دس دن عدت کرے چاہے مہینہ ۲۹ کا ہو یا ۳۰ کا اور اگر پہلی تاریخ کے علاوہ میں انتقال ہوا ہے تو ۱۳۰ دن شمار کرکے عدت گذارے، 

فتاوی دارالعلوم دیوبند


No comments:

Post a Comment