بعض غیر مسلم ممالک مثلاً امریکہ میں یہ صورتحال درپیش ہے کہ مساجد محدود ہیں، علاقے کے نمازیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے تمام نمازی مسجد میں نہیں سما سکتے ہیں اور مسجد کے پہلو اور اطراف و جوانب میں بھی نمازیوں کے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی قانوناً اجازت نہیں ہے، ایسی صورتحال عموماً جمعہ کے موقع پر پیش آتی ہے، بعض مقامات میں یہ تنگی اس لئے پیش آتی ہے کہ وہاں کسی عمارت میں اجتماع کے لئے قانوناً ایک تعداد محدود ہوتی ہے، اس سے زیادہ افراد کا جمع ہونا قانوناً ممنوع ہوتا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں ایک ہی مسجد میں ایک سے زیادہ مرتبہ جماعت کی اجازت ہے یا نہیں؟
بینوا توجرا۔
(جواب از مفتی مجاہد شہید ؒ زیر ہدایت حضرت والا دامت برکاتہم )
جواب: اس مشکل کا اصل حل تو یہ ہے کہ اہل علاقہ کو چاہئے کہ جہاں سابقہ مسجد میں توسیع ممکن ہو وہاں تو سیع کی جائے تاکہ نمازی ایک ہی جماعت میں شریک ہوسکیں، اگر یہ ممکن نہ ہو تو اور مساجد تعمیر کرنے کا اہتمام کیا جائے جہاں یہ دونوں باتیں مشکل ہوں تو مسجد میں گنجائش کم ہونے کی صورت میں ایک بار پوری مسجد بھر کر جماعت ہوجانے کے بعد جو لوگ جگہ میں گنجائش نہ ہونے کی بناء پر پہلی جماعت میں شریک نہیں ہوسکے ان کے لئے اسی مسجد میں دوبارہ جماعت کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے. اس لئے کہ جن فقہاء نے تکرار جماعت سے منع کیا ہے انہوں نے ممانعت کی دو علتیں ذکر کی ہیں، جو درج ذیل ہیں :
۱: اگر تکرار جماعت کی اجازت دیدی جائے تو پہلی جماعت کی اہمیت کم ہوگی، جماعت اولیٰ سے تقاعد اور اس میں تقلیل ہوگی، اور یہ بات تکرار جماعت سے ممانعت کی محض ایک حکمت نہیں، بلکہ علت ہے، اس لئے کہ جن صورتوں میں تکرار جماعت کی اجازت ہے، فقہاء نے اس اجازت کو مذکورہ علت نہ ہونے پر متفرع فرمایا ہے، مثلاً مسجد شارع میں جماعت ثانیہ کا جواز، بعض فقہاء کے ہاں بلاتداعی تکرار جماعت کا جواز، غیر اہل محلہ کے نماز پڑھنے کی صورت میں اہل محلہ کے لئے جماعت ثانیہ کا جواز اور بلا اذن و اقامت تکرار جماعت کا جواز اسی علت کے نہ ہونے کی بناء پر ہے، چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:
’’ ولأن التکرار یؤدی الی تقلیل الجماعۃ لأن الناس أذا علموا أنھم تفوتھم الجماعۃ فیستعجلون فتکثر الجماعۃ واذا علموا انھا لا تفعتھم یتأخرون فتقل الجماعۃ وتقلیل الجماعۃ مکروہ بخلاف المساجد التی علی قوارع الطریق لأنھا لیست لھا أھل معروفون فأداء الجماعۃ فیھا مرۃ بعد أخری لا یؤدی الی تقلیل الجماعات وبخلاف ما أذا صلی فیہ غیر أھلہ لأنہ لا یؤدی الی تقلیل الجماعۃ لأن أھل المسجد ینتظرون أذان المؤذن المعروف ‘‘۔
[ بدائع الصنائع ،ج:۱،ص:۱۵۳]
۔ (۱)
امام سرخسی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے :
’’ولنا أنا أمرنا بتکثیر الجماعۃ و فی تکرار الجماعۃ فی مسجد واحد تقلیلھا لأن الناس اذا عرفوا انھم تفوتھم الجماعۃ یعجلون للحضور
الذی علی قارعۃ الطریق لأنہ لیس لہ قوم معلومون فکل من حضر یصلی فیہ فاعادۃ الجماعۃ فیہ مرۃ بمرۃ لا تؤدی الی تقلیل الجماعات ۔۔۔۔۔الخ۔
[ المبسوط للسرخسی،ج:۱،ص:۱۳۶]
۔ (۲)
۲: بعض فقہاء نے تفریق کلمۃ المسلمین کو علت قرار دیا ہے، چنانچہ اما شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے :
’’ واذا کان للمسجد اما راتب فقاتت رجلا أو رجالا فیہ الصلوٰۃ افرادٰی ولا أحب أن یصلوا فیہ جماعۃ فان فعلوا اجأتھم الجماعۃ فیہ وانما کرھت ذٰلک لھم لأنہ لیس مما فعل السلف قبلنا، بل قد عابہ بعضھم ، قال الشافعی : وأحسب کراھیۃ من کرہ ذٰلک منھم انما کان لتفرق الکلمۃ وان یرغب رجل عن الصلوٰۃ خلف امام جماعۃ فیختلف ھو ۔۔۔۔۔۔الی أن قال ۔۔۔۔۔فأما مسجد بنی علی ظھر الطریق أو ناحیۃ لا یؤذن فیہ مؤذن راتب ولا یکون لہ امام معلوم ویصلی فیہ المارۃ ویستظلون فلا أکرہ ذٰلک فیہ لأنہ لیس فی المعنی الذی وصفت من تفرق الکملۃ وأن یرغب رجال من امامۃ رجل فیتخذون اماما غیرہ ‘‘۔
[ الأم ،ج:۱،ص:۱۵۴]
۔ (۳)
مذکورہ صورت میں یہ دونوں علتیں موجود نہیں ، لہٰذا ایسی صورت میں تکرار جماعت کی گنجائش معلوم ہوتی ہے، لیکن یہ اجازت اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ مسجد میں جتنے افراد کی گنجائش ہے پہلی جماعت میں اتنے افراد موجود ہوں، جگہ خالی نہ ہو، اگر پہلی جماعت میں گنجائش ہوتے ہوئے کچھ لوگ دوسری جماعت میں شریک ہوں گے تو وہ پہل جماعت میں شریک ہونے میں سستی کے گناہ کے مرتکب ہوں گے ۔
واللہ اعلم
احقر مجاہد عفی عنہ
از فتاوی عثمانی
No comments:
Post a Comment