مولانا محمد الیاس گھمن
امیر: عالمی اتحاد اہل السنت والجماعت
ترکی کی تاریخ میں اسلام کو اساسی حیثیت حاصل ہے۔ اس ملک میں اسلام کو پھیلانے اور بچانے کی کئی تحریکیں اٹھیں۔ سلجوقی سلطنت کا آخری سلجوقی حکمران علاؤ الدین جب قتل ہوا تو اس کے بعد سلطنت سلجوق بکھر گئی۔ اس موقع پر امیر عثمان خان اپنے علاقے کا حکمران بنا۔ اس کے بعد حکمرانی کا سلسلہ اس کی اولاد میں جاری رہا اسی نسبت سے اس خاندان کو عثمانی یا آل عثمان کہا جاتاہے۔ خلافت عثمانیہ امیر عثمان خان کی نسبت سے عثمانیہ کہلاتی ہے۔
656ھ بمطابق1258ء جب تاتاریوں نے مرکز بغداد کو تباہ و برباد کیا اور خلافت عباسیہ کا سورج غروب ہوا تو اسی سال سلطان علاؤ الدین کے نائب ارطغرل کے گھر امیر عثمان خان پیدا ہوئے۔امیر عثمان خان جنگی اور خانقاہی ماحول کا حسین امتزاج تھا اس لیے امیر عثمان کے مزاج میں دونوں صفات بدرجہ اتم موجود تھیں۔ عوام کے لیے مشفق ، رحمدل اور حسن اخلاق کا پیکر تھا جبکہ دشمن کے مقابلے میں نڈر بہادر اور بے باک سپہ سالار تھا۔اس کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر نصرانی لوگ حلقہ اسلام میں بکثرت داخل ہوئے تاریخ بتاتی ہے امیر عثمان خان ہر لڑائی سے پہلے غیرمسلم حکمرانوں کو تین صورتیں پیش کرتا۔ اول قبول اسلام ، دوم جزیہ ورنہ پھر قتال کے لیے سامنے آؤ۔
پہلی بار اس نے قسطنطنیہ کی شاہی فوج کا مقابلہ کیا۔ تاتاریوں اور عیسائیوں دونوں کو شکست فاش سے دوچار کیا۔ بْرسہ عیسائی سلطنت کا بہت اہم اور مرکزی شہر کہلاتا تھا امیر عثمان نے 717ھ میں اس کا محاصرہ کیا اور یہ محاصرہ دس سال تک قائم رکھا یہاں تک کہ محصورین نے ہتھیار ڈال دیے۔بْرسہ محاذ پر ترک فوج کی قیادت امیر عثمان کا بیٹا کر رہا تھا۔ فتح کے بعد جب بیٹے نے امیر عثمان کو خوشخبری سنائی تو امیر عثمان نے بیٹے کو داد دیتے ہوئے گلے لگایا اور وصیت کے ان کلمات کے ساتھ اپنا جانشین نامزد کیا : ’’اے میرے بیٹے !میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ ظاہر وباطن میں اللہ کا خوف رکھا عدل و انصاف کو اپنا شیوہ بنانا ، عدل ایسی قوت ہے جس سے سلطنت کی بنیاد مضبوط رہتی ہے رعایا پر رحم کرنا کیونکہ رحم ہمارے رب کی صفت غالبہ ہے ، حقوق کے معاملے میں قوی و ضعیف دونوں کو ایک جیسا سمجھنا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت نافذ کرنا اور خود بھی کتاب و سنت کے مطابق عمل کرنا۔‘‘امیر عثمان خان کا انتقال 21 رمضان المبارک 727ھ بمطابق 10 اگست 1327ء کو ہوا بیٹے نے وصیت کے مطابق بْرسہ میں دفن کیا۔
یہ خلافت مختلف امراء ،سلاطین اور خلفاء کے ہاتھوں میں رہی۔ اس خلافت کو ختم کرنے کے لیے کئی سازشیں تیار کی گئیں۔ کافی عرصے سے بیت اللہ شریف میں حدیث پاک کی کلاسیں اور چاروں مسالک(حنفی ، مالکی ، شافعی اور حنبلی) کے مصلیٰ امامت چلے آ رہے تھے۔چار مصلوں سے مراد یہ نہیں کہ بیک وقت چار امام علیحدہ علیحدہ امامت کراتے ہوں بلکہ اس کی صورت یہ تھی کہ دو نمازیں حنفی امام پڑھاتا جبکہ باقی تین نمازیں تین مسلکوں کے ائمہ میں تقسیم تھیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ ان چاروں میں سے جس رخ پر بھی نماز پڑھی جائے وہ بیت اللہ کا رخ ہی شمار ہوگا اسی طرح چاروں فقہوں میں سے جس امام کی تقلید کی جائے وہ صحابہ کرام کے ذریعے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اتباع ہو گی۔ گویا ان چاروں مسالک کوسبیل المومنین کی قرآنی اصطلاح کا عملاً مصداق قرار دیا گیا۔1143ھ بمطابق 1730ء میں سولہواں عثمانی خلیفہ سلطان محمود خان اول جو علمی و جنگی صلاحیتوں پر یکساں مکمل مہارت رکھتا تھا۔ اس کو نادر شاہ نے کہا کہ یہاں بیت اللہ شریف میں جعفری مذہب کو بھی جگہ دی جائے اور ان کے لیے پانچویں مصلیٰ امامت کا انتظام کیا جائے۔ سلطان محمود نے اس مطالبہ کو غیر معقول قرار دے کر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
سلطنت عثمانیہ کو ختم کرنے کی گہری سازشیں ابھرنا شروع ہوئیں ، سازشی عناصر نے جب دیکھا کہ میدان کارزار میں ان کے حربے سلطنت عثمانیہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تو انہوں نے آخر کار وہی حربہ استعمال کیا جو ہر قوم کے زوال کا بنیادی سبب بنتا ہے یعنی معاشرے میں اسلامی نظریات کے مقابلے میں مغربی افکار کو مزین کر کے پھیلایا، یہودی و صلیبی ، یورپی دہریت ، عیار نصرانیت ، دین بیزار اور آزاد تجدد پسندی کے تہذیبی و معاشرتی اور سیاسی اثرات بالخصوص انجمن اتحاد و ترقی کی سازشوں اور مصطفی کمال کی غداریوں نے ترک قوم کے قلوب و اذہان کو جکڑ لیا۔ نتیجہ خلافت عثمانیہ اپنی بنیادوں سے سرکتی ہوئی ہاتھوں سے نکلنا شروع ہوگئی۔
1911ء میں اٹلی نے طرابلس پر حملہ کیا اس موقع پر ترکی تن تنہا جبکہ اٹلی کی پشت پر پورا عالم کفر کھڑا تھا۔اس کے بعد اکتوبر 1912ء میں بلقان کی جنگ میں یونانیوں نے جو سنگدلانہ مظاہرہ کرتے ہوئے ترک مسلمانوں کو زندہ جلایا بستیاں اجاڑیں ،قتل عام کیا ان کے ’’سیاہ کارناموں ‘‘سے تاریخ کے صفحات آج تک ’’سیاہ‘‘ ہیں۔
برصغیر پاک و ہند کے مسلمان اس وحشیانہ ظلم و بربریت اور تشدد و جارحیت پر تلملا اٹھے۔ ترکوں سے دینی محبت اور انسانی ہمدردی کے پیش نظر علماء میدان عمل میں کودے۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ نے ترک حمایت میں فتوے شائع کرائے، دارالعلوم دیوبند کو بند کرا کر طلبہ کے وفود چندہ مہم میں لگائے، خود بھی اس مہم میں سرگرمی سے شریک رہے ایک اچھی خاصی مقدار چندے کی ترکی بھیجی اس کے علاوہ باقی علماء مدرسہ دیوبند خصوصا مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ آپ کے ہمرکاب رہے اس کے علاوہ ڈاکٹر مختار احمد انصاری 35 افراد پر مشتمل ڈاکٹروں کا ایک وفد ترک مجاہدین کی طبی امداد کے لیے 8 ماہ تک ترک میں رہا مولانا محمد علی جوہر وغیرہ اس وفد کو خوب چندہ دیا۔ شیخ الہند کی بصیرت افروز پالیسی مرتب فرمائی۔ 1915ء میں حجاز تشریف لے گئے ، وہاں ترکی گورنر غالب پاشا ، ترکی وزیر دفاع انور پاشا اور کمانڈر جمال پاشا سے ملاقات کی اور باہمی مشاورت سے حکمت عملی تیار کی۔ لیکن یہ راز کھل گیا، شیخ الہند اپنے رفقاء کار سمیت گرفتار ہوگئے۔
15اگست 1918ء کو جنگ عظیم اول ختم ہوئی۔ انگریزوں اور اتحادیوں نے ترکوں سے خوب انتقام لیا ، مصطفی کمال کی قیادت میں دین بیزار وں کی قوت مستحکم ہونا شروع ہوگئی نومبر1918ء میں اتحادی فوجوں نے قسطنطنیہ کے تمام حکومتی و انتظامی امور اپنے ہاتھ میں لینا شروع کر دیے۔ جون 1919ء کو پیرس میں دس ملکوں کے نمائندوں کی کانفرنس ہوئی جس میں ترکی کے خاتمے پر سب کا اتفاق ہو گیا۔ مارچ 1920 ء میں ترکی کے تمام حکومتی و انتظامی شعبے اتحادیوں کے ہاتھ آ گئے اسی دوران اناطولیہ میں ملی مشاورت منعقد ہوئی جس میں 80 نمائندے شریک ہوئے اور مصطفی کمال کو حزب وطنی تنظیم کا صدر منتخب کر دیا گیا۔نومبر 1922ء میں سوئزرلینڈ میں لوزان کے مقام پر اتحادیوں سے حزب وطنی کے مذاکرات ہوئے جو جون 1923ء تک جاری رہے۔ اکتوبر1923ء کو اتحادیوں نے قسطنطنیہ کا غاصبانہ قبضہ ختم کر دیا۔ اور ترکی کا پہلا صدر مصطفی کمال اور پہلا وزیر اعظم عصمت انونوکو بنایا گیا۔ بالآخر مارچ 1924ء کو خلافت عثمانیہ کا سورج دین بیزار تحریکوں کی گرہن کا شکار ہو کر رہ گیا۔
1924ء سے 1950ء تک آزمائش کا کڑا دور گزرا، 1950 ء کے قومی انتخابات ہوئے جس میں جلال بایار صدر جبکہ عدنان میندریس وزیر اعظم کمال اتاترک کی خلق پارٹی کے مقابلے میں کامیاب ہوئے۔ اس دور حکومت میں ترکی میں پھر سے اسلامی بہاریں چلنا شروع ہوئیں، عربی میں اذان ، مدارس اسلامیہ کو عروج ، کافی عرصہ بعد ترک مسلمانوں کو حج کی اجازت ملی۔ مگر یہ ترک سیکولر عسکری قوت کو یہ باتیں ہضم نہ ہو سکیں اور آئینی اختیارات اور دین بیزار ذہنی و عملی تعلیم وتربیت کے تقاضوں کے تحت اس حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ صدر جلال بایار کو کچھ عرصہ نظر بند رکھا گیا اور وزیر اعظم میندریس پر بدعنوانی کی تہمت لگا کر فرضی عدالتی کارروائی کے بعد پھانسی دے دی گئی۔ کچھ عرصہ پہلے جناب طیب اردگان( جب ترک وزیراعظم تھے )نے میندریس کو بدعنوانی کے جھوٹے الزام سے بری کر کے مرحوم کا قومی وقار بحال کردیا ہے۔
1996ء میں ترک وزیر اعظم نجم الدین اربکان کی قیادت میں اسلام پسند سیاسی جماعت قومی سلامتی پارٹی برسراقتدار آئی، ترکی میں ایک بار پھر اسلامی اساسیات مضبوط ہونا شروع ہوگئے ، مساجد ،مدارس ، تعلیم گاہوں کو فروغ ملا ، عوام میں اسلامی رنگ نظر آنے لگا۔ اسلامی بہار کو خزاں رسیدہ کرنے کے لیے اس بار ترک عدالت نے اربکان کو حکومت چھوڑنے پر مجبور کیا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی لہر ایک بار پھر بیٹھ گئی۔سیکولر ارباب اختیار کی آمرانہ ،ظالمانہ و جابرانہ اور غیرمتوازن پالیسیوں کی وجہ سے ترکی قومی وقار ، معاشرتی امن و امان کے ساتھ ساتھ معاشی و اقتصادی لحاظ سے بھی تقریباً دیوالیہ ہوگیا۔ترک عوام اور ترک فوج کے رجحانات باہم متضاد ہیں۔ ترک عوام اسلامی ذوق جبکہ ترک فوج سیکولر ذہن رکھتی ہے اس موقع پر اہلیان پاکستان کو سجدہ شکر ادا کرنا چاہیے کہ پاک فوج ملک کی جغرافیائی سرحدات کی حفاظت کی طرح بحیثیت مجموعی دین اسلام سے محبت و وابستگی رکھتی ہے۔
اربکان کے بعد ترکی کی ملی و مذہبی خدمات کا بیڑا جناب طیب اردگان نے سنبھالا۔ موصوف اسلام پسند ،محب وطن ، بیدارمغز، مدبر اور عوام دوست حکمران ہیں۔ عوام کی ملی و مذہبی خدمت کا بے پناہ جذبہ ان کے دل میں موجزن ہے۔ بتدریج انہوں نے عوام میں اپنی مقبولیت کا لوہا منوایا۔ اور یہی غیر معمولی جذبہ ان کی مقبولیت کا بنیادی سبب ٹھہرا۔ طیب اردگان کا نظریہ سیاست بہت واضح ہے وہ قومی وملکی عزت ، بحرانی نجات ، اقتصادی ترقی کی بنیاد اسلام کو سمجھتے ہیں۔ اور اس کے لیے مسلسل محنت میں لگے ہوئے ہیں۔ 1994ء کو استنبول کے مئیر بنے ، ان کی بے لوث دیانت دارانہ عوامی خدمات کی وجہ سے عوام کا اعتماد ان پر مسلسل بڑھتا چلا گیا۔ ان دنوں میں عوام پر بوجھ ڈالے بغیر خداداد حکمت عملی سے شہر پر جو 2 ارب ڈالر کا قرضہ تھا وہ بھی اتارا اور مزید4 ارب ڈالر شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے فراہم کیے۔1996ء میں استبول کیہر گھر میں شفاف اور میٹھاپانی پہنچانے کے لیے سینکڑوں کلومیٹر لمبی پائپ لائنیں بچھوائیں۔ اپنے عوام کو کوڑاکرکٹ اٹھانے کے لیے دنیا کی بڑی ری سائکلنگ سہولت میسر کی ، ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کے لیے گیس سے چلنے والی بس سروس کا آغاز کیا، ٹریفک جام کا مسئلہ حل کرنے کے لیے صرف استنبول میں 50 کے قریب فلائی اوور بنائے ، نئی شاہراہوں کا جال بچھایا، اور اپنی محنت ، حکمت عملی سے استنبول جیسے بے ہنگم شہر کو دنیا کے خوبصورت ترین شہروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ان کے دور اقتدار میں ترکی ممیں معاشرتی جرائم کی شرح بہت کم ہوئی۔ لوٹ کھسوٹ اوررشوت ستانی کرنے والوں کو بلا تفریق کڑی سزائیں دیں۔
2001ء میں طیب اردگان نے جب جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی بنائی تو اس کی پالیسی بیان کرتے ہوئے کہا: ہم جمہوری نظام کو تحفظ دیں گے۔۔۔۔ چونکہ ملک کے شہریوں کی واضح اکثریت 99 فی صد مسلمانوں کی ہے اس لیے جمہوری اصولوں کے مطابق اپنی پالیسیوں میں اکثریت کی مذہبی آزادی کا خیال رکھیں گے۔
2001ء میں ترکی کواقتصادی حوالے سے تقریباًدیوالیہ قرار دے دیا گیا۔ یہ اردگان کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا دیوالیہ پن کے خاتمے اور ملک کے اقتصادی نظام کو مزید بہتر بنانے کے لیے طیب اردگان نے منصوبہ بندی کی۔ 10 سال کی مسلسل محنت نے بالآخر 2011ء میں وہی ترکی معاشی استحکام کے حوالے سے دنیا میں پہلے نمبر پر آگیا۔افراط زر کی شرح میں کمی لائے ، صحت ، تعلیم کے مردہ ڈھانچوں میں روح پھونکی۔ بلاسود قرض کی اسکیم جاری کی۔ کم مدت میں ترکی کے معاشی شعبوں میں استحکام آگیا۔
2002میں ترکی آئی ایم ایف کا 124 ارب ڈالر مقروض تھا لیکن اب ترکی نہ صرف یہ قرضہ اتار چکاہے بلکہ طیب اردگان کے اعلان کے مطابق ترکی کی معیشت اتنی مستحکم ہوچکی ہے کہ اب وہ آئی ایم ایف سمیت مختلف اداروں اورممالک کو قرض دینے کی پوزیشن میں بھی آگیاہے۔ اسی طرح2002 میں ترکی کے زرمبادلہ کے ذخائر 25ارب ڈالرتھے جو اب ایک کھرب35 ارب ڈالر ہوچکے ہیں۔ طیب اردگان جب حکومت میں آئے تھے تو اس وقت ترکی میں26ائیرپورٹ تھے جن کی تعداد اب 50 ہوچکی ہے۔ اسی عرصے میں ترکی کے طول وعرض میں13ہزارپانچ سو کلومیٹر طویل ایکسپریس ویز تعمیر کی گئی ہیں۔ ترک شہریوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے گرین کارڈ سسٹم کااجرائ کیاگیاہے جس کے تحت لاکھوں غریب شہریوں کو سرکاری ہسپتالوں میں مفت طبی خدمات فراہم کی جارہی ہیں۔ 2002 تک ترکی میں تعلیم پر7.5ملین لیرا خرچ کیا جاتاتھا جو اب بڑھ کر 36 ملین لیراسے بھی زائد ہوگیا ہے۔ 2002ء میں ترکی میں صرف88جامعات تھیں جن کی تعداد اب 200 کے قریب پہنچ چکی ہے۔ 2002 ء میں 222 لیرا کے عوض ایک ڈالر ملتاتھا جبکہ آج کل ایک ڈالر کی قیمت2.75لیرا کے برابر ہے۔
ملک کی خارجہ پالیسی کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے جناب اردگان کی کوشش لائق صد مبارک باد ہیں۔ آرمینا سے تاریخی دشمنی ختم کر کے صلح کی۔ یونان ،مصر اور عراق سے تعلقات مضبوط کیے ہیں ، عرب ملکوں میں ویزے کی شرط ختم کی ، اس وقت ہماری معلومات کے مطابق 76ملکوں میں ترکی کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں۔ماضی میں ہونے والی کردوں سے زیادتیوں کا ازالہ کیا۔ بین الاقوامی سطح پر ترکی کے تعلقات بہت خوشگوار ہیں جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حال ہی میں ترکی نے اقوام متحدہ میں ایک قرارداد پیش کی جس پر 197ملکوں میں 191ملکوں نے ترکی کی حمایت کی ہے۔
سوئزرلینڈ کے شہر ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم کے منعقدہ اجلاس اسرائیل کے صدر شمعون پیرز نے جب یہ کہا کہ غزہ میں کئے گئے مسلمانوں کے قتل عام پر ہمیں کوئی شرمندگی نہیں ضرورت پڑی تو آئندہ بھی اس طرح کے اقدام سے گریز نہیں کریں گے۔ اس موقع پر اجلاس میں جناب طیب اردگان نے اپنی ایمانی غیرت و حمیت اور اہل اسلام سے دلی وابستگی کا ثبوت دیتے ہوئے سراپا احتجاج ہوئے اور اجلاس کے منتظمین سے جواب دینے کے لیے وقت مانگا لیکن انہوں نے انکار کر دیا جس پر طیب اردگان اہل اسلام سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئیاجلاس سے واک آئوٹ کر کے باہر آگئے۔ 31 مئی 2010ء کو اسرائیل کی وحشیانہ درندگی کا شکار غزہ کے محصور اور مظلوم مسلمانوں کے لیے غازی بلند یلدرم کی قیادت میں امدادی بحرے بیڑے فریڈم فلوٹیا پر اسرائیل نے حملہ کر دیا۔ 9 ترکی رضاکار شہید ہوئے اور 20 کے قریب شدیدزخمی ہوئے۔ جس پر طیب اردگان نے اسرائیل سے اپنے سفیر واپس بلالیے اور اپنے ملک سے اسرائیلی سفیر کو نکل جانے کا حکم دیا ترکی بحریہ کو مزید چوکس کر کے بحرہ روم میں فوجی گشت بڑھا دیا ، اسرائیل سے فوجی تعاون کے معاہدے کے خاتمے کا اعلان کیا ، ترک اور اسرائیل مشترکہ فوجی مشقیں منسوخ کردیں اور اسرائیلی طیاروں کو ترکی فضائی حدود استعمال کرنیسے سختی سے روک دیا۔
2011ء کے انتخابات میں ترکی کے موجودہ صدر جناب طیب اردگان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے پارلیمنٹ میں 550 میں 341 نشستیں لے کر فیصلہ کن اور واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ یہ انتخابی کامیابی وبرتری سیکولرازم اور کمال اتاترک کے افکار و نظریات کے زوال کی آئینہ دار اور اسلامی عہد کی نوید ثابت ہوئی۔طیب اردگان کی عوام کے دلوں میں محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کے سوا پانچ کروڑ عوام نے انہیں وزیر اعظم ہائوس سے ایوان صدر تک پہنچا دیا ہے۔ صدر جمہوریہ ترکی جناب طیب اردگان نے ترکی کو عالم اسلام میں نمونہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ اسلامی ممالک کے سربراہان کے لیے طیب اردگان کی ملی قومی مذہبی و سیاسی وسجاجی خدمات لائق تقلید ہیں۔
چونکہ طیب اردگان سیاسی سطح پر عالم اسلام کے ترجمان کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں اس لیے عالم کفر ان کو ناکام کرنے کے تانے بانے بن رہا ہے۔ حال ہی میں ان کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کا قضیہ پیش آیا۔میں اس موقع پر ترکی عوام اور طیب اردگان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جن کی قربانیوں سے ترکی ٹکڑے ٹکڑے ہونے سےبچا رہا حکومتوں کو گرانا یا ان کے خلاف کسی کیمونٹی ، ادارے کو بغاوت پر اکسانا آناً فاناً نہیں ہوتا بلکہ اس پر کافی عرصہ درکار ہوتا ہے۔ ترکی کی جمہوریت پر شب خون مارنے کے لیے جہاں اور کئی وجوہات سامنے آ رہی ہیں وہاں پر ایک بڑی وجہ فتح اللہ گولن کی سازشی مہم ہے۔ گولن کے بارے میں ترکی کے سابق وزیراعظم نجم الدین اربکان گولن کے پھیلائے گئے تعلیمی سکولوں میں بچوں کو پڑھانے سے منع کرتے رہے کہ اگران سکولوں میں بچوں کو پڑھائو گے تو وہ یہود کے کام آئیں گے۔
گولن 1966ء سے ترکی کے مختلف علاقوں میں امامت کرتے رہے ،مختلف عنوانات پر دروس کا بھی دیے، بعدازاں “خدمت”نام سے ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی،جس کے تحت تعلیمی سکولز،ہسپتالز اور دیگر رفاہی کام شروع کیے۔آہستہ آہستہ تعلیمی سکولز کا جال دیگر ملکوں تک بھی بچھادیا،چنانچہ اس وقت امریکہ سمیت پاکستان میں بھی گولن تحریک کے یہ سکولز کام کررہے ہیں۔ان سکولوں میں ترک میوزک ڈانس وغیرہ کے ساتھ مخلوط نظام تعلیم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ابتدا میں گولن صاحب اردگان کے پرجوش حامی رہے لیکن بعدازاں چند اختلافات کی بناء پر ان سے الگ ہوگئے۔1999ء سے تاحال موصوف امریکہ کی ریاست پنسلوانیا کے شہر سالس برگ میں400ایکڑ یعنی 3200 کنال کے وسیع محل میں عیش وعشرت کی زندگی گزاررہے ہیں۔کہاجاتا ہے کہ گولن صاحب کی تنظیم مختلف کاروباروں اور چندہ مہموں کے ذریعے سالانہ 31 ارب ڈالرسے زائد رقم جمع کرتی ہے۔عام طور پر پاکستان سمیت دیگر ملکوں کے کچھ لوگ فتح اللہ گولن کو محض مذہبی عالم سمجھتے ہیں اور ان کے افکار ونظریات کو عین اسلام کے مطابق سمجھ کر ان کو عین حق پر سمجھتے ہیں حالانکہ ان کے افکار و نظریات سراسر اسلامی نظریات سے متصادم ہیں چنانچہ گولن صاحب کہتے ہیں:
• غیر مسلم کافر کے جسم کا ریشہ ریشہ مسلمان ہوتاہے۔
• 1998ء میں عیسائی پوپ سے ملاقات کے بعد کہا کہ یہودی اور عیسائی بھی جنت میں جائیں گے۔اور قرآن وحدیث میں صرف مسلمانوں کے لیے پیش کردہ جنت کا وعدہ عرب کے لوگوں کی محض قرآن میں تحریف ہے(نعوذباللہ)
• گولن کے بقول عیسیٰ علیہ السلام کانزول قرب قیامت جسمانی نہیں ہوگا۔
• ترکی میں جب حجاب کے خلاف شوروغوغابرپاتھا تب گولن صاحب نے فتوی دیا کہ حجاب کوئی لازمی چیز نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نجم الدین اربکان،پروفیسر آک غندو سمیت ترکی کی اکثریتی آبادی گولن کو سازشی سمجھتی ہے۔گولن کی تعلیم سے متاثر فوجی بغاوت منظر عام پر آئی ہے۔یہی بات جناب طیب اردگان نے بھی کہی ہے اور اس پر ثبوت پیش کیے ہیں۔
تاریخ پھر خود کو دہرا رہی ہے۔ جیسے ماضی میں ترکی پر سخت حالات تھے اس وقت علماء دیوبند نے اسلامی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے ترکی کا کھل کر ہر ممکن تعاون کیا آج بھی ترکی پر حالات کو عالمی سطح پر کشیدہ کیا جارہا ہے۔ ایسے نازک موقع پر تمام عالم اسلام کوعموماً اور مسلمانان پاکستان کو خصوصاً ترکی کا بھر پور ساتھ دینا ہوگا۔میری جماعت عالمی اتحاد اہل السنت والجماعت ، میرا ادارہ مرکز اہل السنت والجماعت سرگودھا، مجھ سے وابستہ متعلقین و مریدین تمام اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم ہر موقع پر طیب اردگان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ مشکل کی گھڑی میں ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ترکی کا موجودہ برسر اقتدار طبقہ خصوصاً طیب اردگان جہاں اپنے کی خوشحالی ، تعمیر و ترقی کا سوچتے ہیں وہاں پر عالم اسلام کی خود مختاری ، امن و امن اور خوشحالی کے خواہاں اور اس کے لییانتہائی دانش و حسن تدبیر کے مخلصانہ کوششیں کر رہے ہیں۔ خدا اپنی حفظ وامان میں رکھے ۔
No comments:
Post a Comment