حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان خلافت کے مسئلے پر بڑا اختلاف رہا حتی کہ دونوں کے درمیان جنگ بھی ہوئی، اس اختلاف سے عیسائی بادشاہ فائدہ اُٹھانا چاہتا تھا. اس نے اپنے سفیر کو بھیج کر دونوں حضرات سے علیحدہ علیحدہ خط و کتابت کے ذریعے ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانا چاہا اور جزیرۂ عرب پر حملہ کی صورت میں ساتھ دینے کی پیش کش کی گئی لیکن قربان جائیے اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین کی فکر و تدبر پر کہ جواب دونوں نے ایک ہی دیا جبکہ دونوں ایک دوسرے کے بارے میں یہ نہ جانتے تھے کہ سفیر نے دوسرے سے کیا بات کہی ہے.
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جواب دیتے ہیں،
اے عیسائی کتو! اگر تم نے ہماری طرف نظر اُٹھا کر بھی دیکھا تو علی رضی اللہ عنہ کی فوج کا ادنیٰ سپاہی تم معاویہ کو پاؤگے.
اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی جواب دیا کہ،
ہمارے اختلافات آپس کے ہیں اگر تم مداخلت کروگے تو یاد رکھو ہم دونوں مل کر تمہاری کمر توڑ دیں گے.
دونوں سے یہ جواب پاکر عیسائی بادشاہ نے حملے کا ارادہ ترک کر دیا. اپنی ہوا و ہوس کے اگر ہم بندے ہوتے تو امت کب کی فنا ہو چکی ہوتی لیکن اختلاف کے باوجود بلکہ جنگ کے باوجود ایک دوسرے کا تعلق اس قدر رہا ہے.
...........
ﺣﻀﺮﺕ ﺗﮭﺎﻧﻮﯼ ﺭحمہ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ،
ﺍﺟﻤﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﻨﺪﻭ ﻧﮯ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺷﯿﻌﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﻌﺰﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺍﺏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﮧ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﮟ ﯾﺎ ﻏﯿﺮ ﺟﺎﻧﺒﺪﺍﺭ ﺭﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﯾﻌﻘﻮﺏ ﻧﺎﻧﻮﺗﻮﯼ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﯽ ﻧﺼﺮﺕ ﮐﺎ ﻓﺘﻮﯼ ﺩﯾﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﻨﺪﻭ ﺷﯿﻌﮧ ﺳﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﻭﮦ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﻭﮦ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﮯ ﮔﺎ ﮐﮧ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﻮ ﻣﻐﻠﻮﺏ ﮐﺮﺩﯾﺎ.
( ﻣﻠﻔﻮﻇﺎﺕ ﺣﻀﺮﺕ ﺗﮭﺎﻧﻮﯼ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺟﻠﺪ ﭼﮩﺎﺭﻡ )
No comments:
Post a Comment