امسال شوال المکرم کے چاند کی صورتحال بہت عجیب ہے. سعودی عرب اور بھارت کے شمالی علاقوں میں چاند نظر آنے ک واضح امکان ہے جبکہ پاکستان میں معمولی ومشتبہ امکان. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ دراصل خط استوا Equator سے جو علاقے شمالا (جنوبا نہیں) قریب ہوں ان میں چاند جلدی نظر آئے گا اور دیر تک افق پر چمکتا رہے گا اور جو علاقے شمالا دور ہوں ان کا معاملہ برعکس ہوگا یاد رکھیں مکہ کرمہ اور لاہور خط استوا سے شمال کی جانب واقع ہیں مگر مکہ لاہور کی بنسبت خط استوا کے زیادہ قریب ہے اسکا عرض شمالا 21.41 درجے اور طول 77.10 درجے ہے اور لاہور کا عرض 31.50 درجے اور طول 109.22 درجے ہے .
مکہ میں لاہور کی بہ نسبت سورج کا طلوع وغروب تقریبا دو گنٹے دس یا گیارہ منٹ تاخیر سے ہوتا ہے یہ زمانہ حال کے بعض ماہرین کی رائے ہے۔ مولانا موسیٰ روحانی بازی صاحب کے حساب سے طلوع وغروب کا تفاوت اس سے بھی زیادہ ہے ۔یہ تو طول البلد کا فرق ہوا اس لئے یہ امر ممکن بلکہ واقع ہے کہ جو چاند لاہور یا پنجاب میں نظر آنے کے قابل نہ ہو وہ ان علاقوں میں جن میں ایک گھنٹہ تاخیر سے سورج غروب ہوتا ہو نظر آنے کے قابل بن جائے گا لیکن مکہ اور مدینہ جہاں ایک گھنٹے سے بھی زیادہ تاخیر سے سورج غروب ہوتا ہے وہاں کے افق پر نہ نظر آنے والاچاند دیر تک چمکتا رہے گا . اسی وجہ سے پاکستان اور سعودی عرب میں رؤیت کے حساب سے ایک دن کا فرق ہوسکتا ہے.
فلکیات جدیدہ (مولانا موسیٰ روحانی بازی رحمہ اللہ) صفحہ نمبر 347 .
واضح رہے یہ ایک دن کا فرق اس وقت ہوتا ہے جب صحیح رویت یعنی چاند دیکھنے کا اعتبار کیا جائے اس صورت میں بھی ہمیشہ ایک دن کا فرق ہونا ضروری نہیں، کبھی کبھی یہ فرق واقع ہوسکتا ہے آج کل جو سعودی عرب اور پاکستان کی ہجری تاریخوں میں فرق نطر آتا ہے یہ سعودی عرب میں ام القریٰ کیلنڈر پر عمل کرنے کی وجہ سے آتا ہے اس کیلنڈر میں سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اس میں محاق Conjunction کے دن چاند کی پہلی تاریخ لکھی ہے. معتبر ماہرین فلکیات کے مطابق اگر صحیح رویت کا اعتبار کیا جائے تو سعودیہ اور پاکستان میں ایک دن کا ہی فرق ہوسکتا ہے دو دن کا نہیں.
یہ لاہور اور مکہ کا حال ہے پشاور کا حال اس سے زیادہ مختلف ہے. پشاور کا عرض لاہور سے اور زیادہ ہے لہذا پشاور اور مکہ کے غروب کے وقت میں لاہور سے بھی زیادہ تفاوت ہوگا جس کی وجہ سے پشاور اور سعودی عرب میں ایک دن کا فرق یقینی طور پر ہوگا اور پشاور کا طول بھی پاکستان کے جنوبی علاقوں سے زیادہ ہے جس سے سعودی عرب سے شرقا غربا دوری مزید بڑھ جاتی ہے لیکن بعض لوگ ابھی تک اس بات کے قائل ہیں کہ پشاور اور مکہ میں ایک ہی روز ایک ہی طرح کا چاند نظر آتا ہے۔
منسلکہ نقشے کو سمجھیں دیکھیں اس میں 5 جولائی 29 رمضان المبارک کے چاند کا حال بیان کیا گیا ہے دیکھئے کہ سعودی عرب کے جنوبی علاقے خط استوا سے زیادہ قریب ہے اور ہری پٹی پر ہے ہری پٹی کا مطلب یہ ہے کہ چاند آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے اس کے بر خلاف پاکستان کے جنوبی علاقے نیلے رنگ کی پٹی پر ہیں جس کا مطلب ہے کہ اگر مطلع بالکل صاف رہا تو چاند دکھائی دے سکتا ہے لیکن اس دفعہ جنوبی پاکستان میں کھلی آنکھ سے چاند نظر آنے کا امکان انتہائی کم ہے اور شمالی علاقوں میں دوربین سے چاند نظر آسکتا ہے، کھلی آنکھ سے نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سعودی عرب میں کیلنڈر کے مطابق ہجری تاریخوں کا اعلان ہوتا ہے یا رویت کی شہادت کے ذریعے؟ اس بارے میں متعدد آراء ہیں بعض کا کہنا ہے کہ صرف کیلنڈر کے مطابق اعلان کیا جاتا ہے اور بعض کے مطابق صرف رویت کے مطابق اعلان ہوتا ہے ہماری رائے یہ ہے کہ وہاں اصل اعتبار ام القریٰ کیلنڈر پر ہوتا ہے اور رویت ہلال کمیٹی کو ثانوی حیثیت حاصل ہے.
(ماخوذ)
No comments:
Post a Comment