اجیت سنگھ سنگھائی کا تعلق پشاور کے ایک کھاتے پیتے سکھ خاندان سے تھا لیکن اس کا خاندان کئی برسوں سے کراچی میں مقیم تھا۔ گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے اجیت والدین اور بہن بھائیوں کا لاڈلا تھا جس کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کی جاتی۔ بیس اکیس سال کی عمر میں ہی اس کے پاس ضرورت اور آسائش کی تقریباََ سبھی چیزیں موجود تھی۔ قیمتی لباس، موٹر سائیکل،جدید کمپیوٹر اور بیش قیمت موبائل دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا تھا کہ گھر والے اس کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔
اب آتے ہیں اصل واقعے کی طرف ۔دو سال پہلے اجیت نے کسی دکان سے میموری کار ڈ میں گانے اور فلمیں ڈاؤن لوڈ کروائیں۔ ان گانوں اور فلموں کے ساتھ غلطی سے ایک بیان بھی ڈاؤن لوڈ ہوگیا ۔ ایک دن اجیت حسب معمول لیٹا ہوا گانے سن رہا تھا کہ اچانک گانا ختم ہونے کے بعد کسی مولوی کی تقریر شروع ہوگئی۔ وہ بہت حیران ہوا کہ میرے موبائل میں یہ مولوی کی تقریر کہاں سے آگئی۔ اس کے دل میں تجسس پیدا ہوا کہ دیکھوں تو سہی کہ یہ مسلمانوں کا مولوی کیا کہہ رہا ہے ۔تقریر سننا شروع کی ہی تھی کہ اس کے دل کی عجیب سی کیفیت ہوگئی۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب تقریر شروع ہوئی اور کب ختم ہوگئی۔ وہ تو بس اس مولوی صاحب کےانداز، درد اور دوسروں کے لیے تڑپ میں کھو کر رہ گیا۔ یہ مولوی صاحب کون تھے اسے کچھ علم نہ تھا لیکن وہ انکی ایک تقریر سن کر ہی ان کا دیوانہ بن گیا۔ اس نے نہ جانے کتنی بار وہ تقریر سنی اور جتنی بار بھی سنی اتنی بار ہی اسکی عجیب سی حالت ہوگئی۔ ایک دن وہ ڈرتے ڈرتے اسی دکان پر دوبارہ گیا اور دکاندار کو وہ بیان دکھا کر پوچھا کہ یہ مولوی صاحب کون ہیں دکاندار نے بتایا کہ ان کا نام مولانا طارق جمیل ہے اور یہ رائے ونڈ میں ہوتے ہیں۔ اجیت نے پوچھا کیا آپ کے پاس انکی اور تقریریں بھی ہیں تو دکاندار نے کہا ہاں بہت ساری ہیں۔ اجیت نے موبائل میں سے کارڈ نکال کر دیا اور کہا سب کچھ ڈیلیٹ کرکے اس میں طارق صاحب کی تقریریں بھر دو۔ دکاندار نے میموری کارڈ کو بیانات سے بھر دیا۔ بس پھر تو اجیت کو اور کوئی کام نہیں رہا ۔ جب بھی وقت ملتا وہ طارق جمیل صاحب کے بیان سننے میں مشغول ہوجاتا۔ ان بیانات نے اس کے دل کے اندر ایمان کی شمع روشن کردی۔خاص کر حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے واقعات اسے بہت اچھے لگتے۔اس نے اپنے کمیپوٹر میں بھی مولانا طارق جمیل کے بہت سارے بیانات جمع کرلیے۔ ایک دن وہ حسب معمول بیان سن رہا تھا کہ اس کے والد نے دیکھ لیا۔ وہ بہت ناراض ہوئے اور زندگی میں شاید پہلی دفعہ اس کی خوب کھنچائی ہوئی ۔اس واقعے نے اجیت کے دل میں روشن ہوئی ایمان کی شمع کو ایک بھڑکتے الاؤ میں تبدیل کردیا اور اس نے فیصلہ کرلیا کہ اب وہ اسلام قبول کرکے رہے گا چاہے اسے اپنا گھر بار ہی کیوں نہ چھوڑنا پڑے۔اس کے دل میں ایک معصوم سی خواہش پیدا ہوئی کہ وہ طارق بھائی کے ہاتھ پر ہی اسلام قبول کرے چنانچہ اس نے اپنے مسلمان دوستوں سے طارق بھائی کے بارے میں معلومات حاصل کرنا شروع کردی۔ دوستوں کی زبانی اسے پتہ چلا کہ طارق بھائی رائے ونڈ نامی ایک جگہ پر کسی مدرسے میں ہوتے ہیں اور رائے ونڈ لاہور کے قریب ہے ۔چنانچہ ایک دن وہ تیاری کرکے گھر سے نکل آیا اور گھر والوں کے نام ایک خط چھوڑ دیا جس میں اپنے اسلام قبول کرنے کے ارادے کے متعلق تفصیل سے لکھ دیا۔ کراچی سے رائے ونڈ تک کے ٹرین کے سفر میں بہت سے لوگ اسے ملے اسکے حالات جانے تو اسے الگ الگ مشورے دیے ۔ کسی نے کہا کہ فلاں بزرگ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلو ، کسی نے کہا کہ فلاں پیر صاحب کے ہاں چلے جاؤ ، کسی نے کسی مولوی کا نام لیا تو کسی نے کسی مبلغ کا ۔ لیکن اس کی تو ایک ہی خواہش تھی کہ وہ اپنے "طارق بھائی" کے ہاتھ پر ہی اسلام قبول کرے۔ رائے ونڈ پہنچ کر وہ پوچھتے پچھاتے تبلیغی مرکز پہنچ گیا۔ کسی نے حالات جان کر کسی بڑ ےبزرگ سے بھی ملوا دیا اور مشور ہ بھی دیا کہ یہ طارق جمیل صاحب سے بھی بڑے بزرگ ہیں انکے ہاتھ پر مسلمان ہوجاؤ ۔ طارق جمیل صاحب سے بعد میں ملاقات کرلینا لیکن اس نے انکار کردیا ۔ اس بزرگ نے اس کا ارادہ جان کر خوشی کا اظہار کیا اور بتایا کہ طارق جمیل صاحب تو آج کل اپنے گھر پر ہیں جو میاں چنوں کے قریب ایک قصبے میں ہے۔ آپ یا تو انتظار کرلیں یا پھر وہیں انکے پاس چلے جائیں ۔اجیت کی آنکھیں تو دید کی مشتاق تھی اس کے طارق بھائی کے گھر جانے کا فیصلہ کیا اور اگلے دن ہی رائے ونڈ سے طارق بھائی کے گاؤں رئیس آباد پہنچ گیا۔ مولانا صاحب کے مدرسہ کے اساتذہ نے اس سے آنے کا مقصد پوچھا تو اس نے اپنی کہانی بیان کردی۔ مولانا صاحب کو اطلاع ک گئی تو وہ فوراََ تشریف لے آئے ۔ اپنی محبوب شخصیت کو دیکھ کر اجیت کو اپنے آپ پر قابو نہ رہا اور وہ اپنے طارق بھائی کے گلے لگ کر خوب رویا ۔ مولانا صاحب نےاسے حوصلہ دیا اور پھر اس کو کلمہ پڑھا کر اسے امن اور سلامتی والے مذہب میں داخل ہونے کی سعادت بخشی ۔ اس کا اسلامی نام اس کی ہی خواہش پر محمد حسن رکھا گیا۔ مولانا صاحب کے حکم پر اس نے گھر والوں سے رابطہ کرکے اپنے مسلمان ہونے کا بتا دیا تو گھر والوں نے کہا تمہارا دماغ خراب ہوچکا ہے جب درست ہوجائے تو گھر آجانا۔ آج کل محمد حسن اپنے طارق بھائی کے مدرسے میں ہی رہائش پزیر ہے اور دین سیکھ رہا ہے۔ ساری زندگی آسائشوں میں گذارنے والا اجیت سنگھ محمد حسن بن کر سادہ سی زندگی گذرا رہا ہے اور بہت مطمئن ہے۔ دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ محمد حسن کے چہرے پر جو نورانیت جھلکتی ہے وہ شاید اس کی اس تڑپ اور قربانی کی وجہ سے جو اس نے اسلام کے لیے دی۔
یہ واقعہ چند دن پہلے کا ہے اور مولانا صاحب سے کچھ قریبی تعلق ہونے کی وجہ سے معلوم ہوا ہے ۔ دعا کریں کہ اللہ محمد حسن کی یہ قربانی قبول کرے اور اسے ثابت قدم رکھے اور اسے ایک سچا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(جب دل میں ہدایت حاصل کرنے کی جستجو اور تڑپ ہو تو اللہ رہنمائی ضرور فرماتے ہیں اور حق تک پہنچنے کی توفیق دے دیتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ آپ کی نیت درست ہو)
(حوریہ ذیشان)
No comments:
Post a Comment