مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی مشہور کتاب غبارِ خاطر میں قوموں کے عروج و زوال میں کے رویوں پر مبنی کچھ نہایت عبرت انگیز واقعات پیش کئے ہیں۔
پہلا واقعہ دیکھئے۔
یوروپ کے اُجڈ وحشی پوپ کی مسلط کردہ صلیبی جنگ کا ایندھن بن رہے تھے۔ عین اُن دنوں کا واقعہ ہے جب مسلمان اور صلیبی لشکر مصر کی سر زمین پر آمنے سامنے تھے۔ اُس وقت صلبیوں کی حالت ایک صلیبی نائٹ نے ان الفاظ میں بیان کی ہے۔ ایک رات ہم دریا کے راستے کی حفاظت کے لیے بنائی گئی برجیوں پر پہرہ دے رہے تھے، تو اچانک دیکھا کہ مسلمانوں نے ایک انجن جسے پٹریری (یعنی منجنیق) کہتے ہیں، لا کر نصب کر دیا اور اس سے ہم پر آگ پھینکنے لگے۔ جیسے ہی مسلمانوں کا پہلا بان چلا۔ ہم گھٹنوں کے بل جھک گئے اور دعا میں مشغول ہو گئے۔ ہر مرتبہ جب بان چھوٹنے کی آواز ہمارا ولی صفت پادشاہ سنتا تھا، تو بستر سے اٹھ کھڑا ہوتا تھا اور روتے ہوئے ہاتھ اٹھا اٹھا کر نجات دہندہ سے التجائیں کرتا۔ مہربان مولیٰ! میرے آدمیوں کی حفاظت کر! لیکن بالآخر کوئی دُعا بھی سُودمند نہ ہوئی اور آگ کے بانوں نے تمام برجیوں کو جلا کر خاکستر کر دیا۔ صلبیوں نے تاریخی شکست کھائی اور لاکھوں لاشیں چھوڑ کر فرار کی راہ اختیار کرنا پڑی۔
اب دوسری جانب کی حالت دیکھئے
اٹھارویں صدی کے اواخر میں جب نپولین نے مصر پر حملہ کیا تو مراد بک نے جامع ازہر کے علماء کو جمع کر کے ان سے مشورہ کیا تھا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ علماء ازہر نے بالاتفاق یہ رائے دی تھی کہ جامع ازہر میں صحیح بخاری کا ختم شروع کر دینا چاہئے کہ انجاحِ مقاصد کے لیے تیر بہدف ہے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا لیکن ابھی صحیح بخاری کا ختم، ختم نہیں ہوا تھا کہ اہرام کی لڑائی نے مصری حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اور عرب پر غلامی کے دور کا آغاز ہو گیا۔
انیسویں صدی کے اوائل میں جب روسیوں نے بخارا کا محاصرہ کیا تھا تو امیرِ بخارا نے حکم دیا کہ تمام مدرسوں اور مسجدوں میں ختم خواجگان پڑھا جائے۔ اُدھر روسیوں کی قلعہ شکن توپیں شہر کا حصار منہدم کر رہی تھیں۔ اِدھر لوگ ختمِ خواجگان کے حلقوں میں بیٹھے، "یا مقلب القلوب یا محوّل الاحوال" کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ بالآخر وہی نتیجہ نکلا جو ایک ایسے مقابلہ کا نکلنا تھا۔ جس میں ایک طرف گولہ بارود ہو، دوسری طرف ختم خواجگان!
دعائیں ضرور فائدہ پہنچاتی ہیں مگر انہی کو جو عزم و ہمت رکھتے ہیں۔ وسائل بہم پنچاتے اور اُن کا بہترین استعمال کرتے ہیں، بے ہمتوں کے لیے دعا ترکِ عمل اور تعطلِ قویٰ کا حیلہ ہوتی ہے۔
No comments:
Post a Comment