ذرا غور تو کیجئے کہ یہ بات کتنی مضحکہ خیز ہے کہ حضرت امام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ نے اپنی زندگی ہی میں اپنی فاتحہ کروانے کا حکم خود اپنی ہی زبانِ مبارک سے جاری کر دیا، حالاں کہ ایصالِ ثواب یا فاتحہ کسی کی بھی ہو وفات کے بعدہی ہوا کرتی ہے تو پھر حضرت امام نے اپنی زندگی ہی میں اپنے نام کے کونڈے بھروانے اور فاتحہ کروانے کا حکم کیسے دے دیا ؟ بلکہ آپ کا دامن تو ایسی لغو باتوں سے پاک ہے۔
اس لکڑہارے کا قصہ نہ کبھی مدینہ کی گلیوں میں گونجا، نہ عرب ممالک میں کہیں سنائی دیا اور نہ ہی مشرق و مغرب کے کسی اسلامی ملک میں کہیں پہنچا۔
حضرت جعفر بن محمد علیہ الرحمة 8 رمضان المبارک 80 ھ اور بروایت دیگر 17 ربیع الاوّل
83ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے ، لیکن وفات کے متعلق شیعہ، سنی سبھی کا اتفاق ہے کہ آپ نے 15 شوال 148ھ کو مدینہ منورہ ہی میں وفات پائی ان کی زندگی کے حالات معروف و مشہور ہیں
لہٰذا 22 رجب کی تاریخ کی کوئی تخصیص نہیں ہونی چاہئے، کیونکہ یہ نہ تو آپ کی تاریخ
ولادت ہے اور نہ ہی تاریخ وفات۔
جس طرح اسرائیلی قوم عجائب پرست تھی اور ہر مدعی نبوت سے معجزات و کرامات کے ظہور کی آرزو مند رہتی تھی اسی طرح اودھ کی شیعہ ریاست کے ماتحت رام اور لچھن کے دیس کے خالص ہندو معاشرے میں رہنے والے عوام کا لانعام بھی ہندو دیو مالاؤں اور رامائن کے من گھڑت قصے سن سن کر عجائب پرست بن گئے تھے اور لکھنو کے داستان گو یوں کو تو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ انہوں نے نوابوں کی سرپرستی میں طلسمِ ہوش رُبا اور ”داستانِ عجیب “ جیسی طویل داستانیں گھڑ کر ہندو دیو مالاؤں کو بھی مات کر دیا تھا، لہٰذا لکھنوی معاشرے میں بزرگانِ سلف کی طرف منسوب اور اخترا ع کردہ حکایات کا قبولِ عام حاصل کر لینا کوئی مشکل بات نہ تھی، کیونکہ اس کے لیے نہ کسی سند کی ضرورت تھی اور نہ ہی کسی ضابطے کی۔
جس چیز کودینی طور پر پیش کیا جائے اس کے جواز کی سند تو ضابطہ دین سے ہی پیش کی جانی چاہیے، سورة الانعام آیت 17 میں ارشاد باری تعا لٰی ہے کہ اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو اللہ تعالٰی کے سوا اسے کوئی رد نہیں کر سکتا اور اگر وہ تم کو کوئی فائدہ پہنچائے توبھی اسے قدرت حاصل ہے“ لہٰذا غیر اللہ سے کوئی مراد مانگنا شرک ہے، جو نا قابلِ معافی گناہ ہے ۔سورة ال عمران آیت104۔
پھر اگر حضرت امام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ سے متعلق لکڑہارے کا پورا افسانہ اپنے اندر کوئی تاریخی حقیقت رکھتا تو سوچنے کی اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ تاریخِ اسلامی یا بزرگوں کے حالات کی کسی مستند و معتبر کتاب میں اس عظیم واقعہ کا کوئی ذکر کیوں نہیں آیا؟ ” تلک عشرة کاملة “ اس قصے میں جو منظر کشی کی گئی ہے اس سے بخوبی واضح ہو گیا کہ یہ افسانہ ہندوستان کے کسی راجہ یا راجدھانی کا تو ہو سکتا ہے، مگر عرب قبیلے یا فرد کا ہرگز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح شیعوں نے سنی مسلم عوام کو دین سے گمراہ کرنے کے لیے اور چند جھوٹی اور فرضی کتابیں لکھ ماری ہیں اسی طرح یہ ”داستانِ عجیب“ بھی ایک فرضی اور من گھڑت جھوٹا افسانہ ہے ، مگر بے چارے توہم پرست اور عجوبہ پسند مسلم عوام میں کہاں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ سامنے کی دلچسپ بات کو چھوڑ کر معا ملے کی تہہ اور اصل حقیقت تک پہنچیں۔شروع شروع میں تو عرصے تک یہ رسم دبی دبی شیعوں کے حلقے میں محدود رہی ، لیکن پھر شیعوں نے سوچا کیوں نہ تعزیہ داری کی طرح کسی خوبصورت فریب اور تقیہ سے کام لے کر سنیوں کو بھی وفاتِ امیر معاویہ کے سلسلے کے اس جشنِ مسرت میں غیر شعوری طور شریک کر لیا جائے، چنانچہ انہوں نے حضرت امیرمعاویہ کے تاریخِ وفات ”۲۲“ رجب پر فریب کا پردہ ڈالنے کے لیے اس تاریخ کو حضرت امام جعفر کی طرف منسوب کر دیا اور لکڑہارے وغیرہ کا فرضی افسانہ گھڑا اور ”داستانِ عجیب“ اور ” نیازنامہ“ وغیرہ حضرت امام جعفر صادق کے نام سے چھپوا کر چہار دانگ عالم میں پھیلادیا ۔
No comments:
Post a Comment