حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نوراللہ مرقدہ کے خلیفہ اجل و حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی مفتی اعظم رفع اللہ درجاتہ کے خادم خاص حضرت اقدس مولانا محمد ابراہیم صاحب افریقی دامت برکاتھم العالیہ نے ایک واقعہ فرمایاکہ،
ایک جگہ میاں بیوی رہا کرتے تھے تنگ دستی کا عالم تھا غربت کی بناء پر پریشانیوں کا سامنا کرناپڑتا تھا حالات سے دوچار ہوکر شوہر نے بیوی کے سامنے ایک تجویز رکھی کہ میں چند سالوں کے لئے کسب حلال کے لئے کہیں باہر چلاجاتاہوں جب دو پیسے ہاتھ آجائیں گے تو واپسی کا رخ کرلونگا پھراس جمع پونجی سے اپنا مکان بنا کر آرام سے زندگی بسر کریں گے،مگر شرط یہ کہ آپ میری غیر موجودگی میں کوئی خیانت نہیں کریں گی اور میں بھی کوئی خیانت نہیں کروں گا۔ بیوی نے کہا تجویز تو بڑی عمدہ ہے اور میں اپنے وعدہ پر ان شاء اللہ قائم رہوں گی۔ چلو اللہ کا نام لے کر جو ارادہ کیا ہے کر گزرے۔ خیر وہ میاں صاحب سفر پر روانہ ہو گئے دوران سفر ایک جگہ دیکھا کہ کچھ کسان کام کر رہے ہیں ان کے مالک سے ملاقات کی اور کہا کہ مجھے کام کی تلاش ہے میں آپ کے یہاں کام کر لوں گا اور آپ مجھے مزدوری اس وقت دے دینا جب گھر جاؤں، مالک نے کہا، جیسی آپ کی مرضی۔
وہ شخص اپنا کام کرتا رہا یہاں تک کہ بیس برس کاعرصہ گزر گیا، ایک دن اس شخص نے مالک سے کہا کہ میں اب گھر جانا چاہتا ہوں اب آپ مجھے بیس سال کی محنت کے روپے دے دیجئے۔
مالک نے کہا کہ دو چیزوں میں سے ایک چیز اختیار کر لو
(۱) بیس سال کی مزدوری کے روپے لے لو
(۲) نصیحت سن لو۔
وہ شخص ہوشیار اور عقلمند تھا اس نے سوچا کہ روپے تو راستہ میں کہیں چوری بھی ہو سکتے ہیں مگر نصیحت ایسی چیز ہے جو کبھی چوری نہیں ہو سکتی اور ہمیشہ کام آتی ہے۔ اس نے کہا کہ جناب نصیحت کر دیجئے۔ اس مالک نے اس کو ۳ نصیحتیں کی
(۱) ہمیشہ معروف راستہ ہی اختیار کرنا کبھی بھی مختصر اور شارٹ کٹ راستہ اختیار مت کرنا
(۲) کبھی بھی دوسرے کے کام میں دخل مت دینا کسی کا جھگڑا اپنے سر مت لینا
(۳) غصے میں کبھی کوئی فیصلہ مت کرنا۔
خیروہ شخص شرط کے مطابق پیسے نہ لیکر صرف نصیحت پر اکتفاء کر کے چلنے لگا تو مالک نے اس کو تین روٹیاں دی اور کہا کہ پہلی روٹی فلاں جگہ جاکر کھا لینا دوسری فلاں جگہ اور تیسری گھر بیوی کیساتھ بیٹھ کر.
وہ آدمی گھر کیلئے روانہ ہوا۔ راستہ میں کچھ لوگ ملے ،
پوچھا،صاحب کہاں کا ارادہ ہے؟
کہا، کہ فلاں جگہ اپنے گھر جا رہا ہوں۔
لوگوں نے کہا کہ اس راستہ سے ہمارے ساتھ چلےآئیں یہ مختصر ہے جلدی پہنچ جائیں گے۔
وہ صاحب ان کے پیچھے پیچھے ہو لئے پھراچانک پہلی نصیحت یاد آئی کہ معروف راستہ کوچھوڑکر مختصر اور شارٹ کٹ راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ وہ الٹے پاؤں واپس معروف راستہ پر آ گئے بعد میں پتہ چلا کہ وہ چور اور ڈاکو تھے اور وہ راستہ جنگل میں جاتا تھا جہاں وہ سامان چوری کر کے انسان کو مار ڈالتے ہیں۔ اس نے اللہ کا شکریہ ادا کیا کہ اللہ نے اس کی حفاظت فرمائی۔ پھر روانہ ہوا اور چلتے چلتے اس نے رات کو ایک ہوٹل میں قیام کیا اندھیری رات میں باہر شور و شغب سا سنائی دیا سوچا کہ اٹھ کر دیکھتے کہ باہر کیا ماجرا ہے مگر پھر اس کو دوسری نصیحت یاد آئی کہ دوسرے کا جھگڑا اپنے سر مول نہیں لینا چاہئے۔ صبح کو ہوٹل کے مالک نے دریافت کیا رات کو کوئی شور سنائی نہیں دیا ؟ اس نے کہا، دیا تو تھا مگر میں نے سوچا دوسروں کے جھگڑے میں میں کیوں پڑوں۔
ہوٹل کے مالک نے کہا، بہت اچھا کیا جو تم وہاں نہیں گئے، وہ میرا پڑوسی ہے، بڑا ہی کمینہ انسان ہے. رات کو اس طرح شور مچاتا ہے اور جو وہاں جاتا ہے اس کو قتل کر کے اس کا سامان روپے پیسے سب لوٹ لیتا ہے.
اس آدمی نے پھر اللہ کا شکریہ ادا کیا کہ اللہ نے پھر اس کی جان بچائی۔ پھراپنی منزل مقصود کی اور روانہ ہوا دیر رات گھر پہنچا تو اچانک اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی ایک نو جوان کے سر میں بڑے پیار سے ہاتھ پھیر رہی ہے. وہ غصہ سے پاگل ہو گیا اور ارادہ کیا کہ اس نوجوان اور اپنی بیوی دونوں کی گردن مار دے مگر پھر اس کو تیسری نصیحت یاد آئی کہ غصہ میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے.
رات کوکہیں باہر ہی سو گیا، صبح کو دروازہ کھٹکھٹایا بیوی نے دروازہ کھولا بڑی خوش ہوئی مارے خوشی کے بوسہ دینا چاہا اور گلے لگانا چاہا مگر میاں ہیں کہ منہ بنائے بیوی کو اپنے سے دور کئے جا رہے ہیں.
بیوی نے کہا کہ آپ اتنے عرصہ بعد آئے ہیں اور ایسی بے رخی برت رہیں ہیں آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
اس نے کہا کہ میں نے جاتے وقت ایک شرط لگائی تھی میری غیر موجودگی میں تم کوئی خیانت نہیں کروگی مگر میں نے رات میں تمہیں ایک نو جوان کیساتھ دیکھا وہ کیا معاملہ ہے؟
بیوی نے ایک لمبی آہ بھری اور کہا آپ پہلے بیٹھئے ناشتہ کیجئے پھر آپ کو پوری بات بتلاتی ہوں. دسترخوان لگا ناشتہ کرنے لگے پھر بیوی نے بتلایا کہ جس وقت آپ یہاں سے گئے اس وقت میں حمل سے تھی یہ وہی بچہ ہے جو آج بیس سال کا جوان ہو گیا ہے.
اس شخص نے پھر اللہ کا شکریہ ادا کیا کہ اللہ نے اس کو اپنے بیوی بچے کے قتل سے روک کر گناہ گار ہونے سے بچا لیا. ناشتہ کرتے کرتے اس کو یاد آیا کہ اس کے مالک نے کہا تھا کہ تیسری روٹی گھر بیوی کیساتھ کھانا اس نے وہ روٹی اپنے توشہ دان سے نکالی جب اس کو کھولا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ اس میں تو اشرفیاں ہیں.
اس کے بعد اس نے اپنا سارا معاملہ سنایا کہ میری بیس سال کی ساری پونچی تو اصل تین نصیحتیں تھیں جن پر عمل کرنے کی وجہ سے آج میں زندہ ہوں اور یہ اشرفیاں بھی آپ کے قدموں می۔
خلاصہ یہ ہیکہ ہمیشہ بڑوں کی نصیحتوں پر عمل کرنا چاہئے اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment