ہندوستان میں تین اہم اور مؤثر ادارے ہیں اورتینوں کے مقاصد الگ الگ- یہ تینوں اپنی عظمت و عبقریت اور عہد سازی کی بنا پر بین الاقوامی شہرت رکھتےہیں-ان میں سے
ایک دارالعلوم دیوبند ہے،
دوسرا دارالعلوم ندوہ اور
تیسرا مسلم یونیورسٹی علی گڑھ -
دارالعلوم دیوبند مسلمانوں کی اٹھارہ سو ستاون کی خوف ناک اور "زہرہ گداز "ناکامیوں کے نتیجے میں "منصۂ شہود پر آیا، یہ انگریزی تسلط کے آفتابِ نصف النہار کا دور تھا- ہرطرف اہل ایمان سر بکف نظر آرہے تھے-خاکِ وطن کلمہ خوانوں کے خون سے لالہ زار بنی ہوئی تھی-تحریکِ آزادی جو پیشتر سے میدان جنگ میں فرنگیوں سے دوبدوجاری تھی، اب برنگِ دگر جاری رہی-ملک سے دینی شعائر وآثار مٹانے کی سعئ پلید اپنی تمام تر ریشہ دوانیوں کیساتھ عروج پر تھی- دارالعلوم ایسی دہشت انگیز فضا میں جلوہ آراے روزگار ہوا- اس کا مقصد اصلی اگر ایک طرف فرنگی استبداد و قبضہ کا خاتمہ تھا، تو دوسری طرف مسلمانوں کی تہذیبِ حجازی کا مضبوط تحفظ بھی - دارالعلوم اٹھارہ سو چھیاسٹھ میں قائم ہوا- مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے بھی سفید فام بہادروں کے عہد نافرجام میں آنکھیں کھولیں- اس کا مقصد فرنگی روسیاہوں کی تقلیدِ کامل تھی- سید احمد خاں نے اس کا منشور اس اعلان کیساتھ تیار کیا،
"میں ایسی جماعت تیارکرناچاہتاہوں، جو رنگ ونسل میں تو ہندوستانی ہو اور تہذیب وتمدن میں کامل انگریز "-
چناں چہ اس نے اپنی ابتداےآفرینش سے فرنگی مسلمان تیار کئے، جو اپنے بانی اور فاؤنڈر کا حلیہ بھی نہ اپناسکے- ان دونوں کے بعد بیرونی تسلط کے ہی دور میں ندوہ تحریک شروع ہوئی، جو بعد میں تحریکیت کھوکر ایک دینی درسگاہ کی شکل میں متشکل ہوکررہی- اس کا ایک ہی نعرہ رہا
"خذ ما صفا دع ماکدر "
یعنی قدیم صالح اور جدید نافع- تینوں ادارے اپنی نفع رسانیوں کے باوصف تین علی حدہ نقاط کےحامل ہیں- دارالعلوم کا مقصد تحریک آزادی کیساتھ چوں کہ برصغیر میں ارتقاےاسلام تھا، اس لئے اس کا نصاب تعلیم نظامی منتخب ہوا- یہ نصاب ملا نظام الدین سہالوی میرٹھی ثم بارہ بنکوی ثم فرنگی محلی کا تیار کردہ ہے، اسےانہوں نے حضرت اورنگ زیب عالم گیر رحمہ اللہ کے ایما پر مرتب کیاتھا، بعض لوگ اس کا بانی مرزا فتح اللہ کو گردانتےہیں- اس نصاب میں کئی مفید علوم داخل تھے، جو سمٹ کر چند علوم میں محدود ہوکررہ گئے، تاہم دارالعلوم نے اپنے اسی نصاب سے چوٹی کے مفسرین، نابغۂ عصر محدثین، سربفلک مصنفین اور سرآمد روزگار ماہرینِ شرع پیدا کئے اور اب بھی دارالعلوم اسی ڈگرپر جاری ہے- دارالعلوم ماہرین شرع کی کھیپ مسلسل تیار کررہا ہے- یہاں پڑھنے والے یہی سوچ کر پڑھتےہیں کہ انہیں دینی خدمت سے کچھ کم منظور نہیں ،چاہے انہیں فاقہ مستی کی دشوارگزار گھاٹیوں سے گزرنا پڑے- دینی علوم کیساتھ اگر دنیوی علوم بھی اس کے ہاتھ لگ گئے، تو یہ ان کیلئے اضافی نعمت ہے- دارالعلوم کا مقصد دنیا کمانےوالے افراد تیار کرنا ہے ہی نہیں-اس کے علی الرغم علی گڑھ استعماری تہذیب اور استحکام معیشت کی بنیادوں پرکھڑاہوا ،اس لئے فرنگیت اس کے ابنا کا شعار بنی رہی- یہی ہوتارہا کہ اسلام بیزاروں اور دنیا پرستوں "کی فوج درفوج یہاں سے نکلتی رہی، اب بھی اس میں کوئی کمی نہیں ہے-ندوہ کا مقصد مسلمانوں میں نزاعِ باہم کو دور کرنا اور مفید تر نصاب تیارکرنا تھا، تاکہ یہاں کے فضلا علوم دینیہ میں وسیع گہرائی کے ساتھ علوم عصریہ کےبھی ماہر نبض شناس ہوں-ندوہ اپنےمقاصد میں کماحقہ کامیاب نہ ہوسکا-صورت حال یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند خاموشی سے ناخداے اسلام کا عظیم فرض منصبی اداکررہاہے- علی گڑھ بھی اپنے مقررکردہ خطوط پرجادہ پیما ہے ،مگر ندوہ نصاب نصاب کی ہزار گردان کے باوجود اپنےاہداف نہ پاسکا- یہی وجہ ہے کہ ابناے ندوہ باربار تبدیلئ نصاب کا علم بلند کئےجارہےہیں جبکہ دارالعلوم اپنے خطوط پر تسلسل کیساتھ رواں دواں ہے- علی گڑھ بھی اپنا کام بخوبی انجام دےرہا ہے- علوم اسلامیہ اگرچہ وہاں بھی پڑھائےجارہےہیں ، مگروہ ذیلی اورضمنی ہوکر- اسی لئے اسلامی رنگ اورمحمدی نقوش ڈھونڈنےسےنہیں ملتے-کاش کہ وہ یہ جرات کرلیتا تو امت کو ماہرین علوم عصریہ کی شکل میں مردانِ خداآگاہ کےخوبصورت نظارےبھی دیکھنےکوملتے-اس لئےتبدیلئ نصاب کا مشورہ علی گڑھ اور دیگر مسلم یونیورسٹیوں کو دیا جانا زیادہ مفید رہےگا- جولوگ نصاب کی تبدیلی کا مشورہ دارالعلوم کودےرہے ہیں، وہ دراصل دارالعلوم کے مطمحِ نظر سےناآشناہیں-
فضیل احمد ناصری القاسمی
No comments:
Post a Comment