ایک اہم سوال ہے۔ ہیرا گولڈ کمپنی حیدرآباد میں انویسٹ کرنا از روئے شرع کیسا ہے۔ یاد رہے کہ اس کمپنی کے بانیان اہل حدیث حضرات ہے اور فی الحال مینیجنگ ڈائریکٹر اہل حدیث خاتون نمیرہ نامی ہے۔یہ مسئلہ کافی تشویش ناک ہے.
شیرز کو اردو میں "حصے" سے اور عربی میں "سہم" سے تعبیر کرتے ہیں.
اور آج کل جس کو جوائنٹ اسٹاک کمپنی joint stocka company کہا جاتا ہے..
اس کا طریقۂ کار.
اس کی دو صورتیں ہیں
پہلی صورت یہ کہ جب کمپنی وجود میں آتی ہےتو بازار میں اپنے شیرز فلوٹ کرتی ہے.
مثلاً کوئی آدمی ٹیکسٹائل کی کمپنی قائم کرے اور اس کے لئے اس کو دس ارب روپے کی ضرورت ہے وہ اعلان کرتا ہے کہ ہماری کمپنی ایک ایک ہزار کا شیرز فلوٹ کر رہی ہے. اس کے بعد اس کمپنی کے شیرز مارکیٹ میں فروخت ہوتے ہیں اب جو شخص اس کو خریدتا ہے وہ اس کمپنی کا شریک ہوجاتا ہے..
اور شیرز خریدنے کی دوسری صورت کیپیٹل اگین capital agin کی ہوتی ہے یعنی کمپنی کا شریک بننا مقصود نہیں ہوتا بلکہ لوگ اس کا اندازہ کرتے ہیں کہ کس کمپنی کے شیرز کی قیمت میں اضافہ ہونے کا امکان ہے چنانچہ اس کمپنی کے شیرز خرید لیتے ہیں اور پہر چند روز بعد جب قیمت بڑھ جاتی ہے تو ان کو فروخت کرکے نفع حاصل کرتے ہیں......
لہذا ان صورتوں کے احکام یہ ہیں
شیئرز کی خرید و فروخت مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:
(۱) وہ کمپنی حرام کاروبار میں ملوث نہ ہو۔
(۲) اس کمپنی کے تمام اثاثے اور املاک نقد رقم کی شکل میں نہ ہوں بلکہ اس کمپنی کے کچھ منجمد اثاثے ہوں، مثلاً اس نے بلڈنگ بنالی ہو یا زمین خریدلی ہو اور واقعةً کمپنی قائم کرکے اس نے کاروبار شروع کردیا ہو اور یہ امر تحقیق سے معلوم کرلیا ہو۔ ورنہ کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرنا حرام ہوگا۔
(۳) اس کمپنی کا کسی قسم کے سودی کاروبار میں ملوث ہونا ممبر بننے کے بعد معلوم ہو تو اس کی سالانہ میٹنگ میں اس معاملہ کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔
(۴) جب منافع تقسیم ہوں تو اس وقت نفع کا جتنا حصہ سودی معاملہ سے حاصل ہوا ہو اس کو بلانیت ثواب فقراء پر صدقہ کردے ۔
(۵) شیئرز کی خرید و فروخت سے مقصود حصہ داری حاصل کرنا ہو، محض نفع و نقصان برابر کرکے نفع کمانا مقصود نہ ہو (جس میں شیئرز پر نہ تو قبضہ ہوتا ہے اور نہ ہی قبضہ پیش نظر ہوتا ہے) کیونکہ یہ سٹہ بازی کی شکل ہے جو حرام ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
فقہی مقالات ۱/۱۴۲ ماخوذ از درسی تعلیمی اہم مسائل ۳۸۲. فتاوی عثمانی ۳/۱۷۷
رہ گیا مسئلہ بروکر دلال کا اس پر کمیشن لینا وہ درست ہے.
از فتاوی عثمانی ۳/۱۷۷
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے "فقہی مقالات"
اور "اسلام اور جدید معیشت وتجارت"
فقط واللہ تعالی اعلم
No comments:
Post a Comment