دین سب کیلئے ہے اور اسلام سب کیلئے کسی مخصوص اور محدودطبقے کیلئےنہیں ہے- قرآن وحدیث پرعمل درآمدکرنا محض علما اور مبلغین کی ذمہ داری نہیں، بلکہ احکامِ اسلام کی صدفی صدبجا آوری ہرکلمہ گوپر ضروری ہے- صد حیف کہ مسلمانوں کی اکثریت نے یہ باورکر رکھاہے کہ احکامِ دین کے مخاطب صرف وہ ہیں، جنہیں دینی تعلیمات کےحقائق و دقائق معلوم ہیں- اورجوبےبہرہ ہیں انہیں استثنا کی سند بارگاہِ ایزدی سےعطا ہوچکی ہے- نتیجہ یہ کہ اسلام یاتو علماےحق میں نظر آتاہے، یاتبلیغی جماعت سےوابستہ متدین افراد میں- عام اہلِ ایمان نہ علمِ دین سےآشناہیں اورنہ عملِ صالح کیلئے کوشاں- بلکہ بعض ستم ظریف پیروان سنت کا مضحکہ تک اڑا ڈالتےہیں- ان پر رجعت پسند ، انتہاپسند اوردقیانوس جیسے الفاظ چست کرتےہیں-انہیں اگلےدور اور اساطیری عہدکا متنفس قرار دیتےہیں- ........اللہ کاہزارہا شکر کہ مدارس اسلامیہ کاماحول اس گئےگزرےاور انحطاطی دورمیں بھی "اسلام نما "بہرحال ہے- یہی کچھ قدرے کمی کے ساتھ تبلیغی جماعت میں بھی موجود- عام جہال اورعلم دین سے نابلدطبقہ توخیر "کاہل "واقع ہواہی ہے، عصری دانش گاہوں کےاساتذہ اور اسٹوڈنٹ اسلام جان کربھی پورےطور پرغیراسلامی ہیں-بلکہ اگرمیں یہ کہوں کہ اسکولوں ، کالجوں اوریونیورسٹیوں میں اسلام کم، معاشی فکرمندی اور آزادمنشی زیادہ سکھائی جاتی ہے-توہرگز غلط نہیں ہوگا- مذہب کو پرائیویٹ معاملہ گردان لیاگیاہے- عصری علوم کےحاملین "فریب خوردہ شاہین "معلوم ہوتےہیں، جنہیں "کرگسوں "کےمہیب ساےمیں پرورش ملی ہو-وہ مستشرقین سےزیادہ "استشراق " کےشیدائی اور استعماریوں سےزیادہ "خوگرِ ہوس "نظرآتےہیں-ایسامعلوم ہوتاہے کہ شکار خود شکاری کےانتظارمیں بےچین کھڑاہےاوردعوتِ درندگی دےرہا ہے-ہم نےیہ دیکھاہےکہ عصری تعلیم گاہوں میں بیشتر"دہر یے "تیارہوتےہیں، یہاں ایسےجام لنڈھاےجاتےہیں جن سےرندانِ بلانوش کی مادیات کی گرہیں توکھل جاتی ہیں ، مگرعشقِ رسول کی آتشِ سوزاں سردپڑتی چلی جاتی ہے-جنہیں یہ خبرہی نہیں ہوتی کہ اللہ اوررسول کی مرضیات کیاہیں اورنامرضیات کیا؟عصری اداروں کےپروردہ "وضع "میں نصاریٰ اور "تمدن "میں ہنود واقع ہوتےہیں-یقیناً یہ اس تعلیم کااثرہےجوانہیں برسوں سےبےمحابادی جاتی ہے-یہ ادارے "فرنگ "توبنادیتےہیں، پر اسلامی آہنگ انہیں دےپاتے-مدارس کی فضا "نونہالانِ امت "کویہ درس دیتی ہےکہ تم اللہ اوررسول کےایجنٹ ہو، لہذاانہیں کاپرچم بلندکرو !تمہارےاعمال اورکردارسےجھلکناچاہئےکہ تم اپنے فرماں رواؤں پرمرمٹنے والےہو- تمہاری زندگی اپنےمقتدا
کے رنگ میں رنگی ہونی چاہئے-
من توشدم تومن شدی
تمہارانصب العین ہوناچاہئے ،مغرب کے مےکدوں میں یہی ہوتارہاہےکہ ساقی اپنےبلا نوشوں کاگلاگھونٹ دیتےہیں- پھر :کہاں سے آےصدالاالٰہ الااللہ؟ یہ اسی مسموم فضاکااثرہےکہ ایک صحافی کسی بیمار کی شفایابی پرلکھ مارتاہے کہ "فلاں نےموت کوشکستِ فاش دے دی، گاندھی جی مرحوم نے ایساکہاتھا، دیوالی مبارک "یہ اوران جیسےکفریہ کلمات آج کےصحافی لکھ ڈالتےہیں اوروہ اس خوش فہمی میں ہوتے ہیں کہ انہوں نے اردوادب کو ایک "جدید گوشہ " عطا کردیا- مذہب سےیہ کس قدربیزار ہوتےہیں، اس کااندازہ لگانا ہو توان "مسلم ملکوں کودیکھئے، جہاں اسلامی قوانین کےکامل نفاذ کی خبرسےان کےہوش اڑجاتےہیں -خدائی آئین سےان "مردانِ فرنگ "کوسخت چڑ ہے- اسلامی حدود کویہ لوگ وحشیانہ اور غیرانسانی قراردینےمیں ذرابھی نہیں ہچکچاتے-اللہ اوررسول کاہرفرمان ان پرشاق گزرتاہے-فسق وفجورکوبراسمجھناتودور، اس کی شناعت بیان کرنےوالےبھی تنقیدکی زدمیں-دینِ قیم مولویوں اورملّاؤں کےلیےہے، جدیدتعلیم یافتگان یاعام جہال کےلیےنہیں-ماضی کےاکابرامت انگریزی تعلیم کےخلاف اس لیےنہیں تھےکہ وہ انگریزکی زبان ہے، بلکہ ان کی مخالفت کی وجہ "مذہب سےانحراف"تھی- عام مشاہدہ یہ ہےکہ انگریزی تعلیم اسٹوڈنٹ کوبالآخر "انگریز "بناچھوڑتی ہے- صرف انہیں ہی نہیں ،مدارس کے وہ فضلابھی "بیمار" ہوجاتے ہیں جنہوں نےقال اللہ اورقال الرسول کی جاں فزانواؤں کے درمیان اپنی قیمتی زندگی کےکئی ماہ وسال گزارے- عصری تعلیم کی یہی نحوست تھی کہ ڈاکٹراقبال جیسا شاعرِ مشرق اپنی " مغرب بیزاری" کےہزار مظاہرے کے باوصف "مغربی طرز زندگی "سےدامن کش نہ رہ سکا-اردوکے بڑےبڑےشعرا کے دواوین دیکھئےتومترشح ہوگاکہ اسلامی طرزحیات کےسوا کچھ بھی قبول نہیں ،مگر "تہذیب حجازی "سےبےپناہ عقیدت ومحبت کےباوجود اس سےمیلوں دوررہے- سوال یہ ہے کہ عصری دانش گاہوں کی قبلہ نمائی کون کرےگا ؟ظاہرہےکہ پروفیسران اس کام سےتورہے "خفتہ راخفتہ کےکندبیدار ؟"یہ ذمہ داری ہمارے علمائے کرام اورتبلیغی جماعت کی ہے-علما پرفرض ہے کہ ان کی دینی تربیت کاکوئی معقول انتظام کریں- جماعت تبلیغ کےذمہ دار جس طرح علمااور فضلائے مدارس پرسال اور چلے کیلئےزور لگاتےہیں، انہیں وہ زور یہاں لگاناچاہئے- علمااور علم دین کی اہمیت ان کےدلوں میں بٹھانی چاہئے- انسانی حیات کامقصد ان کے سامنےرکھناچاہئے- امت کا بہترین دماغ عصری اداروں میں گزراوقات کرتاہےا گریہ دماغ نورِہدایت سےبھی روشن ہوجائےتو کتنابڑاکام ہوجائے- امت کونرے ڈاکٹراورنرےانجینئرکی نہیں ،بلکہ محمدی اخلاق سےآراستہ انجینئر اورڈاکٹرکی ضرورت ہے-ایسےانجینئر اورڈاکٹرکی جنہیں دیکھ کر اللہ یادآجائے- ابھی حال ہی میں ویسٹ انڈیز کےسابق کرکٹرکا بیان پڑھ کرمیں شرم سےگڑگیا، برائن چارلس لارانے پاکستانی کرکٹر انضمام الحق کی دعوتِ اسلام کےجواب میں کہاتھا
"تمہارےمذہب کی تعلیمات خدالگتی ہیں ،مگرکیابات ہےکہ وہ مسلمانوں میں نہیں دکھتیں، پھرمیں کیسےمان لوں کہ اسلام سب سےاچھااوردلوں کواپیل کرتامذہب ہے ؟"
پاکستانی کرکٹرمحمدیوسف نےدرست کہاتھا
"اسلام کےپھیلاؤمیں مسلمان ہی رکاوٹ ہیں. "
علمائےاسلام اور تبلیغی جماعت کےبڑے ذمہ داران سےمیری گزارش ہےکہ عصری تعلیم گاہوں کی مغرب نوازی کےخاتمے کیلئے کوئی ٹھوس لائحۂ عمل اختیارکریں- مجھےیقین ہےکہ یہ بے سمت طبقہ "قبلہ رو " ہوگیا توزمانہ پھرسے ہماری اچھی صبح وشام دکھاسکتاہے- گردشِ ایام پیچھےکی طرف پھر لوٹ سکتی ہے- ہماری بہارِرفتہ واپس آسکتی ہے- پھردیکھ لیجئےگا کہ قومِ مسلم کا تابناک ماضی حال اور مستقبل بن کرکس طرح چمکےگا-
فضیل احمد ناصری القاسمی
No comments:
Post a Comment