کیامذہب حنفی رائے اورقیاس پرمبنی ہے اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف مذہب ہے ۰
جواب :یہ وسوسہ اور جھوٹ بھی بہت پھیلایا گیا اور آج تک اس فرقے کے جاہل لوگ عوام میں اس جھوٹ کوپھیلا رہے ہیں ، فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی ہندوستان میں پیدائش کے بعد اس جھوٹ کوبہت فروغ دینے کی ناکام کوشش کی گئی ،الحمدلله اس جھوٹ و وسوسہ کی ویسے بھی اہل علم کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں تھی کیونکہ علماء احناف اور فقہ حنفی کسی مخفی وپوشیده چیز کا نام نہیں ہے اہل علم کو فقہ حنفی کا مرتبہ ومقام خوب معلوم ہے اور فقہ حنفی پر مشتمل کتب کا ایک بحرذخائر دنیائے اسلام کے تمام کتب خانوں میں پھیلا ہوا ہے ،لیکن پھر بھی اتمام حجت کے لئے اس وسوسہ کا جواب علماء احناف نے دیا ،اور اس وسوسہ کے جواب میں مفصل ومختصر کئی کتب لکھی گئی ،لیکن اس باب میں سب سے عظیم الشان انتہائی مدلل دلائل وبراہین سے مزین کتاب العلامۃ المحقق الكبير المحدث العظیم الفقيہ الجلیل والبحاثۃ المدقق الثبت الحجۃ المفسرالمحدث الاصولی البارع الاديب المؤرخ الزاهد الورع الشيخ ظفر احمد العثمانی التهانوی الدیوبندی رحمہ الله نے لکھی ہے ،
جس کا نام (( إعــْــلاءُالسُّـنـَن )) ہے ،یہ عظیم الشان کتاب اکیس ( 21 ) ضخیم جلدوں پرمشتمل ہے ، اور اس عظیم الشان کتاب کےدو مُقدمے ہیں ایک مقدمہ (قواعد فی علوم الحدیث) کے نام سے ہے جو کچھ کم پانچ سو ( ۵۰۰ ) صفحات پرمشتمل ہے ، جوکہ اصول حدیث وعلوم حدیث ، جرح وتعدیل کے اصول وقواعد وتعریفات ونادر تحقیقات وتشریحات اور بے مثل فوائد وفرائد کا ایک قیمتی خزانہ ہے ، دوسرا مُقدمہ اجتہاد وتقلید وتلفیق وقیاس وغیره اصول فقہ کے ابحاث علمیہ قیمہ پرمشتمل ہے ، کتاب کی ترتیب ابواب فقہیہ پرمشتمل ہے ،ابواب الطهارة سے لے کرآخر باب تک ہرباب مذہب احناف کے دلائل کا انبار لگا دیا گیا ۔(جزي الله مؤلفه خيرالجزاء وأكمل الجزاء وأسكنه في الفردوس الأعلى )
اور اس کتاب کوپڑھنے کے بعد ایک عالم منصف جہاں مولف علام کے تبحرعلمی کا اقرار کرے گا ساتھ ہی ساتھ اس بات کا بھی اقرار واظہار کرے گا کہ مذہب احناف دلائل وبراہین کے اعتبارسے سب سے قوی ترین اور اقرب الى السنۃ مذہب ہے ، باقی ایک جاہل متعصب شخص اگرانکار کرے تو اس کا علاج کسی کے پاس نہیں ہے ، یہ عظیم الشان کتاب فصیح وبلیغ عربی وعلمی زبان میں ہے ، اور فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی آج کل کی ایڈیشن علم تودرکنار عربیت سے بھی نابلد ہیں ، اورعلم سے توان کومس ہی نہیں ہے ،اس لئے اس فرقہ جدید میں شامل لوگ بلا جھجھک حقائق کا انکارکرلیتے ہیں ۔
آخرمیں شيخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ الله کا فیصلہ وقول نقل کرتا ہوں جو اسی وسوسہ کوباطل کرنے کیلئے ہے ،
شیخ الاسلام علامہ ابن تيميہ رحمہ الله فرماتے ہیں کہ،
جس نے ابوحنیفہ یا ان کے علاوه دیگر أئمۃ المسلمین کے متعلق یہ گمان کیا کہ وه قیاس یا ( رائے وغیره ) کی وجہ سے حدیث صحیح کی مخالفت کرتے ہیں تو اس نے خطا کی ( اوران ائمہ پرجھوٹ بولا ) یا اس نے ظن وگمان سے بات کی یا خواہش نفس سے ، کیونکہ (امام اعظم ) ابوحنیفہ رحمہ الله توضعیف حدیث کے مقابلے میں بھی قیاس نہیں کرتے جیسے سفرمیں نبیذ تمر کے ساتھ وضو والی حدیث اور نمازمیں قهقهة والی حدیث کے مقابلے میں (امام اعظم ) ابوحنیفہ رحمہ الله نے قیاس کوچھوڑدیا ۔الخ
علامہ ابن حزم ظاہری رحمہ الله فرماتے ہیں کہ
تمام اصحاب ابی حنيفہ ؒ کا اس بات اجماع ہے کہ مذہب ابی حنيفہ ؒ یہ ہے کہ ضعیف حدیث ان کے نزدیک قياس ورائے سے اولی ہے ۔
علامہ ابن القيم رحمہ الله بھی یہی فرماتے ہیں کہ
اصحاب ابی حنيفہ رحمہ الله اس بات پراتفاق ہے کہ ضعيف حديث ان کے نزدیک أولىٰ ہےقياس ورائے سے اوراسی پر(امام اعظم ) ابوحنیفہ رحمہ الله کی مذهب کی بنیاد ہے ، اسی وجہ سے حديث القهقهة کو (امام اعظم ) ابوحنیفہ رحمہ الله نے قياس و رائے پرمقدم کیا اور نبيذ التمرکے ساتھ سفرمیں وضو والی حدیث کو باوجود اس کے ضعیف ہونے کے قياس ورائےپرمقدم کیا۔ الخ
لہذا جس مذہب میں یہ اجماعی اصول ہو کہ قیاس ورائے کے مقابلہ میں ضعیف حدیث بھی ملے تواس پرعمل کرنا ہے اور قیاس ورائے کوچھوڑدینا ہے۔تو ایسے مذہب کے متعلق یہ کہنا کہ مذہب احناف رائے اورقیاس اوراحادیث صحیحہ کی مخالفت پرمبنی ہے
کیا یہ جھوٹ وفریب نہیں تواور کیا ہے ؟
الله تعالی عوام الناس کو فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث میں جہلاء کے وساوس سے محفوظ رکھے ، اور اس کی ایک ہی صورت ہے کہ دین کے معاملہ میں ان کےکسی بات پراعتماد نہ کیا جائے تا وقتیکہ کسی اور مستند عالم سے اس کی تحقیق نہ کرلے ۔
قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله في مجموع الفتاوى (2/161: (ومن ظن بأبي حنيفة أو غيره من أئمة المسلمين أنهم يتعمدون مخالفة الحديث الصحيح لقياس أو غيره فقد أخطأ عليهم، وتكلم إما بظن وإما بهوى، فهذا أبو حنيفة يعمل بحديث التوضي بالنبيذ في السفر مخالفة للقياس وبحديث القهقهة في الصلاة مع مخالفته للقياس؛ لاعتقاده صحتهما، وإن كان أئمة الحديث لم يصححوهما.
وقد بينا هذا في رسالة: " رفع الملام عن الأئمة الأعلام " وبينا أن أحدا من أئمة الإسلام لا يخالف حديثا صحيحا بغير عذر؛ بل لهم نحو من عشرين عذرا، مثل أن يكون أحدهم لم يبلغه الحديث؛ أو بلغه من وجه لم يثق به، أو لم يعتقد دلالته على الحكم؛ أو اعتقد أن ذلك الدليل قد عارضه ما هو أقوى منه كالناسخ؛ أو ما يدل على الناسخ وأمثال ذلك. والأعذار يكون العالم في بعضها مصيبا، فيكون له أجران، ويكون في بعضها مخطئا بعد اجتهاده فيثاب على اجتهاده وخطؤه مغفور له ؛: لقوله تعالى { رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا } . وقد ثبت في الصحيح أن الله استجاب هذا الدعاء وقال: « قد فعلت» ولأن العلماء ورثة الأنبياء۔
قال العلامة ابن حزم الظاهري : جميع أصحاب أبي حنيفة مجمعون على أن مذهب أبي حنيفة أن ضعيف الحديث أولى عنده من القياس والرأي "
(الإنتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء ، للحافظ أبي عمر يوسف بن عبدالبّر النمري القرطبي ، ت463هـ ، طبعة دار الكتب العلمية ، بيروت )
وقال في كتابه إحكام الإحكام : قال أبو حنيفة : الخبر الضعيف عن رسول الله ﷺ أولي من القياس ، ولا يحلّ القياس مع وجوده "
(تاريخ التشريع الإسلامي)
وقال ابن القيم الجوزية في إعلام الموقعين : وأصحاب أبي حنيفة رحمه الله مجمعـون علـى أن مذهـب أبـي حنيفـة أن ضعيـف الحديـث عنـده أولى من القياس والرأي ، وعلى ذلك بنى مذهبـه كمـا قـدّم حديـث القهقهـة مـع ضعفه على القياس والرأي ، وقـدّم حديث الوضوء بنبيذ التمر في السفر مع ضعفه على الرأي والقيـاس .... فتقديم الحديث الضعيف وآثار الصحابةعلى القياس والرأي قوله وقول الإمام أحمد "
(تذكرة الحفاظ، للإمام أبي عبدالله محمد بن أحمد الذهبی ت748هـ، دار الفكر العربي)
از: تحفظ سنت میڈیا
No comments:
Post a Comment