شیخ الحدیث حضرت مولا نا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنی رحمہ اللہ المتوفٰی 1402ھ لکھتے ہیں کہ
ایک مرتبہ 10 بجے صبح کو میں اوپر اپنے کمرہ میں نہایت مشغول تھا، مولوی نصیر نے اوپر جا کر کہا کہ رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمہ اللہ جن سے حضرت شیخ رحمہ اللہ کی بے تکلفی تھی، آئے ہیں، رائے پور جا رہے ہیں، صرف مصافحہ کرنا ہے،
میں نے کہا۔ جلدی سے بلا دے۔
مرحوم اوپر چڑھے اور زینے پر چڑھتے ہی سلام کے بعد مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھا کر کہا، رائے پور جا رہا ہوں اور ایک سوال آپ سے کر کے جا رہا ہوں، اور پر سوں صبح واپسی ہے، اس کا جواب آپ سوچ رکھیں، واپسی میں جواب لوں گا، یہ تصوف کیا بلا ہے؟ اس کی کیا حقیقت ہے؟
میں نے مصافحہ کرتے کرتے یہ جواب دیا کہ صرف تصحیح نیت، اس کے سوا کچھ نہیں، جس کی ابتداء انما الاعمال بالنّیّات سے ہوتی ہے اور انتہا ان تعبد اللّٰہ کانک تراہ ہے،
میرے اس جواب پر سکتہ میں کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے، دلّی سے یہ سوچتا آرہا ہوں کہ تُو یہ جواب دے گا تو یہ اعتراض کروں گا، اور یہ جواب دے گا تو یہ اعتراض، اس کو تو میں نے سوچا ہی نہیں،
میں نے کہا جاؤ تانگے والے کو بھی تقاضا ہوگا، میرا بھی حرج ہو رہا ہے، پرسوں تک اس پر اعتراض سوچتے رہیو۔ اس بات کا خیال رہے کہ دن میں مجھے لمبی بات کا وقت نہیں ملنے کا، دو چار منٹ کو تو دن میں بھی کر لوں گا، لمبی بات چاہو گے تو مغرب کے بعد ہو سکے گی۔
مرحوم دوسرے ہی دن شام کو مغرب کے قریب آگئے اور کہا کہ کل رات کو تو ٹھیرنا مشکل تھا، اس لئے کہ مجھے فلاں جلسہ میں جانا ہے، اور رات کو تمہارے پاس ٹھیرنا ضروری ہو گیا اس لئے ایک دن پہلے ہی چلا آیا اور یہ بھی کہا کہ تمہیں معلوم ہے، مجھے تم سے کبھی نہ عقیدت ہوئی نہ محبت،
میں نے کہا علیٰ ہٰذا القیاس۔
مرحوم نے کہا، مگر تمہارے کل کے جواب نے مجھ پر تو بہت اثر کیا، اور میں کل سے اب تک سوچتا رہا، تمہارے جواب پر کوئی اعتراض سمجھ میں نہیں آیا...
میں نے کہا، انشاء اللہ مولانا اعتراض ملنے کا بھی نہیں۔ انما الاعمال بالنّیات سارے تصوف کی ابتداء ہے اور ان تعبد اللّٰہ کانک تراہ سارے تصوف کا منتہا ہے، اسی کو نسبت کہتے ہیں، اسی کو یاد داشت کہتے ہیں، اسی کو حضوری کہتے ہیں۔ ؎
حضوری گر ہمی خواہی، ازو غافل مشو حافظ
متی ما تلق من تہوی دع الدنیا وامہلہا
میں نے کہا، مولوی صاحب سارے پاپڑ اسی لئے پیلے جاتے ہیں، ذکر بالجہر بھی اسی واسطے ہے، مجاہدہ مراقبہ بھی اسی واسطے ہے اور جس کو اللہ جل شانہ اپنے لطف و کرم سے کسی بھی طرح سے یہ دولت عطا کر دے، اس کو کہیں کی بھی ضرورت نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نظر کیمیا اثر سے ایک ہی نظر میں سب کچھ ہو جاتے تھے اور ان کو کسی چیز کی بھی ضرورت نہ تھی، اس کے بعد اکابر اور حکماء امت نے قلبی امراض کی کثرت کی بنا پر مختلف علاج جیسا کہ اطباء بدنی امراض کیلئے تجویز کرتے ہیں، روحانی اطباء روحانی امراض کیلئے ہرزمانے کے مناسب اپنے تجربات جو اسلاف کے تجربات سے مستنبط تھے، نسخے تجویز فرمائے ہیں جو بعضو ں کو جلد نفع پہنچاتے ہیں، بعضوں کو بہت دیر لگتی ہے، پھر میں نے مرحوم کو متعدد قصے سنائے۔“
(یاد ایام ،
حصہ اول آپ بیتی،
2صفحہ 49،50 ،
طبع ساہیوال)
No comments:
Post a Comment