جناب پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات ہیں اور اس لحاظ سے تمام صحافیوں کے سرخیل ہیں۔ ان کا فرمانا ہمارے لیے سند ہے۔ لاہور کا معرکہ جیتنے پر وہ فرما رہے تھے کہ فلاں کی تو ضمانت تک ضَبَطْ (بروزن قلق‘ شفق‘ نفخ وغیرہ یعنی ضَ۔بَط) ہوگئی۔ اب جو مثالیں ہم نے دی ہیں نجانے ان کا تلفظ وہ کیا کرتے ہیں۔ بطور مثال ہم نے غَلط کا لفظ نہیں لکھا، کیونکہ یہ عجب تماشا ہے کہ غلط کو ضبط کے وزن پر اور ضبط کو غلط کے وزن پر بولا جارہا ہے۔ جناب پرویز رشید تو کبھی پی ٹی وی کے افسرِ اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ جانے وہاں غلط تلفظ پر وہ کیا کرتے ہوں گے۔ اور کچھ نہیں تو سعد رفیق ہی سے اصلاح لے لی ہوتی۔
بڑے سینیر قسم کے کالم نگار بھی لاپروائی (یا بے پروائی) کو لاپرواہی لکھ رہے ہوں تو ہم نوجوان صحافیوں کو کیا سمجھائیں جو اپنی غلطیوں کے جواز میں سینیر صحافیوں کی تحریر پیش کردیتے ہیں۔
7 اکتوبر کے اخبار میں ایک پروفیسر صاحب کا مضمون پڑھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’تربیتِ آقا میں ڈھلنے کے لیے مغرب کو ’’پسارتی‘‘ ہیں۔ وہ نئی نسل پر طنز کررہے تھے جو مغرب کا رخ کررہی ہے۔ لیکن ’’پسارتی‘‘ کا یہ استعمال پروفیسر صاحب ہی کا خاصہ ہے۔ پسارتی کا مطلب ہرگز بھی وہ نہیں جس معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔ شاید انہوں نے ’’پاؤں پسارنا‘‘ سنا ہو۔ پسارنے کا مطلب پھیلانا‘ کھولنا‘ پھاڑنا، (پاؤں کا) لمبا کرنا وغیرہ ہے۔ ان میں سے کوئی بھی ’’مغرب کو پسارتی‘‘ کا مفہوم ادا نہیں کرتا۔ ممکن ہے وہ ’’سدھارتی‘‘ لکھنا چاہتے ہوں۔ پسا ہوا کا ایک مطلب مصیبت کا مارا ہوا ہے۔ ایک مصرع ہے:
قدموں سے لگا پسا ہوا وہ
جماعت اسلامی کی ایک خبر میں دیکھا ’’عوام جماعت اسلامی پر اعتماد کرتی ہے‘‘۔ عوام کو مونث بنانے کی یہ خرابی یہاں تک سرایت کرگئی ہے تو طوطی کو خاموش ہی ہوجانا چاہیے۔
ایک اور تماشا عموماً اخبارات میں نظر آرہا ہے اور برقی ذرائع ابلاغ بھی اس سے محروم نہیں۔ وہ ہے ’’سندھ کی صوبائی حکومت‘ پنجاب کی صوبائی حکومت‘‘۔ ارے بھائی! کیا کسی صوبے کی مرکزی یا وفاقی حکومت بھی ہوتی ہے؟ صرف سندھ کی حکومت یا پنجاب وغیرہ کی حکومت لکھنے اور کہنے سے کیا بات واضح نہیں ہوجاتی! صوبہ سندھ کا وزیراعلیٰ کہنے سے شاید شان بڑھ جاتی ہے۔
ایک طرف تو ’’اتائی‘‘ میں ’ع‘ اور ’ط‘ شامل کرکے اسے عطائی بنالیا گیا‘ دوسری طرف ’’وتیرہ‘‘ وطیرہ ہوگیا، اور مزے کی بات یہ ہے کہ ’’وتیرہ‘‘ عربی ہی کا لفظ ہے اور اس میں ’ط‘ نہیں ہے۔ مطلب ہے عادت‘ دستور‘ شیوہ‘ روش‘ طریقہ وغیرہ۔ ہم نے ایک عربی لفظ ہی کو ’’معرب‘‘ کرلیا ہے۔ ’ط‘ سے وطیرہ لکھنے سے غالباً عربی دانی کا اظہار ہوتا ہو۔
جسارت کی ایک خبر میں ’’کالی سیاہی‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ خورشید قصوری اپنی کتاب کی رونمائی کرانے کے لیے ممبئی گئے تھے جہاں اُن کے میزبان کے منہ پر سیاہی پوت دی گئی اور خبر میں کئی بار یہ کالی سیاہی سامنے آئی۔ شاید پروف ریڈر نے بھی توجہ نہیں دی کہ سفید یا نیلی‘ پیلی سیاہی کون سی ہوتی ہے۔ خبر جاری کرنے والوں کو صرف سیاہی کہنے یا لکھنے میں مزا نہیں آیا۔ سیاہی تو سیاہ یعنی کالی ہی ہوتی ہے۔ کبھی سیاہی کے لیے روشنائی کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔ تب کالی یا نیلی روشنائی کہا جاتا تھا۔
8اکتوبر کے ایک اخبار کی آرمی چیف کے بیان کی جلی سرخی تھی ’’پیشہ وارانہ معیار ضروری ہے‘‘۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب دیوانہ وار‘ مردانہ وار، امیدوار‘ قصوروار‘ سزاوار وغیرہ وغیرہ ہوسکتا ہے‘تو پیشہ وار اور پیشہ وارانہ لکھنے میں کیا حرج ہے۔ پھر ’’دیدہ وار‘‘ بھی صحیح ہوگا۔
’ور‘ اور ’وار‘ دونوں فارسی کے الفاظ ہیں، لیکن ان کا استعمال الگ الگ ہے۔ فارسی صفت ’ور‘ دراصل آور کا مخفف ہے۔ اور مطلب ہے: والا‘ صاحب‘ خداوند‘ رکھنے والا‘ قبضے میں رکھنے والا۔ یہ حرفِ ربط بھی کہلاتا ہے۔ چنانچہ جب ہم پیشہ ور کہتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے پیشہ رکھنے والا‘ صاحبِ پیشہ وغیرہ۔ اور ’وار‘ فارسی لاحقہ ہے۔ کثیرالمطلب ہے۔ بوجھ‘ دقت‘ باری‘ صاحب‘ رکھنے والا‘ پانے والا‘ بھرا ہوا جیسے امیدوار‘ قصوروار‘ لائق‘ مناسب‘ موزوں جیسے سزاوار‘ مثل‘ مانند‘ بموجب‘ موافق۔ کلمہ نسبت جیسے بزرگوار۔
ور اور وار میں ’’رکھنے والا‘‘ مشترک ہے۔ اردو لغت میں پیشہ وار/ ور/ والا تینوں ہیں، لیکن ’’پیشہ وار‘‘ عموماً نہیں لکھا اور کہا جاتا۔ اب اگر پیشہ وارانہ صحیح ہے تو پیشہ وار بھی ہونا چاہیے۔ بہرحال پیشہ کے ساتھ’ور‘ ہی درست ہے۔
اطہر علی ہاشمی
No comments:
Post a Comment