بڑے حضرت جی مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ بانی و مؤسس دعوت و تبلیغ کی عمومی تحریک کو چودہویں صدی کا عظیم ترین کارنامہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یقیناًدعوت و تبلیغ کی عمومی محنت نے لاکھوں نہیں لاتعداد و ان گنت نفوس کی زندگیوں کو تبدیل کرکے اوامرِ خداوندی اور اطاعتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر گامزن کیا۔ دعوت و تبلیغ کی یہ عظیم محنت نقوش پر نہیں ، نفوس پر کی گئی اور محنت قلم سے کہیں زیادہ قدم سے کی گئی ہے ۔آج پوری دنیامیں یہ محنت قدم بقدم چل رہی ہے ۔ اور دین متین کو سینہ بسینہ منتقل کرنے میں زمانۂ خیر القرون کی ایک مثال قائم کی ہے ۔ انہی محنتوں کے نتیجہ میں کروڑوں کی زندگیاں تبدیل ہوچکی ہیں ۔ کیسے کیسے شرابی ، کبابی ، ڈاکو ، چور جس کو دنیا ناکارہ سمجھتی تھی الحمدللہ اس محنت کے نتیجہ میں آج وہ قابل ترین افراد کی صف میں زندگیاں بسر کر رہے ہیں ۔آج دنیا کو مشاہدے والے اسلام کی ضرورت ہے، کتابوں میں جو دین لکھا ہوا ہے اس کو مسلمانوں کی عملی زندگی میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ عام مسلمانوں کے دین پر قائم رہنے اور کتاب و سنت کے مطابق زندگیوں کو ڈھالنے کی یہ ایک کامیاب و مبارک اور عالمگیر تحریک ہے ۔ دعوتِ دین جو اس امت کا طرۂ امتیاز ہے اس سے صرفِ نظر کرکے آج مسلمان نہ صرف ذہنی الجھنوں کا شکار ہے بلکہ قدم قدم پر مصیبتیں جھیل رہے ہیں اور آپسی اختلافات کا شکار ہورہے ہیں۔ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق پوری امت ایک کشتی کی سوار ہے ، کشتی میں ایک کی بھی کوتاہی جس طرح پورے مسافرین کو لے ڈوبتی ہے ا سی طرح کسی ایک مسلمان کی غلطی سارے ہی مسلمانوں کے لئے عذاب کا باعث بن سکتی ہے بشرطیکہ اس کو اس غلطی سے روکا نہ جائے۔ اسی لئے کلامِ پاک میں بارہا امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ترغیب دلائی گئی۔ بحمدللہ دعوت و تبلیغ کے اس میدان میں نہ کوئی اخباری اطلاعات اور نہ ہی تشہیری مہم ، بس اخلاص و للہیت کا نتیجہ ہے کہ ان گنت نفوس اس محنت سے جڑے ہوئے ہیں ایک ایک اجتماع میں لاکھوں کی تعداد ، بآسانی جمع ہوجاتی ہیں اور عالمی فکریں کرتے ہوئے پوری دنیا میں پھیل جاتے ہیں ۔اور اس طرح کی فکریں ہی امت کی ڈوبتی نیا کو کنارہ لگا سکتی ہیں ۔ آج ملک میں مؤثر نظام کو قائم کرنے کے لئے دعوت و تبلیغ کی عظیم ترین محنت سے جڑنے کی سخت ضرورت ہے ۔ خلقِ خدا کی فکریں لئے نکلنے والی جماعتوں کی کارگزاریاں اور مختلف علاقوں کی صورتحال جب سامنے آتی ہیں تب اس کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے اور اسکی ضرورت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اسی ضرورت کے پیشِ نظر آٹھ سال بعد شہر حیدرآباد کے علاقہ پہاڑی شریف میں 21,22,23 نومبر کو صوبائی تبلیغی اجتماع ہونے جارہا ہے ۔ اس اجتماع میں لاکھوں کی تعداد میں افراد کی آمد متوقع ہے ، اتنے بڑے مجمع میں اگر ہر کوئی ایک نیکی کا ارادہ اور ایک گناہ سے توبہ کرلے تو کتنے شرور و فتن دور ہوں گے اور کتنے خیر کے وجود میں آنے کا ذریعہ بنے گا ؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ موقعہ کو غنیمت جانتے ہوئے اس سے بھر پور استفادہ کیا جائے اور سعادت مندی سمجھتے ہوئے اس اجتماع میں دور دراز سے شرکت کرنے والے مہمانوں کا پرتپاک استقبال کیا جائے اور ان کی ہر ممکن خدمت کی جائے تاکہ اس اجتماع سے جو خیر وجود میں آنے والے ہیں اس کے ثواب میں ہم بھی برابر کے شریک ہوں ۔ زمانہ کی منظر کشی کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کیا ہی خوب کہا تھا
کتابِ ملت بیضاء کی پھر شیرازہ بندی ہے
کہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صدہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
نوا پیرا ہو کہ ائے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تنِ نازک میں ہوں شاہیں کا جگر پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ابن ساجد
No comments:
Post a Comment