اگر بالفرض دارالعلوم دیوبند نہ ہوتا تو ؟
اٹهاره سو ستاون 1857ء کی تحریک آزادی میں بظاہر ناکام ہونے والی شکستہ حال مسلمان
قوم کی دینی ومذهبی وقومی اقدار و روایات کا تحفظ نہ ہوتا.
تعلیمات ولی اللهی کی وسیع وعریض پیمانے اور منظم انداز سے نشرو اشاعت کا اہتمام نہ ہوتا، اور تحریک سید احمد شہید کو برگ وبار میسر نہ آتے
دیانند سرسوتی، سوامی شردهانند، پادری فنڈر، اور اس قبیل کے دیگر دشمنان اسلام وملحد وزندیق لوگوں کی چلائی ہوئی شیطانی تحریکوں کی سرکوبی وبیخ کنی نہ ہوتی.
پاک وہند میں خصوصا اور دیگر براعظموں میں عموما مدارس ومساجد کے ذریعے قال الله وقال الرسول کی صدائیں نہ گونجتیں، کیونکہ برصغیر کے چپہ چپہ پر مدارس ومساجد ومکاتب ومعاهد کا جال بچهائے جانا، فرزندان دارالعلوم ہی کی کوششوں کا ثمر ہے، اور ان ہی کی کاوشوں کا رہین منت ہے، اور یہ فرزندان دارالعلوم کا ایک عظیم و بےمثال بنیادی کارنامہ ہے.
دین و دنیا کو الگ کرنے اور اسلام کی ہمہ گیریت اور آفاقیت کو مجروح کرنے کی رسوائے زمانہ فرنگی سازش کامیاب ہوجاتی، اور دین اسلام جو ایک ہمہ گیر وعالمگیر دین ہے، اور یہ ہمہ گیریت اسلام کا ایک خاص امتیازی وصف ہے، جس میں نہ علاقہ کا حصار، اور نہ سلطنت کی تحدید، نہ قومیت کی وباء، نہ نسل پرستی کا مرض، نہ اس کا کوئی سرحد، اور نہ کوئی مخصوص گھیرابندی ہے، محض ایک "پرسنل عقیده" ہوکر ره جاتا
مسلمانوں کے مقدس خون سے تحریک آزادی کی آبیاری نہ ہوتی، اور سامراج کے ظالمانہ اقتدار و غاصبانہ نظام کی رسی مزید دراز وطویل ہوجاتی، جس کے بعد وه مسلمانوں کو رنگ ونسل کے اعتبار سے مسلمان اور فکر و نظر وعقائد کے اعتبار سے عیسائی اور گمراه بنانے میں مکمل کامیاب ہو جاتا، حتی کہ مسلم قومیت کی بنیاد پر مسلمانوں کی الگ مملکت وجود میں نہ آتی
اتحاد عالم اسلامی کی منظم تحریک، تحریک ریشمی رومال کے نام سے وجود میں نہ آتی، اور اس تحریک قیادت وراہنمائی کا شرف بهی گلستان دیوبند کے پہلے طالب علم مولانا محمود حسن دیوبندی نوراللہ مرقدہ کو حاصل ہوا، جن کو دنیا شیخ الہند کے نام سے یاد کرتی ہے، اسی تحریک ریشمی رومال کی پاداش میں اس بطل جلیل وانسان عظیم کو اور اس کے جانثار اصحاب کو وطن سے بہت دور جزیره مالٹا میں طویل مدت تک پس دیوار زنداں ہونا پڑا، اور بے انتہاء مصائب وآلام ومشکلات وشدائد ومحن سے شیخ الہند اور آپ کے رفقاء کو دوچار ہونا پڑا، اور اسی تحریک کی بدولت ہزاروں افراد کو وحشتناک موت کی سزا دی گئی
اسلام کے خلاف مستشرقین کے پهیلائے ہوئے بے شمار شکوک و شبہات، اور دیگر اعداء اسلام کے ناپاک عزائم اور اسلام اور پیغمبر اسلام اور قرآن وحدیث پر کیے گئے جارحانہ حملوں کا کافی وشافی اور دندان شکن جوابات نہ دیے جاتے
تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، رجال، عقائد و کلام، اور علوم عربیت وغیره علوم وفنون میں لاتعداد علمی وتحقیقی کتابیں وجود میں نہ آتیں، اور اسلامی علوم میں لاکھوں کتابوں کا وقیع ذخیرہ معرض وجود میں نہ آتا، اور خصوصا اردو زبان میں بے پناه علمی، ادبی، تحقیقی، تاریخی، اصلاحی، تبلیغی، اوراسلامی مواد ولٹریچر منتقل نہ ہوتا
عظمت صحابہ اور ناموس صحابہ رضی ﷲ عنهم اور عزت واحترام اسلاف کا تحفظ نہ ہوتا، اور دشمنان صحابہ وخلفاء راشدین کے مکروہ پراپیگنڈے کا بهرپور رد وتعاقب نہ ہوتا، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر سب وشتم کرنے والے، اور حب اہل بیت کی آڑ میں ان پر زبان طعن دراز کرنے والے ملعونین کے اعتراضات وہفوات کے مسکت علمی جوابات نہ دیے جاتے
سارقین ختم نبوت ومنکرین ختم نبوت کا علمی وعملی تعاقب نہ ہوتا، اور عقیدہ ختم نبوت کا بهرپور تحفظ نہ ہوتا، اور امت مسلمہ کے خلاف منکرین ختم نبوت یعنی قادیانیوں کی مسلسل سازشوں اور اسلام کی توہین اور تضحیک کی روش اور غدارانہ و باغیانہ طرز عمل وکردار کا بهرپور مقابلہ نہ ہوتا
فتنہ انکار حدیث کی مکمل بیخ کنی نہ ہوتی، اور منکرین حدیث کے پهیلائے ہوئے شیطانی وساوس کا منظم رد وتعاقب نہ ہوتا، اور منکرین حدیث کے تمام بنیادی شبہات کے دو ٹوک جوابات پر مشتمل علمی و تحقیقی کتابیں وجود میں نہ آتیں
بدعات وشرکیات کے اندهیروں میں توحید وسنت کی مشعلیں روشن نہ ہوتیں، اور الحاد ولادینیت وزندقہ اور تجدُد ونیچریت کا سیلِ رواں خشک نہ ہوتا
علم وعمل کی اس فقید المثال وعدیم النظیر درس گاه سے بے شمار علماء، فضلاء، مفسرین، محدثین، فقهاء، اصوليين، قراء، حفاظ، ادباء، شعراء، فصحاء، بلغاء، حكماء، متکلمین، مناظرین، مفتیان، مقرِرین، خطباء، مدرسین، مصنفین، مؤلفین، محققین، سیاسین، عارفین، اولیاء، مجاہدین، تیار نہ ہوتے
حاصل کلام یہ ہے کہ یہ دارالعلوم ہی فیضان ہے کہ اس گئے گذرے دور میں برصغیر پاک وہند میں خصوصا اور پوری دنیا میں عموما گوشے گوشے میں اللہ تعالی کے دین کے چراغ روشن ہوئے.
No comments:
Post a Comment