ایس اے ساگر
مریض کے تیمار دار اور رشتہ دار مریض کی نگہداشت میں پریشان رہتے ہیں اس لئے خیر خواہوں کو ان سے بھی حوصلہ افزا کلمات کے ذریعہ ہمدردی کا اظہار کرنا چاہئے۔ ان سے مریض کا حال دریافت کرے اور تشفی بخش کلمات کہے۔
مریض کے گھر جب عیادت کیلئے جائیں تو اِدھر اُدھر تاکنے سے پرہیز کریں، ساتھ ہی اس احتیاط سے گھر میں داخل ہو اور اس طرح بیٹھے کہ گھر کی خواتین پر نگاہ نہ پڑے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک بار کسی مریض کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے، ان کے ہمراہ کچھ اور بھی لوگ تھے گھر میں ایک خاتون بھی موجود تھیں ۔
حضرت کے ساتھیوں میں سے ایک صاحب اس خاتون کو گھور نے لگے، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو جب محسوس ہوا تو فرمایا کہ اگر تم اپنی آنکھیں پھوڑ لیتے تو تمہارے حق میں بہتر ہوتا۔ کسی کو تصدیق کرنی ہو تو وہ آدابِ زندگی صفحہ: ۲۲۹سے رجوع کرے.
ابن ماجہ کے مطابق حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا کہ جب تم بیمار کے پاس جاؤ تو اس سے کہو کہ وہ تمہارے لئے دعا کرے کیوں کہ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کی طرح ہے ...جو شخص اپنی بیماری اور مصیبت پر صبر کرتا ہے اس کے گناہ بیماری کے سبب دور ہو جاتے ہیں اور یہ اس کی معنوی طہارت کا ذریعہ ہوتا ہے.
اسی طرح بیمار عام طور پر ہمیشہ اللہ کی یاد میں مصروف رہتا ہے اور اللہ سے التجا کرتا ہے ان دونوں وجوہ سے اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔ جس طرح فرشتوں کی دعاء گناہوں سے پاک ہونے کی وجہ سے کبھی رد نہیں کی جاتی.
اس لئے عیادت کرنے والوں کو چاہئے کہ اپنے حق میں ان سے دعا کی درخواست کریں ۔ بہرحال عیادت ایک بہت اعلی عمل ہے۔ مریض دوست ہو یا دشمن امیر ہو یا غریب عیادت اور سنت سمجھ کر مزاج پرسی ضرور کرنی چاہئے.
ہمارے معاشرہ میں عیادت ایک رسم بن گئی ہے لوگ اس خوف سے عیادت کرتے ہیں کہ میں نے اگر کچھ نہیں پوچھا تو وہ یا اس کے گھر والے کیا سمجھیں گے، اس سے ثواب جاتا رہتا ہے اور عمل کے باوجود اتباعِ سنت کا اجر حاصل نہیں ہوتا.
کوئی بھی کام صرف اللہ کی رضا کے لیے کرنا چاہیے لوگ دوست ہوں یا دشمن ایک خدا اگر راضی ہو گیا تو کائنات کی ناراضگی کا کوئی خوف نہیں اسی طرح آج عیادت کا دائرہ سمٹ گیا ہے کوئی مالدار یا عہدہ دار یا خاص رشتہ دار ہو تو اس کی عیادت کی جاتی ہے.
اگر کوئی غریب ہے تو پڑوس میں ہونے کے باوجود ایک مرتبہ بھی مزاج پرسی اور اظہارِ ہمدردی کا موقع نہیں ملتا، چوں کہ اس سے ہمارا کوئی دنیوی مفاد وابستہ نہیں اور نہ آئندہ کوئی توقع ہے جبکہ یہ رجحان دینی اعتبار سے انتہائی خطرناک ہے. عیادت کیلئے رشتہ داری اور مالداری کو توسط نہیں بنانا چاہئے کوئی بھی مریض ہو خواہ وہ رشتہ داروں میں سے نہ ہو.
محض عبادت اور سنت سمجھ کر اس کی عیادت کرنی چاہئے ، شریعت نے غیرمسلم کی بھی عیادت کا حکم دیا ہے اس لئے کہ انسانیت کی بنیاد پر وہ بھی ہماری ہمدردی کا مستحق ہے ممکن ہے کہ ہمارے اس عمل سے متاثر ہو کر ہدایت قبول کر لے روایت سے ثابت ہے کہ ایک یہودی لڑکے کی آپؐ نے عیادت کی اور اسے اسلام کی دعوت دی تو وہ ایمان لے آیا.
ایک رواج ہمارے یہاں یہ بھی ہے کہ کسی مریض کی عیادت کیلئے جاتے ہوئے کوئی ہدیہ ...مثال کے طور پر پھل فروٹ مٹھائی یا اور کوئی چیز لے جانا ضروری سمجھتے ہیں بلا شبہ اس میں محبت کا اظہار ہے مگر اسے لازمی عنصر سمجھ لینے سے بسا اوقات عیادت جیسی عظیم عبادت سے محروم ہو جانا پڑتا ہے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہاتھ میں پیسہ نہیں، اب عیادت کی طرف دل کے میلان کے باوجود مزاج پرسی نہیں کرسکتے کہ خالی ہاتھ جانا معاشرہ میں برا سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے اس میں شدت اختیار نہیں کرنی چاہئے... بلاشبہ شریعت کے بتائے ہوئے آداب ہی مفید اور نافع ہیں... ایک مسلمان کو چاہئے کہ ان ہی اصول و آداب کی پیروی کرے جو اسلام نے بتائے ہیں کہ اس میں دینی و دنیوی کامیابی ہے۔
No comments:
Post a Comment