دہلی میں قرول باغ میں دین دیال انسٹیٹیوٹ ہے، یہ آر ایس ایس کا قائم کردہ ادارہ ہے ، اس ادارہ کا مقصد اسلام کا تنقیدی مطالعہ ہے، اسلامی موضوعات پر قدیم و جدید کتابیں اس ادارہ کی لائبریری میں مل جاتی ہیں، یہاں ریسرچ اسکالر اسلامی موضوعات پر ریسرچ کرتے ہیں ، اسی طرح سے عیسائیوں کا مقدس مقام اٹلی میں ویٹیکن سٹی ہے، یہاں عیسائیت کی تعلیم و تبلیغ کی قدیم درسگاہ قائم ہے، یہاں عیسائیت کے مبلغ تیار کئے جاتے ہیں، اس ادارہ میں بھی اسلامیات کا شعبہ موجود ہے، تاکہ اسلام پر نظریاتی تنقید کے لئے مطالعہ کیا جاسکے، اس ادارہ میں بہت سی دوسری زبانوں کے ساتھ اردو زبان کی بھی تعلیم کا انتظام ہے، عیسائیت کی تعلیم کے لئے بہت سے ادارے قائم ہیں ، لیکن ان میں ایک بہت اہم کیتھولک یونیورسٹی ہے اور یہاں بھی اسلام کے مطالعہ کا شعبہ موجود ہے، دوسرے مذاہب کے لوگوں نے اسلام پر علمی اور فکری تنقید کے لئے مراکز قائم کر رکھے ہیں ،لیکن مسلمانوں کے مذہبی اداروں اور مدرسوں میں اس کا تصور نہیں ہے کہ خالص دعوتی نقطۂ نظر سے مذاہب کے مطالعہ کا شعبہ قائم کیا جائے اور ان مذاہب پر علمی زبان میں اور ان مذاہب کے ماننے والوں کی زبان میں تنقید کی جاسکے، اس سے شعور و ادراک کے اس فرق کا اندازہ ہوسکتا ہے جو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں اور مسلمانوں کے درمیان ہے، وہاں اسلام کے مقابلہ کی تیاری اور ہمارے یہاں بے شعوری اور بے خبری ہے، بقول شاعر
جو بات میکدہ میں ہے اِک اِک زبان پر
افسوس مدرسہ میں ہے اب تک نہاں ہنوز
ہندوستان میں جب مغلیہ سلطنت کا آفتاب غروب ہوگیا تھا اور انگریزی سلطنت کا آفتاب طلوع ہورہا تھاتو اس وقت عیسائیت کی تبلیغ کی مہم زور و شور سے شروع ہوگئی تھی، مغربی تہذیب اور مذہب کے پیشرفت سے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کی عمارت کھنڈر میں تبدیل ہونے والی تھی، اس وقت علماء نے گہرے شعور اور دور بینی کا ثبوت دیا تھا، اس وقت دینی مدارس سے ایسے لوگ اٹھے جنہوں نے عیسائیت کے خطرے کا مقابلہ کیا، اس وقت مولانا رحمت اللہ کیرانوی، ڈاکٹر وزیر خاں، مولانا سید آلِ حسن، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا محمد علی مونگیری اور مولانا سید عبد الباری اور کئی دوسرے علماء عیسائیت کے طوفان کو روکنے کے لئے کھڑے ہوگئے ۔ یہ واضح رہے کہ گرچہ عیسائیوں کا اقتدار مستحکم ہورہا تھا، لیکن یہ طبقہ ایک چھوٹی سی اقلیت پر مشتمل تھا۔ ہندوستان میں اب جب کہ تاریخ کا نیا ورق الٹا گیا ہے وہ طبقہ حکمراں بن گیا ہے جس کے پاس صرف اقتدار کی طاقت نہیں ہے بلکہ وہ غالب اکثریت میں بھی ہے اور وہ ہندوستان کو مسلمانوں کے لئے اسپین بنانا چاہتا ہے ، اس کے مخصوص زعفرانی نظریات ہیں اور اس کا ارادہ بتدریج ملک کو ہندو اسٹیٹ سے بدلنے کا ہے، لیکن اب ہمارے مدارس کے علماء کو یہ خیال نہیں آرہا ہے کہ جس طرح ۱۸۵۷ء کے بعد عیسائیت کے طوفان کا مقابلہ کیا گیا تھا اسی طرز اور اسی انداز سے نئے طوفان کا مقابلہ کیا جانا چاہئے ، مدارس سے پڑھ کر نئے علماء کی جو کھیپ نکل رہی ہے وہ شعور و ادراک سے محروم ہے اب شدید ضرورت ایسے علماء کی ہے جو ہندو مذہب کا تحقیقی اور تنقیدی مطالعہ کرچکے ہوں اور جو ہندو پنڈتوں سے ڈائلاگ بھی کرسکتے ہوں اور جو ہندی اور سنسکرت سے بھی واقف ہوں۔
ہر سال کئی ہزار طلبہ مدرسوں سے فارغ ہوکر نکلتے ہیں، ان میں کچھ طلبہ باصلاحیت بھی ہوتے ہیں ، یہی باصلاحیت افراد کا گروہ ہے جو تمام دینی جماعتو ں کو قیادت فراہم کرتا ہے، تبلیغی جماعت، جماعتِ اسلامی، جمعیۃ العلماء، جماعتِ اہلِ حدیث، امارتِ شرعیہ اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قائدین اور دینی مدارس کے مدرسین اور دارالافتاء کے مفتی ان ہی مدارس سے ملتے ہیں، اسلامی علوم سے متعلق تصنیف وتالیف کا کام بھی یہی انجام دیتے ہیں ، لیکن مدارس سے فارغ ہونے والوں کی غالب ترین اکثریت بے شعوری کے اندھیروں کی اسیر ہوتی ہے، وہ عصری تقاضوں سے ناواقف ہوتی ہے، اس کے پاس غیر مسلموں سے گفتگو اور ان کے درمیان دعوت کی صلاحیت کا فقدان ہوتا ہے، ان کی اردو تحریروں میں نہ شگفتگی ہوتی ہے نہ سلاست ،مسجد میں امامت و خطابت ان کے آرزو کا سدرۃ المنتہی بن جاتی ہے ، مدارس دینیہ کے ذمہ داروں کو اندازہ نہیں ہے کہ ہندوتو کا سیلاب خطرہ کے نشان کو پار کرچکا ہے اور ملک کے اندر صولتِ بزم کافری اور رقصِ بتانِ آزری کا منظر اسٹیج کیا جانے والا ہے ۔
اس خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمان علماء کو اس طرح سامنے آنا ہوگا جس طرح پہلے وہ عیسائیت کے خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لئے سامنے آئے تھے ، اس وقت شدیدضرورت اس بات کی ہے کہ طلبہ کو باشعور اور صاحبِ ادراک بنایا جائے ، تاکہ ان کو حالات کی سنگینی کا ادراک ہوسکے۔ ایک معروف دارالعلوم میں(جس کے ذمہ دار عصری تعلیم یافتہ اور فکر ارجمند کے حامل ہیں) طلبہ کے ذہنی افق کو وسیع کرنے اور بہتر صلاحیت پیدا کرنے کے لئے خارجی مطالعہ کا ایک کورس مرتب کیاگیا تھا ، یہ ایک نویدِ صبح تھی اور یہ ایک حسنِ آغاز تھا جس کی پیروی دوسرے مدارس کو بھی کرنی چاہئے تھی، اس کورس میں مستند علماء کی منتخب کتابیں داخل نصاب کی گئی تھیں، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا تقی عثمانی، مولانا مناظر احسن گیلانی، علامہ شبلی نعمانی ، مولاناآزاد،مولانا ابو الحسن علی ندوی، مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبد الماجد دریابادی جیسے چوٹی کے علماء کی کتابیں طلبہ کے خارجی مطالعہ کے لئے رکھی گئی تھیں ،اس کورس میں مولانا ابو الأعلی مودودی کی بھی دو تین کتابیں تھیں اور یہ وہ کتابیں تھیں جن سے طبقۂ علماء کو اختلاف بھی نہیں اور خود مولانا علی میاں طلبہ کو ان کتابوں کے مطالعہ کی تلقین کرتے تھے ، لیکن شہر کے بقیۃ السلف قسم کے روایتی علماء جو مودودی صاحب کا نام بھی سننا گوارہ نہیں کرتے چیں بہ جبیں ہوگئے ، ان کی پیشانیوں پر بَل پڑگیا، حالاں کہ کورس میں ’’عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح‘‘ کے نام کی ایک کتاب بھی تھی جو مولانا مودودی کی فکر کی تنقید میں لکھی گئی ہے ، لیکن ہمارے بے خبر علماء کو کتاب کے نام سے اس کا اندازہ بھی نہیں ہوسکا ہوگا کہ یہ کتاب مولانا مودودی کے نظریات پر تنقید میں علمی اور سلجھے ہوئے انداز میں لکھی گئی ہے ۔ یہ پروپگینڈہ کیا گیا کہ خارجی مطالعہ کے کورس کے مرتب در اصل جماعتِ اسلامی کے خاص آدمی ہیں ، حالاں کہ خوکتابچہ کے مرتب کی بعض تحریریں بھی جماعتِ اسلامی پر تنقید کے سلسلہ میں موجود ہیں۔کتابچہ اوراس کے مرتب کے خلاف شور وغوغا ہوا ،اسی سے ہمارے مدرسوں کے مزاج کا اندازہوسکتا ہے۔علمی اختلاف توکسی بھی شخصیت اور اس کی تحریروں سے کیا جاسکتا ہے، لیکن جب اختلاف مخالفت میں بدل جائے اور انسان خصومت پر آمادہ ہوجائے تو قرآن کی زبان میں یہ وہ ’’ غِلّ ‘‘ ہے جس سے بچنے کی قرآن میں دعا سکھا ئی گئی ہے ’’ ربنا لا تجعل فی قلوبنا غلّا للذین آمنوا ‘‘۔ غِل ایک نامحمود صفت ہے جو عوام میں کم اور علماء کے طبقہ میں زیادہ پائی جاتی ہے ،اور عوام میں بھی یہ مذموم صفت علماء کے ذریعہ آئی ہے، اسی لئے علامہ اقبال نے کہا تھا ’’دین ملّا فی سبیل اللہ فساد‘‘۔جماعتوں اور شخصیات کے سلسلہ میں مخالفانہ مہم پر تبصرہ کرتے ہوئے ممتاز عالم دین مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ اس کی اصل وجہ نہ پڑھنے اور نہ جاننے کا مرض ہے ، یہ حضرات سرے سے پڑھتے ہی نہیں ، اس لئے ان حضرات کے خیالات اور تبصرے ہمیشہ غیر متوازن ہوتے ہیں۔
طلبہ کے لئے خارجی مطالعہ کا کورس کیوں ضروری ہے ؟ اس کو سمجھنے کے لئے ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ایک استاد دینی مدارس کے فضلاء کی ایک جماعت کو جس نے تخصص فی الأدب میں داخلہ لیا تھا ، ایک کتاب پڑھا رہے تھے ، کتاب میں مستشرقین کا لفظ آیا، استاد نے پوچھا مستشرق کسے کہتے ہیں؟ ایک طالب علم کی طرف سے جواب ملا : ہو نہار اور ذہین طلباء کو مستشرقین کہتے ہیں، استاد نے سمجھایا کہ ناواقفیت کی اصل وجہ کتابوں سے ناواقف ہونا اور ان کا مطالعہ نہ کرنا ہے ، دار المصنفین سے مستشرقین پر کئی جلدوں میں کتاب شائع ہوچکی ہے ، اگر کتب خانوں میں جانے اور کتابوں پر نظر ڈالنے کی عادت ہوتی تو یہ ناواقفیت جوایک عالم کے لئے بہت تکلیف دہ اور شرمناک ہے ختم ہوجاتی۔ پھر استاد نے طالب علم سے پوچھا کہ دار المصنفین کہاں ہے؟ تو جواب ملا کہ دیوبند میں ہے۔ استاد کے لئے طلبہ کی لاعلمی کا یہ معیار حیرت انگیز تھا، استاد نے اس طالب علم کے پاس بیٹھے ہوئے دوسرے طالب علم سے جو ایک مدرسہ سے دورۂ حدیث مکمل کرچکے تھے اور حیدرآباد میں تعلیم حاصل کررہے تھے یہ سوال کیا کہ دائرۃ المعارف کہاں ہے ؟ جواب ملا کہ مصر میں ہے ۔ استاد پر سکتہ طاری ہوگیا، اس نے ایک اور طالب علم سے جو ایک دوسرے مدرسہ سے فاضل کی سند رکھتا تھا یہ سوال کیا کہ جامع ازہر کہاں ہے ؟ اس پر جواب آیا کہ دہلی میں ہے ۔
دینی مدارس کے عام فضلاء کی معلومات اسی طرح کی بے حد سطحی بلکہ تازیانہ عبرت ہوتی ہے ، کیوں کہ طالب علمی کے زمانہ میں انہوں نے خارجی مطالعہ کی عادت نہیں ڈالی اور نہ اس جانب ان کی رہنمائی کی گئی۔ راقم السطور کی دانست میں دارالعلوم نے ایک خوشگواراور امید افزا طرح ڈالی ہے اور خارجی مطالعہ کا ایک کورس تیار کیا ہے ، جسے ہُدیٰ پبلیشرز حیدرآباد نے خوبصورت انداز میں شائع کیاہے ۔ندوۃ العلماء لکھنوء میں بھی طلبہ کے خارجی مطالعہ کے لئے ایک کورس ہے ، لیکن وہ اس طرح باضابطہ اور خوشنما انداز میں شائع نہیں ہوا ہے ، جیساکہ دارالعلوم نے شائع کیا ہے ،تمام دینی مدارس کو یہ کتابچہ حاصل کرکے اس سے استفادہ کرنا چاہئے ہر مدرسہ کو کتابوں میں ترمیم کا حق ہے۔
دینی مدارس میں جو ایک دوسری برائی ہے وہ مسلکی تصلّب اور تشدّد ہے ۔ شیخ الہندمولانا محمود الحسن نے کہا تھا کہ ملت کی بیماریوں کا علاج ایک تو اتحاد بین المسلمین ہے اور دوسرا ان کے اندر قرآن فہمی کا ذوق پیدا کرنا ہے ، لیکن مدارس سے جو علماء پڑھ کر نکلتے ہیں وہ اتحاد کی کوششوں کے بجائے مسلکی اختلافات اورنزاع باہمی کے شکار ہوجاتے ہیں اور ان کے اندر قرآن فہمی کا ذوق پیدا نہیں ہوتا، انہیں قرآن کے نظامِ سیاست و تمدن اور نظامِ مالیات و معاشیات کی کوئی خبر نہیں ہوتی، قرآن کے اسرارو عجائبات پر غور کرنے کے بجائے فروعی اختلافات اور فقہی جزئیات میں ان کی دلچسپی زیادہ ہوتی ہے ، مدارس کو اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے ، لیکن اس قلعہ میں شگاف مدارس کے علماء ڈا لتے ہیں۔ طالبِ علمی کے زمانے میں ان کی قلبِ ماہیت کردی جاتی ہے ، تنگ نظری اور بے بصری کا ان کو مریض بنا دیا جاتا ہے ۔ دنیا میں کہیں اگر کفر اور الحادغالب اور سربلند او رشعلہ زن ہو اور دین و شریعت خاک بسر اور خاکستر ہو اور کہیں اہل دین پر ظلم ڈھایا جارہا ہو تو ان کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی ہے ، ان کے دل میں کوئی اضطراب پیدا نہیں ہوتا ہے ، لیکن حیف کہ اپنے خاص مسلک سے ہٹ کر دوسرے مسلک کا وجود انہیں برداشت نہیں ہوتا ہے اور ان کی بیخ کنی کی فکر انہیں سب سے زیادہ لاحق ہوتی ہے ، ایک مدرسۂ فکر کے علماء کی زبان دوسرے مکتبۂ فکر کے لوگوں کو بدعتی کہنے سے نہیں تھکتی ہے اور مخالف مدرسۂ فکر کی زبان بدعتی کہنے والوں کو وہابی کہنے سے نہیں رکتی ہے ،یہ تنابز بالألقاب جو گنا ہ ہے مدرسی ماحول میں بہت عام ہے ۔ خیر القرون اور اس کے بعد کے زمانہ میں ایک چور کے ہاتھ کوتو کاٹا جاتا تھا ، لیکن معاشرہ میں اسے رسوا کرنے کے لئے چور کہہ کر پکارنے کی اجازت نہیں تھی، اس لئے ایک مثالی مسلم معاشرہ میں اس پر تو علمی بحث ہوگی کہ یہ کام اور یہ طریقہ سنت ہے یا بدعت ہے ، لیکن رسوا کرنے کی نیت سے دوسرے گروہ کو بدعتی یا وہابی کہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے ۔ تبلیغی جماعت اور جماعتِ اسلامی دونوں کے حلقوں اورماحول میں یہ الفاظ استعمال نہیں کئے جاتے ہیں ، لیکن مدارس کے ماحول میں اس طرح کے توہین آمیز اور فتنہ خیز الفاظ کا چلن بہت عام ہے ۔
ہمارے مدارس میں تدریس کا اندازہ اور طریقہ بھی فرسودہ ہے ، اساتذہ جدید وسائل تدریس سے واقف نہیں، تحقیق اور مطالعہ کا شوق نا پید ،لائبریری انتہائی غیر منظم ، اور مطالعہ کرنے والوں سے خالی، وہ کارڈ سسٹم جو آج ہر لائبریری میں نظر آتا ہے یہاں مفقود ، رجسٹر کا طریقہ جو غیر سائنٹیفک ہے موجود،کتابوں کی کمپیوٹرائزیشن سے لوگ ناواقف ، ایسا لگتا ہے کہ اہل مدرسہ سائنس اور ٹکنولوجی کی عہد میں داخل ہی نہیں ہوئے ، حالانکہ اب دنیا بھر کی اطلاعات اور سارے علوم انگلیوں کی خفیف سی جنبش سے کمپیوٹر کے اسکرین پر ہم پڑھ سکتے ہیں اور ڈاون لوڈ کرسکتے ہیں ، ہمارے چاروں طرف انفارمیشن کا جو دریا بہ رہا ہے اس کو علمی اور دعوتی مقصدکے لئے استعمال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور دینی مدارس کے طلبہ کو اس کی ٹرینینگ دی جانی چاہئے ، مشکل یہ ہے کہ مدارس کے ارباب انتظام میں ’’وِزن ‘‘ نہیں پایا جاتا ہے ، وسا ئل کی کمی کا عذر صحیح نہیں ، وسائل کی کمی ہے تو عالیشان عمارتیں کیسے وجود میں آجاتی ہیں ،
ہمارے مدارس کی ایک اور کمزوری یہ ہے کہ وہاں عصری علوم ابتدائی شکل میں بھی بالکل نہیں پڑھائے جاتے ہیں اور ان مضامین کو پڑھانے پر ان کو اصرار ہوتا ہے جنہیں زمانے کا رولر روند کر کے آگے بڑھ چکا ہوتاہے ۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، مولانا سجاد نعمانی اور مولانا فضل رحیم مجددی ، مولانا سلمان حسینی مولانا ولی رحمانی جیسے علماء بہت کم ہیں جو بہت باشعور ہیں جنہوں نے دینی علوم اور عصری علوم کو بہم کرنے کی کوشش کی ہے ، دار العلوم حیدرآبادکو بھی یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہاں انگریزی اور کمپیوٹر سائنس کو داخل نصاب کیا گیا ہے ، لیکن یہ روشن خیالی اور زمانہ کے تقاضوں کا احساس بہت کم مدارس میں پایا جاتا ہے ، عام طور پر دینی مدارس میں زمانہ اور وقت کی کوئی رعایت نہیں ہوتی ہے ، وہاں مذاہب کے مطالعہ کا کوئی شعبہ نہیں ملے گا ، نہ وہاں ورزشی کھیلوں اور فٹبال وغیرہ کا نظم ہوتاہے ، بلکہ اسے معیوب سمجھا جاتا ہے ، مشکل یہ ہے کہ علماء کا ذہن اس قدر بے لچک ہوگیا ہے کہ نصیحت کی کوئی بات ان کے دل میں جگہ نہیں بناتی ہے، دینی تعلیمی اداروں کا مقصد دین کا فہم پیدا کرنا اور مسائل کو حل کرنا ہے ، کاروان حیات کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ مسائل بھی بڑھتے جاتے ہیں ، دنیا میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے لئے اور دعوتی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے وقت کے علوم سے اور مختلف زبانوں سے واقف ہونا ضروری ہے ، صرف ماضی کے سرمایہ ہی پر اکتفا کرنا کافی نہیں ہے ۔
اب آخر میں ایک بات محرمِ رازِ درونِ میخوانہ کے قلم سے ۔ مدرسہ میں طلبہ کی روحانی اور اخلاقی تربیت کا نظام بھی ناقص ہوتا ہے اگر مدرسہ کے اساتذہ اور کارندے مسجد میں نماز باجماعت سے بے پرواہ ہوں گے توطلبہ بھی نماز کی عادی نہیں ہوں گے ۔ مدرسہ صرف کتاب خوانی کی جگہ نہیں ہے یہ مقام پرورش آہ ونالہ بھی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بہتر نمونے فراہم کئے جائیں ۔ طالب علم ہمیشہ کسی کو اپنا آیڈیل بناتا ہے اور اسی کے مطابق وہ اپنی شخصیت کو ڈھالتاہے اگرمدرسہ میں ایک تعداد شب بیداری آہ سحرگاہی اور فغان نیم شبی اور ذکر وعبادت کا ذوق رکہنے والوں کی موجود ہوگی تو طلبہ بھی ان خصوصیات کو اپنے اندر جذب کریں گے ۔ رذائل اخلاق اور ضعف یقین کا علاج دل بے تاب، چشم پرآب اور نفس گرم رکھنے والی شخصیت کے ذریعہ ہوتا ہے ہر مدرسہ میں چند اساتذہ اس سیرت اور کردار کے ضروری ہیں اور جب پورے مدرسہ میں ایک بھی صاحب اخلاص اور صاحب د ل شخصیت باقی نہیں رہتی ہے تورپھر حفاظت کا شامیانہ اٹھالیا جاتا ہے ، انتشار پیدا ہوتا ہے اور مدرسہ کے ٹکڑے ہوجاتے ہیں اور پھر لوگ ایک دوسرے پر الزام عائد کرتے ہیں ۔ ایک ولی اور ایک صاحب اخلاص رہبر کا وجود مدرسہ کیلئے ضروری ہے ۔ اس بات کو اقبال نے بڑے اچھوتے انداز میں کہا ہے
اگر کوئی شعیب آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہےٍ
اکثر یہ بات محسوس کی جاتی ہے کہ مسلمانوں کے تمام کام روایتی انداز میں انجام دئے جاتے ہیں اور وقت و زمانہ کی رعایت ان کے یہاں بہت کم پائی جاتی ہے ، ہر سال دینی تعلیم کے روایتی انداز کے مدرسوں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے، لیکن جدید علوم کے طلبہ کی ذہنی تربیت کا کوئی منصوبہ سامنے نہیں آتا ہے، حالاں کہ پچانوے فیصد سے زیادہ طلبہ جدید علوم حاصل کرنے کے لئے عصری تعلیم گاہوں میں داخلہ لیتے ہیں ، ہندوستان کے تمام بڑے بڑے شہروں میں مسلم نوجوان عصری تعلیم کے اداروں میں داخلہ لینے کے لئے باہر سے آتے ہیں ، وہ سائنس کے مختلف شعبوں میں یا میڈیکل کالج میں داخلہ لیتے ہیں ، انجینئرنگ، ٹیکنالوجی، بینکنگ، انفارمیشن ٹکنالوجی کا کورس کرنے کے لئے وہ کئی سال قیام کرتے ہیں ، بہت سے نوجوان اسٹاف سلیکشن کمیشن اور پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کی تیاری کے لئے طویل عرصہ تک شہروں میں قیام کرتے ہیں، ان کا شہرمیں نہ کوئی اتالیق ہوتا ہے ، نہ کوئی نگراں ہوتا ہے اور نہ رہبر۔ ان کے لئے ضرورت ہے کہ شہروں میں اسلامک ہوسٹل قائم کئے جائیں جہاں ان کی ذہن سازی اور کردار سازی کی جائے ، اس طرح یہ نوجوان ملت کا بہت بڑا اثاثہ بن سکتے ہیں ، یہ اہم ملی منصوبہ ہے جس پر کسی کی توجہ نہیں ہے ، اگر مسلمانوں کے مستقبل کو روشن بنانا ہے اور اگر مسلم معاشرہ کو بہتر مفید تر اور قوی تر بنانا ہے تو اسلامک ہوسٹل کے منصوبے کو بروئے کار لانے کی سخت ضرورت ہے ۔
ابھی حال میں امریکہ سے ایک نو مسلم دینی علوم کی تحصیل کے لئے حیدرآباد آئے تھے ، ہندوستان کے طول و عرض میں انہیں دینی تعلیم کے انگریزی زبان کے ذریعہ حصول کا کوئی ادارہ نہیں مل سکا ، وہ بہت مایوس ہوئے اور انہیں اس سرزمین میں وہ آبِ حیات نہ مل سکا جس کے لئے انہوں نے رخت سفر باندھا تھا ، اس لئے اس بات کی بھی سخت ضرورت ہے کہ انگریزی زبان کے ذریعہ دینی تعلیم کا ایک ادارہ قائم کیا جائے ، جہاں عا لمیت کا مختصر کورس ہو اور طلبہ کو عربی بھی سکھائی جائے ، اگر ایسا کوئی ادارہ قائم ہوسکا تو نہ صرف باہر کے لوگ اس میں داخلہ لیں گے ، بلکہ ملک کے بہت سے گریجویٹ اس میں کشش محسوس کریں گے ۔ اس وقت اس بات کی ضرورت ہے کہ انگریزی زبان کے ذریعہ اسلا م کا تعارف پیش کرنے والے باصلاحیت نوجوان بڑی تعداد میں سامنے آئیں جو اس مجوزہ ادارہ کے ذریع سامنے آسکتے ہیں۔ حیاتِ شبلی میں علامہ سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ ندوہ کے قیام کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی تھا ، لیکن شبلی کا یہ خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ۔
صرف روایتی انداز سے کام کرنے سے ملت کا سفینہ ساحل نجات تک نہیں پہنچ پائے گا ، قوم کی ترقی اور سربلندی کے لئے ایک نئی علمی اور فکری قیادت کی ضرورت ہے اور زمانہ کو انتظار ہے
مردے از غیب بروں آید وکارے بکند
No comments:
Post a Comment