ماہ ذوالحجہ کا پہلا عشرہ خصوصی فضیلت کا حامل ہے،اللہ رب العزت نے سورہ فجر میں کئی چیزوں کی قسم اٹھائی جن میں سے ایک ”فجر“ ہے ،حضرت ابن عباس،مجاہداور عکرمہ فرماتے ہیں اس فجر سے مراد دس ذوالحجہ کی فجر ہے،دوسری چیز جس کی قسم اٹھائی گئی وہ”ولیالٍ عشر“ہے جس کے بارے میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ان دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کا پہلا عشرہ ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، یہ دس راتیں وہی ہیں جن کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں ذکرہے”اتممناھابعشر“ (اعراف:142)،کیوں کہ یہی دس راتیں سال کے ایام میں افضل ہیں۔ امام قرطبی نے فرمایا کہ مذکورہ حدیث سے ذُوالحجہ کے پہلے عشرہ کا تمام دنوں میں افضل ہونامعلوم ہوا اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے بھی یہی دس راتیں ذی الحجہ کی مقرر کی گئی تھیں۔ حضرت جابر رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:دنیا کے دنوں میں سب سے افضل ذی الحجہ کے پہلے عشرے کے دن ہیں۔(کشف الاستار) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: ”کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں اِن(ذی الحجہ کے)دس دنوں کے نیک عمل سے زیادہ محبوب ہو اور پسندیدہ ہو“،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:یارسول اللہ!کیا یہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے؟آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:”اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے مگر وہ شخص جو جان اور مال لے کراللہ کے راستے میں نکلے،پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آئے“(سب اللہ کے راستے میں قربان کردے ،اور شہید ہو جائے یہ ان دنوں کے نیک عمل سے بھی بڑھ کر ہے)۔ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنھماسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے یہاں(ذو الحجہ کے)دس دنوں کی عبادت سے بڑھ کرعظیم اور محبوب ترکوئی عبادت نہیں لہٰذاان میں”لاالہ الا اللّٰہ ،اللّٰہ اکبر،الحمد للّٰہ“ کثرت سے پڑھا کرو۔ (احمد،بیہقی) لہٰذا ان مبارک دنوں میں غیر ضروری تعلُقات سے ہٹ کراللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت بہت لگن اور توجہ کے ساتھ کرنی چاہئے اور ہمہ تن اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہنا اور ذکر و فکر ،تسبیح وتلاوت،صدقہ،خیرات اور نیک عمل میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرنا اور گناہوں سے بچنا چاہئے اور روزوں کا بھی جہاں تک ہو سکے ،اہتمام کرنا چاہئے۔ 9/ذو الحجہ اور اس کے روزہ کے فضائل ومسائل 9/ذو الحجہ کا دن مبارک دن ہے، اس دن میں حج کا سب سے بڑا رکن ”وقوف عرفہ“ ادا ہوتا ہے، اور اس دن بے شمار لوگوں کی بخشش اور مغفرت کی جاتی ہے۔مگر اللہ تعالیٰ نے اس دن کی برکات سے غیر حاجیوں کو بھی محروم نہیں فرمایا: اس دن روزے کی عظیم الشان فضیلت مقرر کر کے سب کو اس دن کی فضیلت سے اپنی شان کے مطابق مستفید ہونے کا موقع عنایت فرمایا۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں”مشھود “کا لفظ فرماکر عرفہ کے دن کی قسم اٹھائی۔(معارف القران للکاندھلوی:8/421) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:تمام دنوں میں سب سے افضل دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک جمعہ کا دن ہے، اور یہ دن ”شاہد“ ہے اور ”مشہود“ عرفہ کا دن ہے اور ”یوم موعود“ قیامت کا دن ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(عرفہ کے دن کے مقابلہ میں) کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ بندوں کو جہنم سے نجات دیتے ہوں، حق تعالیٰ شانہ(عرفات میں وقوف کرنے والوں سے خصوصی رحمت کے ساتھ) قریب ہوتے ہیں پھر فخر کے طور پر فرماتے ہیں کہ یہ بندے کیا چاہتے ہیں؟(مسلم) حضرت مسروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:سال بھر میں مجھے کوئی روزہ عرفہ کے دن سے زیادہ محبوب نہیں۔(مصنف ابن ابی شیبہ) اس حدیث میں نو ذو الحجہ کے دن کے روزے کی بیش بہا فضیلت بیان کی گئی ہے۔ایک روایت میں حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے عرفہ (یعنی 9ذلحجہ ) کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا ،رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:(۹ذوالحجہ کا روزہ رکھنا) ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ (مسلم ،مسند احمد) 9 ذالحجہ کے مسائل ٭... عرفہ کے دن کی فضیلت ہر شخص کو اس ملک کی تاریخ کے اعتبار سے حاصل ہوگی جس ملک میں وہ شخص موجود ہے۔جیسا کہ عیدالاضحی ہر شخص اپنے ملک کی تاریخ کے اعتبار سے کرے گا اسی طرح عرفہ بھی عیدالاضحی سے ایک دن پہلے شمار ہوگا۔ ٭... بعض لوگ عرفہ کے دن کسی ایک مقام پر اکٹھے اور جمع ہونے کو ثواب سمجھتے ہیں اور عرفات میں حاجیوں کے اجتماع کی مشابہت کرتے ہیں۔ اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں بلکہ بے بنیاد اور من گھڑت بات ہے، لہٰذا اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔ ٭... عشرئہ ذی الحجہ اور نوذوالحجہ کے روزوں کے مسائل دوسرے نفل روزوں کی طرح ہیں۔ عشرہ ذی ا لحجہ میں بال اور ناخن کا حکم حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو ، اور تم میں سے کسی کا قربانی کا ارادہ ہو وہ تو جسم کے کسی حصہ کے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ (ترمذی،مسلم،ابوداؤد) ٭... بال ناخن نہ کاٹنے کا حکم قربانی والے کے لیے ہے۔ ٭... یہ مستحب ہے فرض واجب نہیں، لہٰذا کوئی اس کی رعایت نہ کر سکا تو بھی گنہگار نہ ہوگا۔ ٭... عورتوں کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ ٭... اگر زیرناف بالوں اور ناخنوں کو چالیس دن یا زیادہ ہورہے ہوں تو یہ حکم نہیں، صفائی ضروری ہے۔ تکبیر تشریق تکبیرات تشریق یہ ہیں:” اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُلاَاِلٰہ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُوَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ․ “ ٭... 9ذالحجہ کی فجر سے لے کر 13 ذوالحجہ کی عصر تک پانچ دنوں میں تکبیر تشریق کی خاص تاکید اور فضیلت ہے۔ارشادربانی ہے: وَاذْکُرُواللّٰہَ فِيْاَیَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍاور یاد کرو اللہ کو گنتی کے دنوں میں۔(بقرة) ٭... ابن شہاب زہری فرماتے ہیں ،” رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سب ایام تشریق کے دنوں میں تکبیر پڑھتے تھے۔“ ٭... حضرت عبیدبن عمیر سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: ”حضرت عمر عرفہ (9ذوالحجہ)کی فجر سے ایام تشریق کے آخری دن عصر کی نماز تک تکبیر تشریق پڑھتے تھے۔“(کنزالعمال) ٭... حضرت امام محمد سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں:”(ہمارے شیخ امام) ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ہم نے اور وہ حضرت حماد سے اور وہ حضرت ابراہیم نخعی سے وہ حضرت علی سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی عرفہ (9/ذوالحجہ) کی فجر سے ایام تشریق کے آخری دن عصر کی نما ز تک تکبیر تشریق پڑھتے تھے۔(کتاب الاٰثار) اسی وجہ سے ہمارے فقہاء کے نزدیک تکبیر تشریق 9/ذوالحجہ کی فجر سے لے کر 13/ ذوالحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے۔ تکبیر تشریق کے مسائل ٭... یہ تکبیرہر فرض اورجمعہ کی نمازکے بعدمردوعورت،مقیم ومسافر،حاجی وغیرحاجی، تنہا اور جماعت سے نماز پڑھنے والے ہر ایک پرواجب ہے، اور مسبوق ولاحق مقتدی پر بقیہ نماز سے فراغت پر تکبیر کہنا واجب ہے۔احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ عید الاضحی کی نماز کے بعد بھی تکبیرِ تشریق پڑھی جائے۔ ٭... یہ تکبیر مرد درمیانی آواز سے اور عورت آہستہ پڑھے۔ بہت سی خواتین اور مرد حضرات یہ تکبیر نہیں پڑھتے، حالانکہ اس کا پڑھناواجب ہے۔ اسی طرح بعض مرد حضرات آہستہ یا بہت بلند آواز سے پڑھتے ہیں، یہ دونوں باتیں قابل اصلاح ہیں۔ ٭... فرض نماز کے سلام پھیر نے کے فوراً بعد یہ تکبیر پڑھنی چاہئے۔ ٭... سلام کے فوراً بعد اگر کوئی یہ تکبیر پڑھنا بھول جائے تو اگر نماز کے خلاف کوئی کام مثلا ًبات چیت نہیں کی اور یاد آگیا تو تکبیر کہہ دینی چاہئے۔ ٭... ایام تشریق کی کوئی فوت شدہ نماز اسی سال ایام تشریق کے اندرہی قضاء کرے تو اس نماز کے بعد بھی یہ تکبیر کہنا واجب ہے، البتہ اگر ایام تشریق سے پہلے کی کوئی نماز ان دنوں میں ادا کرے یا ایام تشریق کی فوت شدہ نماز ان دنوں کے گزر جانے بعد قضاء کرے تو پھر تکبیر نہ کہے۔ ٭... اگر کسی نماز کے بعد امام یہ تکبیر کہنا بھول جائے تو مقتدیوں کو چاہئے کہ فوراً خود تکبیر کہہ دیں امام کے تکبیر کہنے کا انتظار نہ کریں۔ ٭... ہر فرض نماز کے بعد صرف ایک مرتبہ کہنے کا حکم ہے اور صحیح قول کے مطابق ایک سے زیادہ مرتبہ کہنا سنت کے خلاف ہے۔ ٭... بقر عید کی نماز کے بعد بھی یہ تکبیر کہہ لینی چاہئے۔
ڈاکٹر مفتی احمد خان
استاذ ورفیق شعبہ دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی |
No comments:
Post a Comment