21 اگست فاتح قادیانیت ، بانی مجلس احرار اسلام ، مرد قلندر ، مرد مجاھد ، للکار دیوبند ، خطیب الامت ، پیر طریقت ، رھبر شریعت ، حضرت مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یوم وفات ہے.
سید عطاء اللہ شاہ بخاری دینی اور سیاسی رہنما مجلس احرار اسلام کے بانی تھے ۔1891ءکو پٹنہ میں پیدا ہوئے ۔ آبائی وطن موضع ناگڑیاں ضلع گجرات (پنجاب) تھا۔ لیکن آپ کے والد مولوی ضیاء الدین احمد نے بسلسلہ تبلیغ پٹنہ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ سید صاحب زمانہ طالب علمی ہی میں سیاسی تحریکوں میں حصہ لینے لگے تھے۔ لیکن آپ کی سیاسی زندگی کی ابتداء 1918 میں کانگرس اور مسلم لیگ کے ایک مشترکہ جلسے سے ہوئی۔ جو تحریک خلافت کی حمایت میں امرتسر میں منعقد ہوا تھا۔ سیاسی زندگی بھر پور سفروں میں گذاری اور ہندوستان کے تمام علاقوں کے دورے کیے۔ اپنے زمانے کےمعروف ترین مقرر تھے اور لوگ ان کی تقریریں سننے کے لئے دور دور سے آتے تھے۔ سیاست میں "پنڈت کرپا رام برہمچاری، امیر شریعت اور ڈنڈے والا پیر " کے نام سے معروف تھے۔
حیات امیر شریعت سوانح سید عطاء اللہ شاہ بخاری از جانباز مرزا مکتبہ تبصرہ لاہور صفحہ 434 مجموعی طور پر 18 سال جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 1929ء میں اپنے رفقا کے ساتھ مل کر مجلس احرار اسلام کے نام سے ایک علیحدہ سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی ۔ اور کئی سال اس کے صدر رہے۔ مجلس احرار تحریک پاکستان کے شدید مخالف جماعت تھی۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کا مؤقف تھاکہ "پاکستان کے بارے میں گذشتہ سال میں نےجس جگہ بھی تقریر کی ہے۔ پاکستان کو مسلمانان ہندوستان کے مہلک بلکہ ہلاکت آفرین اور ہلاکت خیز بتایا ہے۔
قدرت نے آپ کو خطابت کا بے پناہ ملکہ ودیعت کر رکھا تھا۔ اس فن میں بہت کم لوگ آپ کے مقابلے کے گزرے ہیں۔ اردو ، فارسی کے ہزاروں اشعار یاد تھے۔ خود بھی شاعر تھے اور ندیم تخلص کرتے تھے۔ ان کی زیادہ تر شاعری فارسی میں تھی۔ سواطع الالہام کے نام سے آپ کا مجموعہ کلام شائع ہوچکا ہے۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل امرتسر میں قیام پذیر تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ملتان آگئے اور 21 اگست 1961 میں وفات پائی۔
ارشاداتِ امیرِ شریعت سید عطا ء اللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ
* خدا کی عبادت،رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور انگریز سے بغاوت میرا ایمان ہے اور رہے گا۔خدا معبود ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم محبوب ہیں اور انگریز مغضوب۔
* انگریز کی فطرت کا خمیر سانپ کے زہر سے اٹھایا گیا اوراسے اپنی غذا کے لیے انسانی خون کی جو چاٹ پڑی ہوئی ہے بڑی مشکل سے چھوٹے گی۔
* ’’میں ان سوروں کا ریوڑ چرانے پر بھی تیار ہوں جو برٹش امپر یلزم کی کھیتی کو ویران کرنا چاہیں ۔میں کچھ نہیں چاہتا ۔میں ایک فقیر ہوں ۔اپنے نانا کی سنت پر کٹ مرنا چاہتا ہوں۔۔۔اور اگر کچھ چاہتا ہوں۔۔۔تو اس ملک سے انگریز کا انخلاء۔۔۔ دو ہی خواہشیں ہیں میری زندگی میں یہ ملک آزاد ہو جائے یا پھر میں تختہ دار پر لٹکا دیا جاؤں ۔
* برطانیہ کے سگانِ دم بریدہ! غور سے سن لو تمہارے آقا کو یہاں سے بستر گول کرناپڑے گا۔ میں پھر کہتا ہوں جو وطن کی آزادی کا علمبردار نہیں وہ پلید و ناپاک جانور سے بد تر ہے ۔
*دنیا میں چار چیزیں محبت کے قابل ہیں:مال،جان ،آبرو اور ایمان ۔۔۔
* جو چیز آپ کو اپنے اصل معبود ،اللہ تک پہنچنے سے روکتی ہے وہ ’’بت ‘‘ہے۔
* انبیاء نہ آ تے تو کائنات ایک ایسی کتاب کی مصداق ہوتی جس کے ابتدائی اور آخری صفحات کھو گئے ہوں۔یہ بات انبیاء کی معرفت سے انسانوں کو ملی ہے کہ انسان اور اس کے رب کے درمیان کیا رشتہ ہے ۔
* ختمِ نبوت کی حفاظت میراجزو ایمان ہے جو شخص بھی ا س رداکو چوری کرے گا جی نہیں۔۔۔ چوری کا حوصلہ کریگا میں اس کے گریبان کی دھجیاں اڑادوں گا ۔اور جواس مقدس امانت کی طرف انگلی اٹھا ئے گا میں اس کا ہاتھ قطع کردوں گا۔ میں میاں( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے سوا کسی کا نہیں نہ اپنا نہ پرایا ۔میں انہیں کا ہوں وہی میرے ہیں جس کے حسن و جمال کوخود ربِ کعبہ نے قسمیں کھا کھا کر آراستہ کیا ہو میں ان کے حسن وجمال پر نہ مر مٹوں تو لعنت ہے مجھ پر اور لعنت ہے اُن پر جو ان کانام تو لیتے ہیں لیکن سارقوں کی خیر ہ چشمی کا تماشا دیکھتے ہیں ۔‘‘
* جب تک احرار زندہ ہیں جھوٹی نبوت نہیں چلنے دیں گے۔جب بھی کوئی کذّاب سر اٹھائے گا صدیقِ اکبر کی سنت جاری کی جائے گی۔یاد رکھو! میں تو زندہ نہیں رہوں گا مگر تم دیکھو گے کہ شہدائے ختمِ نبوت کا خونِ بے گناہی رنگ لا کر ہی رہے گا۔
* ’’اے قادیانیو! اگر نیا نبی بنائے بغیر تمہارا گزارہ نہیں ہو سکتا اور اس کے بغیر تم جی نہیں سکتے تو ہمارے مسٹر جناح کو ہی نبی مان لو۔ ارے مرد تو ہے ۔ جس بات پر ڈٹا کوہ کی طرح ڈٹ گیا۔قہقہوں کے بادل اٹھے۔ اشکوں کی گھٹا چھائی ۔ خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ لاشوں کے انبار لگ گئے۔ مگر کوئی چیز مسٹر جناح کے عزم کو نہ ہلا سکی ۔ اس نے تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر رکھ دیا ۔‘‘
* اس وقت آئینی و غیر آئینی دنیا میں یہ بحث چل رہی ہے کہ آیا ہندوستان میں ہندو اکثریت کو مسلم اقلیت سے جدا کر کے برِ صغیر کو دو حصوں میں جدا کر دیا جائے۔ قطع نظر اس کے کہ اس کا انجام کیا ہوگا ۔ مجھے پاکستان بن جانے کا اتنا ہی یقین ہے جتنا اس بات پر کہ صبح کو مشرق سے سورج طلوع ہو گا ۔ لیکن یہ وہ پاکستان نہیں ہوگا جو دس کروڑ مسلمانانِ ہند کے ذہنوں میں موجود ہے اور جس کے لیے آپ بڑے خلوص سے کوشاں ہیں۔ان مخلص نوجوانوں کو کیا معلوم کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
* قدحِ صحابہ کرنے والو! خدا سے ڈرو ۔ میں علی رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہوں او ر صدیق رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ و عثمان رضی اللہ عنہ کی مدح کرتا ہوں اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا ۔ تم کون ہو!ہائے وہ لوگ جنہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں جگہ ملی ہو۔تم انہیں گالی دیتے ہو۔ظالمو حشر کے دن آقا کو کیا جواب دو گے!
* خواہ ساری دنیا مجھے چھوڑ جائے میں مجلس احرار کا علم بلند رکھو نگا حتیٰ کہ جب میں مرجاؤں تو میری قبر پر بھی سرخ پھریرا لہرا تا رہے گا ---------------------------------------
اگر جان پر کوئی مصیبت آئے تو مال قربان کرنا چاہیے اور اگر آبرو پر کوئی آفت آئے تو مال و جان دونوں کو اور اگر ایمان پر کوئی ابتلا ء آئے تو مال ، جان ،آبرو سب کو قربان کرنا چاہیے۔ اگر سب کے قربان کرنے سے ایمان محفوظ رہتا ہے تو یہ سودا سستا ہے۔
ہندو قوم مسلمانوں کا کیا مقابلہ کرے گی جس کا خدا (گائے) مسلمانوں کی غذا ہے۔
مجھے پاکستان بن جانے کا اتنا ہی یقین ہے جتنا اس بات پر کہ صبح کو مشرق سے سورج طلوع ہو گا ۔ لیکن یہ وہ پاکستان نہیں ہوگا جو دس کروڑ مسلمانانِ ہند کے ذہنوں میں موجود ہے اور جس کے لیے آپ بڑے خلوص سے کوشاں ہیں۔ان مخلص نوجوانوں کو کیا معلوم کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
No comments:
Post a Comment