از: مولانا یرید احمد نعمانی
وہ ارض مقدسہ جسے انبیاء کرام کا مدفن ہونے کا شرف حاصل ہے، جس کے ارد گرد برکت ہی برکت کا نزول ہے، جہاں سے پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد صلى الله عليه وسلم روح القدس کے ہمراہ سفر معراج کے لیے پابرکاب ہوئے، جس دھرتی پر سید الثقلین صلى الله عليه وسلم نے نبیوں کی امامت کراکے امام الانبیاء کا لقب پایا، جی ہاں وہی پرعظمت وپرشوکت زیتون کے درختوں سے آراستہ وپیراستہ سرسبز وشاداب بقعہ ارضی، جہاں اسلام کی عظمت رفتہ اور جنت گم گشتہ کا نشان قبلہ اول کی صورت میں موجود ہے، جس کے فاتح اوّل فاروق اعظم رضی اللہ عنہ تھے، جس کے درودیوار نے ایوبی کی تکبیر سنی تھی، جہاں خیر کا نور پھیلانے والوں اور شرکی تاریکی میں اضافہ کرنے والوں کے درمیان آخری مگر عظیم معرکہ بپا ہونے کا میدان سج چکا ہے، آج طاغوتی قوتوں کے زیرنگیں وقبضہ ہے۔ ”مغضوبین“، ”ضالین“ کے زیر سایہ وانتظام گزشتہ چھ عشروں سے مسلمانان فلسطین کا جانی، مالی اور اقتصادی استحصال میں مصروف عمل ہیں۔
”بھٹکی مادیت“ نے اپنے طرز فکر وسوچ اور بوالہوسی کا راگ اس طو پر الاپا ہے کہ غیرتو غیر ”اپنے“ بھی اس کی گردش اور بھنور میں غوطہ زن ہیں، فکر معاش، تعیش پسندی اور اپنی شکم سیری کی زنجیروں میں ایسے جکڑے ہیں کہ اپنے آقا صلى الله عليه کے اس ارشاد مبارک کو ہی بھلا بیٹھے، جس میں آپ نے مسلمانوں کی اجتماعیت کی تشبیہ ایک جسم سے دی ہے، بدن کے ایک عضو کی تکلیف والم پورے وجود میں سرایت کرتی اور محسوس کی جاتی ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے، عالم اسلام کے اس رستے ہوئے ناسور پر کوئی اینکر پرسن، کوئی وزیرومشیر اور کوئی صاحب منصب وجاہ امت کی منتشر سوچ کو مجتمع، منظم اور مربوط نہیں کرتا؟ آئیے اسی چبھتے سوال کے جواب کے تناظر میں ”بقعہ نور“ کی قدیم تاریخ پرایک طائرانہ نظر ڈالیں جو شاید ہمارے ”خوابیدہ“ دلوں کو بیدار کرنے میں قوت عمل مہیا کرجائے!
محل وقوع کے اعتبار سے فلسطین براعظم ایشیاء کے مغرب میں بحر متوسط کے جنوبی کنارے پر واقع ہے اس علاقے کو آج کل مشرق وسطیٰ بھی کہا جاتا ہے، شمال میں لبنان اور جنوب میں خلیج عقبہ واقع ہے،جنوب مغرب میں مصر اور مشرق میں شام اور اردن سے اس کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں۔ جبکہ مغرب میں بحرمتوسط کا طویل ساحل ہے، فلسطین کا رقبہ حنفہ اور غزہ سمیت ۲۷ ہزار کلومیٹر پر مشتمل ہے۔
فلسطین کے طبعی جغرافیائی علاقوں میں فلسطین کا طویل ساحل جوناقورہ سے لے کر رفح تک جنوب میں پھیلا ہوا ہے سرفہرست ہے۔ جس کا عرض ۱۶ سے ۱۸ کلومیٹر تک ہے، اس ساحل کے مشہور شہروں میں طولکرم،خان یونس،رملہ، عکا، یفاء، یافا اور غزہ ہیں۔ اسرائیل نے اپنا دارالحکومت بھی یافا کے شمال میں بنایا ہے، جبکہ پہاڑی سلسلوں میں نابلس، کرمل، خلیل اور القدس کے پہاڑی علاقے مشہور ہیں، واضح رہے کہ خلیل پہاڑ کے دامن میں خلیل شہر آباد ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہاں مدفون ہیں۔ علاوہ ازیں قدس کے پہاڑوں میں سب سے اونچا پہاڑ جبل طور ہے، جس میں بیت المقدس کا علاقہ واقع ہے، مسجد اقصیٰ اور قبة الصخرہ بھی اسی شہر کی زینت ورونق ہیں۔ میدانی علاقوں میں نقب اوراغوار کے علاقے شامل ہیں، اغوار فلسطین کا مشرقی علاقہ ہے، جسے دریا اردن کاٹتا ہے اور بحر میت بھی اس کے کنارے واقع ہے، اس علاقے میں اریحانامی شہر ہے،جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کا قدیم ترین شہر ہے۔
فلسطین اپنی تاریخ کے ابتدائی دورمیں کنعانیوں کا مرکز رہا ہے، ان علاقوں میں جتنے قدیم شہر تھے وہ سارے کنعانیوں نے ہی آباد کیے تھے، کنعانی قبیلے کی اہم شاخ ”ببوسی“ قوم نے القدس شہر بسایا تھا۔ کنعانی دور کے بعد عبرانی دور کی باری آتی ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ارض کنعان کی طرف ہجرت فرمائی، بعد میں حضرت یوسف علیہ السلام کے ذریعے آپ کی اولاد مصر کی حکمراں بنی، پھر بتدریج قبطی ان پر غالب آئے اور حضرت موسی علیہ السلام نے انہیں مصر سے نکالا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں ان عبرانیوں نے کنعان کو فتح کیا یہاں سے عبرانی دور کا آغاز ہوا، عبرانیوں کے حکمرانوں میں دو جلیل القدر پیغمبر حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام بھی گزرے ہیں۔
”بلست“ نامی قبیلہ مغرب سے جنگ زد ہوکر نکلا، اس نے اس علاقے کے ساحلی علاقوں یافا سے غزہ تک کے علاقے پر قبضہ کرلیا، اس قبیلے نے اپنے مقبوضہ علاقے کا نام اپنے نام سے موسوم کرکے فلسطین رکھ دیا یہ نام ایسا غالب رہا کہ آج اس پورے خطے کو فلسطین ہی پکارا جاتا ہے، ان نووارد فلسطینیوں اور عبرانیوں کے مابین کئی جنگیں ہوئیں،جس کے نتیجہ میں حضرت داؤد علیہ السلام نے اس کے سردار جالوت کو قتل کردیا جس کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ہے۔
۵۳۸ ق م میں فارس کے ایک بادشاہ نے شام کو پورے علاقے کو بشمول فلسطین قبضہ کرلیا، فارس کی حکومت ۳۳۲ق م یہاں سے ختم ہوگئی۔ ۳۳۲ ق م میں ہی مقدونی بادشاہ سکندر اعظم نے یہ علاقہ فارسیوں سے ہتھیالیا، اس کی موت کے بعد اس کے جانشینوں نے یہاں یونانی ثقافت وتہذیب کو پروان چڑھانے کی سرتوڑ کوشش کی، اس مقصد برآوری کی خاطر انھوں نے کئی شہر آباد کئے، مدارس کھولے یونانی زبان کو سرکاری زبان قرار دیا، لیکن اکثر علاقوں میں سریانی زبان وتہذیب کو لوگوں نے حرز جان بنائے رکھا۔
۶۳ ق م میں روم کے مشہور قائد ”بومبی“ نے یونانیوں کا زور فلسطین میں توڑ ڈالا، پھر یہ علاقہ رومیوں کے پاس رہا، یہاں تک کہ ۶۳۶/ میں اسلام کا پھریرا اس علاقہ پر لہرایا، اس دور کی اہم خصوصیات میں سے چند اہم یہ ہیں: (۱) حضرت مسیح علیہ السلام کا ظہور ہوا۔ (۲) یہودیوں کو دو مرتبہ شکست ہوئی۔ پہلی مرتبہ ۷۰/ میں تبطس رومی کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہوئے اور دوسری دفعہ ۱۳۵/ میں جب یہود نے دوبارہ منظم ہونے کی کوشش کی، اس دور کے رومی بادشاہ ”معادریان“ نے خود حملہ کیا اور یہودیوں کو سفاکی سے قتل کیا اور باقی کو دنیا کے مختلف علاقوں میں جلاوطن کیا اب دوہزار سال بعداس دھتکاری ہوئی قوم کو فلسطین میں اپنے قدم جمانے کا موقع ملا ہے۔
فلسطین کی اہمیت اسلام اور مسلمانوں کے لیے اس حوالے سے بہت واضح رہی ہے کہ ابتداء اسلام میں یہ ان کا قبلہ اوّل رہا ہے، اسی وجہ سے رومیوں کے ساتھ معرکے حضرت جناب نبی کریم صلى الله عليه کی حیات طیبہ ہی میں شروع ہوگئے تھے۔ سرور دوعالم صلى الله عليه وسلم نے اپنا آخری لشکر جیش اسامہ رومیوں کے مقابلے کے لیے ترتیب دیا ہی تھا کہ آپ اس دنیا سے پردہ فرماگئے، آپ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے روانہ فرمایا، ارتداد کی مہم سے فارغ ہوکر خود بھی اس جانب توجہ دی۔ یہاں تک کہ ۶۱ھ میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں بیت المقدس مسلمانوں کے زیرقبضہ آگیا۔
چھٹی صدی ہجری میں بلاد اسلامیہ پر صلیبیوں نے حملہ کیا، جس کے نتیجے میں فلسطین میں صلیبی حکومت قائم کرلی گئی، طاقت اور قوت کے بل بوتے پر ستر ہزار مسلمانوں کو تہہ تیغ کیاگیا، لیکن صلیبیوں کی یہ حکومت دیر پا ثابت نہ ہوسکی مشہور مجاہد صلاح الدین ایوبی نے جلد ہی بیت المقدس کو صلیبی پنجہ استبداد سے وا کرالیا، ۲۷/رجب ۵۳۸ھ کو بیت المقدس دوبارہ تکبیر کے زمزموں سے گونج اٹھا۔
جس وقت عالم اسلام کو استعماری طاقتوں نے اپنی سازشوں کا ہدف بنایا اور فلسطین کی سرزمین برطانیہ کے استعماری قبضہ میں آنے لگی تو مکار اور شاطر یہودیوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اس خطے کے حصول کی خاطر کوششیں تیز کردیں ۱۸۳۹/ میں سب سے پہلا مغربی سفارتخانہ جو بیت المقدس میں کھلا وہ حکومت برطانیہ کا تھا، جس کا واحد مقصد یہودیوں کی خدمت گذاری تھا، اس کے ساتھ ہی پوری دنیا سے یہودیوں کو بیت المقدس میں جمع کرنا شروع کردیاگیا، اس وقت پورے فلسطین میں صرف نو ہزار کے قریب یہودی تھے۔
۱۸۹۵ء میں ایک یہودی مفکر ”النمساوی ہیرتسل“ نے ایک کتاب شائع کی جس کا عنوان تھا ”یہودی مملکت“ جس میں اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہودی قوم کو ایک حکومت کی ضرورت ہے، اس مقصد کے لیے فلسطین سے بہتر کوئی جگہ ان کی نظر میں نہ تھی۔ اس دور میں یہودیوں کی عالمی سطح پر دو بڑی کانفرنسیں ہوئیں، پہلی کانفرنس ۱۸۹۷ء اور دوسری ۱۸۹۸ء میں، جن کا حاصل یہ تھا کہ یہود اپنے قدیم وطن فلسطین کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے منظم ہوجائیں، چونکہ فلسطین خلافت عثمانیہ کا ایک حصہ تھا اور وہی اس کے مالک ومتصرف تھی، اس کے مقابلے کے لیے قوم یہود نے ہر طرح کے حربے استعمال کرنے شروع کردئیے۔
خلافت عثمانیہ کے آخری خلیفہ سلطان عبدالحمید کو اپنے دام تزویر میں پھنسانے کے لیے انھوں نے مختلف سطحوں پر ساز باز شروع کی، جس میں بھاری رقوم دے کر ترکوں کو خریدا گیا، خود خلیفہ عبدالحمید کو لالچ دئیے گئے یہاں تک کہ ایک دفعہ ترکی کے یہودیوں کا ایک وفد سلطان سے ملا اور ان کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ فلسطین اگر یہودیوں کو دے دیا جائے تو اس کے بدلے ہم خلافت عثمانیہ کے ماتحت رہ کر خلافت کے سارے قرضے اتار دیں گے، جواب میں سلطان نے زمین سے ایک تنکا اٹھاکر ان کو دکھایا پھر فرمایا ”اگر فلسطین کا اتنا حصہ بھی تم لینا چاہوگے تو نہیں ملے گا“۔
سلطان عبدالحمید سے مایوس ہوکر اللہ کے غضب کی ماری اس قوم نے ان کی شہرت عام کو بگاڑنے کی کوشش شروع کردی، چونکہ ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کی اجارہ داری تھی اس لیے اس ہتھیار سے کام لے کر سلطان پر ”رجعت پسند یا ور نسل پرست“ جیسے بے پر کے الزامات کا سلسلہ شروع کردیاگیا، نتیجتاً خلافت عثمانیہ میں قومی نعروں کی پروان ملی۔
۱۹۰۹ء سلطان عبدالحمیدکا انتقال ہوا تو گویا اس دن سے اسرائیل کے وجود کی بنیاد پڑگئی، حکومت میں موجود صہونیت نواز لوگوں کا ایک ایسا طبقہ موجود تھا جو برابر یہودیوں کو فلسطین منتقل کرنے میں مدد دیتارہا، یہاں تک کہ ۱۸۹۷ء میں ان کی تعداد پچاس ہزار تھی اور یہی تعداد ۱۹۱۴ء میں ۸۵ ہزار ہوگئی۔
یہود ایک مالدار قوم تھے، ہر ملک میں بڑے بڑے بیوپاریوں اور ساہوکاروں کی صورت میں موجود تھے، جس کی وجہ سے ملکوں کی سیاست اور معاملات پر ان کا اثر انداز ہونا کوئی تعجب خیز امر نہیں تھا، انھوں نے خلاف عثمانیہ کو ہر طرح اور ہر سطح پر دباؤ میں رکھنے کی کوشش کی، اور دنیاکو باور کرایا کہ فلسطین کا حصول یہودیوں کے لیے ناگزیر ہے، لیکن خلافت عثمانیہ ان کے باطل عزائم اور ارادوں کے سامنے سد سکندری ثابت ہورہی ہے۔ چنانچہ اس بے حقیقت مفروضے کی بنیاد پر حکومت مصر کے توسط سے صحراء سینا میں یہودیوں کو بسانے کی ایک مرتبہ کوشش بھی کی گئی، جس میں وہ ناکام ہوئے۔ اس کے بعد دنیا کی سیاست میں کچھ ایسے حالات آئے جو فلسطین میں بدی کی ”نمائندہ قوم“ کے لیے قیام حکومت کی راہ ہموار کرتے چلے گئے، جن میں چار حالات کا بطور خاص ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے: (۱) دو عالمی جنگوں کا وقوع پذیرہونا۔ (۲) ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کا قتل عام جس سے وہ دنیاکو اپنی مظلومیت ثابت کرپائے۔ (۳) خلافت عثمانیہ کا سقوط۔ (۴) فلسطین کا برطانوی استعمار کے زیردست ہوجانا۔
آخر الذکر سبب کے تحت برطانوی استعمار نے یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کے لیے حتی المقدور تعاون کیا۔ مقامی باشندوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیاگیا، یہودی بستیاں آباد کی گئیں، تل ابیب کو مضبوط کیا، یہودیوں کے استحکام سے مطمئن ہوکر خود ۱۴/مئی ۱۹۴۸ء کو فلسطین سے نکلنے کا اعلان کیا، جاتے جاتے اہم مقامات، سرکاری دفاتر، ہوائی اڈے یہودیوں کو بطور بخشش دے گئے، جبکہ مسلمانوں کا جانی، مالی اور اقتصادی استحصال کیاگیا، جس کے نتیجے میں کچھ قتل ہوئے اور اکثر ہجرت پر مجبورہوئے۔
یوں ۱۵/مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیلی مملکت کا اعلان قیام ہوا، جسے چند ہی لمحوں میں امریکہ، روس اور یورپ نے تسلیم کرلیا، اسلامی ممالک میں سے صرف ترکی اور اس وقت کے شاہ ایران نے یہ ناجائز ریاست تسلیم کرکے اپنے فکری ضلالت پر مہر تصدیق ثبت کی۔
No comments:
Post a Comment