کچھ تو ہے جس کی ...
(ساگر ٹائمز)انگریزی دور کی آخری نصف صدی میں نیتاجی سبھاش چندر بوس اس
برصغیر کے واحد لیڈر تھے جنہیں سارے ہندوستانیوں کا اعتماد حاصل تھا۔
انکے علاوہ کوئی دوسرا شخص پیدا ہی نہیں ہوا جس پر سبھی ہندوستانیوں کو
اعتماد ہوتا۔ گاندھی جی لیڈر تھے، لیکن صرف طبقہ اعلیٰ کے ہندووں کے۔
قائد اعظم محمد علی جناح لیڈر تھے، لیکن صرف مسلمانوں کے۔ ماسٹر تارا گھ
لیڈر تھے لیکن صرف سکھوں کے۔ ڈاکٹر امبیڈکر لیڈر تھے، لیکن صرف اچھوتوں
اور چند مسلمانوں و چند پچھڑوں کے۔
اس حالت سے 1939میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی۔ نیتا جی سبھاش چندر بوس نے
اعلان کیا کہ جب تک انگریز اعلان نہ کردے کہ ہم جنگ کے بعد بھارت چھوڑ کر
چلے جائیں گے تب تک انگریزی فوج کے ہندوستانیوں کو جنگ میں حصہ نہیں لینا
چاہئے، لیکن فوراً گاندھی جی نے جوابی اعلان کردیا کہ ایسی حالت میں جب
انگریز پریشانیوں سے گھر گیا ہوگا ان سے تعاون نہ کرنا ستیہ اور اہنسا کے
اصولوں کےخلاف ہے۔اس حالت میں مسٹر جناح کو کوئی بیان دینے کی ضرورت ہی
نہ تھی۔اسکے بعد انگریزہی نہیں کانگریسی بھی نیتا جی کے خون کے پیاسے
ہوگئے ۔ ایسی حالت میں ضلع مروان صوبہ سرحد کے فارورڈ بلاک لیڈر بھگت رام
تلوار نیتا جی کو پٹھانی لباس پہنا کر کلکتہ سے پشاور ٹرین سے لیکر گئے
اور پھر وہاں سے انہیں کابل پہونچادیا۔ کابل سے افغان لوگوں نے انہیں
جرمنی پہونچایا۔ 1941 میں جاپان بھی جنگ میںکودا۔ اور اس نے فلپائن،
انڈونیشیا، ملیشیا، تھائی لینڈر اور برما پر قبضہ کرلیا۔ اس وقت میرے
والد رنگون میں تھے۔ برما 1932تک بھارت کا ایک صوبہ رہا ہے۔ برما کی
راجدھانی رنگون انگریزوں کا بسایا ہوا جدید شہر تھا۔ وہاں کی تجارت معیشت
اور جائیدادوں کے زیادہ تر مالک سورت کے مسلمان تھے۔ یہاں شمالی ہند اور
بنگال کے لوگ بھی بڑی تعداد میں تھے ۔یہ سب بنگالی کہے جاتے تھے جبکہ
گجراتی تاجروں کو وہاں سورتی کہا جاتا تھا۔میرے والد بتاتے تھے کہ انکے
وہاں رہتے نیتا جی رنگون پہونچے اور مشرق بعید میں ہتھیار ڈالنے والی
انگریزی فوج کے ہندوستانی سپاہیوں افسران اور وہاں کی ہندوستانی آبادی
میں سے نوجوانوں کی نئی بھرتی کر کے آزاد ہند فوج بنائی۔ فوجی اخراجات
کےلئے نیتا جی تقریر کرتے اور حاضرین اپنی دولت جمع کرکے نیتا جی کو
دیتے۔ تقریر کے بعد نیتا جی کی قلم، ٹوپی، رومال اور چشمہ نیلا م کیا
جاتا جس سے اس زمانے میں بھاری رقمیں جمع ہوتیں۔ پردہ نشین خواتین اپنے
سارے زیور اتار کر ان پر نثار کردیتیں۔ چند دنوں میں اتنی دولت جمع ہوگئی
جس سے فوج کے اخراجات بہ آسانی پورے ہوئے۔ یہ واضح کردوں کہ آزاد ہند فوج
میں لگ بھگ پچاس فیصد سپاہی اور آفیسر مسلمان تھے اور مشرق بعید میں جتنا
چندہ جمع ہوا اس کا ستر فیصدی پیسہ مسلمانوں نے دیا۔ تیاری پوری کر کے
نیتا جی برما کے پہاڑوں کو عبور کر کے بھارت میں داخل ہوئے اور منی پور
پر قبضہ کر کے امپھال کو اپنا ہیڈکوارٹر بنایا۔ اور جاپان کی فوجی مدد
اور بھاری اسلحہ پہونچنے کا انتظار کررہے تھے۔ بھارت پر قبضہ کرنے میں
ایک مہینہ بھی نہ لگتا کیونکہ انگریزی فوج یہاں تھی ہی نہیں ۔وہ ہٹلر سے
برطانیہ کو بچانے کےلئے یورپ میں تھی۔لیکن قسمت بھی کوئی چیز ہوتی ہے
!اسی دوران یورپ میں جرمنی کو شکست ہوگئی۔ ہٹلر اور اس سے پہلے مسولینی
نے خود کشی کرلی اور یورپ وامریکہ کی متحدہ طاقت جاپان پر ٹوٹ پڑی جسکی
وجہ سے نیتا جی کو جاپان کی فوجی مدد نہیں پہونچ پائی۔ دنیا کی متحدہ
طاقت جب جاپان سے کچھ بھی علاقہ واپس لینے میں ناکام رہی تب امریکہ نے
5اگست 1945کو ہیروشیما پر اور 8اگست 1945کو ناگا ساکی پر ایٹم بم گرادیا۔
اور اعلان کیا کہ اگر جاپان نے ہتھیار نہ ڈالا توہم جاپان کے ہر شہر پر
ایٹم بم گرائیں گے۔ جاپان نے 10اگست 1945 کو ہتھیار ڈال دیئے جنگ ختم
ہوگئی۔برطانیہ میں فوراً انتخابات ہوئے اور لیبر پارٹی نے اپنے منشور میں
کہا کہ اگر لیبر پارٹی چناوجیتی تو ہم دنیا بھر کے ملکوں کو آزاد کر کے
برطانیہ تک محدود ہوجائینگے۔ لیبر پارٹی نے جیتتے ہی پوری دنیا کو
خوشخبری ادی کہ ہر ملک اپنا انتظام چلانے کی فکر کرلے۔
یہ صحیح ہے کہ انگریز نے جن لوگوں کو جنگی مجرم ہونے کا اعلان کیا تھا ان
میں نیتا جی سبھاش چندر بوس بھی تھے۔ انکے کچھ قریبیوں سے میری بار بار
ملاقات ہوئی۔ انکا خیال تھا کہ نہرو انہیں پکڑ کر انگریزوں کے حوالے
کردیتا اس لئے نیتا جی منی پور سے چلے گئے۔ میرے گاوں کے جتنے لوگ آزاد
ہند فوج میں بھرتی ہوئے تھے سب ایک ساتھ منی پورسے آگئے۔ میرے والد برما
سے چٹگاو ¿ں تک پیدل پھر وہاں سے ریل سے فروری 1942میںاعظم گڑھ اپنے گاوں
آئے تھے۔ وہ کٹر مسلم لیگی تھے لیکن اس سے زیادہ نیتا جی سبھاش چندر بوس
کے بھگت تھے۔ وہ 2000تک زندہ رہے اور یہی کہتے رہے کہ اگر نیتا جی منی
پور سے واپس کلکتہ چلے آتے تو انگریز انہیں گرفتار کرتا، لیکن پورا ملک
اسطرح انکے ساتھ کھڑا ہوجاتا کہ انگریزمیں یہ ہمت نہیں تھی کہ انہیں
سزادیتا اگر نیتاجی آجاتے تو نہ تو ملک کا بٹوارہ ہوتا نہ ہی لاکھوں
انسان مارے جاتے ،نہ ہی کروڑوں انسان ہجرت پر مجبور ہوتے کیونکہ ہندو
مسلمان سکھ عیسائی سب انہیں اپنا لیڈر مان لیتے۔
اب سوال یہ ہے کہ نیتا جی گئے کہاں؟ ایک کہانی یہ سرکاری طور پر چلی کہ
وہ فضائی حادثہ میں ہلاک ہوگئے۔ دوسری کہانی یہ چلی کہ وہ روس چلے گئے
تھے۔ وہاں نہرو کے دباو پر اسٹالن نے انہیں جیل میں ڈال دیا پھر نہرو کی
خواہش پر اسٹالن نے انہیں مروادیا۔ نہرو اور اسٹالن کو جو لوگ جانتے ہیں
وہ اس کہانی پر یقین کرسکتے ہیں۔ تیسری کہانی یہ ہے کہ وہ بھیس بدل کر
ملک میں ہی چھپے رہے زیادہ وقت انہوں نے فیض آباد میں گمنامی بابا کی
حیثیت سے گذارا اور وہیں فوت ہوئے۔مجھے اب یاد آیا۔ کراچی سے ایک عالمی
شہرت کا رسالہ اردو ڈائجسٹ نکلتا تھا۔ اس میں آزاد ہند فوج کے ایک ایسے
بڑے آفیسر کا مضمون چھپا تھا جو رہنے والا تو مشرقی یوپی کا تھا، لیکن
پاکستان چلا گیا تھا ۔مجھے نام یاد نہیں آرہا ہے۔ ابھی چند دن پہلے کسی
ہندی اخبار میں اس کا نام چھپا تھا کہ وہ رنگون سے منی پور تک ہر وقت
نیتا جی کےساتھ رہتا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ میں پاکستان سے اپنے گاوں
آیا۔ وہاں سے میں دون ایکسپریس سے واپس جارہا تھا ۔ میرا سارا سامان ٹرین
میں تھا ۔میں کھڑکی سے لگ کر بیٹھا تھا۔ ٹرین فیض آباد میں رکی، میں نے
دیکھا کہ ایک شخص سادھو کے بھیس میں باہر سے آکر ٹرین کی طرف بڑھ رہا۔
بےساختہ میرے منہ سے نکلا ”ارے نیتاجی“ سادھو کی آنکھیں مجھ سے چار
ہوئیں۔ میں تیزی سے بوگی سے اترا ،لیکن سادھو اتنی دیر میں مڑکر تیز
قدموں سے باہر کیطرف چلا۔ میں گیٹ سے باہر ہوا توتیزی سے کافی آگے جاچکا
تھا ۔اتنی دیر میں ٹرین نے وِسل بجائی اور میں سامان کے لالچ میں بھاگ کر
ٹرین پر چڑھ گیا۔ اس نے لکھا کہ مجھے اپنے آپ پر غصہ آیا کہ میں نے سامان
کے چکر میں ٹرین کیوں پکڑی؟ پھر میں ٹرین سے کودنے کے چکر میں دروازے تک
آیا تب تک رفتار اتنی تیز ہوچکی تھی کہ کودنا ممکن نہ تھا۔ اس کا دعویٰ
تھا کہ نیتا جی کا میک اپ کر کے ایک لاکھ کی بھیڑ میں چھوڑ دیا جائے تب
بھی میں انہیں پہچان لوں گا کیونکہ انکی آنکھیں اور آنکھوں کی چمک سب سے
الگ تھیں۔اس کے کئی سال بعد ایک ہندی اخبار میں خبر چھپی کہ فیض آباد میں
گمنامی بابا کا انتقال ہوگیا ۔کئی دن تک اخباروں میں مضامین اور خبریں
آتی رہی کہ گمنامی بابا ہی نیتا جی سبھاش چندر بوس تھے ۔پھر سرکار کی طرف
سے تردید آئی کہ نیتا جی تو 1945میں ہی تائیون میں فضائی حادثے میں ہلاک
ہوچکے تھے۔ میں یقین کےساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن فضائی حادثے کی
کہانی پر مجھے کبھی یقین نہیں آیا۔ نہ ہی گمنامی بابا کی موت سے پہلے ملک
کے کسی حصے میں کوئی غیر کانگریسی حکومت ہی بنی۔ مجھے یہ یقین ہے کہ یا
تو اسٹالن والی کہانی سچ ہے یا پھر گمنامی بابا کی کہانی سچ ہے۔ جو بھی
ہو میں اسکو ملک کی تاریخ کا سب سے کالا دن مانتا رہوں گا۔
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو؟
الیاس اعظمی سابق ممبرآف پارلیمنٹ، ترجمان و پی اے سی رکن عام آدمی پارٹی
No comments:
Post a Comment