سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں: "میں نے اپنی نیت سے زیادہ کسی کا علاج نہیں کیا، کیونکہ یہ پل میں بدل جاتی ہے"
فضل بن زیاد کہتے ہیں: "میں نے عمل میں نیت کے بارے میں امام احمد سے پوچھا: "نیت کیسے ہوتی ہے؟" تو انہوں نے کہا: "عمل کرتے ہوئے اپنے نفس کا خیال کرے، کہ عمل سے لوگوں کی خوشنودی مراد نہ ہو"
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے ریاکاری کیلئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا، جس نے ریاکاری کیلئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا، جس نے ریا کاری کیلئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا) احمد، حاکم، اور طبرانی نے معجم الکبیر میں اسے روایت کیا ہے۔
مؤمن اپنی بول چال کا بھی محاسبہ کرتا ہے، چنانچہ اپنی زبان کو غلط اور حرام گفتگو کیلئے بے لگام نہیں کرتا، اسے یاد رکھنا چاہیے کہ دو فرشتے اس کی ایک ایک بات کو لکھ رہے ہیں، لہذا اس کے کیے ہوئے ہر عمل پر اسے بدلہ دیا جائے گا، اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ (10) كِرَامًا كَاتِبِينَ (11) يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ }اور بیشک تم پر محافظ مقرر ہیں [10]وہ معزز لکھنے والے ہیں[11] اور جو بھی تم کرتے ہو اسے جانتے ہیں [الانفطار : 10 - 12]
اسی طرح فرمایا: {مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ}جب بھی کوئی لفظ اس کی زبان سے نکلتا ہے اسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود ہوتا ہے [ق : 18]
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "وہ ہر اچھی اور بری بات کو لکھتے ہیں، حتی کہ وہ یہ بھی لکھتے ہیں: میں نے کھا لیا، میں نے پی لیا، میں چلا گیا، میں آگیا، میں نے دیکھا"
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بیشک آدمی رضائے الہی پر مشتمل ایک کلمہ بولتا ہے، اور اسکی پرواہ نہیں کرتا، اللہ تعالی اس کلمے کے بدلے میں درجات بلند فرما دیتا ہے، اور بیشک آدمی غضبِ الہی پر مشتمل ایک کلمہ بولتا ہے، اور اسکی پرواہ نہیں کرتا، اللہ تعالی اس کلمے کے بدلے میں اسے جہنم میں ڈال دیتا ہے) بخاری
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں، روئے زمین پر زبان سے زیادہ لمبی قید کا کوئی حقدار نہیں"
اور ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنی زبان پکڑ کر کہا کرتے تھے: "اسی نے مجھے ہلاکت میں ڈالا"
اسی طرح مسلمان پر یہ بھی واجب ہے کہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے، اور دل میں آنے والے شکوک و شبہات کا مقابلہ کرے، اس لئے کہ خیر ہو یا شر انکی ابتدا دل میں آنے والے خیالات سے ہوتی ہے، چنانچہ اگر مسلمان دل میں آنے والے برے خیالات پر قابو پا لے، اور اچھے خیالات پر اطمینان اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے عملی جامہ پہنائے تو وہ فوز و فلاح پاتا ہے، اور اگر شیطانی وسوسوں اور خیالات کو مسترد کرتے ہوئے شیطانی وسوسوں سے اللہ کی پناہ چاہے تو گناہوں سے سلامت رہ کر نجات پاتا ہے۔
---------------------------------
فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹرعلی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے22 جمادی اولی 1436 کا خطبہ
جمعہ بعنوان " محاسبہ نفس اور دلوں کی اقسام"
No comments:
Post a Comment