ڈاکٹر ضامن علی حسرت
محمد شبلی نعمانی 1857 ء میں بندول ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے ، شبلی حالی کے ہم عصر قلمکار مانے جاتے ہیں لیکن عمر میں حالیؔ سے 20 برس چھوٹے تھے ۔ شبلی بیک وقت شاعر ، ادیب ،عالم، مفکر اور سوانح نگار سب کچھ تھے ۔ شبلی کے اندر ادبی صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں ۔ سرسید احمد خاں کی صحبت نے ان صلاحیتوں کو مزید نکھارا اور ایک نئی راہ دکھائی مشہور دانشور و نقاد خلیل الرحمن اعظمی شبلی سے متعلق رقمطراز ہیں : ’’شبلیؔ کو علی گڑھ کی فضا نہ نصیب ہوتی تو ان کی جگہ مولانا فاروق چریاکوٹی اور فیض الحسن سارنگ پوری کی صف میں ہوتے اور اردو زبان شعر العجم ، سیرت النبیؐ اور الفاروق جیسے کارناموں سے محروم رہ جاتی‘‘ ۔ علامہ شبلیؔ کے والد نامی وکیل تھے اور چاہتے تھے کہ شبلیؔ بھی وکیل بنیں چنانچہ شبلی کے والد کے اصرار پر وکالت کا امتحان پاس کیا اور وکالت شروع کردی ۔ وکالت کا پیشہ ان کے مزاج سے میل نہ کھایا لہذا انہوں نے وکالت ترک کردی اور ’’امین دیوانی‘‘ کی ملازمت اختیار کرلی ۔ یہ کام بھی ان کے مزاج کے مطابق نہ تھا ۔ شبلی نے اسے بھی چھوڑ دیا اور 1882 ء میں وہ علی گڑھ چلے گئے یہیں پر سرسید احمد خان سے ان کی ملاقات ہوئی اور یہیں سے ان کی زندگی نے ایک نئی کروٹ لی
اور انہوں نے اپنی صلاحیتوں سے دنیا ادب میں ایک تاریخ بنائی ۔ مولانا شبلیؔ ادب کے ماہر شہ سوار تھے ۔ انہوں نے بے شمار کتابیں لکھیں ، سینکڑوں کی تعداد میں ان کے مضامین ہیں چونکہ ان کے تصانیف کی تعداد بہت زیادہ ہے ان کے چند مشہور تصانیف کے نام کچھ اس طرح ہیں ’’شعرالعجم‘‘ (5 جلدوں میں) ، ’’موازنہ انیس و دبیر‘‘ ’’الفاروق‘‘ ’’المامون‘‘ ’’سیرت النعمانی‘‘ ’’الغزالی‘‘ ’’سوانح مولانا روم‘‘ ’’علم الکلام‘‘ ’’الکلام‘‘ ’’الجزیہ‘‘ ’’فلسفہ اسلام‘‘ ’’سفر نامہ روم و شام و مصر‘‘ ’’حیات خسرو‘‘ ’’سیرت النبیؐ‘‘ ’’دیوان شبلی‘‘ وغیرہ ۔ علامہ شبلیؔ اپنی ذات میں ایک مکمل ادبی انجمن تھے ۔ انہوں نے 57 برس کی عمر میں تن تنہا ہی ایسے کارنامے انجام دیئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ ان کے ان ہی ادبی کارناموں سے متاثر ہو کر سلطان ترکی نے ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں ’’تمغہ مجیدی‘‘ کے پروقار اعزاز سے نوازا ۔
حکومت برطانیہ نے انہیں ’’شمس العلماء‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا ۔ یہاں پر اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ سرسید احمد خاں ، مولانا حالی ، مولانا شبلیؔ نعمانی اور شاعر مشرق علامہ اقبال جیسی ادبی شخصیتیں صدیوں میں ایک بار ہی پیدا ہوتی ہیں اور ادب میں اپنے ایسے انمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں جنھیں بھلایا نہیں جاسکتا ۔ جنگ بلقان میں جب ترکوں پر مصیبت آپڑی تو مولانا کے اندر کا انقلابی شاعر جاگ اٹھا اور انہوں نے ایک مرصع نظم لکھی جو بے حد مشہور ہوئی ۔ اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ کریں :
حکومت پر زوال آیا تو پھر نام و نشاں کب تک
چراغ تشنہ محفل سے اٹھے گا دھواں کب تک
یہ جوش انگیزی طوفان بیداد و بلانا کے
یہ لطف اندوزی ہنگامہ آہ و فغاں کب تک
یہ مانا تم کو تلواروں کی تیزی آزمانا ہے
ہماری گردنوں پر ہوگا اس کا امتحاں کب تک
کہاں تک لوگے ہم سے انتقام فتح ایوبی
دکھاؤگے ہمیں جنگ صلیبی کا سماں کب تک
بعض دانشوران ادب کا خیال ہے کہ علامہ شبلیؔ مورخ ، سیرت نگار ، محقق ، نقاد اور انشا پرداز ہیں ۔ اس کے مقابلے میں ان کی شاعری محض ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے ۔ شبلی کی شاعری کا ایک مخصوص انداز تھا مسلک اور موضؤع کے اعتبار سے بھی اور شاعرانہ اسلوب کے اعتبار سے بھی ۔ حالی اور اکبر دونوں ہی ان کے ہمعصر شعراء تھے دونوں کے محب وطن ہونے میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔ دونوں کی شاعری ادب میں ایک اعلی مقام رکھتی ہے ۔ لیکن علامہ شبلیؔ کی شاعری کے جو تیور ہیں وہ حالی کے یہاں ملتے ہیں اور نہ ہی اکبر الہ آبادی کے یہاں ملتے ہیں۔ اس سلسلہ میں سید وقار عظیم لکھتے ہیں ’’یہ آواز ایک صاحب بصیرت مورخ کی بھی ہے ۔ ایک حق پسند سیاسی مبصر کی بھی ہے اور ایک بے باک شاعر کی بھی ہے جس نے تاریخ اور سیاست کے حقائق کا مسلک اختیار کرنے کی تعلیم دی‘‘ ۔ شبلیؔ نعمانی کی ایک پُراثر نظم کے چند اشعار ملاحظہ کریں جس میں انہوں نے انگریزوں کو للکارتے ہوئے اپنے جذبات و احساسات کو لفظوں کا پیراہن کچھ اس انداز سے دیا ہے ۔
پہنائی جارہی ہیں عالمانِ دین کو زنجیریں
یہ زیور ’’سید سجاد‘‘ عالی کی وراثت ہے
یہی دس بیس اگر ہیں کشتگان خنجر اندازی
تو مجھ کو سستی بازوئے قاتل کی شکایت ہے
شہیدان وفا کے قطرہ خوں کام آئیں گے
عروسِ مسجد زیبا کو افشاں کی ضرورت ہے
عجب کیا ہے جو نوخیزوں نے سب سے پہلے جانیں دیں
کہ یہ بچے ان کوجلد سوجانے کی عادت ہے
علامہ شبلیؔ ہرفن مولا تھے انہوں نے اردو ادب کے تمام ہی اصناف میں طبع آزمائی کی اور اپنے مشاہدے اور تجربے کی مدد سے ادب عالیہ پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں ۔ ان کی تصانیف کی طرح ان کے مقالات بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔ انہوں نے علمی ادبی تنقیدی ، تاریخی ، تعلیمی ، فلسفیانہ اورمذہبی مقالات لکھے جو اردو ادب کا ایک قیمتی سرمیہ ہے ۔ ان کے تمام مقالات کو مولانا سلیمان ندوی نے 8 جلدوں میں موضوع کے لحاظ سے ترتیب دے کر شائع کردیا ۔ مقالات کے ساتھ ساتھ مولانا شبلیؔ کے مضامین بھی نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں ۔ اب بصیرت افروز مضامین کے مطالعہ سے نہ صرف مولانا کے ادبی ذوق اور تنقیدی شعور کا پتہ چلتا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ادبیات عالیہ کو پروان چڑھانے میں ان کی نظر کس قدر عمیق و گہری تھی ۔ مولانا شبلی آخری عمر میں ہرطرف سے یکسوئی حاصل کرکے سیرت النبیؐ کی تکمیل میں لگ گئے ۔ مگر عمر نے وفا نہ کی اور 1914 ء میں ان کی وفات ہوگئی ۔ وہ سیرت النبیؐ کی صرف دو جلدیں ہی مکمل کرسکے تھے بعد میں سید سلیمان ندوی نے اس کتاب کو مکمل کیا ۔ مولانا شبلی اور مولانا حالی کی وفات کا سال ایک ہی ہے ۔ آج علامہ شبلیؔ کو بھی ہم سے جدا ہوئے پورے سو برس ہوچکے ہیں ۔ آج ملک بھر میں مولانا حالی کی طرح مولانا شبلی کے نام پر بھی مختلف یونیورسٹیوں ، کالجوں اور اسکولوں میں سمینار ، سپوزیم اور مباحثے منعقد کرتے ہوئے انہیں بھرپور خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے ۔
مولانا شبلی ایک باکمال شخصیت کے مالک تھے ۔ شبلی نے تاریخ اور فلسفہ جیسے خشک موضوعات کو بھی مزیدار اور دلچسپ بناتے ہوئے اپنی فنی صلاحیتوں کا ثبوت دیا ہے ۔ وہ اپنے مفہوم اور مطلب کو واضح کرنے کیلئے عربی اور فارسی کے لفظوں سے بھی گریز نہیں کرتے تھے ۔ ان کی ہر تصنیف درجہ اول کے ادب میں شمار کی جاتی ہے ۔ مولانا شبلی کی طرز تحریر صاف ، رواں اور سادہ ہوا کرتی تھی جو ایک عام قاری کو بھی بڑی آسانی کے ساتھ سمجھ میں آتی ہے ۔
سرسید احمد خاں کے انتقالء کے بعد علامہ شبلیؔ نے علیگڑھ سے استعفیٰ دے دیا اور اعظم گڑھ چلے گئے ۔ پھر مولوی سید علی بلگرامی کے اسرار پر حیدرآباد آئے اور ناظم محکمہ تعلیمات کی حیثیت سے حیدرآباد میں تین چار سال تک قیام کیا ۔ اسی دوران انہوں نے الغزالی ، سوانح مولانا روم ، علم الکلام اور موازنہ انیس و دبیر جیسی تصانیف کو پہلی مرتبہ حیدرآباد سے ’’سلسلہ آصفیہ‘‘ کے تحت شائع کروایا ۔ حیدرآباد سے واپسی پر شبلی نعمانی ندوۃ العلماء کی ترقی کیلئے اپنے آپ کو وقف کردیا ۔ 1913 میں لوگوں کی تنگ نظری اور تعصب پسندی سے تنگ آکر ندوۃ العلماء کو خیرباد کیا اور اپنے وطن اعظم گڑھ آکر دارالمصنفین کی بنیاد ڈالی ۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ عمدہ مصنفوں کی ایک جماعت تیار ہوجائے ۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے اپنی جائیداد تک بیچ ڈالی ۔ علامہ شبلیؔ کی ان تمام باتوں کو ضبط تحریر میں لانے کا ایک ہی مقصد ہے کہ شبلی نے اپنی قوم کیلئے جو کارنامے انجام دیئے ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں ۔ شبلی اور حالی کو نہ تو نام اور نمود سے مطلب تھا اور نہ ہی شہرت کا لالچ ۔
ان لوگوں کی دیانتداری ، ایمانداری اور قوم پرستی کے بارے میں پڑھ کر ہمیں ایک فخر سا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری قوم کے سچے رہبر و رہنما ، شبلی اور حالی جیسے قلندر صنف انسان تھے ۔ آج ہم نے جو کچھ بھی ترقی کی ہے اپنی زبان کیلئے اور اپنی قوم کیلئے یہ ان ہی حضرات کی وجہ سے ممکن ہوسکی ورنہ آج تو ادب میں گندگی اور لالچ کے عناصر اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ انہیں دیکھ کر جی گھبرانے لگتا ہے ۔ آج کا مصنف اپنے نام اور شہرت کی خاطر نہ صرف اردو ادب کا استحصال کرتا ہے بلکہ یہ ادب کی آڑ میں اپنی قوم کا سودا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اردو کے ساتھ ساتھ علامہ شبلیؔ نعمانی کو فارسی اور عربی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا لیکن شبلی کی پہلی ترجیح اردو زبان تھی ، شبلی کواردو سے بے انتہا محبت تھی ۔ ان کی بیشتر کتابیں اردو میں ہی شائع ہوئی ہیں ۔ شبلی کو سرسید اور مولانا حالی سے بڑی عقیدت تھی ۔ انہوں نے اس بات کا تذکرہ اپنے مضامین میں بھی کیا ہے ۔ شبلی کو ہم بجا طور پر محسن اردو ادب اور نقیب ملت کہہ سکتے ہیں ۔ علامہ شبلیؔ نعمانی جیسی عظیم شخصیت پر لکھنے بیٹھیں تو درجنوں صفحات بھی کم پڑجائیں گے ان کے بے شمار کارناموں کو بیان کرنے لے تو لفظ کم پڑجائیں گے ۔ دنیا میں ان ہی لوگوں کا نام زندہ رہتا ہے جو اپنی قوم اور مادری زبان کیلئے کچھ کرکے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں ۔
علامہ شبلیؔ نے صرف 19برس کی عمر میں حج بیت اللہ سے فراغت حاصل کی تھی ۔ مولانا شبلیؔ نے آخری سانس تک قلم سے اپنا رشتہ قائم رکھا اور جب وہ موت کی آغوش میں چلے گئے تبھی قلم ان کے ہاتھوں سے چھوٹا ۔ اس موقع پر کسی شاعر کا یہ شعر یاد آرہا ہے ۔
ہر انقلاب کی سرخی انہیں کے افسانے
حیات دہر کا حاصل ہیں چند دیوانے
No comments:
Post a Comment