Wednesday, 7 January 2015

مرد و عورت کی نماز کا فرق

جمہور علماء خصوصا ائمہ اربعہ کا اس مسئلہ میں اتفاق ہے کہ عورتوں ومردوں کی نماز میں بعض امور میں فرق ہے....
حضرات فقہاء نے احادیث شریفہ و آثار صحابہ وغیرہ کو سامنے رکھ کر عورت اور مرد کی نماز کی کیفیت میں پچیس باتوں میں فرق رکھا ہے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے.
۱) عورت تکبیر تحریمہ میں صرف کندھوں تک ہاتھ اٹھائےگی جبکہ مرد کو کان کی لو تک ہاتھ اٹھانے کا حکم ہے.
۲) عورت دوپٹہ اور چادر کے اندر سے ہاتھ اٹھائے گی جبکہ مرد کے لئے ہاتھ کو باہر نکال کر رفع یدین کرنے کا حکم ہے.
۳) عورت اپنے سینہ پر ہاتھ رکھےگی جبکہ مرد کے لئے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کا حکم ہے.
۴) عورت رکوع میں معمولی سا جھکےگی.جبکہ مرد کے لئے اچھی طرح سے جھکنے کا حکم ہے.
۵) عورت رکوع میں گھٹنوں پر حلقہ نہیں بنائےگی.جبکہ مرد کے لئے با قاعدہ ہاتھ سے گھٹنوں کو پکڑ کر حلقہ بنانے کا حکم ہے.(مراقی الفلاح ۲۸۲)
۶) عورت گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے وقت انگلیاں ملائے رکھےگی. جبکہ مرد کے لئے اس وقت انگلیاں کھولنے کا حکم ہے.(ھندیہ ۱/۷۴)
۷) عورت رکوع میں گھٹنوں پر صرف ہاتھ رکھےگی جبکہ مرد کے کئے گھٹنوں کو پکڑنے کا حکم ہے.(ھندیہ ۱/۷۴)
۸) عورت رکوع میں گھٹنوں کو ذرا خم دےگی جبکہ مرد کے لئے گھٹنوں کو خم دینا منع ہے.(عالمگیری ۱/۷۴)
۹) عورت رکوع اور سجدے میں سمٹ کر رہے گی جبکہ مرد کے لئے ہر عضو کو الگ الگ رکھنے کا حکم ہے.(ھدایہ ۱/۱۰)
۱۰) عورت سجدے میں اپنی کہنیوں کو بچھا کر رکھےگی جب کہ مرد کے کئے کہنیوں کو اٹھا کر رکھنے کا حکم ہے.
(بدائع الصنائع ۱/۴۹۴)
۱۱) عورت تشہد میں "تورک" کرےگی یعنی دونوں پیر دائیں جانب نکال کر بیٹھےگی جبکی مرد کے لئے دایاں پیر کھڑا کرکے بائیں پیر پر بیٹھنا مسنون ہے.
(ھدایہ ۱/۱۱۱، شرح وقایہ ۱/۱۴۸)
۱۲) عورت تشھد کے وقت اپنی انگلیاں ملا کر رکھےگی جبکہ مرد کے لئے انگلیاں اپنے حال پر رکھنے کا حکم ہے.
۱۳) اگر جماعت میں کوئی بات پیش آئے تو عورت الٹے ہاتھ سے تالی بجا کر متوجہ کرےگی جبکہ مرد کے لئے ایسی صورت میں بآواز بلند تسبیح وتکبیر کا حکم ہے.
۱۴) عورت کے لئے کسی مرد کی امامت جائز نہیں جبکہ مرد کے لئے عورتوں کی امامت جائز ہے (طحطاوی ۲۸۸)
۱۵) صرف عورتوں کی جماعت مکروہ ہے جبکہ مردوں کی جماعت پسندیدہ اور مسنون ہے (شامی ۲/۳۰۶)
۱۶) اگر عورتیں اپنی جماعت کریں تو ان کی امام صف ہی کے اندر بیچ ہی میں کھڑی ہوگی جبکہ مرد امام کے لئے آگے کھڑے ہونے کا حکم ہے (شامی ۲/۳۰۶)
۱۷) عورت کے لئے جماعت میں شرکت نا پسندیدہ ہے جبکہ مردوں کے لئےجماعت سنت مؤکدہ ہے (مراقی افلاح مع الطحطاوی ۳۰۴)
۱۸)اگر عورتیں جماعت میں شریک ہوں تو ان کو مردوں کے پیچھے کھڑا ہونا ضروری ہے جبکہ مردوں کے لئے آگے کھڑے ہونے کا حکم ہے(مراقی الفلاح ۳۰۶)
۱۹) عورتوں پر جمعہ فرض نہیں جبکہ مردوں پر لازمی ہے (مراقی الفلاح ۵۰۳)
۲۰) عورتوں پر عید کی نماز واجب نہیں جبکہ مردوں پر لازم ہے (شامی ۳/۲۸)
۲۱) عورتوں کے لئے فجر کی نماز اسفار(روشنی) میں پڑھنا مستحب نہیں (بلکہ انھیں اول وقت فجر کی نماز پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے) جبکہ مردوں کے لئے اسفار میں پڑھنا افضل ہےـ
۲۲) جھری نماز میں عورتوں کے لئے جھر جائز نہیں جبکہ مردوں کے لئے جھر جائز ہے اور امام کے لئے واجب ہے.
۲۳) عورت کے لئے رکوع میں اپنے دونوں ٹخنوں کو ملانا مسنون ہے جبکہ مرد کے لئے دونوں ٹخنوں کے درمیان چار انگل کا فاصلہ رکھنا افضل ہےـ
۲۴) عورت کے لئے سجدہ میں دونوں قدم کھڑے کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ وہ بیٹھے بیٹھے زمین سے چمٹ کر سجدہ کرےگی جبکہ مرد کے لئے دونوں پیروں کو کھڑا کرکے انگلیوں کو قبلہ رخ کرنے کا حکم ہے ـ
(مستفاد شامی ۲/۲۱، بدائع الصنائع ۱/۴۹۴، از کتاب الفتاوی ۱/۳۳۶)
  اب آئیے احادیث و آثار پر غور کرتے ہیں.
عن یزید بن ابی حبیب ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرّ علی امرأتین تصلیان فقال اذا سجدتما فضما بعض اللحم الی الارض فان المرأہ لیست فی ذاک کالرجل (مراسل ابی داؤد)
حضرت یزید ابن ابی حبیب سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دو عورتوں پر سے گذر ہوا جو نماز پڑھ رہی تھی آپ نے فرمایا کہ جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا بعض حصہ زمین سے ملا لیا کرو کیونکہ عورت اس میں مرد کی طرح نہیں ہے..
اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مرد وعورت کی نماز میں فرق ہے.
خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت فرمادی کہ "عورت اس بارے میں مرد کی طرح نہیں"
یہ روایت اگر چہ صحابی کا واسطہ مذکور نہ ہونے کی وجہ سے مرسل ہے لیکن مرسل حدیث جمہور علماء وائمہ کے نزدیک مقبول ہے..
دوسری روایت کنز العمال کی ہے جو حضرت عبد اللہ بن عمر رض سے مروی ہے.
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ایک ران دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو پیٹ کو رانوں سے ملا لیا کرے اس طرح کہ زیادہ سے زیادہ پردہ ہوجائے کیونکہ اللہ تعالی اس کو دیکھتا ہے.......
(کنز العمال  حدیث نمبر ۲۰۱۹۹)
اور یہ حدیث تو مشہور ہے
عن عائشہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یقبل اللہ صلوة حائض الا بخمار
(ترمذی ۱/۵۲، ابو داؤد ۱/۹۴)
یہ حدیث بھی صاف بتلا رہی ہے کہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے اللہ تعالی قبول نہیں کرےگا.
حالانکہ مرد کے لئے یہ حکم نہیں.بلکہ علماء نے اسی حدیث کی روشنی میں فرمایا کہ عورت كا پورا بدن (سوائے چہرہ وہتھیلیوں کے)مستور وپوشیدہ ہونا چاہئے ورنہ نماز نہیں ہوتی.....
اور بہت سی احادیث ہیں جس سے مرد وعورت کی نماز میں فرق معلوم ہوتا ہے
          دیکھئے
بخاری شریف ۱/۱۶۰، مسلم شریف ۱/۱۸۲، ابو داؤد ۱/۸۴، مجمع الزوائد /۱۵۵)
نیز آثار صحابہ میں بھی کثیر روایتں مذکور ہیں.
عن عباس انہ سئل عن صلوةالمرأة فقال تجتمع وتحتفز (ابن ابی شیبة ۱/۲۴۱)
حضرت ابن عباس رض سے پوچھا گیا کہ عورت کی نماز کیسی ہوتی ہے؟ تو فرمایا کہ وہ سمٹ کر نماز پڑھے.....
حضرت علی رض نے فرمایا کہ جب عورت سجدہ کرے تو اس کو چاہئے کہ سرین کے بل بیٹھے اور اپنے پیٹ سے رانوں کو ملائے رکھے.
اذا سجدت المرأہ فلتحتفز ولتلتصق فخذیھا ببطنھا (مصنف عبد الرزاق ۳/۱۳۸، ابن ابی شیبہ ۱/۲۴۱، سنن بیہقی ۲/۲۲۲)
علامہ ظفر احمد عثمانی نے اس روایت کو راویوں پر کلام کرکے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے.
(ماخوذ از فیض السماء فی احکام صلوة النساء ص ۸ سے)
لھذا اتنی ساری حدیثوں وآثاروں کے صراحتا مذکور ہونے کے باوجود نام نھاد اہل حدیث کا یہ کہنا کہ "سنت نبوی میں ایسی کوئی چیز وارد نہیں جس سے مرد وعورت کی نماز میں فرق ہو" محض حدیث رسول کے خلاف دھاندلی ہے اور حدیث رسول و آثار صحابہ کو ٹھکرانے کا خوبصورت بہانہ ہے.
اگر سنت نبوی میں کوئی چیز وارد نہ ہوتی تو ائمہ اربعہ وجمہور محدثین و فقہاء اس پر کیوں متفق ہوتے؟؟؟
  
ٹھیک ہے ہمیں جانے دو آپ ہمیں مانتے بھی کہاں ہو. خود آپ ہی کے غیر مقلد مشہور عالم نواب وحید الزماں کی تو مان لو.
ملاحظہ ہو ان کی کنز الحقائق ص۲۳ کی عبارت.
وصلوہ المرأة کصلوة الرجل غیر انھا ترفع یدیھا الی ثدیھا عند التحریم ولا تخوی فی السجود بل تخفض وتلصق وتضم بطنہ بفخذیھا.
یعنی عورت کی نماز مردوں کی طرح ہوتی ہے مگر عورت تحریمہ کے وقت اپنے دونوں ہاتھ پستانوں تک اٹھائیگی اور سجدہ میں اپنا پیٹ زمین سے دور نہیں رکھے گی بلکہ جھک کر. اور اپنے پیٹ کو دونوں رانوں سے ملا کر سجدہ کرےگی.........
بندہ کا خیال ہے کہ سارے غیر مقلدین بھی تعصب کی عینک اتار کر احادیث وآثار کا مطالعہ کریں گے تو بہت ممکن ہے کہ
وہ بھی مرد و عورت کی نماز میں فرق کے قائل ہو جائیگے جیسے کہ نواب صاحب نے(تھوڑی دیر کے لئے ہی سھی)
تعصب کا چشمہ اتار دئے ہیں ..
(ماخوذ از غیر مقلدین کے اعتراضات حقیقت کے آئینہ میں ۴۲۵ مفتی شوکت صاحب قاسمی مد ظلہ)
خلاصہ یہ نکلا کہ مرد وعورت کی نماز میں فرق ہے جس کو عقل سلیم بھی تسلیم کرتی ہے.
واللہ تعالی اعلم

 سوال
ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ
ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﯾﮧ
ﺣﺪﯾﺚ ﺑﮭﯽ ﻧﻘﻞ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ
ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﺎ ﻣﻔﮩﻮﻡ ﮨﮯ
ﮐﮧ ” ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ
ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﮐﺎ ﺩﺭﺟﮧ ﺭﮐﮭﺘﮯ “ﮟﯿﮨ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺟﮩﺎﮞ
ﺗﮏ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﻋﻠﻢ ﮨﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﺻﺤﯿﺢ
ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﻮﺍﻝ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﯾﺴﺎ
ﮐﮩﻨﺎ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ؟ ﺑﺮﺍﮦ ﮐﺮﻡ، ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﮐﯽ
ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ۔
ﺷﮑﺮﯾﮧ

جواب
ﻏﯿﺮ ﻧﺒﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﯽ ’ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ‘ ﮐﺎ
ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ﻣﯿﮟ
ﺳﮯ ﺑﻌﺾ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﮐﻮ ﻣﺜﻞ ﻧﺒﯽ ﻣﻌﺼﻮﻡ،
ﻣﻔﺘﺮﺽ ﺍﻟﻄﺎﻋﮧ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ
ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻣﺎﻡ ﯾﺎ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ،
ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﺳﻮﺍﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺝ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺻﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﻣﻼ
ﻋﻠﯽ ﻗﺎﺭﯼ ﻧﮯ ﺍﻟﻤﻮﺿﻮﻋﺎﺕ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ
ﮐﯽ ﺻﺮﺍﺣﺖ ﮐﯽ :ﮯﮨ ﻗﺎﻝ ﺍﻟﻤﻼ ﻋﻠﻲ
:ﻱﺭﺎﻘﻟﺍ ﺣﺪﯾﺚ ”ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺃﻣﺘﻲ ﮐﺄﻧﺒﯿﺎﺀ ﺑﻨﻲ
“ﻞﯿﺋﺍﺮﺳﺇ ﻗﺎﻝ :ﻲﻧﻼﻘﺴﻌﻟﺍﻭ ﻱﺮﯿﻣﺪﻟﺍ ﻻ
ﺃﺻﻞ ﻟﮧ ﻭﮐﺬﺍ ﻗﺎﻝ ﺍﻟﺰﺭﮐﺸﻲ، ﻭﺳﮑﺖ ﻋﻨﮧ
ﺍﻟﺴﯿﻮﻃﻲ ‏( :ﯼﺮﺒﮑﻟﺍ ﺕﺎﻋﻮﺿﻮﻤﻟﺍ ۹۵۱، ﺭﻗﻢ
:ﺚﯾﺪﺤﻟﺍ ۴۱۶‏)
ﻭﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﻋﻠﻢ
ﺩﺍﺭﺍﻻﻓﺘﺎﺀ، ﺩﺍﺭﺍﻟﻌﻠﻮﻡ ﺩﯾﻮﺑﻨﺪ

No comments:

Post a Comment