اودھنامہ میں شائع اہانت آمیز خاکہ قصدا اور کسی ناپاک منصوبے کا حصہ ہے
میرے کچھ صحافی دوستوں کا کی رائے ہے کہ روزنامہ اودھنامہ کے ممبئی ایڈیشن کی خاتون صحافیہ شیریں دلوی کا موجودہ گستاخی رسول ﷺ کا معاملہ محض سہوہے اس لئے اسے معاف کردینا چاہئے ۔لیکن مجھے ان کی اس رائے سے سخت اختلاف ہے ۔چونکہ میں بھی اس اخبارکے ممبئی ایڈیشن سے مذکورہ واقعہ سے ایک دن پہلے تک وابستہ تھا اس لئے میں اس بات کا گواہ ہوں کہ یہ سہواً سرزد ہونے والا واقعہ نہیں ہے ۔اس فعل قبیح کو جان بوجھ کر انجام دیا گیا ہے ۔جو لوگ اسے سہواً ہونے والی بھول مان رہے ہیں ۔وہ یا تو اس خاتون اس کے افکار و خیالات اور اس کے گروہ سے واقف نہیں ہیں یا پھر وہ بھی کہیں نہ کہیں نام نہاد روشن خیالی کے مرض میں مبتلاء ہیں جس میں آج دنیا کا تعلیم یافتہ انسان ہے۔غلطی سے کسی کام کے ہوجانے کا مطلب ہے کہ اس پہ انسان کو شرمندگی ہو ۔لیکن یہاں معاملہ غلطی کے جواز تلاشنے اور اس پر اکڑنے کا بھی ہے جو کہ ذیل کے کچھ امور پر دھیان دینے معلوم ہو جائے گا۔بہتر ہوگا کہ موجودہ اہانت آمیز کارٹون کی اشاعت میں سچائی پرکھنے اور اس کے بارے میں بیان کرنے سے پہلے کچھ اس اخبار کے تعلق سے بھی بات سامنے لائی جائے تاکہ جو لوگ اس اخبار سے انجان تھے وہ معاملے کو اچھی طرح جان لیں۔
اودھنامہ ممبئی کااجراء ایک بڑے اردو اخبار کے مد مقابل کے طور پر ہوا تھا ۔اس کی اشاعت کے لئے ایک کمپنی مریک میڈیا کے نام سے بنائی گئی تھی جس کے چار ڈائریکٹر ہیں(ہیں کا لفظ اس لئے لکھ رہا ہوں کیوں کہ ابھی تک وہ کمپنی اور اس کے ڈائریکٹر قانونی طور پر موجود ہیں اس کمپنی کو تحلیل نہیں کیا گیا ہے ) جس میں سے ایک ڈائریکٹر یونس صدیقی کو اخبار ھذا کا پرنٹر پبلشر بنایا گیا تھا۔اخبار کی حالیہ اشاعت تک اس کی پرنٹ لائن میں یونس صدیقی کا ہی نام بطور پرنٹر پبلشر آرہا ہے تھا ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ دفتر کی جگہ کے تبادلے کے بعد اودھنامہ کی انتظامیہ سے یونس صدیقی کا کوئی تعلق نہیں تھا ۔ایک اطلاع کے مطابق انہوں نے استعفیٰ بھی دے دیا تھا ۔لیکن پتہ نہیں کیوں ان کا نام پرنٹر پبلشر کی حیثیت سے باقی رکھا گیا ۔باقی ایک اور ڈائریکٹر امیت کبرے کا بھی اس کمپنی سے کوئی تعلق نہیں ۔موجودہ مرحلہ میں اس اخبار سے دو لوگ ہی بطور ڈائریکٹر وابستہ ہیں ۔یہ دونوں دیپک مہاترے اور بھوشن مہاترے سگے بھائی ہیں ۔اور ان کی ایک اور کمپنی پریزم کے نام سے ہے ۔جو ان کے اپنے قول کے مطابق چودہ اخبارات کے لئے اشتہارات حاصل کرنے والی اشتہاری ایجنسی ہے ۔ اودھنامہ سے میں بھی اس اہانت آمیز کارٹون کی اشاعت سے ایک دن پہلے تک وابستہ تھا ۔اس لئے میں اس بات پر روشنی ڈال سکتا ہوں کہ مجھے کیوں لگتا ہے کہ یہ ایک دانستہ حرکت ہے اور کیوں اس میں ایک ناپاک منصبوبہ بندی کی بو محسوس ہوتی ہے ۔
اودھنامہ لکھنو سے سمجھوتہ کے مطابق انہیں ہر ماہ ایک خاص رقم اصل مالک کو دینا طے ہوا تھا۔ اس کے علاوہ اگر اخبار بند کرنا ہو تب بھی انہیں ایک خطیر رقم اخبار کی مالک کو دے کر ہی اس سے علیحدگی اختیار کرسکتے تھے ۔اخبار کااجراء تو بڑے شاندار طریقہ سے ہوا لیکن اس میں چار ڈائریکٹروں نے جو آپس میں طے کیا تھا اس پر اس میں سے کوئی کھرا نہیں اترا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ اخبار جلد ہی اپنی جاذبیت اور مقبولیت کھوتا چلاگیا۔پھر ایک وقت آیا جب موجودہ ڈائریکٹر (دیپک مہاترے اور بھوشن مہاترے)جلد بازی میں پرانی جگہ سے دفتر اودھنامہ کو منتقل کر لے گئے ۔ان کا خیال تھا کہ یہاں عملہ کو کم کرکے اخبار کے اخراجات کو کنٹرول کرکے منافع کمائیں گے ۔لیکن بد قسمتی سے یہاں انہوں نے ایڈیٹر ایک انتہائی نا تجربہ کار اور جھگڑالو قسم کی خاتون شیریں دلوی کو بنالیا ۔یہ پوچھے جانے پر اس خاتون میں ایسی کیا خوبی ہے کہ اسے آپ نے ایڈیٹر بنادیا ۔جواب تھا ان کی وجہ سے اشتہار لینے میں آسانی ہوتی ہے یا آسانی سے اشتہار مل جاتا ہے ۔یہ بھی اردو اخبار کی بد قسمتی ہو چکی ہے کہ اب ایڈیٹر سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اخبار کے لئے اشتہار وغیرہ حاصل کرنے میں معاون بنے گا۔بہر حال پتہ نہیں تسلیمہ نسرین کی راہ کی مسافر اس ایڈیٹر کی مدد سے اخبار کو کتنا اشتہار ملا ۔لیکن کچھ دنوں بعد ہی دفتر کے ماحول میں ناخوشگواریت کا احساس ہونے لگا۔انہوں نے ایک سب ایڈیٹر سے انتہائی بد تمیزی سے گفتگو کی ،انداز ان کا انتہائی تحکمانہ تھا ۔لیکن سب ایڈیٹر نے تحمل سے کام لے کر معاملہ کو رفع دفع کرنے کی راہ ہموار کی۔اسی معاملے کی میٹنگ میں ڈائریکٹر نے کہا کہ ایڈیٹر جو کہے وہ کرو ،وہ اگر بھینس کو گدھا لکھنے کو بولے تو لکھو خبروں اور اخبار کے سارے مشمولات کی ذمہ داری ایڈیٹر کی ہے۔خیر معاملہ آیا گیا ہو گیا ۔
تنخواہ میں مسلسل تاخیر اور اس پر بے توجہی کے سبب ایک دن سارے اسٹاف نے کام نہیں کیا نتیجہ جیسے تیسے کہیں اور سے کٹ پیسٹ کرکے نکل پایا۔پھرایک دن اسٹاف کو ایک نوٹس تھمادیا گیا کہ ۱۵؍جنوری سے دفتر ممبرا منتقل ہو رہا ہے۔جس سے کئی کارکن سخت ناراض ہو ئے کیوں کہ یہ اسٹاف کو کم کرنے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ بتایا۔دس یا گیارہ جنوری کو میٹنگ میں یہ بات بتائی گئی کہ دفتر۲۶؍جنوری کے بعد منتقل ہوگا اور تنخواہ کا معاملہ اسی طرح رہے گاجسے ہمارے ساتھ چلنا ہے انہی حالات میں چلنا ہوگا ۔مجھ سمیت کئی اور اسٹاف ممبر نے کہا کہ ممبرا جانا ممکن نہیں ہے آپ حساب کرکے ہماری چھٹی کریں ۔اس میٹنگ میں ایک بات دیپک مہاترے نے یہ کہی کہ پروڈکٹ (اخبار) کو کامیابی نہیں مل رہی ہے اس لئے ہم لوگ کچھ ایسا کرنے والے ہیں جس سے اخبار کو مقبولیت یا کامیابی ملے ۔یہ کہنا بھی اس طر ف اشارہ کررہا ہے کہ کارٹون شائع کرنا ہی شاید وہ نیا اور بڑا کام تھا جس سے اخبار کو مقبولیت ملنی تھی۔۱۶؍جنوری کو مجھے ایس ایم ایس کیا گیا کہ آپ چاہیں تو آج ہی سے نہ آئیں آپ کی تنخواہ ۲۴؍جنوری کو مل جائے گی ۔اسی روز رات میں کارٹون والا معاملہ ہوا جسے وہاں موجود حسین ساحل نے روکا لیکن تسلیمہ نسرین کی ہم خیال ایڈیٹر نے انہیں کہا کہ ہمیں تھوڑا براڈ مائنڈیڈ ہونا چاہئے ۔کئی دوسرے لوگوں نے اور وہاں موجود اسٹاف نے بھی یہ بات کہی کہ اگر اس دن اخبار کے دفتر میں پرویز شیخ نیوز ایڈیٹر ،مولانا نسیم احمد ڈی پی آپریٹر اورنہال صغیر موجود ہوتے تو مسلمانوں اور خاص طور سے اردو اخباروں کے سر پر یہ کلنک نہیں لگ پاتا ۔لیکن شاید اس بڑے کام کے لئے جس سے اخبار کی اشاعت اور اس کی مقبولیت میں چارلی ہیبڈو کی طرح اضافہ ہو جائے جیسے مکروہ کام کے لئے یہ ضروری تھا کہ ان تینوں کو کسی نہ کسی بہانے اخبار کے دفتر میں آنے سے روکا جائے ۔دوسرے دن شیریں دلوی نے انگریزی اخبار کو بیان دیتے ہوئے یہ قبول کیا کہ اس نے ہی یہ سب کیا ہے ۔واقعہ سے تیسرے دن اپنی دریدہ دہنی کے جواز میں اس نے اپنے ایک ہمنوا ایڈیٹر جو کہ ایک اخبار کے مالک بھی ہیں دو میل کرکے یہ واضح کیا کہ کارٹون صرف اس گستاخ ملعون نے ہی نہیں بلکہ پانچ اور اخبارات اور میگزین کے ای ایڈیشن نے شائع کیا ہے ۔یعنی گناہ کا جواز بھی تلاش کررہی ہے کہ ان سارے نے کیا ہے تو میں نے کیا تو کیاگناہ کیا۔یہ سارے واقعات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ مذکورہ اردو اخبار میں کارٹون اس کی براڈ مائنڈیڈ ایڈیٹر نے دانستہ شائع کیا ہے اور اس کی پوری منصوبہ بندی ہوئی ہے ۔ جس سے ایڈیٹر سمیت اس کے دونوں موجودہ ڈائریکٹر کے مالی مفاد بھی وابستہ ہیں۔اس کی تفتیش بھی ضروری ہے کہ سرمایہ دینے والا کون اس کھیل کے پیچھے ہے۔مذکورہ ذلیل حرکت سے یقینااخبار کو فائدہ ہوتا اگر وہ اردو کا نہیں ہوتا ۔لیکن ان ملعونوں کی بد قسمتی یہ رہی کہ اردو پوری طرح مسلمانوں کی زبان بن چکی ہے وہی اسے پڑھتے پڑھاتے ہیں ۔اردو اخبار بھی مسلمانوں کے علاوہ شاید دس بیس لوگ غیر مسلم پڑھتے ہوں گے ۔بقول ایک خدا بیزار گروپ سے تعلق رکھنے والے ادیب کے جوجب موقع ملا اسلام اور شعائر اسلام پر حملہ کرنے سے نہیں چوکتے ’’اردو کے جو رہے سہے قاری ہیں وہ میونسپل اردو اسکولوں کے بعد ملاؤں کے مدرسوں ہی کی ٹکسال سے ڈھل کر آتے ہیں ۔اسکولوں سے پہلے ہی اردو اٹھتی جارہی ہے ،وہ نزع کا سنبھالا بھی لے گی تو ان ملاؤں کے ہاتھوں میں ‘‘۔ آؤ اخبار پڑھیں !اردو اخبار(نیا ورق شمارہ انچالیس)
مذکورہ اہانت آمیز کارٹون معاملے میں مسلمانوں میں اضطراب ہے ۔عام مسلمانوں نے بڑے صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا ۔کوئی سڑک پر نہیں اترا ۔لوگوں نے کئی تھانوں میں ایف آئی آر درج کرائیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولس نے جرات مندانہ اقدام اس لئے نہیں اٹھایا کیوں کہ مسلمان سڑکوں پر نہیں آئے ۔جس اس نے بزعم خود یہ سمجھ لیا کہ مسلمانوں میں اس معاملے میں کوئی خاص اضطراب نہیں ہے۔اس سے عام لوگوں میں یہ احساس جاگے گا کہ پولس اور انتظامیہ پر دباؤ بنانے کے لئے اور بروقت کارروائی کے جواز کے لئے شاید تشدد ہی واحد راستہ ہے ۔یعنی ملک ،ریاست یا کسی شہر میں تشدد کی واحد وجہ پولس انظامیہ کی عدم توجہی اور اور اپنے فرائض کے تئیں مجرمانہ غفلت ہی ہے ۔یہی سبب ہے کہ مذکورہ اخبار کی براڈ مائنڈیڈ ایڈیٹر کو بنام تفتیش چھوٹ دی گئی اور گرفتاری سے اسے بچایا گیا تاکہ وہ اپنی ضمانت کا انتظام کرلے یا اس کے وہ ہمدرد جو مسلمانوں میں موجود ہیں انہیں ان کی مدد کرنے کا وقت مل جائے ۔اب جو لوگ اس معاملے میں قانونی کارروائی کے لئے آگے آئے ہیں ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس معاملے کو قانونی طور پر اپنے انجام تک پہنچائیں ۔
نہال صغیر،ممبئی ۔ موبائل: 9987309013
--
http://sagheernehal.blogspot.com
No comments:
Post a Comment