Wednesday, 5 November 2025

مداریوں کے میلے میں اہلِ بہار کی پہچان

مداریوں کے میلے میں اہلِ بہار کی پہچان

-------------------------------
-------------------------------

بہار اسمبلی انتخابات 2025ء کی ہمہ ہمی ،زور و شور، اور ہنگامہ خیزی زوروں پر ہے، جمہوریت کے ایوانوں میں آج شور تو بہت ہے، مگر شعور عنقا! سیاست، جو کبھی خدمت کا پیکر تھی، اب "کرتب بازی" کا نام بن چکی ہے۔ اقتدار کے مندر میں ضمیر نہیں؛ بلکہ مفاد کی مورتی پوجی جا رہی ہے، جہاں کل ایمان تھا، وہاں آج امکان ہے؛ جہاں کل اصول تھے، وہاں آج مفاد وحصول ہے۔ ۹ دسمبر ۲۰۱۹ء کا وہ دن یاد کیجئے جب ہندستان کے گنگا جمنی آئین کے سینے پر شہریت ترمیم بل کے خنجر سے پہلا زخم لگایا گیا، یہ قانون نہیں، آئین کی روح پر کاری وار تھا؛ انصاف نہیں، عددی برتری کی قوت کا مظاہرہ تھا۔ راجیہ سبھا نے بھی سر جھکا دیا، صدر کے قلم نے بھی مہر ثبت کردی، اور یوں عددی برتری کے سہارے جمہوریت کے تابوت پر آخری کیل ٹھونکی گئی۔ مگر اس ملک کے عوام کی رگوں میں ابھی ضمیر کی حرارت باقی تھی۔ شاہین باغ سے علی گڑھ، دہلی سے دیوبند تک عوام کے دل دھڑک اٹھے۔ عورتوں نے حجابوں کو عَلَم بنا دیا، طلبہ نے علم کو احتجاج میں بدل دیا۔ اُس وقت بِہار کے "تختِ پُربَہار"  پر جلوہ افروز ہمارے سیاسی مردِ فطانت، جناب نتیش کمار؛ المعروف پلٹو رام صاحب ، نے اپنی سہ مخصوص کرامت دکھائی، جن میں وہ لاثانی ہیں، جہاں ہوا چلی، وہاں رخ موڑ لیا۔ ان کے اصول اتنے لچک دار ہیں کہ ہوا بھی رخ بدلنے سے گھبرا جائے، اور ان کا ضمیر اتنا ہمہ رنگ ہے کہ گرجا، مندر، مسجد سب میں بآسانی فٹ بیٹھ جائے!

کیا کہنے ہیں ان کے تدبر کے! 

کوئی جواب ہی نہیں ہے ان کے ابن الوقتی کے. کبھی فسطائیت کے دست وبازو بنتے ہیں تو اگلے ہی روز سیکولرزم کے علمبردار بھی ہوجاتے ہیں۔ پھرکسی نئے چراغ کے نیچے ایمان تازہ کرتے بھی نظر آنے لگتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر میرؔ کا شعر بے ساختہ لبوں پر آجاتا ہے:

میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب

اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

تازہ تماشہ دیکھئے!

سال رواں اکثریت کے نشے میں ایک اور کھیل رچایا گیا،وقف ترمیمی قانون کو دونوں ایوانوں سے منظور کروالیا گیا۔ یعنی وہ وقف جو اصلاً صدقۂ جاریہ اور قوم کی امانت تھا، آج اقتدار کے تلوے تلے آ گیا ہے۔ قانون کی آڑ میں خیرات پر قبضے وتسلط کی پوری تیاری ہے،اور اوقاف کی روح کو سرکاری زنجیروں میں جکڑنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ یہ ترمیم نہیں، خیرات وامانت پر حکمرانی یلغار ہے؛ یہ پیش رفت نہیں، پسپائی کا اعلان ہے۔

اہلِ بہار! ہوشیار باش! 

انتخاب کی گھڑی آن پہنچی ہے،اصلاح وتبدیلی کا وقت بالکل سامنے ہے۔ نوع بہ نوع کے مداری پھر سے میدان میں اتر آئے ہیں ، نئے چولوں ،دلفریب نعروں، پرانے وعدوں اور حسین وچمکدار خوابوں کے ساتھ۔ ترقی کے سبز باغ پھر سج گئے ہیں، مگر زمین وہی بنجر ہے۔ کل (6 نومبر 2025) انتخاب کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے یاد رکھئے! ووٹ محض ایک پرچی یا بٹن دبانے کا نام نہیں، یہ ضمیر کا اعلان ہے۔ یہ امانت ہے، اور امانت میں خیانت سب سے بڑا جرم ہے۔ اگر آپ نے الفاظ کے فریبِ  میں آکر اپنے ضمیر کی صدا کو دبایا، تو تاریخ آپ کو معاف نہیں کرے گی۔ اس بار ووٹ اسے دیجئے جو دلوں کو جوڑتا ہو، زبانوں کو نہیں توڑتا؛ جو انسانیت کی بات کرے، نفرت کے منتر نہ پڑھے؛ جو وعدہ کرے تو وفا کا بوجھ اٹھائے،نہ کہ اقتدار کی کرسی دیکھ کر اپنی سمت بدل ڈالے۔

یاد رکھئے!

یہ "پلٹو سیاست" بہار کی پہچان نہ بننے دیجئے۔ قوموں کی عزت اصول سے بنتی ہے، عیاری ومکاری سے نہیں۔ اگر اب بھی ہم نے پہچان میں خطا کی، تو اگلے پانچ برس یہی کھیل دہرایا جائے گا، چہرے بدل جائیں گے، نعرے وہی رہیں گے،اور ہم، اہلِ بہار، اپنی ہی خاموشی کے اسیر رہیں گے۔ اپنا قیمتی ووٹ کسی طاقت کے پجاری، اشتعال انگیزی ونفرتی مہم چلانے والوں کو نہیں؛ بلکہ اس کو دیجئے جو انسانیت کی بات کرے، آئین وقانون کو ضمیر کی آواز بنائے، اور مذہب کو نفرت کا ہتھیار نہ بنائے۔

ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com

 (بدھ 13؍ جمادی الاوّل 1447ھ 5 نومبر 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر )

https://saagartimes.blogspot.com/2025/11/blog-post_5.html







دلہن سے نکاح کی اجازت لینے کا صحیح طریقہ کیا ہے

دلہن سے نکاح کی اجازت لینے کا صحیح طریقہ  کیا ہے

-------------------------------
-------------------------------

سوال:حضرت مفتی شکیل صاحب ودیگر مفتیان توجہ فرمائیں ـ منسلکہ ویڈیو کی روشنی میں  دلہن سے نکاح کی اجازت لینے کا صحیح طریقہ کیا ہے، براہ کرم رہبری فرمائیں۔

(مولانا) محمود احمد خاں دریابادی، ممبئی


الجواب وباللہ التوفیق: 

بلاوجہ کی تشویش وہیجان انگیزی ہے۔ نکاح کے باب میں عورت سے استیذان بلاشبہ ضروری ہے، تاہم اس کے ولی (جیسے والد، بھائی وغیرہ) کی اجازت بھی شرعاً معتبر اور کافی ہے۔ عملاً یہ ہوتا ہے کہ مسجد کے امام صاحب، دو گواہوں کے ہمراہ، اجازت لینے کے لیے خود تشریف لے جاتے ہیں؛ اگرچہ اس موقع پر گواہوں کی موجودگی فی نفسہٖ شرط نہیں، مگر بہتر ضرور ہے۔ عموماً پھر وہی امام صاحب یا قاضی جی ایجاب و قبول کی کارروائی بھی انجام دیتے ہیں۔ تاہم افضل یہی ہے کہ اجنبی کے بجائے خود کوئی محرم ولی یہ عمل سرانجام دے۔ اگر اجنبی قاضی یا امام مسجد اجازت لینے کے لیے نہ بھی جائے، بلکہ باپ، بھائی یا کوئی دوسرا شرعی ولی تنہا اپنی ولایت کی بنا پر یا اجازت حاصل کرنے کے بعد امام مسجد یا قاضی کو نکاح پڑھانے کا حکم دے دے اور خود بھی مجلسِ نکاح میں موجود ہو، جیسا کہ اکثر مواقع پر ہوتا ہے تو قاضی یا امام کی حیثیت صرف رابطہ کار یا ایجاب و قبول کروانے والے نمائندے (معبّر) کی ہوتی ہے۔ اس صورت میں توکیل علی التوکیل کا مفہوم پیدا نہیں ہوتا۔ عورت کی طرف سے اجازت بھی عموماً علی الاطلاق ہی دی جاتی ہے، وہ اجازت کسی مخصوص شخص یا نمائندے کے ساتھ خاص نہیں ہوتی۔ لہٰذا ایک سادہ اور واضح فقہی مسئلے کو بلاوجہ پیچیدہ اور الجھا ہوا بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ فقط  

واللہ اعلم بالصواب 
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com

 https://saagartimes.blogspot.com/2025/11/blog-post.html