Thursday 7 June 2018

علما کا اللہ سے سرکش حکمرانوں سے میل جول

علما کا اللہ سے سرکش حکمرانوں سے میل جول
(احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں)
قرب قیامت علما کا اللہ کے باغی اور ظالم حکمرانوں کے خلاف خاموش رہنا اور ان سے میل جول رکھنا:
علمائے دین انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی عطاکردہ شریعت کے امین، علومِ دینیہ کے محافظ ،اہل اسلام کے ہادی و رہنما اور امتِ مسلمہ کے سروں کے تاج ہیں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کی روایت کردہ صحیح حدیث کے مطابق عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسی فضیلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنے کسی ادنیٰ صحابی پر حاصل ہے، اور آپ ؒ کی روایت کردہ ایک اور صحیح حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ دوسروں کو علمِ دین سکھانے والے پر اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے، آسمانوں والے، زمین والے، یہاں تک کہ بلوں میں موجود چیونٹیاں اور پانی میں پائی جانے والی مچھلیاں …سب اس کے لیے دعا کرتے ہیں ۔علمائے کرام کے ان عظیم الشان فضائل سے احادیث نبویہ کا ذخیرہ بھرا پڑا ہے، لیکن کوئی بھی عالم ان فضائل کا مستحق اسی وقت تک رہتا ہے جب تک وہ ’’حق گوئی‘‘ کا فریضہ ادا کرتا رہے، احکاماتِ الٰہی کھول کھول کر بیان کرے اور اس معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ کھائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مساجد کی آبادکاری پر مامور افراد کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے سورۃ التوبہ میں فرمایا ہے کہ:
اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلاَّ اللّٰہَ فَعَسٰۤی اُولٰۤئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُہْتَدِیْنَ (التوبۃ: ۱۸)
’’اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنا تو بس انہی لوگوں کا کام ہے جوا للہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں، نماز کی پابندی کرتے ہوں، زکوٰۃ ادکرتے ہوں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں۔ توقع ہے کہ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔
جس عالم میں یہ صفات نہ پائی جاتی ہوں ،جو اللہ کے سوا دوسروں سے ڈرتا ہوں ،جسے دنیاوی لالچ دے کر خریدا جاسکے، جو احکاماتِ الٰہی کو پوری صراحت سے بیان کرنے کی  بجائے ’’حکمت و مصلحت‘‘ کے نام پر انہیں چھپائے، یا اس سے بھی آگے بڑھ کر احکاماتِ شریعت کو اپنی یا حکمرانِ وقت کی خواہشات کے مطابق مسخ کردے، وہ یقیناًدرج بالا فضائل میں سے کسی کا بھی مستحق نہیں۔ ایسے ’’علمائے سوء‘‘ کے بارے میں تو کتاب اللہ یہ دل دہلانے والی وعید سناتی ہے کہ:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَۤا اَنْزَلَ اﷲُ مِنَ الْکِتٰبِ وَیَشْتَرُوْنَ بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلًااُوْلٰۤئِکَ مَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ اِلَّا النَّارَ وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اﷲُ یَوْمَ الْقِیٰامَۃِ وَلَایُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌoاُولٰۤئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰی وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَۃِ فَمَآ اَصْبَرَہُمْ عَلَی النَّارِ (البقرۃ:۱۷۳۔۱۷۵)
’’بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب کو چھپاتے ہیں اور ا س کے معاوضے میں متاعِ قلیل وصول کرتے ہیں ،کچھ شک نہیں کہ وہ اپنے پیٹ آگ سے بھررہے ہیں۔ قیامت کے دن اللہ ان سے بات بھی نہیں کرے گا ،نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے ۔یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت چھوڑ کر گمراہی اختیار کی اور مغفرت چھوڑ کر عذاب کو چن لیا ،سو کتنے باہمت ہیں آگ کا عذاب سہنے کے لیے‘‘۔
آخری زمانے میں علمائے سوء کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی کئی لرزا دینے والی پیشین گوئیاں کی ہیں ،جنہیں پڑھ کرہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔امام ترمذی ؒ ’’نوادر الاصول‘‘میں حضرت ابو امام رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یکون فی امتی فزعۃ فیصر الناس الی علمائھم فاذا ھم قردۃ وخنازیر
’’میری امت میں ایک وحشت ناک واقعہ ہوگا،پس جب لوگ (گھبراکر) اپنے علما کی طرف پلٹیں گے تو دیکھے گے کہ وہ بندر اور خنزیر (بن چکے) ہوں گے‘‘۔
تفسیر ’’الدرالمنثور فی التاویل بالماثور‘‘ میں ابن ابی الدنیا ؒ کی یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ مالک بن دینار ؒ نے فرمایا:
بلغنی ان ریحاً تکون فی آخرالزمان وظلمۃ فیفزع الناس الی علمائھم فیجدونھم قد مسخوا
’’مجھ تک یہ حدیث پہنچی ہے کہ آخری زمانے میں ایک ہوا چلے گی اور اندھیرا چھا جائے گا ۔پس جب لو گ گھبرا کراپنے علما کےپاس پہنچے گے تو انہیں مسخ شدہ حالت میں پائیں گے‘‘۔
نیز بعض احادیث مبارکہ میں بعد کے زمانوں کے ان علما کا بھی تذکرہ ہے جو اس امت کو جہاد فی سبیل اللہ سے روکیں گے اور کہیں گے کہ جہاد کا دور گذرچکا،اب تو سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے،تہذیب و تمدن کا دور ہے،جدید ذرائع ابلاغ کا دور ہے۔ایسے میں قتل و قتال کی بات کرنا ،گردنیں مارنے اور پور پور پر ضرب لگانے کا تذکرہ چھیڑنا ،غنیمت چھیننے اور ذمی بنانے کے عزائم رکھنا ،قیدی پکڑنے اور غلام و لونڈیاں بنانے کے احکامات یاد دلانا کیونکر مناسب ہوسکتا ہے؟چنانچہ امام ابن حماد ؒ
اپنی کتاب السنن الوردۃ فی الفتن میں یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تک آسمان سے بارش برستی رہے گی تب تک جہاد ترو تازہ رہے گا۔ اور لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جب ان کےعلما یہ کہیں گے کہ یہ جہاد کا زمانہ نہیں ہے۔ لہٰذا ایسا دور جس کو ملے تو وہ جہاد کا بہترین زمانہ ہوگا ۔ 
صحابہ ؓ نے پوچھا: 
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا کوئی ایسا کہہ سکتا ہے؟ 
آپ نے فرمایا:
’’ہاں وہ جس پر اللہ کی لعنت،فرشتوں کی لعنت اور تمام انسانوں کی لعنت ہو!‘‘۔
جب کہ کنز العمال کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے:
اولئک ہم وقود النار
یہی لو گ جہنم کا ایندھن ہوں گے‘‘۔
پس جس طرح شریعت مطہرہ میں ’’علمائے حق‘‘سے متعلق غیر معمولی فضائل وارد ہوئے ہیں،اسی طرح ’’علمائے سوء‘‘کے بارے میں انتہائی غیرمعمولی وعیدیں بھی ذکر کی گئی ہیں۔علما کے راہِ حق سے پھسلنے اور علمائے حق کے زمرے سے نکل کر علمائے سوء کی فہرست میں داخل ہونے کا اہم ترین سبب ’’حکمرانوں سے قربت ‘‘ہے ۔جب بھی کوئی عالم حکمران طبقے سے میل جول رکھتا ہے ، حاکم اور اس کے وزراء و نائبین کی مجلسوں میں بیٹھتا ہے ،ان کے دستر خوانوں پر شریک طعام ہوتا ہے ،خود چل کر ان کے دروازوں پر جاتا ہے ،سرکاری تقریبات و کانفرنسوں میں شامل ہونے کو اپنی سعادت سمجھتا ہے ، سرکاری نوکریوں اور اعلیٰ حکومتی مناصب کے حصول کے لیے کوشاں رہتا ہے ،خود دعوت دے دے کر حکام کواپنے مدارس و مساجد میں بلاتا ہے ، تو وہ ضروربالضرور حق گوئی کی صفت سے محروم ہوجاتا ہے ،اس کی زبان پر تالے پڑجاتے ہیں ، اس کے قلب میں حبِ مال اور حبِ جاہ جیسے مہلک امراض نہایت خاموشی سے جگہ بنالیتے ہیں اور جلد وہ اس حقیر دنیا کے عوض اللہ کی آیات بیچنے کا مکروہ کاروبار شروع کردیتا ہے۔
حکمرانوں سے قربت کی اس خطرناکی کے پیشِ نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بہت سی مختلف احادیث میں علمائے دین کو بالخصوص جبکہ تمام مسلمانوں کو بالعموم انتہائی سختی سے حکمرانوں کی قربت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔زیرِ نظر تحریر میں اس موضوع سے متعلقہ احادیث، اقوال صحابہ رضی اللہ عنہ اور سیرتِ اسلاف کی بہت سی مثالیں جمع کردی گئی ہیں۔ گو کہ اس تحریر کے مخاطب تمام ہی مسلمان ہیں لیکن ہم اسے بالخصوص علمائے دین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان میں سے جو وارثینِ نبوت حق پر قائم ہیں ان کے قدم مزید جم جائیں اور جو راہِ حق سے ہٹ چکے ہیں اوردنیاوی مصلحتوں کا شکار ہوچکے ہیں، وہ اپنی حق سے دوری کا سبب جان لیں اور قہرِ الٰہی کے خوف سے ،اور جنت کی طلب میں واپس صراطِ مستقیم پر لوٹنے کا فیصلہ کرلیں، خواہ انہیں اس کی کتنی ہی بھاری قیمت چکانا پڑے۔ بلا شبہ موت کے آخری غرغرے تک اور سورج کے مغرب سے طلوع ہونے تک توبہ کے دروازے کھلے ہیں!
اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ظالم حکمرانوں سامنے ’’کلمہ حق ‘‘ کہنے والے علما کے درجات بلند فرمائے ! اس جرم کی پاداش میں شہید کیے جانے والے علما کو شرفِ قبولیت بخشے ! اسی جرم میں قید کیے جانے والے علما کو ثابت قدمی اور جلد رہائی عطافرمائے! علمائے دین کو آگے بڑھ کر کافروں اور ان کے آلہ کا ر وں کے خلاف جاری جہاد کی قیادت سنبھالنے کی توفیق دے!
اس امت کو امام ابو حنیفہ ؒ، امام مالک ؒ ، امام احمد بن حنبل ؒ ، امام ابن تیمیہ ؒ ، شاہ عبد العزیزدہلویؒ،شاہ اسماعیل شہید ؒ،مولانا نانوتوی ؒ ،شیخ الہندمولانا محمودالحسن ؒ ،مفتی رشیداحمد لدھیانویؒ، مولانا حکیم محمد اخترؒ،شیخ عبد اللہ عزام ؒ، مفتی نظام الدین شامزئی ؒ، مولانا محمد امین اورکزئی، شیخ ولی اللہ کا بلگرامیؒ، شیخ نصیب خان،مولانامحمد عبداللہؒ، اور مولانا عبد الرشید غازی ؒ جیسے باہمت علما پھر سے عطا فرمائے!
حکمرانوں کے قربت میں بیٹھے ہوئے یا اُ ن کے اشاروں پر فتویٰ فروشی کرنے والے اور جہاد کی مخالفت میں ڈٹے ہوئے علما کو اپنے مؤ قف سے رجوع کرنے اور حق کی طرف لوٹنے کی توفیق دے ! انہیں حق دکھلائے اور اس کی حمایت میں ڈٹ جانے کی توفیق دے اور ان کے قلوب کو علم وعمل کی روشنی سے منور فرمادے !آمین ۔
اے وارثین انبیاء! حکمرانوں کی قربت سے بچو!
امام دیلمی ؒ حضرت ابو الاعور رضی اللہ عنہ سے اورامام بیہقی ؒقبیلہ بنی سُلیم کے ایک فرد سے روایت کیا ہے کہ اس نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
ایا کم وابواب السلطان
’’خبردار! حاکم کے دروازوں پر نہ جانا‘‘۔
امام بیہقی ؒ نے ہی روایت نقل کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اتقوا ابواب السلطان
’’حاکم کے دروازوں پر جانے سے بچو‘‘۔
امام ہناد بن سری ؒ نے الزھد میں حضرت عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص کے حاکم سے قرب میں اضافہ ہو گا، اس کی اللہ سے دوری میں بھی اضافہ ہوتا چلاجائے گا‘‘۔
امام دیلمیؒ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص صاحبِ اقت
دار کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے دونوں بازؤں کے پھیلاؤ کے برابر دور ہوجاتے ہیں‘‘۔
امام حسن بن سفیان ؒ نے اپنی ''مسند'' میں اور امام دیلمی ؒ نے بھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’حاکم کے دروازوں سے اور ان کے دربانوں سے بچو، کیونکہ جو ان (دروازوں) سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے ، وہ اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ دور ہوتا ہے، اور جو کوئی کسی حاکم کو اللہ پر ترجیح دیتا ہے تو اللہ اس کے دل میں ظاہری و باطنی فتنہ ڈال دیتے ہیں، اس سے تقویٰ چھین لیتے ہیں اور اس کو حیران و پریشان چھوڑ دیتے ہیں‘‘۔
امام دیلمی ؒ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’خبردار! حکمران کے پاس نہ بیٹھنا، اس لیے کہ اس ( کے پاس بیٹھنے) سے (تم اپنا) دین کھو بیٹھو گے۔ اور خبردار! اس کی اعانت نہ کرنا، اس لیے کہ اس کے حکم سے خوش نہ ہوگے‘‘۔
اما م بخاری ؒ نے اپنی کتابِ تاریخ میں اور امام ابن سعد نے ’’طبقات‘‘ میں نقل کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’آدمی حکمران کے پاس اپنے دین کے ہمراہ جاتا ہے لیکن جب نکلتا ہے تو اس کے پاس کچھ بھی باقی نہیں ہوتا‘‘۔
امام ابوداؤد ؒ ،امام نسائی ؒ ، امام بیہقی اور امام ترمذی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ے فرمایا:
من سکن البادیۃ جفا،ومن اتبع الصید غفل، ومن اتی ابواب السلاطین افتن
’’جو شخص جنگل میں رہے گا اس کا دل سخت ہوجائے گا،اور جو شکار کے پیچھے بھاگے گا وہ (دین کے کاموں سے) غافل ہوجائے گا ،اور جو حکمرانوں کے دروازوں پر حاضر ہوگا وہ فتنے میں مبتلا  ہوجائے گا''۔ (امام ترمذیؒ نے اسے حسن قرار دیا ہے)۔
امام ابوداؤد ؒ ،امام بیہقی ؒ اورامام احمد بن حنبل ؒکی حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کردہ حدیث میں آگے یہ الفاظ بھی آتے ہیں :
وما ازداد عبد من السلطان دنوا الاازداد من اللّٰہ بعدا
’’اور جتنا کوئی شخص حاکم کا قرب اختیار کرے گا اتنا ہی وہ اللہ سے دور ہوتا جائے گا‘‘۔
امام حاکم ؒ حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
’’میرے بعد بادشاہ آئیں گے، فتنے ان کے دروازوں پریوں (ڈیرے جمائے) ہوں گے جیسے اونٹوں کی قیام گاہ پر (اونٹ بیٹھے) ہوتے ہیں۔ وہ جسے بھی (دنیا کے سامان میں سے) کچھ دیں گے، اسی کے برابر اس کے دین میں سے بھی لے لیں گے‘‘۔
امام احمد بن حنبل ؒ، امام بزار ؒ اور امام ابن حبان ؒ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’آئندہ کچھ امراآئیں گے ،پس جو شخص ان کے پاس گیا (ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: 

’اور ان کے دروزوں پر منڈلارتا رہا‘) اور ان کی جھوٹی باتوں کی تصدیق کی، اور ان کے ظلم (کے کاموں) میں ان کی مدد کی تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ،اور میرا اس سے کوئی تعلق نہیں اور وہ ہرگز حوض (کوثر) پر نہیں آئے گا (اس کے برعکس) اور جو شخص نہ ان کے پاس گیا (ایک اور روایت کے الفاظ ہیں ’اورنہ ہی ان کے دروزوں پر منڈلارتا رہا‘) نہ ان کے ظلم میں ان کی مدد کی اور نہ ہی ان کے جھوٹ کی تصدیق کی تو وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ حوض پر آنے والا ہے‘‘۔
امام ابو عمرو الدانی ؒنے کتاب الفتن میں حسن سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’یہ امت اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں اور اس کے سایہئ رحمت میں رہے گی جب تک کہ اس کے قاری (یعنی علما) اس کے امراسے نہ لپٹیں گے‘‘۔
امام دیلمی ؒ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
یکون فی آخر الزمان علماء یرغبون الناس ولا یرغبون ،ویزھدون الناس فی الدنیا ولایزھدون،وینھون عن غشیان الامراء ولا ینتھون
’’آخری زمانے میں ایسے علما ہوں گے جو لوگوں کو آخرت کی طرف راغب کریں گے اور خود راغب نہ ہوں گے ،لوگوں کو دنیا سے بے رغبتی کی تعلیم دیں گے اور خود بے رغبت نہ ہوں گے ،اور امرا(حکام ) سے میل ملاپ رکھنے سے منع کریں گے اور خود اس سے باز نہ آئیں گے‘‘۔
حافظ ابو فتیان دہستانی ؒنے اپنی کتاب ’’التحذیر من علماء السوء‘‘میں ،امام رافعی ؒ نے تاریخِ قزوین  میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
ان ابغض (وفی روایۃ اھون) الخلق الی اللّٰہ تعالیٰ العالم یزور العمال
’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین (ایک اور روایت کے مطابق’حقیر ترین‘) مخلوق وہ عالم ہے جو حکومتی اہلکاروں سے میل جول رکھتا ہے‘‘۔
امام ابن عدی ؒ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان ابغض الخلق الی اللّٰہ عالم السلطان
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین مخلوق حاکم کا (درباری ) عالم
ہے‘‘۔
امام دیلمیؒ ''مسند الفردوس '' میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
اذا رأیت العالم یخالط السلطان مخالطۃ کثیرۃ فاعلم انہ لص
’’اگر تم کسی عالم کو حاکم سے بہت زیادہ میل ملاپ رکھتے دیکھو، توجان لو کہ وہ چور ہے‘‘۔
حکیم ترمذی ؒ نے نوادر الاصول میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس اس حالت میں آئے کہ ان کے چہرے پر غم کے آثار نمایا ں تھے ،انہوں نے میری داڑھی پکڑ کر کہا:
’’انا للہ وانا الیہ راجعون! کچھ دیر پہلے میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کی امت آپ کےبعد کچھ زیادہ نہیں ،بس تھوڑی ہی مدت میں فتنے میں مبتلاء ہوجائے گی ۔میں نے پوچھا : وہ کس وجہ سے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے علمااورامراکی وجہ سے ۔ امراعام لوگوں کے حقوق روکے رکھیں گے ، اور (لوگوں کوان کے حقوق) نہیں دیں گے، اورعلما‘ امراکی خواہشات کے پیچھے چلیں گے‘‘۔
امام ابن ماجہ ؒ  ثقہ راویوں کی وساطت سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میری امت میں سے کچھ لوگ دین میں تفقہ (سمجھ بوجھ) حاصل کریں گے، قرآن پڑھیں گے اور کہیں گے ہم امرا (حکام) کےہاں جاتے ہیں تاکہ ان کی دنیا سے بھی کچھ لے لیں اور اپنے دین کو بھی بچا رکھیں، حالانکہ یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں ،جس طرح ببول کے درخت سے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں ملتا، اسی طرح ان امراکی قربت سے بھی خطاؤں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا‘‘۔
امام ابن عساکر ؒ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
’’میرے بعد میری امت میں ایک ایسا گروہ پیدا ہوگا جو قرآن پڑھے گا اور دین میں تفقہ حاصل کرے گا ۔ شیطان ان کے پاس آئے گا اوران سے کہے گا کہ کیسا ہو اگر تم لو گ حاکم کے پاس جاؤ؟ وہ تمہاری دنیا کا بھی کچھ بھلا کردے گا اور تم لوگ اپنے دین کو اس سے بچائے رکھنا !جبکہ ایسا ہونہیں سکتا،کیونکہ جس طرح ببول کے درخت سے کانٹوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ، اسی طرح ان کی قربت سے خطاؤں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘۔
امام ابو الشیخ ؒنے’الثواب‘میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جو شخص قرآن پڑھ لے اور دین میں تفقہ حاصل کرلے ،اور پھر حاکم کے دَر پر اس کی خوشامد کرنے اور اس کی دولت ( بٹورنے ) کی لالچ میں جائے تو وہ ( اس راہ میں ) جتنے قدم اٹھائے گا، اتنا ہی جہنم میں گھستا چلا جائے گا‘‘۔
امام ابو الشیخ ؒنے ہی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے قرآن پڑھا اور دین کی سمجھ بوجھ حاصل کی، اور پھر صاحب اقتدار کے پاس اس کے مال و دولت کی لالچ میں گیا تو اللہ اس کےدل پر مہر لگادیں گے، اور (آخرت میں) اسے ہر روز دو(٢) ایسے عذا ب دیےجائیں گے جو اس سے پہلے اسے نہ دیے گئے ہوں گے‘‘۔
امام دیلمی ؒ نے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’جو شخص ظالم حکمران کے پاس خود اپنی مرضی سے گیا، اس کی خوشامد کرنے کے لیے اس سے ملاقات کی اور اسے سلام کیا تو وہ اس راہ میں اٹھائے گئے قدموں کے برابر جہنم میں گھستا چلا جائے گا، یہاں تک کہ وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر لوٹ آئے۔ اور اگر وہ شخص حکمران کی خواہشات کی طرف مائل ہوا یا اس کا دستِ بازو بنا تو جیسی لعنت اللہ کی طرف سے اس (حاکم ) پر پڑے گی ویسی ہی لعنت اس پر بھی پڑے گی، اور جیساعذاب دوزخ اُسے ملے گا ویسا ہی اِسے بھی ملے گا‘‘۔
اما م ابو داؤد ؒ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’بنی اسرائیل میں سب سے پہلے جو نقص پیدا ہواتھا وہ یہ تھا کہ ان میں سے ایک شخص دوسرے شخص سے ملاقات کرتا تھا تو یہ کہتا تھاکہ: اے فلاں! اللہ کا تقویٰ اختیار کرواور جو تم کررہے ہواس کو چھوڑ دو، اس لیے کہ یہ تمہارے لیے جائز نہیں ہے۔ پھر اس کی اسی شخص سے اگلے روز دوبارہ ملاقات ہوتی تھی اور وہ اپنے سابق حال پر قائم ہوتا تھا۔لیکن یہ چیز مانع نہیں ہوتی تھی اُس (پہلے شخص) کےراستے میں کہ وہ اس کا ہم پیالہ اور ہم نشین بنے۔ جب انہوں نے یہ روش اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں کو آپس میں مشابہ کردیا۔ (پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے سورۃ المائدۃ کی یہ آیات تلاوت کیں) ( لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْمبَنِیْۤ اِسْرَآءِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاو،دَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ….وَلٰکِنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ ) [المائدۃ:۷۸تا۸۱]
’’بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کی ان پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہماالسلام) کی زبان سےلعنت کی گئی ۔یہ اس لیے ہواکہ وہ ن
افرمانی کرتے تھے اور (حدودالٰہی سے) تجاوز کرتے تھے۔ اور(ان کا اصل جرم یہ تھا کہ) وہ ایک دوسرے کو شدت کے ساتھ منع نہیں کرتے تھے ان برائیوں سے جو وہ کرتے تھے ۔بہت ہی بُرا طرزِعمل ہے جس پر وہ کاربند تھے ۔تم دیکھو گے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کوکہ وہ دوستی رکھتے ہیں کافروں سے ۔کیا ہی بُرا سامان انہوں نے اپنے لیے آگے بھیجا ہے کہ اللہ کا غضب ہوا ان پر اور عذاب میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اور اگر وہ (واقعتاً) ایمان رکھتے ہوئے اللہ پر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اس شے پر جو اُس پر نازل کی گئی تو وہ کافروں کو اپنا دوست نہ بناتے لیکن ان میں سے اکثرنافرمان ہیں‘‘۔ (ان آیات کی تلاوت کے بعد) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! تمہیں لازما ً نیکی کا حکم دینا ہوگا، اور لازماً بدی سے روکنا ہوگا، اور تمہیں لازماً ظالم کا ہاتھ کو قوت سے پکڑلینا ہوگا، اور تمہیں اس کو لازماً حق کی طرف جبراً موڑنا ہوگا، اور اسے حق کے اُوپر قائم رکھنا ہوگا۔ یا پھر اللہ تمہارے دل بھی ایک دوسرے کے مشابہ کردے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ تم پر بھی لعنت کرے گا جیسے ان (یہود) پر لعنت کی‘‘۔
امام حاکمؒ نے اپنی کتاب تاریخ میں اور امام دیلمی ؒ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو عالم بھی صاحب اقتدار کے پاس اپنی مرضی سے گیا(اور اس کی ظلم میں معاونت کی) تو وہ اسے جہنم میں دیے جانے والے ہرقسم کےعذاب میں شریک ہوگا‘‘۔
امام ترمذیؒ نے ’جامع ترمذی ‘میں حسن روایت میں  حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ے فرمایا:
’’جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوگئے تو ان کے علما نے انہیں روکا، لیکن وہ با زنہ آئے (لیکن اس کے باوجود ان علما نے) ان نافرمانوں کی ہم نشینی اور ان کے ساتھ باہم کھانا پینا جاری رکھا، تو(اس کے نتیجے میں) اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو بھی باہم مشابہ کردیا اور ان پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہماالسلام) کی زبانی لعنت فرمائی، یہ اس لیے کہ انہوں نے نافرمانی کی روش اختیاراور وہ حد سے تجاوز کرتے رہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اُٹھ کربیٹھ گئے جبکہ اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ٹیک لگائے ہوئے تھے، اور فرمایا:

ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جب تک تم انہیں زبردستی حق کی طرف نہ موڑ دو!‘‘
امام حسن بن سفیان ؒ نے اپنی ’مسند‘میں ، امام حاکم ؒ نے اپنی کتابِ تاریخ میں ،نیز امام ابو نعیم ؒ،امام عقیلی ؒ اور امام دیلمی ؒ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
العلماء امناء الرسل علی عباداللّٰہ مالم یخالطوالسلطان ،فاذا خالطو السلطان فقد خانو الرسل فاحذروھم، واعتزلوھم
’’علما‘ اللہ کے بندوں کے درمیان رسولوں کے (ورثے کے) امین ہوتے ہیں ،جب تک وہ حاکم کے ساتھ نہ گھلیں ملیں ۔پس اگر وہ حاکم کے ساتھ گھلے ملے تو بلا شبہ انہوں نے رسولوں سے خیانت کی۔ تو (جو علماایساکریں) تم ان سے خبردار رہنا اور ان سے علیحدہ ہوجانا‘‘۔
امام عسکری ؒ نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’فقہا‘ رسولوں کے (ورثے کے) امین ہیں جب تک کہ وہ (دنیا کی آلائشوں) میں نہ گھسیں اور حاکم کے پیچھے پیچھے نہ چلیں۔ پس جب وہ ایسا کرنے لگیں تو ان سے بچو‘‘۔
امام مسلم ؒ نے صحیح مسلم میں حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مجھ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جس امت میں کسی نبی کو مبعوث فرمایا توا س کی امت میں اس کے حواری اور اصحاب ہوتے تھے ۔وہ اپنے نبی کی سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھتے تھے اور نبی علیہ السلام کا جوبھی حکم ہوتا تھا اس کی پیروی کرتے تھے۔ پھر ان کے بعد ان کے ایسےجانشین (وارثین) آتے تھے جو نالائق اور ناخلف ہوتے تھے۔ یقولون مالا یفعلون ’’وہ کہتے وہ تھے جو کرتے نہیں‘‘ اور یفعلون مالا یؤمرون ’’کرتے وہ تھے جس کا ان کوحکم نہیں تھا‘‘۔ جو کوئی ان سے جہاد کرے گا ہاتھ سے پس وہ مومن ہے، اور جو کوئی ان سے جہاد کرے گا اپنی زبان سے پس وہ مومن ہے، اور جو ان سے جہاد کرے گا اپنے دل سے پس وہ مومن ہے اور(جو کوئی یہ بھی نہ کرے تو وہ جان لے کہ) اس کے بعد تو ایما ن رائی کے دانے کے برابربھی نہیں ہے‘‘۔
مندرجہ بالا احادیث مبارکہ سے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امت کے علما کا حاکم وقت سے میل جو بڑھانا، اس کے درباروں کے چکر لگانا، ان کے زریعے سے دنیا کے فوائد حاصل کرنا اور اس کے باوجود یہ سمجھنا کہ ہمارے دین اور ایمان محفوظ رہے گا، ان کے ساتھ ان کی مجلسوں شرکت کرنا اور عوام الناس کو ان کی اطاعت و فرماں برداری کے درس دیناجبکہ اُن میں ظلم و ستم ،اللہ اور اس کی عطاکردہ شریعت کے خلاف احکامات کا اجراہو۔ایسا طرز
عمل اللہ کے بہت بڑے غیض وغضب کو دعوت دینے والا اور جہنم کا راستہ آسان کرنے والی بات ہے۔ چناچہ ان ہی وجوہات کی بناپر حاکم وقت کی قربت اور ان کی مجالس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ سوائے ایک فریضہ کی ادائیگی کے، عالم دین کو حاکم وقت کے دربار میں جانے کی اجازت ہے۔ وہ ہے ’کلمہ حق‘ اپنی جان، مال، عہدہ، مسندوں کے چھن جانے کے خوف کے باوجود۔ امام ابن ماجہ ؒ اور امام ترمذی ؒ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
افضل الجھاد کلمۃ عدل/کلمۃ حق عند سلطان جائر
’’افضل ترین جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ عدل /کلمہ ٔ حق کہنا ہے‘‘۔
ظاہر سی بات ہے جو یہ فریضہ انجام دے گا اس کامال و جان دونوں خطرے میں ڈالے گا چناچہ امام حاکم ؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
سیدا لشھداء حمزہ بن عبد المطلب ،ورجل قال الی امام جائر فامرہ ونھاہ فقتلہ
’’شہداکے سردار حضرت حمزہ بن عبد المطلب ؓ ہیں اور دوسرا وہ شخص جس نے ظالم حکمران کو اچھائی کا حکم دیا اور برائی سے روکا اوراس (حاکم) نےاس شخص کوقتل کردیا‘‘۔
اہل علم حضرات کو چاہیے کہ وہ اس اہم ایمانی معاملے کے حوالے سے اپنے طرزِ عمل کا محاسبہ کرتے رہیں، تاکہ اللہ کی طرف سے کسی محاسبہ میں شرمندگی اور عذاب سے بچ سکیں۔امام ابن ماجہ ؒ اور امام بیہقی ؒ نے روایت نقل کی ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’اگر اہل علم ،علم کی قدر کرتے اور اسے اس کے اہل لوگوں کے سپرد کرتے تو وہ اپنے اہل زمانہ کے امام بن جاتے ،لیکن انہوں نےاسے اہلِ دنیا پر خرچ کیا تاکہ اس سے اپنی دنیا بنائیں تو وہ ان کی نظروں میں بھی گر گئے۔میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کوفرماتے سنا ہے کہ:
’’جس نے آخرت کے غم کو ہی اپنا واحد غم بنا لیا ، اللہ اس کے لیے اس کے دنیاوی غموں میں کافی ہوجائیں گے،اورجس کو طرح طرح کی دنیاوی فکروں نے الجھادیا تو اللہ بھی اس کی پرواہ نہیں کریں گے کہ وہ دنیا کی کس گھاٹی میں گر کر ہلاک ہوتاہے ‘‘۔
امام عبد اللہ بن مبارک ؒ فرمایا:
؎وماافسد الدین الاالملوک
واحبارُسوء ورھبانُھا

’’دین میں جو بھی خرابی بھی آتی ہے وہ تین اطراف سے آتی ہے، بادشاہوں کی طرف سے، علمائے سوء یعنی بُرے علما کی طرف سے اور بُرے صوفیوں کی طرف سے‘‘۔
مولانا کفایت اللہ

No comments:

Post a Comment