Friday, 22 September 2017

یومِ عاشورہ؛ تاریخی اہمیت، فضائل اعمال

یوم عاشورہ بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت کا حامل دن ہے، تاریخ کے عظیم واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں؛ چناں چہ موٴرخین نے لکھا ہے کہ:

(۱)          یوم عاشورہ میں ہی آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہما السلام کو پیدا کیاگیا۔

(۲)         اسی دن حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاة والسلام کی توبہ قبول ہوئی۔

(۳)         اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔

(۴)         اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔

(۵)         اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ،،خلیل اللہ“ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔

(۶)          اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

(۷)         اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔

(۸)         اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔

(۹)          اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی۔

(۱۰)        اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔

(۱۱)         اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی۔

(۱۲)        اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی۔

(۱۳)       اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔

(۱۴)       اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔

(۱۵)        اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

(۱۶)        اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایاگیا۔

(۱۷)       اسی دن دنیا میں پہلی بارانِ رحمت نازل ہوئی۔

(۱۸)       اسی دن قریش خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔

(۱۹)        اسی دن حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا۔

(۲۰)       اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہٴ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم اور جگر گوشہٴ فاطمہ رضی اللہ عنہما کو میدانِ کربلا میں شہید کیا۔

(۲۱)        اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ (نزہة المجالس ۱/۳۴۷، ۳۴۸، معارف القرآن پ ۱۱ آیت ۹۸۔ معارف الحدیث ۴/۱۶۸)

یومِ عاشورہ کی فضیلت:

                مذکورہ بالا واقعات سے تو یوم عاشورہ کی خصوصی اہمیت کا پتہ چلتا ہی ہے، علاوہ ازیں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس دن کی متعدد فضیلتیں وارد ہیں؛ چنانچہ:

                (۱) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ما رأیتُ النبیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَتَحَرّیٰ صیامَ یومٍ فضَّلَہ علی غیرِہ الّا ہذا الیومَ یومَ عاشوراءَ وہذا الشہرَ یعنی شہرَ رَمَضَان (بخاری شریف۱/۲۶۸، مسلم شریف ۱/۳۶۰،۳۶۱)

                میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔

                مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے طرزِ عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یومِ عاشورہ کے روزہ کا کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے نفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے۔

                (۲) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَیْسَ لِیَوْمٍ فَضْلٌ عَلٰی یومٍ فِي الصِّیَامِ الاَّ شَہْرَ رَمَضَانَ وَیَوْمَ عَاشُوْرَاءَ․ (رواہ الطبرانی والبیہقی، الترغیب والترہیب ۲,۱۱۵)

                روزہ کے سلسلے میں کسی بھی دن کو کسی دن پر فضیلت حاصل نہیں؛ مگر ماہِ رمضان المبارک کو اور یوم عاشورہ کو (کہ ان کو دوسرے دنوں پر فضیلت حاصل ہے)۔

                (۳) عن أبی قتادة رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: انّي أحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ أنْ یُکفِّر السنةَ التي قَبْلَہ․ (مسلم شریف ۱,۳۶۷، ابن ماجہ ۱۲۵)

                حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ عاشوراء کے دن کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ (ابن ماجہ کی ایک روایت میں ”السنة التی بعدہا“ کے الفاظ ہیں) کذا فی الترغیب۲/۱۱۵)

                ان احادیث شریف سے ظاہر ہے کہ یوم عاشوراء بہت ہی عظمت وتقدس کا حامل ہے؛ لہٰذا ہمیں اس دن کی برکات سے بھرپور فیض اٹھانا چاہئے۔

یوم عاشوراء میں کرنے کے کام:

احادیث طیبہ سے یومِ عاشوراء میں صرف دو چیزیں ثابت ہیں:
(۱) روزہ: جیساکہ اس سلسلے میں روایات گزرچکی ہیں؛ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ احادیث میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار ومشرکین کی مشابہت اور یہود ونصاریٰ کی بود وباش اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے، اس حکم کے تحت چونکہ تنہا یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا یہودیوں کے ساتھ اشتراک اور تشابہ تھا، دوسری طرف اس کو چھوڑ دینا اس کی برکات سے محرومی کا سبب تھا؛ اس لیے اللہ تعالیٰ کے مقدس پیغمبر  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ یوم عاشوراء کے ساتھ ایک دن کا روزہ اور ملالو، بہتر تو یہ ہے کہ نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ کھو، اور اگر کسی وجہ سے نویں کا روزہ نہ رکھ سکو تو پھر دسویں کے ساتھ گیارہویں کا روزہ رکھ لو؛ تاکہ یہود کی مخالفت ہوجائے اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تشابہ نہ رہے، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس دن کو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات ختم ہوجائے) تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛
فَاذَا کَانَ العامُ المُقْبِلُ ان شاءَ اللّٰہ ضُمْنَا الیومَ التاسعَ قال فَلَمْ یَأْتِ الْعَامُّ الْمُقْبِلُ حَتّٰی تَوَفّٰی رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم
(مسلم شریف ۱/۳۵۹)
یعنی جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گے، ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اگلا سال آنے سے پہلے ہی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔

اہم فائدہ:

                بعض فقہاء نے لکھا ہے کہ صرف یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا مکروہ ہے؛ لیکن حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ عاشوراء کے روزہ کی تین شکلیں ہیں؛
(۱) نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے
(۲) نویں اور دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے
(۳) صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔ ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے، تو حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے اسی کو فقہاء نے کراہت سے تعبیر کردیا ہے، ورنہ جس روزہ کو آپ نے رکھا ہو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو اس کو کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے۔ (معارف السنن ۵/۴۳۴)

                (۲) اہل وعیال پر رزق میں فراخی: شریعتِ اسلامیہ نے اس دن کے لیے دوسری تعلیم دی ہے کہ اس دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے میں وسعت اورفراخی کرنا اچھا ہے؛ کیونکہ اس عمل کی برکت سے تمام سال اللہ تعالیٰ فراخیِ رزق کے دروازے کھول دیتا ہے؛ چنانچہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ أوْسَعَ عَلٰی عِیَالِہ وَأہْلِہ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ أوْسَعَ اللّٰہُ عَلَیْہِ سَائِرَ سَنَتِہ․ (رواہ البیہقی، الترغیب والترہیب ۲/۱۱۵) یعنی جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے کے سلسلے میں فراخی اور وسعت کرے گا تو اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں وسعت عطا فرمائیں گے۔
دارالافتاء گروپ
https://t.me/daruluifta

احكام شرعية؛ ایک نظر میں

احكام شرعية؛ ایک نظر میں
فقہائے کرام نے احکام شرع کی تقریبا چھ قسمیں  ذکر فرمائی ہیں،
(١) فرض
(٢) واجب
(٣) سنت
(٤) مباح
(٥) مكروه
(٦) حرام
فرض کے لغوی معنی:
فرض کے لغت میں معنی ہےالقطع والتقدیر، کاٹنا ،طے کرنا  مقررکرنا،
فرض اصطلاح میں:
وہ حکم شرعی جو ایسی دلیل قطعی سے ثابت  ہو جس میں شک وشبہ کی بالکل گنجائش نہ ہو جیسے
پانچوں نمازیں،
زکوة،
روزہ، اور
حج،
اقيموا الصلوة، واتوا الزكوة
ياايهااالذين آمنواكتب عليكم الصيام ، ولله علي الناس حج البيت من استطاع اليه سبيلا،
یہ سب دلائل قطعیہ لاریب فیھا ہے
فرض کا حکم:
اس  کی فرضیت کا دل سے اعتقاد کرنا اور اس پر عمل کرنادونوں لازم  ہے اس کا کرنےوالا مستحق اجروثواب اور نہ کرنے والا سخت عذاب کا مستحق اور فاسق کہلائے گا،اور اس کا منکر کافر ہوگا
اقسام فرض:
فرض کی دوقسمیں ہیں
فرض عین:
وہ حکم شرعی ہے جس پر عمل کرنا ہر مکلف شخص پرعلیحدہ
علیحدہ لازم ہوتا ہے،بعض کے اداکرنے سے دوسری بعض کے ذمہ سے ساقط نہ ہو جیسے نمازیں ،روزہ،
فرض کفایہ:
وہ حکم شرعی جس پرعمل کرنا تمام مکلفین پرتو لازم ہو البتہ اگرکچھ لوگ اس پر عمل کرلے تو بقیہ کے ذمہ سے وہ ساقط ہوجاتا ہے جیسے غسل میت، نماز جنازہ،
واجب کے لغوی معنی؛
واجب باب ضرب سے اسم فاعل کا صیغہ اس کے معنی ثابت ہو 
واجب کی اصطلاحی تعریف:
وہ حکم شرعی جو دلیل ظنی سے ثابت ہو.
نوٹ:
یاد رہے دلیل ظنی دلیل قطعی کے مقابل میں کمزور ہوتی ہے یا تو اس کے ثبوت میں شبہ ہوتا ہے یااس کے فرضیت حکم پر دلالت کرنے میں شک ہوتا ہے جیسے، وتر.
واجب کا حکم:
ہر مکلف پر اس کی بجاآوری لازم ہے، البتہ اس کے لازم ہونے کا دل سےاعتقاد رکھنا ضروری نہیں ہے اس کا منکر کافر نہیں ہوگا اس کو بلاعذر ترک کرنے والا فاسق اور سخت عذاب کا مستحق ہے.
واجب کے اقسام:
جس طرح فرض کی دوقسمیں ہیں اسی طرح واجب کی بھی دو قسمیں ہیں،
واجب عین:
وہ حکم شرعی ہے جس پر عمل کرناہر مکلف شخص پر لازم ہو جیسے وتر، صدقہ فطر، قربانی، نمازعیدین،
واجب کفایہ:
وہ حکم شرعی ہے جس پرعمل کرنا تمام مکلفین پرتو لازم ہوتاہے،البتہ اگرکچھ لوگ اس پر عمل کرلے تو بقیہ کےذمہ سے وہ ساقط ہوجاتا ہے،
سنت کا لغوی:
سنت کے لغوی معنی:طریقہ، راستہ
اصطلاحی معنی:
الطریقة المسلوكة في الدين،
وہ راستہ جس پر دین میں چلاجائے
اقسام سنت:
سنت کی بھی دو قسمیں ہیں
سنت مؤکدہ:
وہ حکم شرعی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عموما اورغالب طورپر عمل کیا ہو اور لوگوں کواس پر عمل کرنے کی ترغیب دی ہو جیسے بوقت وضو مسواک کرنا، باجماعت نمازپڑھنا،
سنت مؤکدہ کاحکم:
اس کا کرنےوالا مستحق ثواب اور نہ کرنےوالا گنہگار ہوگا.
سنت غیر مؤکدہ:
وہ حکم شرعی ہے جس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی عمل کیا ہو اور کبھی عمل نہ کیا ہو جیسے بوقت وضو قبلہ رخ ہونا
سنت غیرمؤکدہ کاحکم:
اس کا کرنےوالامستحق ثواب اور نہ کرنےوالاگنہگار نہ ہوگا.
سنت عین:
وہ سنت جس کا ہر مکلف کےلئےعلیحدہ علیحدہ کرنامسنون ہو جسے نماز کی سنن، غسل جمعہ
سنت کفایہ:
وہ سنت جو سب کے لئے مسنون ہو البتہ اگر کچھ لوگ اس پر عمل کرلے توبقیہ لوگوں سے اس کا مطالبہ ختم ہوجائےگا جیسے آخری عشرہ کا اعتکاف
نوٹ:
سنت غیر مؤکدہ کو مندوب اور مستحب بھی کہاجاتاہے،
حرام:
جس شئ کی حرمت دلیل قطعی سے ثابت ہو جیسے شراب، ربا ،جھوٹ کی حرمت،
حرام کا حکم:
اس کا کرنے والا سخت عذاب کا مستحق اور نہ کرنے والامستحق ثواب ہوگا،
مکروہ کے لغوی معنی:
مکروہ باب سمع سے اسم مفعول کا صیغہ ہے جس کے معنی ناپنسد کرنا
مکروہ کے اقسام:
مکروہ کی دوقسمیں ہیں
مکروہ تحریمی:
جس چیز کی حرمت دلیل ظنی سے ثابت ہو جیسے مغضوبہ زمین میں نماز پڑھنا ، عید کے دن روزہ رکھنا، سونے چاندی کے برتن کا استعمال کرنا
مکروہ تحریمی کا حکم:
اس کا منکر فاسق ہے بلا عذر کرنے والا گنہگارہوگا.
مکروہ تنزیہی:
وہ کام جس کے کرنےکی شریعت نے نفرت دلا
ئی جیسے بوقت وضو پانی کے استعمال میں اسراف کرنا
مکروہ تنزیہی کا حکم:
اس کا نہ کرنے والامستحق ثواب اور  کرنے والا سزا کا مستحق نہ ہوگا
فائدہ:
مکروہ تحریمی حرام کے قریب ہوتا ہے، اور مکروہ تنزیہی حلال کے قریب ہوتا
مباح کی تعریف:
وہ کام شریعت نے نہ اس کے کرنے کا حکم دیا اور اس سے روکنے کا جیسے کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا،
فقط
والله أعلم بالصواب
(نوادر الحقائق١/٤٦،٤٧)
(تسهيل الحقائق١/١٢،١٣،١٤،١٥،)
ازقلم:
أبو طيب كنج كهيرا
جادم جامعه اسلاميه رياض العلوم انوا

https://t.me/daruluifta

قمری کلینڈر کو رواج دیں

اسلامی کیلنڈر ’’ہجری کیلنڈر‘‘ کہلاتا ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے واقعہ ہجرت کی طرف اس کی نسبت ہے، عربی زبان میں ’’ہجر‘‘ کے معنی چھوڑ نے کے ہیں، اسی سے ہجرت کا لفظ ماخوذ ہے ، ہجرت ایک اسلامی اصطلاح ہے، ایمان کی حفاظت یاد ین کی اشاعت کی غرض سے ترکِ وطن کرنے کو ’’ہجرت‘‘ کہتے ہیں، ’’تارکین وطن‘‘ آج کل ایک بین الاقوامی اصطلاح ہے، ہر ملک میں تارکین وطن موجود ہیں ، ترقی یافتہ ممالک میں ان کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے، یہ وہ تارکین وطن ہیں ، جنھوں نے معاشی اور سیاسی مقاصد کے تحت اپنا وطن چھوڑا ہے، ان کو مہاجرین کہنا ’’ہجرت‘‘ کے مقدس لفظ کے ساتھ نا انصافی ہے۔
ہجرت دراصل پیغمبروں کی سنت ہے، شاید ہی کوئی پیغمبر ہو جس کو ہجرت نہ کرنی پڑی ہو، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ  اور حضرت لوط علیہم الصلوۃ و السلام وغیرہ کی ہجرت کے واقعات تو خود قرآن مجید میں مذکور ہیں ؛ لیکن تاریخ میں ہجرت کے نام سے جو شہرہ آپ ا کی ہجرت کو ہوا ، کسی اور پیغمبرکی ہجرت کو وہ شہرت حاصل نہیں ہوئی ، آپ ا۵۷۱ء میں پیدا ہوئے اور ٹھیک ۴۰ ؍ سال کی عمر یعنی ۶۱۱ء میں آپ اکو نبوت سے سرفراز فرمایا گیا ، آپ اکی صداقت و دیانت اور اخلاقی خوبیوں کا پورے مکہ میں چرچا تھا ، آپ انے اپنا بچپن اور جوانی اسی مکہ میں گزارا ، نبوت کے بعد آپ اکے خلاف لوگوں نے ہر طرح کی ایذاء رسانی کا راستہ اختیار کیا ؛ لیکن کوئی انگلی نہ تھی جو آپ ا کے کردار پر اُٹھے اور کوئی زبان نہ تھی جو آپ ا کی دیانت و پاکیزگی پر کھلے ۔
۱۳ ؍ سال آپ ا نے مکہ میں دعوتِ دین کی جد و جہد فرمائی ، یہ ۱۳ ؍ سال ایسے گزرے کہ شب و روز آپ ابے قرار رہتے کہ کسی طرح اللہ کے بندے اللہ کو پالیں اور صحیح راستہ کی طرف آجائیں ، پورا دن آپ ا گلیوں ، کوچوں اور بازاروں میں گھوم گھوم کر دعوت دینے میں گزارتے ، ایک ایک دروازہ پر پہنچتے اور دروازۂ دل کو دستک دیتے ، ایک ایک شخص سے ملتے اور اس کی خوشامد فرماتے ؛ لیکن بہت کم لوگ تھے ، جنھوں نے آپ ا کی دعوت پر لبیک کہا ، اکثریت ان لوگوں کی تھی کہ حق کی روشنی ان کے سامنے دو پہر کی دھوپ کی طرح کھل کر آگئی ، مگر بت پرستی اور بے دینی کو چھوڑ نے پر وہ آمادہ نہیں تھے ؛ کیوںکہ یہی ان کے آباء و اجداد کا مذہب تھا ، اس درمیان کوئی تکلیف نہ تھی جو آپ ا کو پہنچائی نہ گئی ہو ، آپ اکا پورے خاندان سمیت بائیکاٹ کیا گیا ، مسلمان لقمہ لقمہ کو ترستے تھے اور آپ ااپنے اہل خاندان کے ساتھ درخت کے پتے اور چھال تک کھانے پر مجبور تھے ، جسم اقدس پر اونٹ کی اوجھ اور غلاظت ڈال دی گئی ، گلے میں پھندہ ڈال کر جان لینے کی کوشش کی گئی ، راستہ میں کانٹے بچھائے گئے ، جملے کسے گئے اور تالیاں پیٹی گئیں ، آپ ا کو فاتر العقل اور جادو گر مشہور کیا گیا ۔
نبوت کے سال آپ انے طائف کا رخ کیا ، شاید ان کو قبولِ اسلام کی توفیق ہو ؛ لیکن طائف کی زمین مکہ سے بھی زیادہ سخت ثابت ہوئی ، انھوں نے نہ صرف انکار کیا ؛ بلکہ آپ ا کے پیچھے اوباش لڑکوں کو بھی لگادیا ، یہ آپ اپر پتھر پھینکتے ، خاک اُڑاتے ، ہنستے اور تمسخر کرتے ، جسم لہو لہان ہوگیا ، نعلین مبارکین میں خون جم گیا ، گھٹنے زخمی ہوگئے ، آپ ابیٹھ جاتے ، تو یہ آپ ا کو کھڑا کر دیتے ، حضرت زید بن حارثہ ساتھ تھے ، انھوں نے آپ ا کو کاندھوں پر اُٹھالیا اور ایک باغ کی پناہ لی ، ٹوٹے ہوئے دل اور اشکبار آنکھوں سے آپ ا خدا کی طر ف متوجہ ہوئے ، جب مطمئن ہوگئے تو بڑی پُر درد دُعاء فرمائی ، آپ انے فرمایا  :
الٰہا ! اپنے ضعف و بے سروسامانی اور لوگوں کے مقابلہ میں اپنی بے بسی کی فریاد آپ ہی سے کرتا ہوں ، آپ رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں ، درماندہ بے کسوں کے پروردگار آپ ہی ہیں ، آپ ہی میرے مالک ہیں ، آخر آپ مجھے کس کے حوالے کر رہے ہیں ؟ کیا اس حریف بے گانہ کے جو مجھ سے ترش روئی روا رکھتا ہے ، یا ایسے دشمن کے جو میرے معاملہ پر قابو رکھتا ہے ؛ لیکن اگر مجھ پر آپ کا غضب نہیں ہے تو پھر مجھے کچھ پرواہ نہیں ، بس آپ کی عافیت میرے لئے زیادہ وسعت رکھتی ہے ، میں اس بات کے مقابلہ میں کہ آپ کاغضب مجھ پر پڑے یا آپ کا عذاب مجھ پر نازل ہو ، آپ ہی کے نور جمال کی پناہ مانگتا ہوں ، جس سے ساری تاریکیاں روشن ہو جاتی ہیں اور جس کے ذریعہ دین و دنیا کے تمام معاملات سنور جاتے ہیں ، مجھے تو آپ کی رضامندی اورخوشنودی مطلوب ہے، آپ کے سوا کہیں سے کوئی قوت و طاقت نہیں مل سکتی ۔ 
خدا کی قدرت دیکھئے کہ ایمان اور اسلام کی جو تخم آپ ا نے مکہ اور طائف کی سرزمین میں بوئی تھی ، اللہ اس سے اہل مدینہ کے دلوں کو بار آور فرما رہا تھا ، بارش کہیں اور ہو رہی تھی اور ایمان کا آب حیات کہیں اور جمع ہو رہا تھا ، حج کے موقع سے مدینہ کے لوگ مکہ آئے ، ان کے کان آپ اکی دعوت کی طرف متوجہ ہوئے ، وہ مخلص اور حق کے متلاشی تھے ، ضد اوراکڑ نہ تھی ، اس لئے فوراً ہی کانوں سے دلوں تک کا فاصلہ طے ہوا ، ایمان لائے اور اہل ایمان کو پناہ دینے کا عہد بھی کیا ، مکہ کی زمین بتدریج اہل ایمان پر تنگ سے تنگ تر ہوتی جاتی تھی ، بعض مسلمانوں کو گلے میں پھندا ڈال کر گرم ریتوں پر گھسیٹا جاتا ، بعضوں کو سلگتے ہوئے شعلوں پر لٹایا جاتا اور ان کے جسم سے رسنے والے لہو سے آگ بجھائی جاتی ، کسی کو دھوئیں کی دھونی دی جاتی ، بعضے تو بے رحمی سے شہید ہی کر دیئے گئے ۔
لیکن مجال نہ تھی کہ دامنِ صبر مسلمانوں سے چھوٹ جائے اور حکم خداوندی کے بغیر وہ اپنے طور سے فیصلہ کریں ، آخر خود خدا کی طرف سے حکم ہوا کہ مسلمان مکہ چھوڑ کر مدینہ آجائیں ، مسلمان آہستہ آہستہ مدینہ آنے لگے اور صرف وہی مکہ میں رہ گئے ، جو یہاں سے جا نہیں سکتے تھے ؛ لیکن آپ اابھی تک مکہ ہی میں مقیم تھے اور اپنے بارے میں حکم خداوندی کے منتظر ، اسلام کے دشمنوں نے آپ اکے قتل کا منصوبہ بنا یا ، ہر قبیلہ سے ایک ایک نمائندہ لے کردرِ دولت کا محاصرہ کر لیا ، ادھر خدا کی طرف سے صورتِ حال سے آپ ا کو آگاہ فرمایا گیا ، آپ اپورے اطمینان کے ساتھ کچھ آیتیں پڑھتے ہوئے اور ایک مشت ِغبار محاصرین پر پھینکتے ہوئے باہر نکل آئے اور چھپتے چھپاتے کچھ دنوں میں مدینہ تشریف لائے ، آپ اکے سر دھڑ پر انعام مقرر ہوا ، پیچھا کرنے والوں نے پیچھا کی اور اپنے تئیں آپ اکی اور آپ ا کے رفیق خاص حضرت ابو بکر صکی جان لینے کی کوشش میں کوئی کسر نہ رکھی ، مگر خدا کی تدبیر کے سامنے ساری تدبیریں اکارت گئیں اور نبوت کا جو آفتاب مکہ میں طلوع ہوا تھا ، مدینہ میں مہر نیم روز بن کر روشن ہوا ۔
آپ اجب مدینہ میں داخل ہوئے تو جشن کا منظر تھا ، بچے ، بوڑھے ، جوان ، مرد اورعورت ، آقا اور غلام ، بڑے اور چھوٹے ، دل اورآنکھیں بچھائے پروانہ وار کھڑے تھے ، زبان پر استقبالیہ نغمے ، نگاہانِ شوق بے تاب ، یاتو مکہ کی سرزمین مسلمانوں پر تنگ تھی یا پھر مدینہ نے دل و جگر راہوں میں بچھا رکھے تھے ، مہاجرین کے لٹے پٹے قافلوں کو اہل مدینہ نے اپنے یہاں جگہ دی ، گھر دیا ، دَر دیا ، کھیت اور باغات نثار کئے اور سب سے بڑھ کر اتھاہ محبت اور پیار کی سوغات دی ، اہل مدینہ نے جو ایثار کیا ، شاید ہی انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال مل سکے ، اہل مکہ کی قربانیاں بھی کچھ کم نہ تھیں ، گھر چھوڑا ، وطن چھوڑا ، وطن کی فضاؤں کو خیر باد کہا ، اعزہ واقرباء کی محبت قربان کی اور اپنی پوری دنیا سے منھ موڑ کر ایک ایسی منزل کو چل پڑے جہاں اجنبیت سے سابقہ تھا اور مستقبل موہوم تھا ، اس لئے آپ آپ انے مکہ سے ترک وطن کر کے آنے والوں کو ’’مہاجرین ‘‘ اور مدینہ کے رہنے والوں کو ’’ انصار ‘‘ کا نام دیا ، مہاجرین کے معنی ہیں ’’ دین کے لئے ترک وطن کرنے والا ‘‘ اور ’’ انصاری‘‘ کے معنی ہیں اہل ایمان کی مدد ونصرت کرنے والا ، مسلمانوں میں ان دو طبقوں کے سوا کسی تیسرے طبقہ کا تصور نہیں ، نہ ذات پات کا ، نہ قبیلہ اور برادری کا ،  نہ ملک اور صوبہ کا ، نہ زبان کا ، کوئی اور تقسیم نہیں جو اللہ تعالیٰ کو مسلمانوں کی گوارا ہو ۔
ہجرت کا یہ واقعہ ایک طرف مسلمانوں کی قربانی اور دین کی حفاظت و اشاعت کے لئے پیغمبر اسلام ااور ان کے رفقاء عالی مقام کے ایثار و فدا کاری کی یاد گار ہے اور دوسری طرف آئندہ اسلام کو جو فتوحات اور کامیابیاں حاصل ہوئیں ، ان کا مقدمہ ، یہ محض مکہ سے مدینہ کی طرف سفر نہیں تھا ؛ بلکہ مغلوبیت سے غلبہ و ظہور کی طرف اور مقہوریت سے طاقت و شوکت کی طرف سفر تھا ، بظاہر مسلمانوں پر زمین تنگ ہو رہی تھی ؛ لیکن خدا نے اسی تنگی میں آفاق کی وسعت کو سمو رکھا تھا ، یہ واقعہ نااُمیدیوں میں اُمید کی کرن سے روشناس کرتا ہے اور حوصلہ شکن حالات میں اُمید وحوصلہ کا چراغ جلاتا ہے اور اس بات کو بھی یاد دلاتا ہے ، کہ کیسی کیسی قربانیوں اور جانثاریوں سے خدا کے اس دین کو سربلند کیا گیا ہے اور کس قدر خون و لہو کے ذریعہ حق وصداقت کے اس شجرۂ طوبیٰ کی آبیاری فرمائی گئی ہے ؟
حضرت عمرص کے سامنے بحیثیت خلیفہ ایک فائل آئی ، جس میں تاریخ درج تھی ، سال درج نہ تھا ، آپص کو خیال ہوا کہ مسلمانوں کا اپنا کیلنڈر ہونا چاہئے ، آپ ص نے مجلس شوریٰ میں یہ تجویز رکھی اور غالباً حضرت علی ص کی رائے پر فیصلہ ہوا کہ اسلامی کیلنڈر واقعۂ ہجرت پر مبنی ہونا چاہئے ؛ چنانچہ مہینوں کی ترتیب وہی قائم رہی جو اسلام سے پہلے عربوں میں مروج تھی ، محرم سے آغاز اور ذوالحجہ پر اختتام اور سال کا آغاز واقعۂ ہجرت کے سال سے مانا گیا ، اس طرح ۱۴۱۹ھ کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام اکے واقعۂ ہجرت کو اتنے سال گزر چکے ۔
کیلنڈر بھی کسی قوم کی اپنی شناخت ہوتی ہے ، اس سے قوم و ملت کی تاریخ وابستہ ہوتی ہے ، ہجری کیلنڈر پر غور کر جائیے ، اس میں اکثر مہینوں کے نام وہ ہیں جو اسلامی عبادات اورمسلمانوں کی مذہبی روایات کی نشان دہی کرتے ہیں اور نام ہی سے ان مہینوں سے متعلق عبادات اورواقعات کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے ، دوسری قوموں کے جو کیلنڈر مروج ہیں ، وہ بھی ان کے مذہبی افکار و روایات کا مظہر ہیں ، یہی حال مہینوں اور ہفتوں کے نام کا ہے ، مثلاً Sunday اور Monday کے الفاظ ہی پر غور کیجئے ، ان کے معنی ہیں سورج کے دن اور چاند کے دن ؛ چوںکہ اہل یونان کے یہاں ایک دن سورج کی پرستش کے لئے مقرر تھا اور ایک دن چاند کی پرستش کے لئے ، اسی لئے مختلف دیوتاؤں کے نام سے دنوں کے نام ہوا کرتے تھے ، کچھ اسی طرح کا معنی مہینوں کے نام کے پیچھے بھی کار فرما ہے ، اسی لئے حضرت عمرص نے ان کیلنڈروں کو قبول نہیں فرمایا ، جو اس زمانہ میں مروج تھے ۔
پس اسلامی کیلنڈر مسلمانوں کی اپنی ایک پہچان ہے ، اس لئے ہمارا فرض ہے کہ اس کیلنڈر کو رواج دیں اور آنے والی نسلوں کو اس کے پس منظر اور اس کی دینی و ملی حیثیت سے واقف کرائیں ، علماء نے لکھا ہے کہ ہجری کیلنڈر کے چلن کو باقی رکھنا اور اس کی ترویج کی سعی کرنا فرض کفایہ یعنی اُمت کا اجتماعی فریضہ ہے ، یہ کیلنڈر ہمیں ہمارا تشخص یاد دلاتا ہے اور ہجرت کے عبرت آمیز اور موعظت انگیز واقعہ کی طرف ہمیں متوجہ کرتا ہے ۔
(مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)

Wednesday, 20 September 2017

مايقول إذا رأي الهلال؟

مايقول إذا رأي الهلال ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عن طلحة قال كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا رأي الهلال قال اللهم أهله علينا باليمن والإيمان والسلامة والإسلام. ربي وربك الله.اخرجه الطبراني في الدعاء برقم 903.
والحديث ضعيف.فيه سليمان بن سفيان وهو ضعيف.قال ابن حجر:حديث حسن.الفتوحات الربانية 329/4...وأخرجه الترمذي باب مايقول عند روية الهلال برقم 3451...والإمام أحمد في المسند 162/1.....والدارمي 4/2...وابن أبي العاصم في سننه برقم 376....قال الترمذي حسن غريب.قال الألباني حديث حسن. وإسناده ضعيف.من أجل سليمان بن سفيان...وأخرجه الحاكم في المستدرك 385/4...ونقل ابن حجر ان الحاكم قال صحيح الإسناد ثم قال وغلط فيه لأن سليمان بن سفيان ضعفوه.
وعن بن عمر ان النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا رأي الهلال قال اللهم أهله علينا هلال يمن وبركة.أخرجه الطبراني في الدعاء برقم 904.
وأخرجه إبن السني برقم 649.إسناده ضعيف لأجل هشام بن زياد وهو متروك.
وعن ابي سعيد كان النبى صلى الله عليه وسلم إذا رأي الهلال قال هلال خير ورشد.انت بالذي خلقك ثلاث مرات.ثم يقول الحمد لله الذي جاء بالشهر وأذهب بالشهر.
إسناده ضعيف. قال بن حجر هذا حديث غريب.الفتوحات الربانية 332/4...وابن السني برقم 642...والطبراني في الدعاء برقم 905.
وعن أنس بن مالك كان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا رأي الهلال قال هلال خير ورشد ثلاث مرات. انت بالذي خلقك.أخرجه الطبراني في الأوسط 20/1.....قال في المجمع 139/19 فيه أحمد بن عيسى اللخمي ولم أعرفه. وأخرجه في الدعاء برقم 906. .
فالذي يثبت عند روية الهلال هو "اللهم أهله علينا باليمن والإيمان والسلامة والإسلام ربي وربك الله.
وأما الزيادة عليه بألفاظ أخرى أمثال "ورضوان من الرحمن وجوار من الشيطان فلاتثبت ولا تحفظ.
ولذالك قال أبو داود ليس في هذا الباب عن النبي صلى الله عليه وسلم حديث مسند صحيح. الأذكار للنووي
صفحة 160.
ولهذا الحديث شواهد مرسلة وموصولة يقوي بها .
وفي مسند الدارمي عن بن عمر قال كان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا رأي الهلال قال الله أكبر اللهم أهله علينا بالأمن والإيمان والسلامة والإسلام والتوفيق لما تحب وترضى ربنا وربك الله.الأذكار صفحه 159. .
وفي الباب عن علي وعبادة بن الصامت ورافع بن خديج وعائشة رضي الله عنهم وعنها.
والله أعلم وعلمه أتم بالصواب.
أبو أسامة شكيل منصور القاسمي
أول محرم الحرام سنة 1438 هجرية.
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شروع ماہ کا چاند دیکھ کر یہ دعا پڑھتے:
(اَللّٰہُمَّ أَهِلَّہ‘عَلَیْنَا بِالْیُمْنِ وَالإِْیْمَانِ، وَالسَّلَامَۃِ وَالإِْسْلَامِ، رَبِّیْ وَرَبُّکَ اللّٰہُ)۔
ترجمہ: اے اللہ! اس چاند کو ہم پر برکت، ایمان، خیریت اور اسلام کے ساتھ نکال۔
(اے چاند) میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔ (طبرانی 903 ۔ راوی سلیمان بن سفیان کی وجہ سے حدیث ضعیف ہے).
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ  سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاند دیکھتے تو یہ پڑھتے؛
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ ھِلَالُ یُمْنٍ وَبَرَکَۃٍ
(الدعاء:۳/۱۲۲۳،بسند ضعیف،ابن سنی:۵۹۶)
ترجمہ: اے اللہ اسے برکت کا چاند بنا۔
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاند دیکھتے تو یہ پڑھتے؛
ھِلَالَ خَیْروَ رُشْدٍ۔ أنت بالذى خلقك ثلاث مرات.
ترجمہ: بھلائی اوراچھائی کا چاند۔ ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی چاند دیکھتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تین بار یہی دعا پڑھنے کی روایت ہے۔ (طبرانی اوسط 20/1۔مجمع 19/139) 
خلاصہ یہ ہے کہ شروع ماہ کے چاند دیکھتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اس قدر پڑھنا ثابت ہے: 
(اَللّٰہُمَّ أَهِلَّہ‘عَلَیْنَا بِالْیُمْنِ وَالإِْیْمَانِ ، وَالسَّلَامَۃِ وَالإِْسْلَامِ ، رَبِّیْ وَرَبُّکَ اللّٰہُ )۔
اس دعا پہ "ورضوان من الرحمن وجوار من الشیطان" جیسے کلمات کا اضافہ محفوظ وثابت نہیں ہے۔۔
مسند دارمی میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے چاند دیکھتے وقت حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا یہ دعا پڑھنا بھی مروی ہے:

اَللّٰھُمَّ اَھِلَّہٗ عَلَیْنَا بَالْیُمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ وَالتَّوْفِیْقِ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی رَبِّیْ وَرَبُّکَ اللّٰہُ۔ 
اے اللہ اس چاند کو ہمارے اوپر برکت اور ایمان اور سلامتی اور اسلام کے ساتھ اور ان اعمال کی توفیق کے ساتھ نکلا ہوا رکھ، جو تجھے پسند ہیں، اے چاند میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔ 
(الاذکار للنووی 159)
واللہ اعلم بالصواب 
شکیل منصور القاسمی

صوم عاشوراء؛ فضائل و مسائل

عاشوراء عشر سے ماخوذ ہے "فاعولاء" بالمد کے وزن پر عاشر کے معنی میں ہے۔ موصوف محذوف کی صفت ہے یعنی اللیلة العاشوراء۔ اس سے مراد محرم کی دسویں تاریخ ہے۔ (فتح الباری 212/4۔۔ معارف السنن 109/6)۔
احناف کے نزدیک رمضان کا روزہ فرض ہونے سے قبل عاشوراء کا روزہ فرض تھا۔ (بخاری حدیث نمبر 1489۔ موطا محمد 372 ) ۔۔۔ صوم رمضان کی فرضیت کے بعد عاشوراء کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور استحباب باقی رہا۔ پھر استحباب کے بھی تین درجے ہیں۔
1۔۔   :یوم عاشوراء سے ایک دن قبل اور ایک دن بعد روزہ رکھے یعنی نو، دس، گیارہ محرم، تین دن روزہ رکھے۔
2۔۔۔ :دوسرا درجہ یہ ہے کہ عاشوراء کے ساتھ یا تو نو کو یا گیارہ کو روزہ رکھا جائے ۔
3۔۔۔ :تیسرا درجہ یہ ہے کہ صرف عاشوراء کا روزہ رکھاجائے لیکن چونکہ اس دن یہود بھی روزہ رکھا کرتے تھے اور یہودیوں کے ساتھ مخالفت کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے، اس لئے تنہا عاشوراء کا روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی یعنی خلاف اولی ہے لیکن روزہ کا ثواب اس سے بھی مل جائے گا۔ (مظاہر حق جدید 771/2 )۔
لہذا مذکورہ دو طریقوں میں سے حسب سہولت کسی بھی طریقہ سے عاشوراء کے روزے رکھے جاسکتے ہیں۔
عاشوراء کے روزہ کی بڑی فضیلت ہے 
مسلم شریف وترمذی شریف کی ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے مجھے اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ عاشوراء کے دن روزہ رکھنے سے پچھلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 481۔ ترمذی حدیث نمبر 743)
امام ترمذی نے عاشوراء کے روزہ کی فضیلت وترغیب کے بارے میں آٹھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایت حدیث کا حوالہ دیا ہے لیکن حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مذکورہ حدیث اصح مافی الباب ہے،
ایک سال کے گناہ معاف ہونے کا مضمون صرف حضرت قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت میں ہے دوسری روایتوں میں یہ مضمون نہیں آیا یے۔
الغرض عاشوراء کے روزہ سے ایک سال پچھلے صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اگر ساتھ میں سچی توبہ بھی کرلے تو ان شآء اللہ کبیرہ گناہ بھی معاف ہوجائیں گے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار چیزوں کا ہمیشہ اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
1۔۔صوم عاشوراء ۔
2۔۔ذی الحجہ کے نو روزے۔
3۔۔ہر ماہ کے تین روزے۔
4۔۔نماز فجر سے پہلے کی دو رکعات سنتیں۔ (مشکوة ۔صفحہ 178)
عاشوراء کے دن گھر والوں پر کشادگی کرنے سے پورے سال روزی میں کشادگی ہونے کی حدیث ابن مسعود، ابوھریرہ، ابوسعید اور جابر رضی اللہ عنہم سے رزین اور بیہقی نے روایت کی ہے لیکن فنی حیثیت سے ضعف ہے۔سیوطی نے دوسرے طرق شواھد بھی بتائے ہیں لیکن پھر بھی محدثین اسے ضعیف ہی مانتے ہیں۔ دیکھئے تلخیص کتاب الموضوعات لابن الجوزی للذھبی حدیث نمبر 594۔۔اللئالی المصنوعة 111/2۔۔المقاصد الحسنہ صفحہ 674۔۔تنزیہ الشریعہ 157/2۔۔الفوائد المجموعہ صفحہ 98۔تمام المنة  صفحہ 410۔۔۔
البتہ حافظ ابن عبد البراور دار قطنی نے حضرت عمر سے اس طرح کا خود ان کا قول نقل کیا ہے اور اس کی سند بھی قابل قبول ہے. (کتاب الفتاوی 485/1 )
اس لئے ثواب کی نیت سے تو نہیں لیکن حصول وسعت رزق کی نیت سے اس پر عمل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ وسعت رزق کے اور بھی کئی نافع ترین نسخے ہیں ان میں سب سے کامیاب ترین نسخہ ترک گناہ یعنی تقوی ہے۔
مفتی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: کشادگی رزق والی حدیث اگرچہ مضبوط نہیں لیکن اگر کوئی شخص اس پر عمل کرے تو کوئی مضائقہ نہیں ......... لہذا اس دن اگر گھر والوں کھانے میں ضرور وسعت کرنی چاہئے۔ اس سے آگے لوگوں نے جو چیزیں اپنی طرف سے گھڑلی ہیں، ان کی کوئی اصل نہیں۔ (اصلاحی خطبات 87/14)
عاشوراء کی اس قدر فضیلت تو ثابت ہے باقی اس سے آگے بڑھ کے یوں کہنا کہ عاشوراء کے روزہ سے ساٹھ سال کے روزے ایک ہزار حاجی دس ہزار شہید ساتوں زمین وآسمان کے بقدر ثواب کا ملنا تو یہ سب واہیات ہے۔ علامہ ذھبی نے سب کو موضوعات میں شمار کیا ہے.
دیکھئے تلخیص کتاب الموضوعات لابن الجوزی للذھبی حدیث نمبر 503۔۔
واللہ اعلم بالصواب
محمد صابر نظامی القاسمی

Tuesday, 19 September 2017

أفضلية الخليل عن الحبيب

أفضلية الخليل عن الحبيب
قد تكون المشبهة به أدنى من المشبهة.
.............................................

شبه الصلاة علي نبينا بالصلاة علي ابراهىم - عليه و علي نبينا الصلاة والسلام -
كما تقولون : " كما صليت علي ابراهيم ، كما باركت علي ابراهيم " .
و من المعلوم ان المشبه به اقوي و اجلي من المشبه؟؟؟؟؟

فما هو الاجابه؟؟؟

......................................

الجواب وبالله التوفيق

مبنى هذا الإشكال أن المشبهة به يلزم أن تكون أفضل وأقوى من المشبهة.
وھذا بناء الفاسد علی الفاسد ۔
وبيانه أن المشبهة به لايلزم كونها أفضل وأقوى من المشبهة .
كيف وقد شبه الله سبحانه نوره الاعلى وأقوى من المصباح في المشكوة .حيث قال فى تنزيله العزيز .
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ  النور 24.
فهل يجترئ أحد من المسلم ويقول إن المصباح أقوى وأفضل من نور الله لأنه وقع مشبها به. !!
فهذا دليل قاطع على أن المشبهةبه قد تكون أدنى من المشبهة. كذا في هذه الآية وفي الصلوة في التشهد.....

أو يقال
أن التشبيه هنا لأصل الصلاة بأصل الصلاة.لا للقدر والكمية.
او يقال
إن التشبيه وقع في الصلوة علي الأل لاعلى الحبيب والخليل .فيكون معناه : اللهم صل على محمد منقطع عن التشبيه.
أو المشبهة الصلوة على محمد وأله. بالصلاة على إبراهيم وأله.
ومعظم الأنبياء أل إبراهيم. فإذا تقابلت الجملة بالجملة بقدر أن يكون أل الرسول كأل إبراهيم.
كذا في الطحطاوي علي المراقي صفحة 271.
وبا الجملةفبالنظر إلى الأقوال المذكورة يتبين جليا أن التشبيه لايقتضي أفضلية الخليل عن الحبيب .ولایلزم کون المشبهة به افضل من المشبهة . بل يكفي كونها اجلى وأظهر وأبين من المشبهة فقط.والله أعلم بالصواب
شكيل منصور القاسمي

بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا

بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کسی صحابی نے ایام جہالت میں اپنی بیٹی کو زندہ درگور کیا ہے اور بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے اس فعل پر پچھتاوا بھی کیا ہے؟
ایس اے ساگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
قیس بن عاصم التیمی کے بارے میں مختلف روایتوں میں آیا ہے کہ وہ اسلام سے قبل مختلف بیٹیوں کو زندہ درگور فرماچکے تھے ۔جس پہ وہ نادم تھے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام آزاد کرنے کی شکل میں اس کا کفارہ بتایا۔
اسلامی تاریخ سے نابلد بعض لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس طرح کی باتیں پھیلاتے ہیں جو قطعی بے بنیاد ہے۔
جاءَ قيسُ بنُ عاصمٍ التَّميميِّ إلى النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال : إني وأدتُ في الجاهليةِ ثمانِ بناتٍ ، فقال : أعتقْ عن كلِّ واحدةٍ منهنَّ نَسَمَةً .
عن عمر بن الخطاب/ البيهقي  في السنن الكبرى : الرقم: 8/116

أتيتُ أبا ذرٍّ فلم أجِدْه ورأيت المرأةَ فسألتُها، فقالت: هو ذاك في ضيعةٍ له، فجاء يقود أو يسوق بعيرينِ قاطِرًا أحدَهما في عجُزِ صاحِبِه في عنُقِ كلبٍ واحدٍ منهما قربة، فوضع القربتين، قلت: يا أبا ذرٍّ، ما كان في النَّاسِ أحَدٌ أحبُّ إليَّ أن ألقاه منك، ولا أبغضُ إليَّ أن ألقاه منك، قال: لِلَّهِ أبوك! وما يجمعُ هذا؟ قلتُ: إني كنت وأدْتُ في الجاهليَّةِ وكنت أرجو في لقائِك أن تُخبِرَني أنَّ لي توبةً ومَخرجًا وكنت أخشى في لقائِك أن تخبِرَني أنَّه لا توبةَ لي، فقال: أفي الجاهليَّةِ؟ قلت: نعم، قال: عفا الله عمَّا سلف .
عن نعيم بن قعنب الرباحي : الهيثمي . مجمع الزوائد - : 1/36 ..رجاله موثقون
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی