Friday, 22 August 2025

علم تجوید میں حروف کی صفات کا بیان

علم تجوید میں حروف کی صفات کا بیان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفات کی اہمیت
             جس طرح بغیر مخرج کے حرف ادا نہیں ہوسکتا اسی طرح بغیرصفات کے حرف کامل ادا نہیں ہوسکتا۔ جس طرح حُرُوف کے مخارج الگ الگ ہیں، اسی طرح ہر حرف میں پائی جانے والی صفات بھی جُدا جُدا ہیں۔ صفات کے ساتھ حرف کو ادا کرنے سے ایک ہی مخرج کے کئی حُرُوف آپس میں جُدا اور مُمتاز ہوجاتے ہیں۔ صفات ، صفت کی جمع ہے۔
صفت کا لغوی معنی: صفت کا لغوی معنی ٰ ہے ’’مَا قَا مَ بِشَیْ ئٍ‘‘ جو کسی شے کے ساتھ قائم ہو۔

 صفت کا اصطلاحی معنی: اصطلاح تجوید میں ’’صفت‘‘ حرف کی اس حالت یا کیفیّت کو کہتے ہیں جس سے ایک ہی مخرج کے کئی حُروف آپس میں جُدا اور ممتاز ہوجاتے ہیں۔ مثلاً حرف کا پُر یا باریک ہونا آواز کا بلند یا پست ہونا ، قوی یا ضعیف ہونا، نرم یا سخت ہونا وغیرہ جیسے ’’ص‘‘ اور’’س‘‘ اِن کا مخرج توایک ہے مگر ’’ص‘‘ صفتِ استعلاء اور اطباق کی وجہ سے پُر اور ’’س‘‘ صفتِ استفال اور انفتاح کی وجہ سے باریک پڑھا جاتا ہے۔

 صفات کی اقسام

            صفات کی دوقسمیں ہیں: {۱} صفاتِ لازمہ {۲} صفاتِ عارضہ ۔

 صفاتِ لازمہ کی تعریف: حرف کی وہ صفات جو حرف کے لئے ہروقت ضروری ہوں اور ان کے بغیر حرف ادا نہ ہوسکے یا حرف ناقص ادا ہو۔ مثلاً ’’ظ‘‘ میں صفتِ استعلاء اور اطباق ادانہ کی جائے توحرف ’’ظ‘‘ ادا ہی نہیں ہوگا ۔ حرف کو صفات لازمہ کے ساتھ ادا نہ کرنے سے لحن جلی واقع ہوتی ہے۔ (لمعاتِ شمسیہ حاشیہ فوائد مکیہ، ص۲۱، بتصرف)

 صفاتِ عارضہ کی تعریف: حرف کی وہ صفات جو حرف کے لئے کبھی ہوں اور کبھی نہ ہوں ان کے ادانہ کرنے سے حرف اد اہوجاتاہے لیکن حرف کی تحسین باقی نہیں رہتی ۔ مثلاًرا مفتوحہ کو باریک پڑھنا وغیرہ ۔ یہ صفات آٹھ حُرُوف میں پائی جاتی ہیں جن کا مجموعہ ’’اَوْ یَرْ مُلَانِ‘‘ ہے۔ صفاتِ عارضہ کی غلطی کو ’’لحنِ خفی‘‘ کہتے ہیں ۔ لیکن لحنِ خفی کو چھوٹی اور معمولی غلطی سمجھ کر اس سے بچنے کی کوشش نہ کرنا بڑی غلطی ہے۔

صفاتِ لازمہ کی اقسام: صفاتِ لازمہ کی دو قسمیں ہیں:
(1) صفاتِ لازمہ متضادہ     (2) صفاتِ لاز مہ غیرِ مُتَضادہ   
صفاتِ لازمہ مُتَضادہ کی تعریف:
        صفاتِ لازمہ متضادہ وہ صفات ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کی ضدہوں جیسے ’’ہمس‘‘ کی ضد ’’جہر‘‘ اور’’شدّت‘‘ کی ضد ’’ رخاوت‘‘ ہے۔
صفاتِ لازمہ مُتضادہ
صفاتِ لازمہ مُتَضادہ دس۱۰  ہیں۔ جن میں سے پانچ ، پانچ کی ضد ہیں۔
 {1}… ہمس                        {2} … جہر
{3}…شدّت                    {4} … رخاوت
{5}… استعلاء                   {6} … استفال
{7}… اطباق                    {8} … انفتاح
{9}… اذلاق                   {10}… اصمات
 
تفصیل
(1)…ہمس:
          لغوی معنی: ’’پستی‘‘ ۔ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجویدمیں ’’ضعف کی وجہ سے آواز کے پست ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ مہموسہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ دس۱۰ ہیں جن کا مجموعہ ’’فَحَثَّہ شَخْصٌ سَکَتْ‘‘ ہے۔
طریقۂ ادائیگی: حُروفِ مہموسہ کو ادا کرتے وقت آواز اُن کے مخرج میں اس قدر ضعف یعنی کمزوری سے ٹھہرتی ہے کہ سانس جاری رہتا ہے اور آواز پست ہو جاتی ہے۔
(2)…جہر:
         یہ صفت ہمس کی ضد ہے۔ لغوی معنی: ’’بلندی‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجویدمیں ’’قُوّت کی وجہ سے آواز کے بلند ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ مجہورہ‘‘ کہتے ہیں۔ حروف مہموسہ کے علاوہ باقی انیس ۱۹ حروف مجہورہ ہیں۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ مجہورہ کو ادا کرتے وقت آواز اُن کے مخرج میں اس قدر قُوّت سے ٹھہرتی ہے کہ اس کے اثر سے سانس کا جاری ہونا موقوف ہوجاتاہے اور آواز بلند ہوجاتی ہے۔
 
(3)…شدّ ت:
        لغوی معنی: ’’سختی‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجوید میں ’’قُوّت کی وجہ سے آواز کے سخت ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ شدیدہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ آٹھ۸ ہیں جن کا مجموعہ ’’أَجِدُ قَطٍ بَکَتْ‘‘ ہے ۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ شدیدہ کو ادا کرتے وقت آواز اُن کے مخرج میں اتنی قُوّت سے ٹھہرتی ہے کہ فوراً بند ہوجاتی ہے اورسخت ہوجاتی ہے۔
(4)…رخاوت:
        یہ صفت’’شدّت ‘‘کی ضد ہے۔ لغوی معنی: ’’نرمی‘‘، اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجویدمیں ’’ضعف کی وجہ سے آواز کے نرم ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ رخوہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ سولہ ۱۶ ہیں۔ جو حُرُوفِ شدیدہ اور حُرُوفِ مُتَوسّطہ کے علاوہ ہیں۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ رخوہ کو ادا کرتے وقت آواز اُن کے مخرج میں اتنے ضعف سے ٹھہرتی ہے جس کی وجہ سے آواز جاری رہتی ہے اور نرم ہوجاتی ہے۔
٭…(توسط): لغوی معنی: ’’درمیان‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجوید میں ’’شدّت اور رخاوت کی درمیانی حالت کے ساتھ پڑھنے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ مُتَوَسّطِہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ پانچ ہیں جن کا مجموعہ ’’لِنْ عُمَرْ‘‘ ہے۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ متوسطہ کو ادا کرتے وقت آواز اُن کے مخرج میں نہ تو مکمل بند ہوتی ہے کہ شدّت پیدا ہوجائے اور نہ ہی مکمل جاری رہتی ہے کہ رخاوت پیدا ہوجائے بلکہ اس کی درمیانی حالت رہتی ہے۔
(5)…استعلاء :
           لغوی معنی: ’’بلندی چاہنا‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجویدمیں ’’زبا ن کی جڑ کے تالو کی جانب بلند ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ مُسْتَعْلِیَہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ سات ۷ ہیں جن کا مجموعہ ’’خُصَّ ضَغْطٍ قِظْ‘‘ ہے۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ مستعلیہ کو ادا کرتے وقت زبان کی جڑ تالو کی جانب بلند ہوتی ہے جس کی وجہ سے حُرُوف پُر پڑھے جاتے ہیں ۔
(6)…استفال:
        یہ صفت’’ استعلاء ‘‘ کی ضد ہے ۔ لغوی معنی: ’’نیچائی چاہنا‘‘اصطلاحی معنی : اصطلاحِ تجویدمیں ’’ زبان کی جڑکے تالو کی جانب بلند نہ ہونے ‘‘ کو کہتے ہیں ۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ مُسْتَفِلَہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ بائیس ۲۲ ہیں جو ’’حُرُوفِ مستعلیہ‘‘ کے علاوہ ہیں۔
طریقۂ ادائیگی: حُروفِ مستفلہ کو ادا کرتے وقت زبان کی جڑ تالو کی جانب بلند نہیں ہوتی بلکہ نیچے رہتی ہے اس لئے یہ حُرُوف باریک پڑھے جاتے ہیں۔
(7)… اطباق:
          لغوی معنی: ’’مل جانا یا ڈھانپ لینا‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجوید میں  ’’زبان کے پھیل کر تالو سے مل جانے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ مُطْبَقہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ چار ۴ ہیں جن کا مجموعہ ’’صطظض‘‘ ہے۔
طریقۂ ادائیگی: حُروفِ مطبقہ کو ادا کرتے وقت زبان تالو سے مل جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ حُرُوف بَہُت ہی پُر پڑھے جاتے ہیں۔
(8)…انفتاح:
        یہ صفت ’’اِطباق‘‘ کی ضد ہے۔ لغوی معنی: ’’جُدا رہنا یا کھلا رہنا‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجوید میں ’’زبان کے تالو سے جُدا رہنے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ مُنفَتِحَہْ‘‘ کہتے ہیں اور یہ پچیس ۲۵  ہیں جو حُروفِ مطبقہ کے علاوہ ہیں۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ منفتحہ کو ادا کرتے وقت زبان تالو سے جُدا رہتی ہے۔
(9)…اذلاق:
          لغوی معنی: ’’کنارہ‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجوید میں ’’حُرُوف کے ہونٹوں، دانتوں اور زبان کے کناروں سے پِھسل کربسہولت ادا ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ مُذلَقَہ‘‘ کہتے ہیں اوریہ چھ ۶ ہیں جن کا مجموعہ ’’فَرَّ مِنْ لُّبٍّ‘‘ ہے۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ مذلقہ اپنے مخارج سے پِھسل کر بسہولت ادا ہوتے ہیں۔
(10)…اِصمات:
            یہ صفت ’’اِذلاق‘‘ کی ضد ہے۔ لغوی معنی: ’’روکنا‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجوید میں ’’حُرُوف کے مضبوطی اور جماؤ کے ساتھ ادا ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوف مُصْمَتَہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ تیئس ۲۳ ہیں جو کہ حُرُوفِ مذلقہ کے علاوہ ہیں۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ مصمتہ اپنے مخارج سے مضبوطی کے ساتھ جم کر ادا ہوتے ہیں ۔
صفاتِ لازمہ مُتضادہ کے حامل حروف کامجموعہ
نمبر شمار            حُروف                            تعداد                        مجموعہ
 ۱                  حُرُوفِ مہموسہ                     10                         فَحَثَّہ‘ شَخْصٌ سَکَتْ
۲                  حُرُوفِ مجہورہ                       19                         ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۳                  حُرُوفِ شدیدہ                      8                           أَجِدُ قَطٍ بَکَتْ
۴                  حُرُوفِ رخوہ                       16                         ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
- -                حُرُوفِ مُتَوَسّطِہ                    5                           لِنْ عُمَر
۵                  حُرُوفِ مُسْتَعْلِیَہ                    7                           خُصَّ ضَغْطٍ قِظْ
۶                  حُرُوفِ مُسْتَفِلَہ                     22                         ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۷                  حُرُوفِ مُطْبَقَہ                      4                           صطظض
۸                  حُرُوفِ مُنْفَتِحَہْ                     25                         ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۹                  حُرُوفِ مُذْلَقَہْ                       6                           فَرَّ مِنْ لُّب
۱۰                 حُرُوفِْ مُصْمَتَہْ                     23                         ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
(منقول) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/08/blog-post_22.html

Thursday, 21 August 2025

حینِ حیات ہی محبت اور قدر کا چراغ جلائیں

حینِ حیات ہی محبت اور قدر کا چراغ جلائیں!
-------------------------------
-------------------------------
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
"إِذَا أَحَبَّ الرَّجُلُ أَخَاهُ، فَلْيُخْبِرْهُ أَنَّهُ يُحِبُّهُ" 
(سنن ابی داؤد، حدیث: 5124)
یعنی جب کوئی شخص اپنے بھائی سے محبت کرے تو لازم ہے کہ وہ اسے اس محبت کی خبر دے۔
یہ چراغِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ روشنی عطا کرتا ہے کہ  کسی کی محبت اور قدر کا اعتراف واظہار ہمیشہ اُس کی زندگی میں ہی کرنا چاہیے، افسوس کہ ہم اکثر اس نور کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور موت کے بعد اس کی جستجو میں لگ جاتے ہیں۔ مرحوم کے محاسن بیان کرنا یقیناً ایک نیک عمل ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ پس مرگ الفاظ کی ستائش صرف گنبد کی بازگشت بن کر رہ جاتی ہے، نہ کانوں تک پہنچتے ہیں، نہ دلوں تک رسائی نصیب ہوتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں یہ ایک عام رجحان ہے کہ اہلِ کمال کی خوبیوں اور نیک سیرت کا اعتراف زندگی میں کم ہی کیا جاتا ہے۔ غفلت وبے اعتنائی، حسد و رقابت و معاصرت، اور سماجی رسم و رواج کا جمود ان چراغوں کو موہوم کردیتا ہے، اور نتیجۃً انسان کی عظمت وکمالات کا تذکرہ اُس وقت کیا جاتا ہے جب وہ خاک کی آغوش میں جاچکا ہو اور سننے کی طاقت سے محروم ہو۔
حالانکہ عقل و دانش یہی بتاتی ہے کہ سب سے بیش بہا وقت اعتراف و تعریف کا وہ ہے جب انسان زندہ ہو۔ اس وقت محبت کے الفاظ نہ صرف کانوں تک پہنچتے ہیں بلکہ دل میں اتر کر روح کو تازگی بخشتے ہیں۔ یہ اعتراف کسی کو مایوسی سے نکال کر حوصلہ عطا کرتا ہے اور نیکی و بھلائی کے سفر میں اس کے قدموں کو مزید استقامت بخشتا ہے۔ لوگوں کو ان کی شخصیت سے قریب کرتا ہے اور ان سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
بعد از مرگ کی گئی تعریف محض یادوں کے سائے رہ جاتے ہیں، جو لواحقین کے لیے تسلی کا سبب تو بن سکتی ہے مگر مرحوم کے لیے بے اثر ہے۔ لیکن زندگی میں کی جانے والی تعریف اور محبت ایک زندہ حقیقت ہے؛ یہ الفاظ زخموں پر مرہم رکھتے ہیں، دلوں کو جوڑتے ہیں، رشتوں کو مضبوط کرتے ہیں اور انسانیت کے چراغ کو منور کرتے ہیں۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اہلِ علم ہوں یا اہلِ فضل، دوست ہوں یا رشتہ دار، ہم ان کی نیکیوں اور خوبیوں کو پہچانیں، ان کی عظمت اور محاسن وکمالات کا اعتراف کریں اور وقت پر خراجِ تحسین پیش کریں۔ یہی حقیقی خیرخواہی ہے، اور یہی وہ نور ہے جو قلوب کو گرماتا اور معاشرے کو خوشبوؤں سے معمور کرتا ہے۔
(جمعرات 26 صفرالمظفر 1447ھ 21 اگست 2025ء
21 اگست، 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/08/blog-post_21.html

Wednesday, 20 August 2025

مختلف قہوہ جات اور ان کے طبی فوائد کیا ہیں؟

مختلف قہوہ جات اور ان کے طبی فوائد کیا ہیں؟
آج کل چائے کا استعمال حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ چائے صحت کے لئے نقصان دہ ہوسکتی ہے، خاص طور پر جب اس میں ملاوٹ شدہ پتی، چینی اور ناقص دودھ استعمال کیا جائے۔ اس کے برعکس قہوہ جات قدرتی جڑی بوٹیوں سے تیار ہوتے ہیں اور صحت کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں چند مفید قہوہ جات اور ان کے طبی فوائد:
☕ لونگ، دارچینی قہوہ:
اینٹی سیپٹک، بلغم ختم کرے، بھوک بڑھائے، جگر کو طاقت دے، جسم کی فالتو چربی کم کرے، پتھری میں مفید۔
☕ ادرک قہوہ:
ہاضمہ بہتر، بھوک میں اضافہ، ریاح خارج کرے، رنگت نکھارے۔
☕ تیز پات قہوہ:
دل، دماغ اور معدے کے لئے طاقتور، سردرد میں مفید۔
☕ اجوائن قہوہ:
ریاح کا خاتمہ، بخار میں فائدہ مند، گرمی کے امراض میں مفید۔
☕ گل بنفشہ قہوہ:
کھانسی، نزلہ، گلے کی خراش، سانس کی بندش میں شفاء۔
☕ گورکھ پان قہوہ:
خون کی صفائی، خارش کا خاتمہ، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول میں کمی۔
☕ ادرک + شہد قہوہ:
سردی، کھانسی، بند ناک اور موسمی اثرات سے تحفظ۔
☕ انجبار قہوہ:
دست بند کرے، آنتوں کو مضبوط بنائے، ٹانگوں کے درد میں مفید۔
☕ ڈاڑھی بوڑھ قہوہ:
فالج، لقوہ اور مردانہ/زنانہ کمزوریوں میں مفید۔
☕ گل سرخ قہوہ:
بلغم ختم، قبض دور، جسم کو نرم اور ہلکا رکھے۔
☕ کالی پتی قہوہ:
کمزوری ختم، پسینہ لائے، خون کی روانی تیز، سردی میں طاقتور۔
☕ لیمن گراس قہوہ:
بلغم، نزلہ، اسہال، لو بلڈ پریشر میں مفید۔
☕ زیرہ سفید + الائچی قہوہ:
معدے کی تیزابیت، بواسیر، بھوک بڑھانے اور ہاضمے کے لئے بہترین۔
☕ سونف قہوہ:
ریاح، کھانسی، معدے کی جلن، ہاضمے اور بھوک کے لئے مفید۔
☕ بادیان خطائی + دارچینی + الائچی قہوہ:
قوت ہاضمہ اور بھوک میں اضافہ، چائے کی عادت سے نجات۔
☕ بنفشہ + ملیٹھی قہوہ:
سینے کی جلن، کھانسی، قبض اور گلے کی خراش کا مؤثر علاج۔
☕ بہی دانہ + بنفشہ قہوہ:
نزلہ، دل اور گردے کے درد، پیشاب کی جلن، قبض میں فائدہ مند۔
☕ بنفشی قہوہ:
دائمی کھانسی، کیرا، ریشہ، نزلہ اور ہر موسم کے لئے مؤثر۔
🍵 مختصر یہ کہ چائے کی جگہ قہوہ اپنائیں، صحتمند زندگی پائیں! (منقول)
نوٹ: مزاجوں میں اختلاف کے سبب کسی بھی نسخے پر عمل پیرا ہونے سے قبل اپنے معالج سے مشورہ ضرور کرلیں۔ ( #ایس_اے_ساگر ) 
https://saagartimes.blogspot.com/2025/08/blog-post_20.html
#fypシ゚viralシfyp #LifeCare #like #share #comment #followme

Tuesday, 19 August 2025

علومِ شرعیہ کے حصول میں محنت و مشقت کی حقیقت

علومِ شرعیہ کے حصول میں محنت و مشقت کی حقیقت

-------------------------------
-------------------------------
سوال: حضرت مفتی صاحب، ویڈیو میں سختی سے متعلق‌ وحی سے جو استدلال کررہے‌ ہیں اس کے بارے میں آپ کی قیمتی آراء واطمینان بخش استدلال کا انتظار ہے۔
اعجاز احمد القاسمی
الجواب وباللہ التوفیق:
علومِ شرعیہ کا حصول پھولوں کی سیج نہیں، بلکہ صبر و ثبات،ریاضت، محنت و مشقت اور جہدِ مسلسل کا متقاضی ہے۔ علم کا نور اسی وقت میسر آتا ہے جب طالبِ علم اپنی راحت قربان کرے، اپنے نفس کو تھکائے اور مشقت کو گلے لگائے۔ جس طرح شمع اپنی روشنی کے لیے خود کو پگھلا دیتی ہے، اسی طرح علم کے متلاشی کو بھی اپنی ذات کو محنت کی بھٹی میں ڈالنا پڑتا ہے۔

ابتدائے وحی کے واقعے میں بھی یہی حقیقت جھلکتی ہے۔ جب پہلی وحی نازل ہوئی تو سیدِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے ثقل اور شدت کو برداشت کرنا پڑا۔ حدیثِ پاک کے الفاظ "حَتّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ" اس بات کی شہادت ہیں کہ وحی کا تحمل آسان نہ تھا۔ یہ کیفیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے کے لیے قطعی نہ تھی، بلکہ اس امر کی علامت تھی کہ وحی کا بار گراں ہے اور اسے اٹھانے کے لیے غیر معمولی صبر، حوصلے اور استقامت کی ضرورت ہے۔

میری رائے میں اسی نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے خطیبِ محترم سے تعبیر میں کچھ لغزش ہوئی ہے۔ اہلِ علم کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ حدیث بدءِ وحی کا تعلق تعلیم و تربیتِ اطفال سے نہیں ہے۔ یہ تو جبریل امین اور حضور سید انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ہے۔ نہ جبریل انسانی معلم تھے اور نہ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بچے تھے۔اس بنیاد پر اگر کوئی بچوں کو مارنے، تکلیف دینے یا ان کی تادیب پر اس حدیث سے استدلال کرے تو یہ علمی اصول استدلال کے خلاف ہے۔ اس باب میں استدلال اُن صحیح نصوص سے کیا جائے گا جو براہِ راست تربیتِ اطفال پر وارد ہوئی ہیں، جیسے نماز کی تعلیم اور دس برس کی عمر میں تادیب سے متعلق احادیث۔ یہی طرز علمی دیانت اور اصولِ استنباط کے مطابق ہے۔

باب بدء الوحي - باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله 

…..عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّهَا، قَالَتْ: "أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ، فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ، فَجَاءَهُ الْمَلَكُ، فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، قَالَ: فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، قُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي لْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ: "اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ {1} خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ {2 } اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ {3} " سورة العلق آية 1-3، فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ، فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي، فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، فَقَالَ لِخَدِيجَةَ، وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ: لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي، فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ …الحديث (صحيح البخاري 3,4) 

 لہٰذا جبریلِ امین اور سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین وحی کی ابتدائی کیفیت کو بچوں کی تعلیم و تربیت یا انہیں اذیت پہنچانے پر منطبق کرنا محلِ نظر ہے، بلکہ علمی قواعد کے منافی ہے۔ اس واقعے کا من جملہ پیغام یہ ہے کہ دین کے علم کا حصول قربانی، صبر اور محنت کے بغیر ممکن نہیں۔

البتہ حصولِ علم کی راہ میں تحملِ مشقت کے لیے اس واقعے سے فی الجملہ استدلال کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اسے بچوں کو تکلیف دینے یا مارنے پر دلیل بنانا کسی طور درست نہیں۔

واللہ أعلم بالصواب

ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com

مركز البحوث الإسلامية العالمي 

(منگل 24 صفرالمظفر 1447ھ 19 اگست 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر)

https://saagartimes.blogspot.com/2025/08/blog-post_17.html



 




دین کی مددگار جماعت

 دین کی مددگار جماعت 

ہمارے فضلاء تبلیغ پر برسنے کے لئے بہانے اچکتے ہیں، یہ رویہ اذیت ناک ہے، ہر کس وناکس جست لگاتا ہے، ہم تبلیغ کے رہین احسان ہیں، محسن کے تسامح اور تجاوز کی اصلاح مثبت رنگ میں کی جاتی ہے، ان کی عیب جوئی احسان فراموشی ہے، یہ حروف تبلیغی جماعت کے احسان مند ہیں، والد گرامی تاجر تھے، ان کو معاون درکار تھے، چچا جان امیر جماعت تھے، انھوں نے مدرسہ دکھایا، تبلیغیوں نے جان کی بازی لگا کر مسجدیں ہمارے لئے فتح کیں، میرے گردونواح میں چھ مساجد ہیں، ایک چھوٹی مسجد کے علاوہ سب دیوبندی ہیں، جماعتیوں نے مار کھائی اور یہ مسجدیں جیت کر دیوبند کو تفویض کیں، چھ مساجد کے علاوہ تین مصلے ہیں، سب تبلیغیوں نے قائم کیے ہیں۔
اسلام کے دامن میں مجددین کی کمی نہیں؛ مگر کام اور محنت کے رنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ مجدد کا نام مولانا الیاس علیہ الرحمہ ہے، ان کی تیار کردہ جماعت ایمان وعمل کی میزان میں صحابہ (کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی سب سے بڑی مثال ہے، ان دعوؤں کی تردید آسان نہیں، جہنم کی گرم بازاری کے دور میں حضرت مولانا الیاس صاحب علیہ الرحمہ کا نمود ہوا اور انھوں نے اپنی فنائیت اور فدائیت سے جنت کو گرم بازار اور جہنم کو کساد بازار بنا دیا۔
تبلیغیوں سے تصادم کا حل اپنائیت کے رنگ میں تلاش کریں، راقم نے محلہ بڑ ضیاء الحق دیوبند میں قیام کے دوران مسجد عالی شان میں دس سال تفسیر بیان کی، ابتدا میں عشا کے بعد والا وقت میری ترجیح تھی، تبلیغی بھائیوں نے مشورے وغیرہ کا عذر رکھا، ان کے نکات اہم نہیں تھے؛ مگر میں نے ان کی بات رکھ لی اور فجر بعد کا وقت منتخب کیا، دس سالہ میعاد میں پچیس پاروں کی تفسیر ہوئی، تبلیغ کے تمام احباب پابندی سے شریک رہتے، کبھی کوئی ناگواری پیش نہیں آئی، دارالمدرسین کی تعمیر کے بعد ادھر منتقل ہوا تو سلسلہ موقوف ہوا، فجر کی نماز میں وہاں پہنچنا مشکل تھا۔
تبلیغ ایک مستقل راہ ہے، خود مدارس با ہم شاکی ہیں؛ جب کہ مدارس کا طریق ایک ہے، میں یک مشربی مدارس کی مثال دے رہا ہوں، دوریاں غیر معمولی ہیں؛ لیکن ہم سکوت اختیار کرتے ہیں، صرف اس لیے کہ مخالف بھی منہ میں زبان رکھتا ہے، ہاں تبلیغی بے زبان ملے، اصلاح کا گرز ان پر بے رحمانہ چلتا ہے، یہ اپنے ہیں، ان کی گرفت دوستانہ ہو، دو مدرسے متفق نہیں، تبلیغ تو پھر جداگانہ منہج ہے۔
نظریاتی کام کی فطرت یہ ہے کہ وہ غلو اور مبالغے کے بغیر قائم نہیں ہوتا؛ حالاں کہ غلو ممنوع ہے، یہ اعتراض سب پر وارد ہے، قدیم محدثین پر بالخصوص، ان کے احوال محفوظ ہیں، جس سرگذشت کو ہم قربانی کہتے ہیں اس پر سنجیدہ شرعی اشکال ہیں، حقوق متاثر ہوے، جس حد تک وہ گئے وہ صریح تجاوز ہے؛ لیکن اسی مبالغے نے دین زندہ کیا، کام ایسے ہی ہوتا ہے، کوئی اہم مضمون پورا کرنا ہو تو رات کالی ہوتی ہے، یہ بھی شرعا منع ہے، حضرت مولانا الیاس صاحب علیہ الرحمہ تو تبلیغ کے ماسوا گفتگو سننے کے متحمل نہیں رہ گئے تھے، بیمار ہو جاتے تھے۔
جس طرح دو مدرسوں کے تعصب اور تحزب سے فرقے نہیں بنتے؛ اسی طرح اہل حق کی جماعتوں کے جداگانہ رنگ وآہنگ سے فرقہ وجود میں نہیں آتا، ہاں وہ اپنے کام کی افضلیت پر مصر ہوتے ہیں اور یہ دعوی سب جگہ ہے، میں ایک تنظیم سے اگر وابستہ ہوں تو الگ سے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ میرے نزدیک وہی تنظیم سب سے افضل ہے، فنائیت اور فدائیت کے بغیر کوئی نقش وجود میں نہیں آیا، وہ عمل میں آگے نکل گئے ہیں، آپ پیچھے رہیں گے تو الزام تو آئے گا، پھر آپ بے تکی باتیں کرتے ہیں، ایک تبلیغی بھائی نے بتایا کہ فلاں مسجد کے امام صاحب بر سر منبر کہہ رہے تھے کہ میرا سونا تمھاری رات بھر عبادت سے افضل ہے، تبلیغی کارکنان ہدف تھے۔
تبلیغی سادہ لوح ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ اعراب کہلاتے تھے، آپ ان کی سادگی کے قدردان تھے، لا ازید ولا انقص کو قبول کر لیتے تھے، جب کہ یہ واجب التاویل ہے، ان کی تعبیرات میں تحقیق وتنقیح ممکن نہیں، یہ علما کی شان ہے، بیشتر گرفت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی بات کہہ نہیں پاتے، یہ جواب دہی بھی اہل علم کی ہے، وہ اس تنقیح کے اہل نہیں کہ ہر میدان کی اہمیت ہے اور ہر میدان کے رجال کار ہیں، وہ مینڈک ہیں اور ماورا سے بے خبر اور بے نیاز ہیں؛ مگر آپ فرق کے اہل ہیں، آپ کی بے جا عیب جوئی لائق عذر نہیں۔
کل ہماری مسجد کی جماعت کمیٹی نے طلبہ یعنی عصری اداروں کے اسٹوڈنٹس کا جوڑ رکھا تھا، از عصر تا عشا مسجد میں ایمان کی باد بہار دیدنی تھی، رمضان کا سماں رہا، اس فرق کے ساتھ کہ رمضان میں ہر عمر کے نمازی ہوتے ہیں، کل بیشتر مجمع نو عمر تھا، تبلیغ کی کراؤڈ پلنگ طاقت منفرد ہے، ہمارے اشتہار بھی کم پڑ جاتے ہیں اور ان کا خفیہ نیٹ ورک اجتماع گاہ بھر دیتا ہے، حضرت مولانا الیاس صاحب علیہ الرحمہ کی کرامت دیکھی کہ ماڈرن ماحول کے نوجوان کرتے پائے جامے اور جبے میں تھے، ان کا دم گرم ہے کہ جدید طبقہ باریش ہوجاتا ہے، ڈاڑھی، نماز، لباس، پردہ، بچوں کی مذہبی تعلیم اور دین کے تمام مظاہر میں ان کی سبقت بانی تبلیغ کے اعمال نامے کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔
میں 1997 اور 1998 میں دو مرتبہ چلے کی جماعت میں گیا تھا، یہ طلبۂ دارالعلوم کی تعطیل کلاں والی جماعت تھی، زندگی کا بہترین روحانی تجربہ ثابت ہوا، جماعت کی سرگرمیوں کے جلو میں انفرادی ترقی ہوئی تھی، تہجد کی پابندی عام تھی، یاد ہے کہ رونا بھی نصیب ہوتا تھا، میرے یہ دو چلے ازدواج میں کام آئے، سسرال کٹر تبلیغی ہے، نانا سسر سینئر ترین ذمے دار تھے، نوے سال کی عمر میں جماعت ہی میں اللہ کو پیارے ہوئے، جمعے کا دن تھا، عصر کی سنتوں کے بعد فرض کے منتظر تھے بے توازن ہوگئے، سسر صاحب فنا فی التبلیغ ہیں، اس نسبت سے براعظموں کے راہ نورد ہیں، میرے رشتے کے وقت ایک سال کی بحث اٹھی تھی؛ مگر میری خصوصیات کے پیش نظر دو چلے کافی مان لئے گئے، میری بچی تبلیغ میں چلنے کا مزہ دیکھ نظم چلا کر میرے قریب کردیتی ہے، یہ سب غلو ہے؛ مگر میں انجوائے کرتا ہوں، یہ اپنے ہیں اور اپنے کام کی دعوت دیتے ہیں۔
از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری 
23 صفر 1447ھ 18 اگست 2025ء ( #ایس_اے_ساگر )


Saturday, 2 August 2025

دعوت دینے والے کی روحانی طاقت پانچ چیزوں میں

دعوت دینے والے کی روحانی طاقت پانچ چیزوں میں
حضرت مولانا یوسف کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے:
دعوت دینے والے کی روحانی طاقت پانچ چیزوں میں ہے:
1. مسواک کا استعمال – جو منہ کی صفائی کے ساتھ دل کی روشنی بھی لاتا ہے۔  
2. قرآنِ کریم کی تلاوت مصحف سے – کہ آنکھوں سے الفاظ دیکھ کر پڑھنا دل پر اثر ڈالتا ہے۔  
3. ہمیشہ باوضو رہنا – طہارت دل و دماغ کو پاکیزگی دیتی ہے۔  
4. نمازِتہجد کا اہتمام – جو بندے کو رات کے سکوت میں اللہ سے جوڑتی ہے۔  
5. نگاہوں کی حفاظت – جو دل کو گناہوں سے بچاتی ہے اور ایمان میں نور بھرتی ہے۔
مولانا رحمت اللہ علیہ فرماتے:  
جس نے اپنی نظر کو قابو میں رکھا، وہ ایمان کی مٹھاس چکھے گا اور اس کے دل میں نور پیدا ہوگا۔
اور اگر نظر کی حفاظت نہ کی تو یہ پانچ بڑے نقصان ہوں گے:
1. نماز کی تکبیر اُولیٰ سے محرومی۔
2. نمازِ تہجد کی توفیق چھن جانا۔
3. رزق سے برکت کا ختم ہونا۔
4. قرآن اور دعائیں بھول جانا۔
5. ایمان کی حالت میں موت کا خطرہ زیادہ ہونا ( #ایس_اے_ساگر )

Monday, 28 July 2025

یہ معصوم مر رہے ہیں… تم کہاں ہو؟

 یہ معصوم مر رہے ہیں… تم کہاں ہو؟

-------------------------------

غزہ جل رہا ہے، آسمان خاک آلود ہے، زمین لہو سے لالہ زار!

ماں کی گود میں تڑپتے معصوم، بھوک کی چٹان سے ٹکرا کر دم توڑ رہے ہیں،

مائیں اپنی چھاتیوں سے خون چوسوانے پر مجبور ہیں،

اور امتِ مسلمہ کے ایوانوں میں بے حسی کا جنازہ اٹھ چکا ہے!

عالم اسلام کے سپہ سالار، حکمران اور جرنیل

سہولتوں کے قلعوں میں بیٹھے،

چائے کی چسکیوں میں شریعت اور حمیت کا خون پی رہے ہیں!


اے عاصم خالی!

اے پاکستان کے نام نہاد فولادی لشکر کے سپہ سالار!

تو نے لا الٰہ الا اللہ کا ورد پڑھ کر عہد کیا تھا کہ “جہاں ظلم ہوگا، وہاں تیغ اٹھے گی”

تو نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ “ہم اسلام کے محافظ ہیں”

تو پھر آج تیرے توپ خانے پر موت کا سکوت کیوں طاری ہے؟

کیا تیرے میزائل غزہ کی سمت اُڑنے سے انکاری ہیں؟

کیا تیرے ڈرون صرف افغان بچوں کے لیے رہ گئے ہیں؟

کیا تیری گولیاں صرف اپنی قوم کے مظلوموں پر برسنے کے لیے بنائی گئی ہیں؟


تو کہاں ہے، جنرل؟

کیا تیری وردی کا وقار صرف تقریروں، پریڈوں اور ٹی وی اشتہاروں تک محدود رہ گیا؟

کیا غزہ کے خون آلود بستروں پر سسکتے نوزائیدہ تیرے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے کافی نہیں؟

کیا وہ معصوم بچی، جو اپنے شہید باپ کے سینے سے لپٹ کر دم توڑ گئی —

تیرے آہنی دل کو نہیں چیر سکی؟


اے وردی پوش!

یہ وردی عزت ہے یا زنجیر؟

یہ ستارے کیا صرف یونیفارم کی زیبائش ہیں؟

یا پھر شہداء کے لہو کی قسمیں، جنہیں تم نے بھلا دیا؟

تاریخ نہ تمہیں تمغوں سے یاد رکھے گی، نہ تمہاری پریس کانفرنسوں سے —

بلکہ وہ تمہیں پکارے گی:

“یہ وہ سالار تھا،

جو کعبہ کی سمت چلنے کے بجائے

اپنے اقتدار کے بت کو سجدہ کرتا رہا!”


اب سن لے، جنرل!

 جب غزہ کے بچے بھوک سے مر رہے تھے، تو تم میٹنگ میں تھے!

جب بیت المقدس کی ماؤں نے چیخ کر مدد مانگی، تو تم پروٹوکول کی زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے!

 جب تاریخ نے امت کے محافظ کو پکارا، تو تم خاموشی کی پناہ میں چھپ گئے!

 جب تمہارے میزائل غزہ کے لیے نکلنے چاہیے تھے، تو وہ مظاہروں کو کچلنے میں استعمال ہو رہے تھے!


اے نام نہاد سالارو!

یاد رکھو —

غزہ کے ایک بچے کی آہ، تمہاری پوری فوج کی بنیادیں ہلا سکتی ہے!

ایک شہید ماں کی سسکی، تمہارے توپ خانے کو راکھ میں بدل سکتی ہے!

اور ایک زخمی باپ کی فریاد، تمہارے تمام میڈلز کو خاک میں ملا سکتی ہے!


اٹھو! اگر ایمان باقی ہے

تو راکٹوں کی زبان میں جواب دو —

ورنہ اپنی وردی اتار کر

کسی مصلحت کے قبرستان میں دفن ہو جاؤ!


اور اب آو، نظر دوڑاؤ “خادمِ حرمین” کے ایوانوں کی طرف—

جہاں سونے کے محلوں میں رقصِ شیطانی کی محفلیں سجی ہیں،

جہاں بن سلمان کی محافل میں موسیقی کی لے پر کعبہ کی سمت پیٹھ کر کے، دنیاوی تاج کے لیے سجدے کیے جا رہے ہیں!


اے  بن سلمان!

تو نے اپنے باپ دادا کی غیرت بیچ دی!

تو نے حرمین کی عظمت کے بدلے ہالی ووڈ کا گلیمر خریدا!

تو نے ان ہاتھوں کو تھاما جن کے خون میں معصوم فلسطینی بچوں کی چیخیں بسی ہیں!

تو نے اسرائیلی قاتلوں کو اپنی سرزمین کی چاندنی بخش دی،

اور اپنے فلسطینی بھائیوں کو بھوک، بارود اور بے کسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا!


تو عیاش شہزادہ!

تُو ساحلوں پر فیشن شو کروا کر سمجھتا ہے کہ یہ ترقی ہے؟

تُو سمجھتا ہے کہ بیت المقدس کے سودے پر تیرے محلات مضبوط ہو جائیں گے؟

یاد رکھ —

جب حطین کا سلطان ایوبی پلٹ کر آئے گا،

تو نہ تیری آرائش بچے گی، نہ تیری بادشاہی!


تُو “خادمِ حرمین” کہلاتا ہے —

لیکن تیرے دربار میں یروشلم کے غاصب سفیروں کے لیے قالین بچھتے ہیں،

جبکہ مسجد اقصیٰ کے نمازیوں پر گولیوں کی بارش ہوتی ہے!

تُو کس امت کا خادم ہے؟

جس کے دشمنوں کے ساتھ رقص کرتا ہے؟

جس کی مظلوم بیٹیوں کی چیخوں پر تیری موسیقی تیز ہو جاتی ہے؟


بن سلمان سن لے!

تُو کعبہ کا سایہ لے کر، تل ابیب کے خواب دیکھتا ہے؟

تُو حرم کی مٹی میں غداروں کے قدم بساتا ہے؟


تُو محمد ﷺ کے نام پر حکومت کرتا ہے، مگر یہود کا جھنڈا بلند کرتا ہے؟


یاد رکھ!

خانہ کعبہ کے طواف کرنے والے عرب،

ایک دن تیری بادشاہی کا طواف ختم کر دیں گے!

اور فلسطین کی ماؤں کے آنسو،

تیرے تیل سے بھی زیادہ جلانے والی آگ بن جائیں گے ان شاء اللہ !


اور وہ باقی عیاش حکمران!


ذرا قاہرہ کی گلیوں کی طرف دیکھو —

جہاں ایک جنرل، جس نے اپنے ہی عوام کا خون بہایا،

اب اسرائیلی خوشنودی کے عوض فلسطین کی لاشوں پر خاموش ہے!

نہ زبان کھلتی ہے، نہ سر اٹھتا ہے —

بس کرسی ہے، اقتدار ہے، اور امریکہ کا سایہ ہے!


اور ابوظہبی کے شہزادے!

جنہوں نے اپنے محلات کو اسرائیلی پرچموں سے آراستہ کیا،

جن کی راتیں تماشوں میں گزرتی ہیں،

اور جنہوں نے القدس کے سودے کو “امن” کا نام دے کر پوری امت کو فریب دیا!


یہ سب نئے فرعون ہیں —

جن کی تلواریں صرف اپنی عوام کے خلاف چلتی ہیں،

جن کے دل امت کے درد سے خالی،

اور جن کی زبانیں صیہونی ظلم کے سامنے گونگی ہیں!


یاد رکھو!

فلسطین کے بچوں کا لہو، نہ تمہیں چھوڑے گا، نہ تمہارے محلات کو!

جب تاریخ جاگے گی —

تو نہ تمہارا تیل بچے گا، نہ تمہاری تخت گاہیں!

بس باقی رہ جائے گا…

اللہ، مظلوم، اور شہید کا لہو!

(۳۰ محرم ۱۴۴۷ ہجری)



Wednesday, 30 April 2025

مزدوروں کے اسلامی حقوق ۔۔۔۔تنخواہ کی شرعی مقدار؟

 مزدوروں کے اسلامی حقوق ۔۔۔۔تنخواہ کی شرعی مقدار؟

-------------------------------
اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہر انسان کو جسمانی طاقت وقوت بخشی تاکہ وہ جسمانی محنت ومزدوری کرکے اپنی جسمانی ومعاشی ضروریات کی تکمیل کرسکے، اس کے بعد خدا کا کرم واحسان یہ ہوا کہ بعض بندوں اور محنت کشوں کو بعضوں کے ماتحت کرکے اس کا غلام، نوکر، خادم یا مزدور بنادیا، تاکہ وہ از خود محنت مزدوری کرنے سے بچا رہے۔ جو شخص کسی کے ماتحت یعنی ملازم یا نوکر ہو اسے اسلام نے یہ تاکید کی ہے کہ "کھانے، پینے اور رہائش" جیسی اس کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کرے، ارشاد نبوی ہے:
............ إِخْوَانُكُمْ خَوَلُكُمْ جَعَلَهُمْ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُ (صحيح البخاري. كتاب الإيمان 30)
جس شخص کے بھائی کو اللہ اس کا ماتحت بنائے یعنی جو شخص کسی غلام کا مالک بنے تو اس کو چاہئے کہ وہ جو خود کھائے وہی اس کو بھی کھلائے اور جو خود پہنے وہی اس کو بھی پہنائے نیز اس سے کوئی ایسا کام نہ لے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اور اگر کوئی ایسا کام اس سے لئے جائے جو اس کی طاقت سے باہر ہو تو اس کام میں خود بھی اس کی مدد کرے). "مزدور" کی مزدوری کے تئیں اسلام کا یہ بنیادی اصول ہے، جس سے "تنخواہ" یعنی بنیادی ضروریات کے تکفل اور مزدوری کی کم سے کم مقدار کے تعین کا اصول مستنبط ہوتا ہے، اسلامی شریعت میں مزدوری کی اقل مقدار کا تعین اگرچہ واضح لفظوں میں لازماً نہیں ہوا ہے بلکہ اس مسئلے کو تراضی طرفین وباہمی رضامندی پہ موقوف کردیا گیا، کہ جس مقدار پر بھی دونوں فریق راضی ہوجائیں اسے اجرت بننا شرعا درست ہے.
(''الموسوعۃ الفقہیۃ": الأجرۃ ہي ما یلزم بہ المستأجر عوضًا عن المنفعۃ التي یتملکہا، وکل مما یصلح أن یکون ثمنًا في البیع یصلح أن یکون أجرۃ في الإجارۃ، وقال الجمہور: إنہ یشترط في الأجرۃ ما یشترط في الثمن ۔ (۱/۲۶۳ ، إجارۃ)
لیکن اوپر کی ذکر کردہ حدیث میں اجرت کی روح اور غرض ومقصد سے روشناس کرادیا گیا کہ مزدور؛ خواہ اجیر خاص ہو یا اجیر مشترک! دونوں کی محنتوں اور کوششوں کے بدلے اتنا محنتانہ دیا جائے جو زمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو اور جس سے مزدور اپنی بنیادی ضرورت پوری کرسکے، یعنی شریعت میں مزدوری کی اقل مقدار کی تعیین اشارتی طور پر تکفل ضروریات پہ منحصر کردی گئی ہے، جبکہ مزدوری کی اکثر مقدار کو مزدوروں کی لیاقت، قابلیت، تجربہ، ذہانت وغیرہ پہ منحصر کردیا گیا ہے کہ وہ اپنے فن وہنر واہلیت کے تفاوت کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ اور من پسند مزدوری باہمی رضامندی سے طے کریں۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدوری طے کئے بغیر کسی کو مزدور رکھنے سے منع کیا:
حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ اسْتِئْجَارِ الْأَجِيرِ حَتَّى يُبَيَّنَ أَجْرُهُ وَعَنْ النَّجْشِ وَاللَّمْسِ وَإِلْقَاءِ الْحَجَرِ (مسند أحمد رقم الحديث 11255)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک کسی شخص کو مزدوری پر رکھنے سے منع فرمایا ہے جب تک اس کی اجرت واضح نہ کردی جائے، نیز بیع میں دھوکہ، ہاتھ لگانے یا پتھر پھینکنے کی شرط پر بیع کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ اور پسینہ خشک ہونے سے قبل مزدوری دیدینے کا حکم دیا:
[ص: 817]
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَطِيَّةَ السَّلَمِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ. (سنن ابن ماجة.كتاب الرهون. باب أجر الأجراء
رقم الحديث 2443.)
عباس بن ولید، وہب بن سعید بن عطیہ، عبدالرحمن بن زید بن اسلم، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل دے دو۔ اقتتصادی ماہرین اور متعدد ملکوں اور ریاستوں کی عدلیہ کی جانب سے مزدوروں، غریبوں اور محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مزدوروں کی یومیہ اقل ترین مزدوری کی تعیین کرکے اسے اپنی اپنی ریاستوں میں قانونی وآئینی حیثیت دی جارہج رہی ہے، جس کی خلاف ورزی کو تعزیراتی عمل قرار دیا جارہا ہے، شریعت اسلامیہ میں مزدوروں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے تئیں بڑی سخت تاکید آئی ہے، ان کے حقوق ہضم کرجانے یا ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے پہ درد ناک و عید وارد ہوئی ہے۔ اسلام نے۔۔ان کے اموال ومزدوری کو ناحق ہضم کرجانے کو حرام وناجائز قرادیا ہے:
وَلا تَبخَسُوا النّاسَ أَشياءَهُم وَلا تُفسِدوا فِي الأَرضِ بَعدَ إِصلاحِها ذلِكُم خَيرٌ لَكُم إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ﴿85٥﴾ سورة الأعراف)
یعنی لوگوں کے حقوق کھاکر ظلم نہ کرو اور ان میں کمی نہ کرو۔ (ولا نفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا) یعنی انبیاء (علیہم السلام) کے بھیجنے اور انصاف کا حکم دینے سے جو اصلاح ہوئی اس کے بعد فساد نہ کرو اور جس نبی کو کسی قوم کی طرف بھیجا گیا تو وہ اس قوم کی اصلاح ہے (ذلکم خیر لکم ان کنتم مئومنین) یعنی جس کا تم کو حکم دیا یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ حیثیت کے باوجود قرض خواہوں اور مزدوروں کی مزدوری ادا نہ کرنے کو ظلم قرار دیا:
حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ فَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ (صحيح البخاري. كتاب الحوالة رقم الحديث 2166)
عبداللہ بن یوسف، مالک، ابوالزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مالدار کا ادائے قرض میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کسی شخص کا قرض مالدار کے حوالہ کر دیا جائے تو اسے قبول کر لینا چاہئے۔ مزدور کے حقوق ہضم کرلینے والوں کو قیامت میں سزا ہوگی اور اللہ تعالی خود مزدور کی طرف سے روز قیامت جگھڑیں گے :
حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ مَرْحُومٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ اللَّهُ ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِ أَجْرَهُ (صحيح البخاري. كتاب البيوع رقم الحديث 2114. بَاب إِثْمِ مَنْ بَاعَ حُرًّا)
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تین شخص ایسے ہیں جن سے میں قیامت کے دن جھگڑوں گا، ایک تو وہ شخص جس نے میرے نام اور میری سوگند کے ذریعے کوئی عہد کیا اور پھر اس کو توڑ ڈالا دوسرا وہ شخص ہے جس نے ایک آزاد شخص کو فروخت کیا اور اس کا مول کھایا اور تیسرا شخص وہ ہے جس نے کسی مزدور کو مزدوری پر لگایا اور اس سے کام لیا (یعنی جس کام کے لئے لگایا تھا وہ پورا کام اس سے کرایا) لیکن اس کو اس کی مزدوری نہیں دی). (بخاری)
اسلام کی اس قدر واضح ہدایات اور وعیدوں کے باوجود مزدوروں کے حقوق میں کوتاہی کرنا بہت تشویشناک امر ہے ، مادر وطن ہندوستان کی عدالت عظمی کی طرف سے اس بابت جو مبینہ شرح اجرت ذرائع ابلاغ میں آئی ہے اس پہ اخلاقی طور پہ مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران کو بھی عمل در آمد کرنا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے:
مجریہ 31.10.2018 کے مطابق کم از کم منصفانہ اجرتوں کی شرح درج ذیل ہے:
غیر تربیت یافتہ فی یوم ۵۳۸۔ ماہانہ ۱۴۰۰۰ (چودہ ہزار)۔ تھوڑا تربیت یافتہ: فی یوم ۵۹۲۔ ماہانہ ۱۵۴۰۰ (پندرہ ہزار چار سو)۔ تربیت یافتہ فی یوم ۶۵۲۔ ماہانہ ۱۶۹۶۲ (سولہ ہزار نو سو باسٹھ۔ یہ شرح ناخواندہ طبقے کے لیے ہے۔ جب کہ خواندہ طبقہ کے لیے اگر میٹرک بھی پاس نہیں کرسکا ہے، تو پر دن ۵۹۲۔ ماہانہ ۱۵۴۰۰ (پندرہ ہزار چار سو)۔ میٹرک پاس ہے، مگر گریجویشن نہیں کیا ہے، تو اس کے لیے پر دن ۶۵۲۔ اور ماہانہ ۶۹۶۲۔ اور گریجویشن یا اس سے زیادہ تعلیم یافتہ ہے، تو ایک دن کی شرح اجرت ۷۱۰ ہے۔ اور ماہانہ ۱۸۴۶۲ (اٹھارہ ہزار چار سو باسٹھ ہے)
مدارس اسلامیہ میں عموماً اس وقت تنخواہ کاجو فرسودہ نظام ہے وہ (باستثناء قلیل) کافی حد تک المناک بلکہ ظالمانہ ہے، درسگاہوں سے ہوکے بیت الخلائوں تک کی عمارتوں کی تزئین میں لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے جھونک دیئے جاتے ہیں، جبکہ رات ودن طلبہ پہ محنت کرکے اپنی زندگیاں کھپانے والے اساتذہ وہی پانچ یا آٹھ ہزار روپے ماہانہ کے زیرقہر پس رہے ہوتے ہیں، مدارس کے سارے نظام میں جدت آگئی ، جھونپڑی فلک نما عمارتوں میں تبدیلی ہوگئی، آرام وآسائش کی ساری ماڈرن چیزیں دستیاب ہیں، مگر قلت تنخواہ کا فرسودہ نظام جوں کا توں باقی ہے، اس بے رحم نظام کا اثر ہے کہ اچھے، قابل، باصلاحیت اور محنتی اساتذہ مدارس کا رخ نہیں کرتے، معاشی مجبوریوں اور مدارس کی تنخواہ والے نظام سے مجبور ہوکے جید فضلاء اپنی راہیں بدل رہے ہیں، اور یوں قابل ترین فضلاء مدارس، امت اور مدارس اسلامیہ کا قیمتی ترین سرمایہ ضائع ہورہا ہے،
اقل ترین تنخواہ کی مقدار اگرچہ شرعا منصوص ومحدَّد نہیں، لیکن بنیادی ضرورت کی تکمیل کے ساتھ مشروط ضرور ہے، آج مدارس کے اساتذہ کرام مدارس میں رہتے ہوئے خود کو "قید زنداں" میں محسوس کررہے ہیں، بچوں کی تعلیم، اہل خانہ کے علاج معالجہ اور ناگہانی حوادث کے وقت دوسروں سے قرض لیتے پہریں تو اس سے ان کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں جو منشاء نبوی کے خلاف ہے۔
اساتذہ مدارس کو مرفّہ الحال کردینے کی وکات کوئی نہیں کرتا لیکن کم از کم ان کی بنیادی ضروریات کی کفایت کے بقدر اجرت تو ضرور متعین کریں، اجرت اور مزدوری کرنے کی غرض بھی یہی ہے، عدالت عظمی کی مذکور شرح تنخواہ کی پیروی ذمہ داران مدارس بھی کریں ،تنخواہوں کے قدامت پسندانہ ، فرسودہ و ظالمانہ نظام تنخواہ میں مناسب حال تعدیل اور جدت لائی جائے۔ اچھی کارکردگی دکھانے والے کارکنان واساتذہ کرام کے لئے "عطاء" یعنی بخشش اور اکرامیہ کا نظام متعارف کرایا جائے، متلعہ ذمہ داریوں سے زیادہ کام لینے پر اضافی رقم دی جائے، تاکہ ان کا حوصلہ بڑھے، اور وہ مزید محنت، لگن، خلوص اور جانفشانی سے طلبہ پہ محنت کرسکیں، نظام بنانے کی دیر ہے، دینے والوں کی کمی نہیں، جو قوم عمارتوں کی مدات میں کروڑوں دے سکتی ہے وہ اساتذہ کی مشاہرات کی مد میں بھی دے گی اور خوب دے گی۔
واللہ اعلم
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
یکم مئی 2023ء
( #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2025/04/blog-post_30.html



"وداعِ جانِ کائنات" (وفاتِ نبوی)

"وداعِ جانِ کائنات" (وفاتِ نبوی )

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت کا آغاز 29 صفر سن 11 ہجری، بروز پیر ہوا، جب آپ جنت البقیع میں ایک جنازے میں شرکت کے بعد لوٹ رہے تھے کہ اچانک سخت بخار اور شدید دردِ سر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگھیرا۔ رنج و تعب کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ روز تک امت کی نمازوں کی امامت فرمائی۔ مرض بڑھتا گیا اور بیماری کا دورانیہ تیرہ 13 یا چودہ 14 دنوں پر محیط ہوگیا۔ جب مرض کی شدت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نڈھال کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار استفسار فرمانے لگے: “کل کہاں قیام ہوگا؟” اشارہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کی طرف تھا۔ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نے بصد رضا اجازت مرحمت فرمائی. (صحیح البخاري 4450).
یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے محبوب ترین مقام پر منتقل ہوگئے، جہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دن رات تندہی سے تیمارداری اور دعاء ورقیہ کرتی رہیں۔ بدھ کے دن، مرض میں کچھ افاقہ محسوس ہوا۔ سات مشکیزوں کا پانی منگوایا گیا. (البخاري 4442، ومسلم 418)
غسل فرمایا اور مسجد نبوی میں حاضر ہوکر منبر پر تشریف فرما ہوئے، خطاب فرمایا، جس میں امت کو گمراہی سے بچانے کے لیے یہود و نصاریٰ کی قبور پر تعظیم کی لعنت بیان کی.” (البخاري 4443، ومسلم 529)
اور دعا فرمائی:
“اللهم لا تجعل قبري وثنًا يعبد"
(اے اللہ! میری قبر کو ایسا بت نہ بنانا کہ جس کی پوجا کی جائے. (موطأ الإمام مالك 414 عن عطاء بن يسار مرسلاً)
اسی مجلس میں انصار کے مقام و مرتبہ کو سراہا، ان سے حسن سلوک کی تلقین فرمائی. (البخاري 2801، ومسلم 2510)
اپنے وصال کا اشارہ دیا اور امت کی امارت قریش میں برقرار رکھنے کی وصیت کی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت و عظمت پر خصوصی گفتگو فرمائی، اور مسجد نبوی میں صرف انہی کا دروازہ کھلا رکھنے کا حکم صادر فرمایا. (البخاري 3904، ومسلم 2382)
وفات سے چار روز قبل جمعرات کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریری وصیت لکھوانے کا ارادہ فرمایا تاکہ امت اختلاف سے بچ جائے۔ کاتب طلب کیا گیا، لیکن اہلِ مجلس کے باہمی اختلاف کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: “مجھے چھوڑ دو، میں جس حال میں ہوں وہی بہتر ہے۔” پھر زبانی طور پر نصیحتیں فرمائیں: مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکالنے، وفود کی عزت کرنے، اور کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامنے، نماز، خواتین وغلام کے حقوق کے خصوصی لحاظ وغیرہ سے متعلق احکام پر تاکید کی. (البخاري 4431، ومسلم 1637)
جب مرض نے شدت اختیار کرلی اور نقاہت حد کو پہنچ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازوں کی امامت کے لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھنے کا حکم دیا. (البخاري 713، ومسلم 418)
ایک دن کچھ افاقہ محسوس ہوا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ کے سہارے مسجد تشریف لائے، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بیٹھ کر نماز ادا فرمائی۔ جب حیاتِ طیبہ کے آفتاب کے غروب کا وقت قریب آیا (وفات سے ایک روز قبل) تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام غلاموں کو آزاد کردیا، اور جو تھوڑا سا مالِ متروکہ تھا (محض سات دینار) اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا۔ دولت و دنیا سے دامن یوں خالی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ ایک یہودی کے پاس قرض کے بدلے گروی رکھی ہوئی تھی۔ اور یہ عالمِ فقر و استغنا تھا کہ اس آخری شب میں، جب گھر میں چراغ جلانے کو تیل بھی میسر نہ تھا، تو ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پڑوس کی کسی انصاری خاتون سے ادھار تیل لے کر شبِ وداع کے چراغ کو جلایا۔ (البخاري 2916)
"ہائے اللہ! ایسی غربت، ایسی بے نیازی، کہ دنیا میں تاج بھی جھکے ہوئے تھے، مگر چراغ جلانے کو تیل بھی ادھار مانگنا پڑا۔ اور پھر وہی چراغ، وہی روشنی، تمام دنیا کو قیامت تک کے لیے ہدایت کی جوت بخشنے والا بن گیا۔ اور یہی وہ فقر تھا جس پر انبیاء (علیہم السلام) کو بھی فخر تھا۔ اور یہ وہ آخری شبِ زہد وقناعت تھی جس نے آسمانوں کے در و دیوار پر بھی سکتہ طاری کردیا تھا!"
(وفي الليل استعارت عائشة الزيت للمصباح من جارتها، وكانت درعه صلى الله عليه وسلم مرهونة عند يهودي بثلاثين صاعا من الشعير. الرحيق المختوم ص 429)
زندگی کا آخری سورج طلوع ہوا، پیر کی صبح فجر کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرہ کا پردہ اٹھایا، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو صف بستہ نماز میں مشغول دیکھا، خوشی سے چہرہ انور کھل اٹھا، لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ اپنی نماز جاری رکھو. (البخاري 4448، ومسلم 419).
(یہ لمحہ آپ صلی اللہ علیہ کی امت پر آخری عنایت، شفقت ومہربانی تھی۔ دن چڑھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا، فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا خراماں خراماں چلی آئیں، ان کی چال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چلنے کی تصویر تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے شفقت سے فرمایا: “مرحبا اے جانِ پدر!” اور پہلو میں جگہ دی۔ آہستہ کچھ فرمایا، وہ اشکبار ہوگئیں؛ پھر سرگوشی کی، تو چہرہ فرحت سے کھل اٹھا۔ بعد از وصال نبوی رونے اور ہنسنے سے پردہ اٹھاتے ہوئے گویا ہوئیں: حضور صلی اللہ علیہ نے دنیا سے رخصتی کی خبر دی تھی، جس پر روئی، اور جنتی عورتوں کی سرداری اور اہل بیت میں سب سے پہلے بابا سے آملنے کی بشارت دی، جس پر ہنس پڑی) (صحیح بخاری 3623، 6286، و مسلم 2450)
پھر اپنے نواسوں سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو قرب سے نوازا، دعائیں دیں، اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی وصیت فرمائی. (البخاري 4462)
ازواجِ مطہرات کو نصیحتیں کیں اور اللہ کی ملاقات کے لیے خود کو تیار کرنے کا کہا۔ مرض کی شدت کے دوران زبان مبارک پر یہ جملے بار بار جاری تھے: “میں آج بھی خیبر کے دن کھائے گئے زہر کے اثرات کو محسوس کررہا ہوں۔” (البخاري 4428)
جب وقتِ وصالِ حق قریب آیا، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں، ان کے سینے پر ٹیک لگائے، قریب رکھا ہوا پانی کا برتن کبھی ہاتھ میں لیتے، کبھی چہرے پر پھیرتے اور شدتِ مرض سے یہ دعائیں کرتے:
“اللهم اغفرلي، وارحمني، وألحقني بالرفيق الأعلى۔”
(اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، اور مجھے بلند ترین رفیقوں میں شامل کرلے. (البخاري 4440،4449, ومسلم 2443)
یہ دعا تین مرتبہ دہراتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان، خالقِ حقیقی کے سپرد کردی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
وفات کے وقت عمر مبارک:
یہ روزِ سوموار، چاشت کا وقت، بارہ ربیع الاول سن 11 ہجری کا واقعہ تھا، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت صحیحین میں یے کہ 63 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی (بخاری 3902، 1205، مسلم 2351)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی یہی فرماتی ہیں. (بخاری 3536، مسلم 2349)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق، اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہم، تینوں 63 سال کی عمر میں وفات پائے. (مسلم 2348).
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا شدتِ غم سے پکار اٹھیں:
“وا ابتاه! أجاب ربًا دعاه، جنة الفردوس مأواه، إلى جبريل ننعاه۔”
حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا نے کہا، آہ اباجان کو کتنی بے چینی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا، آج کے بعد تمہارے اباجان کی یہ بے چینی نہیں رہے گی۔ پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں، ہائے اباجان! آپ اپنے رب کے بلاوے پر چلے گئے، ہائے اباجان! آپ جنت الفردوس میں اپنے مقام پر چلے گئے۔ ہم حضرت جبریل علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سناتے ہیں. (البخاري 4462)
جب تدفین ہوگئی تو انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ڈاڑھی آنسوؤں سے تر ہوچکی تھی۔ حضرت فاطمہ بھرائی ہوئی آواز میں ان سے گویا ہوئیں: “انس! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹی ڈالنے کو تمہارے دل نے کیسے گوارا کرلیا!” (البخاري 4462)
حضرات صحابہ کرام اس قیامت خیز صدمہ سے ہوش وحواس باختہ تھے، عقلیں گم تھیں، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سکتے میں تھے، شدت غم سے بات نہیں کرسکتے تھے، حضرت علی رضی اللہ زاروقطار رورہے تھے، رو روکر ہوش اڑ گئے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ تلوار سونت کر کھڑے ہوگئے کہ جس کی زبان سے وفات رسول کی بات سنی اس کی گردن ماردوں گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے رب سے ملنے گئے ہیں، ضرور واپس تشریف لائیں گے، غرض وفات نبوی کا انہیں یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، اپنی قیام گاہ سُنح سے (جو مدینہ سے ایک کوس کے فاصلہ پر) تھی گھوڑے پر سوار ہوکر مدینہ تشریف لائے۔ جب مسجد میں پہنچے تو اہلِ مجلس سے کچھ کلام نہ کیا، بلکہ سیدھے سیدہ عائشہ کے حجرہ میں داخل ہوئے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ اقدس ایک یمنی کپڑے — بُردِ حِبرہ — میں لپٹا ہوا تھا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، چہرہ انور سے کپڑا ہٹایا، پھر جھک کر سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر محبت بھرا بوسہ دیا، اور زار زار رو پڑے۔ عرض کیا: “میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، اے اللہ کے نبی! اللہ آپ پر دو موتیں کبھی جمع نہ کرے گا، جو موت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لکھی گئی تھی، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر واقع ہوچکی۔”
پھر حجرے سے باہر نکلے۔ اس وقت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں سے خطبہ دے رہے تھے، اور انکار کررہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا: “بیٹھ جاؤ!” مگر حضرت عمر انکار پر مصر رہے۔
دوبارہ فرمایا: “بیٹھ جاؤ!” مگر وہ نہ بیٹھے۔ تب حضرت ابوبکر صدیق نے خود خطبہ دیا، تشہد پڑھا، اور لوگوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی، حتیٰ کہ سب نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑکر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کرلیا۔ پھر فرمایا: “اما بعد! جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا،تو وہ جان لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے، تو اللہ زندہ ہے، کبھی نہ مرے گا۔” پھر قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
{وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ} (آل عمران: 144)
یعنی: “محمد تو محض ایک رسول ہیں،ان سے پہلے بھی کئی رسول گزر چکے ہیں۔کیا پھر اگر وہ وفات پا جائیں یا شہید کردیئے جائیں، تو تم اپنے قدموں پر الٹے پھر جاؤگے؟ اور جو پلٹ جائے، وہ اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا، اور اللہ شکر کرنے والوں کو جلد بدلہ دے گا۔” (البخاري 1241 1242).
یوں امت کو سنبھالنے والا سب سے پہلا قدم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی جانب سے اٹھایا گیا اور گویا نئی صبح کی کرن پھوٹی۔ اس کے بعد حجرہ شریف کے دروازہ سے لوگوں کو ایک غیبی آواز سنائی دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل مت دینا کیونکہ آپ طاہر اور مطہر تھے، اس کے بعد دوسری آواز سنائی دی کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دو کیونکہ پہلی آواز کا متکلم شیطان تھا اور میں خضر ہوں. (خلاصہ سیر سیدالبشر ص 179، تاریخ مکہ المشرفہ ص 320)
حضرت خضر رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی تعزیت ان الفاظ میں کی:
"إن في الله عزاء من كل مصيبة، وخلفا من كل هالك، ودركا من كل فائت، فبالله نتقوى، وإياه فارجعوا، فإن المصاب من حرم الثواب."
یعنی اللہ کے نزدیک دلاسہ ہے ہر مصیبت کا اور بدلہ ہے ہر مرنے والے کا اور بدلہ ہے ہر فوت ہونے والا کا پس خدا ہی پر بھروسہ کرو اور اسی کی طرف رجوع کرو حقیقت میں مصیبت زدہ وہ ہے جو مصیبت کے اجر و ثواب سے محروم رہ جائے. (خلاصہ سیر سید البشر ص 180)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے کپڑوں میں غسل دیا گیا:
غسل کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں اختلاف ہوا کہ بدن مبارک سے کپڑے اتار لیں یا کپڑوں کے ساتھ غسل دیں؟ اس اختلاف کے وقت اللہ سبحانہ و تعالی نے ان پر نیند کو مسلط کیا گویا سب سوگئے اور ایک کہنے والے کی آواز سنائی دی جو معلوم نہ ہوا کہ کون تھا؟ آواز یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑوں ہی میں غسل دو، یہ سنتے ہی سب بیدار ہوگئے اور ایسا ہی کیا، کپڑوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا گیا۔
کن لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا؟
غسل کا اہتمام حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس کے دو بیٹے فضل اور قُثَم رضی اللہ عنہم نے کیا، اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو آزاد کردہ غلام شُقران اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بھی معاونت کے لئے شریک غسل تھے، اوس بن خولٰی انصاری رضی اللہ عنہ بھی اس جگہ حاضر ہوگئے، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ غسل دے رہے تھے، بعض روایت میں ہے اس کام کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہلے سے وصیت کر رکھی تھی۔. (البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 282)
انہوں نے اثناء غسل اپنا ہاتھ شکم مبارک پر پھیرا، مگر کوئی چیز فضلہ وغیرہ خارج نہ ہوئی،اس وقت انہوں نے کہا: 
"صلی اللہ علیک لقد طبت حيا وميتا" 
یعنی اللہ کا درود و رحمت کاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حیات اور موت ہر دو حالتوں میں پاکیزہ اور مطہر ہیں. (خلاصہ سیر سیدالبشر ص 180، ابوداؤد 3209)
تین سحولی کپڑوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفن دیا گیا اور سحول یمن کے قصبے کا نام ہے، یہاں کے بنے ہوئے کپڑے کو سحولی کہتے تھے، ان تین کپڑوں میں کرتہ اور عمامہ نہ تھا بلکہ تینوں چادریں تھیں. (بخاری 1264، مسلم 941)
اور یہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی روایت ہے، شوافع کا عمل اسی پر ہے کہ کفن میں قمیص مسنون نہیں ہے؛ مگر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے منقول ہے کہ تین کپڑوں میں آپ کو کفن دیا، ان میں ایک وہ قمیص تھا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض ہوئی تھی. (عن عبدالله بن عباس رضي الله عنهما «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ كُفِّنَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ، فِي قَمِيصِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، وَحُلَّةٍ نَجْرَانِيَّةٍ» والْحُلَّةُ: ثَوْبَانِ. (ابن ماجہ 1471، مسنداحمد 1967، ابوداؤد 3153)
حنفیہ اور مالکیہ کا عمل اس پر ہے کہ کفن میں قمیص بھی مسنون ہے؛ کیونکہ مردوں کی روایت اس بارے میں زیادہ مقبول ہے کیونکہ وہ متولی اور متکفل اور مشاہدہ کرنے والے تھے. (دررالحكام لملا خسرو" (1/ 162،الشرح الكبير للدردیر (1/ 417).
غرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تین چادروں میں کفنایا گیا اور ان چادروں کو سیا نہیں گیا۔ 
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ کس طرح ادا ہوئی؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ سارے لوگوں نے تنہا تنہا پڑھی، عام امتیوں کی طرح باجمات نماز نہ ہوئی، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ایک سوال کے جواب میں یہ وصیت فرما رکھی تھی کہ جب لوگ غسل کفن سے فارغ ہوجائیں تو میرا جنازہ قبر کے قریب رکھ کر ہٹ جائیں، پہلے ملائکہ نماز پڑھیں گے، پھر تم لوگ گروہ در گروہ آتے جانا اور نماز پڑھتے جانا، اوّل اہلِ بیت کے مرد نماز پڑھیں، پھر ان کی عورتیں، پھر تم لوگ۔” (مجمع الزوائد 25/9، البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 286، مستدرک حاکم للحاكم (3 / 62)
اس وصیت نبوی کے مطابق گروہ در گروہ کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ پڑھی گئی، ایک جماعت داخل ہوتی وہ نمازِ جنازہ پڑھ کر نکل جاتی، اس کے بعد دوسری جماعت آتی اور وہ جنازہ پڑھتی۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما مہاجرین وانصار کی ایک جماعت کے ساتھ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے اور جنازہ نبوی کے سامنے کھڑے ہوکر سلام کیا، اور مہاجرین وانصار نے بھی سلام کیا، پھر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازہ مبارکہ کے سامنے یہ کہا:
"اللَّهُمَّ إِنَّا نَشْهَدُ أَنَّهُ قَدْ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ، وَنَصَحَ لِأُمَّتِهِ، وجاهد في سيبل الله حتَّى أعزَّ الله دِينَهُ وَتَمَّتْ كَلِمَتُهُ، وَأُومِنَ بِهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، فَاجْعَلْنَا إِلَهَنَا مِمَّنْ يَتَّبِعُ الْقَوْلَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ، وَاجْمَعْ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ حتَّى تُعَرِّفَهُ بِنَا وَتُعَرِّفَنَا بِهِ، فَإِنَّهُ كَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رؤوفا رحيماً، لانبتغي بالإيمان به بديلاً، وَلَانَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا أَبَدًا".
”اے اللہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سب کچھ پہنچادیا جو ان پر اتارا گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی خیر خواہی کی، اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا، یہاں تک کہ اللہ نے اپنے دین کو غالب کیا، اور اس کا بول بالا ہوا، اور صرف ایک معبود وحدہ لاشریک پر ایمان لایا گیا۔ اے اللہ! ہم کو ان لوگوں میں سے بنا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ وحی کی اتباع کرتے ہیں، اور ہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمع کر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں پر بڑے مہربان تھے، ہم اپنے ایمان کا کوئی معاوضہ اور قیمت نہیں چاہتے.“
لوگوں نے آمین کہی، جب مرد نماز جنازہ سے فارغ ہوگئے تو عورتوں نے،عورتوں کے بعد بچوں نے اس طرح ادا کیا. (البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 286، مسنداحمد 20766، سنن نسائی 7181)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازے میں کیا پڑھا گیا؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازے میں خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق صرف درود وسلام پڑھا گیا، لوگ ایک دروازے سے داخل ہوئے اور درود وسلام پڑھتے ہوئے دوسرے دروازے سے باہر نکلتے گئے۔ جیسا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
عَنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا صُلِّيَ رَسُولِ اﷲِصلیٰ الله عليه وآله وسلم اُدْخِلَ الرِّجَالُ فَصَلَّوْا عَلَيْهِ بِغَيْرِ إِمَامٍ إِرْسَالًا حَتَّی فَرَغُوا ثُمَّ اُدْخِلَ النِّسَاءِ فَصَلَّيْنَ عَلَيْهِ ثُمَّ اُدْخِلَ الصِّبْيَانُ فَصَلَّوْا عَلَيْهِ ثُمَّ اُدْخِلَ الْعَبِيْدُ فَصَلَّوْا عَلَيْهِ إِرْسَالًا لَمْ يَوُمَّهُمْ عَلَی رَسُولِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم اﷲِ اَحَدٌ. (سنن بیہقی 6698، الخصائص الکبری، 2: 483)
’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا جب حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرماگئے تو مردوں کو داخل کیا تو انہوں نے بغیر امام کے اکیلے اکیلے صلاۃ و سلام پڑھا پھر عورتوں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ و سلام پڑھا پھر بچوں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے بھی حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ و سلام پڑھا۔ پھر غلاموں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ پڑھا اکیلے اکیلے کسی نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت نہ کروائی۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کہاں بنی؟
تدفین کی جگہ کے بارے بھی صحابہ واہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں اختلاف رائے تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کہاں کی جائے؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رہنائی سے یہ اضطراب بھی دور ہوا، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ نبی کی جائے وفات ہی اس کی قبر بنتی ہے. (ترمذی 1018، نسائی 7081، البدایہ والنہایہ 287/5) ۔
چنانچہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہدایت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات والی جگہ (حجرہ عائشہ صدیقہ) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بنائی گئی۔ (ترمذی 1018)
قبر مبارک میں قطیفہ سرخ جس کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم حین حیات اوڑھا کرتے تھے، بچھائی گئی. (مسلم 967) اور شقران نے اس کو قبر میں بچھایا. (ترمذی 1047)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لحد کھودی گئی اور اس پر نو عدد کچی اینٹیں لگائی گئیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں اختلاف ہوا کہ لحد کھودیں یعنی بغلی قبر یا صندوقی کھودی؟ صحابہ میں ایک شخص بغلی قبر کھودا کرتے تھے اور دوسرے صندوقی۔ سب کا اتفاق اس بات پر ہوا کہ دونوں میں سے جو پہلے آجائے، وہ اپنا کام کرے؛ چنانچہ بغلی قبر کھودنے والے پہلے آئے اور اس نے بغلی قبر کھودی. (ابن ماجہ 1557)
اور قبر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حجرے میں بنائی گئی، اور بدھ کی رات اسی میں آپ مدفون ہوئے. (مسند احمد 24333)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بعد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ بھی اسی حجرے میں دفن ہوئے۔ (خلاصة سير سيدالبشر لمحب الدين الطبري ص 182).
وَصلى الله على سيدنَا مُحَمَّد وعَلى آله وَصَحبه وَسلم
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
https://saagartimes.blogspot.com/2025/04/29-11-13-14-4450.html
( #ایس_اے_ساگر)